اسلامی سالِ نو: واقعۂ ہجرت کے عبرت آموز پہلو

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

جب انگریزی سال نو کی ابتداء ہوتی ہے تو اس موقع سے بڑا شور شرابہ او رہنگامہ ہوتا ہے، اخبارات، رسائل، ٹی وی، الغرض پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا ہر دو پر اس سالِ نو کے آمد پر بڑا ہڑبونگ اور واویلا کیا جاتا ہے، سالِ گذشتہ کے ہر ہر دن پیش آنے والے اہم واقعات کو تاریخ وار ذکر کر کے ان کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں، سالِ گذشتہ پیش آمدہ واقعات کی تصاویر کو ٹیلی ویزن واخبارات میں نشر واشاعت کے ذریعہ ان کی یاد دہانی کی جاتی ہے، اس کے بالمقابل اسلامی سالِ نو کی آمد پر اس حوالے سے مسلمانوں کے ذہن ودماغ پر جوں تک نہیں رینگتی اور انہیں اس حوالے سرے سے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ ماہِ محرم سے اسلامی سالِ نو کی ابتداء ہونے کو جارہی ہے، ماہِ محرم سے اسلامی سالِ نو کی ابتداء کیوں کر ہوئی ؟ اس کا پس منظر کیا ہے ؟ اس کے پس پردہ کیا وجوہات واسباب تھے ؟ انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا، اسے مسلمانوں کی اپنی تاریخ، اپنی شناخت وتشخص اور اپنے ایمان وعقیدہ سے عدمِ دلچسپی، غفلت ولاپرواہی، لاشعوری اور بے حسی نہ کہاجائے تو اور کیا کہیں ؟ ماہِ محرم سے اسلامی تاریخ کی ابتداء در اصل واقعۂ ہجرت کے پس منظر میں ہوئی ہے، جودر اصل اسلام کی کمزوری اور قوت وغلبہ کے دور کے درمیان حد فاصل اور خط امتیاز کی حیثیت رکھتا ہے۔

مختصر واقعۂ ہجرت:

جب نبی کریم ﷺ کو خلعتِ نبوت سے نوازا گیا، آپ نے اللہ عزوجل کے حکم سے ایمان باللہ وایمان بالرسول کی دعوت دینے شروع کی تو کفار مکہ آپ کی دشمنی اور عداوت پر تل گئے، آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے متبعین اور پیروکاروں کو ہر طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار کیا جانے لگا، آپ ﷺ کے متبعین کو اسلام اور دعوتِ اسلام کی راہ سے روکنے کے لئے ہر طرح کی روڑے اٹکائے جانے لگے ؛ لیکن یہ تمام چیزیں آپ ﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کی قوتِ ایمانی اور ان کے دعوتی کاز کے لئے سدراہ نہ بن سکے ؛ بلکہ ان چیزوں نے ان کی صلابت ِ ایمان اور قوتِ ایقان کے لئے مہمیز کا کام کیا، کوئی حیلہ اور حربہ ایسا نہ تھا جس کو آزمایانہ گیا ہو، تکالیفیں دی گئیں، راہوں میں روڑے اٹکائے گئے، مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیا گیا ؛ لیکن بادِ مخالف کے تیز وتند جھونکے ان کا بال بھی بیکا نہ کرسکے، آپ ﷺ کی قوت ایمانی کی صلابت اور اپنے کام کے تئے کامل یقین کا یہ حال تھا کہ آپ ﷺ نے آخر کار کفار مکہ کی رکاٹوں، ان کی تدبیروں کے مقابلے میں اپنے کاز سے ہر گز باز نہ آئے۔ جب کفار مکہ حضور اکرم ﷺ کو اپنی ان دھمکیوں کے ذریعے اس دعوت سے باز نہ رکھ سکے تو انہوں نے آپ کے لئے ترغیب کا انداز اختیار کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اس دعوت کے کاز سے باز آنے پر آپ کے سامنے سارے اموال، سیادت وقیات، دنیا کی ہر مرغوب ومطلوب چیز کے ڈھیر آپ کے قدموں پر نچھاور کرنے کے لئے تیار ہوگئے، لیکن حضور اکر م ﷺ نے ان کی اس پر کشش پیش کو نہایت حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی لا کر رکھ دیں تو میں اس کام سے باز آنے والا نہیں‘‘ (الوفاء بتعریف فضائل المصطفی: ۱؍۱۳۴)

کفار مکہ نے آپ ﷺ کی یہ صلابت اور پختگی یہ صورت حال دیکھی تو ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا، تکلیف سہنے والوں کے مقابل تکلیف دینے والے ہاتھ تھک ہار گئے، چنانچہ انہوں نے بزعم خویش یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس برائی کی جڑ کو جس نے ہم میں شوہر وبیوی، بھائی بھائی، باپ بیٹے کے درمیان پھوٹ ڈال رکھی ہے، نیز ہمارے معبودوں کا ٹھٹا کیا ہے، ان کی عیب جوئی اور دشنام طرازی کی ہے اور ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کیا ہے، اس کا خاتمہ ہی کردیں کہ ’’نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ‘‘ چنانچہ انہوں نے بہت زیادہ مشورہ کے بعد یہ طئے کیا کہ(نعوذ باللہ ) آپ ﷺکے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں، اس طرح دیت وخون بہا تمام قبیلوں پر تقسیم ہوجائے گا، کسی سے بھی قصاص نہ لیا جاسکے گا’’لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مرجائے ‘‘ مجموعی طور پر سواونٹ بطوردیت اور خون بہا کے دیئے جائیں ‘‘

چنانچہ کفار مکہ نے چند جنونی نوجوانوں کو آپ ﷺ کے گھر کے محاصرے پر آمادہ کیا، آپ ﷺ نے بحکم خداوندی اسی رات اپنے چچازاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹا کر ایک مٹھی مٹی لے کر باہر آئے، ان محاصرین پر اس مٹی کو چھڑک کر مدینہ کی راہ پر چلتے بنے، اس ایک مٹھی مٹی نے وہ جادو کا اثر کیا کہ ان کی آنکھیں چندھیاں کر رہ گئیں اور آپ ﷺ کے بحفاظت نکل جانے کا ان کو احساس تک نہ ہوسکا، اللہ عزوجل نے ان کی لاکھ تدبیروں کے مقابل اپنے تدبیرکو غالب اور کامیاب کردیا، آپﷺ اپنے رفیق سفر حضرت ابوبکر کو ساتھ لئے ہوئے غار ثور جاکر پناہ گزیں ہوگئے، آپ ﷺ کو یہ پتہ تھا کہ آپﷺ کے ان کے ہاتھوں نکل جانے کے بعد ان کو کسی پل چین نہ آسکے گا، چنانچہ کفار مکہ نے اندیشہ کے مطابق نہایت ماہر اور ذہین وفطین قیافہ شناسوں کو ہر طرف آپ ﷺ کی تلاش وجستجومیں ڈوڑایا ؛چنانچہ وہ ماہر قیافہ شناس غارثور کے بالکل دہانے پر پہنچ کر بھی آپ کا پتہ نہ لگاسکے، اللہ عزوجل نے اپنے غیبی خرانے سے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے رفیق غار کی حفاظت کا بندوست ایسا کیا تھا کہ وہاں تک پہنچ کر بھی انہیں الٹے پاؤں واپس ہونا پڑا، کفار مکہ کو آپ ﷺ کے ہاتھ نہ لگنے کا یقین ہوگیا تو پھر بھی انہوں نے ہار نہیں مانی، انہوں نے آخر یہ اعلان کیا کہ ’’ جو شخص ’’محمد‘ کو زندہ یا مردہ لے آئے گا اسے سوسرخ اونٹیں اسے بطور انعام دی جائیں گی، اس قیمتی انعام کا اعلان سنتے ہی سراقہ بن مالک بن جعشم نے اپنے گھوڑے کی مہمیز لگائی، اپنی تیراور تلوا ر اٹھائے ہوئے آپ ﷺ کے تعاقب میں نکل پڑا، اسے آپﷺ اور آپﷺ کے ساتھی اور رہنما نظر آئے، قریب تھا کہ وہ اس قافلے کو پالیتا، اس کے گھوڑے نے تین دفعہ ٹھوکر کھائی، ہر ٹھوکر پہلی ٹھوکر سے زیادہ سخت تھی، تیسری مرتبہ اس گھوڑے کے پیر مکمل طور پر ریت میں دھنس گئے، تب انہیں پتہ چلا کہ یہ لوگ مؤید من اللہ اور آپ ﷺ نبی برحق ہیں، اسی وقت سراقہ بن جعشم نے نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر سے معذرت کی اور کہا کہ : اگر تم مجھے یہ عہد وپیمان دو کہ اگر تم اللہ کے فضل سے کامیاب وکامراں لوٹ کر آؤ تو مجھ سے کسی قسم کاتعرض نہ کروگے تو میں کفار مکہ کو تمہاری راہ پر جانے سے روکوگا، چنانچہ آپ ﷺ نے سراقہ کو یہ پروانہ عافیت عنایت فرمایا، آخر یہ نورانی قافلہ تین دن کا سفر طئے کرتے ہوئے قباء کے راستے مدینہ پہنچ گیا۔

واقعہ ہجر ت کے سبق آموز پہلو:

اسلامی سالِ نو اور ہجرت کا یہ واقعہ ہر مرتبہ اپنی آمد کے موقع سے ہمیں اپنے ایمان وعقیدے کو مضبوط رکھنے، اپنے بنیادی اصول وضوابط کے ساتھ وابستگی، استقامت وپامردی کا درس دیتا ہے، اپنے اصول وعقائد، اپنے بنیادی نظریات کی حفاظت کے خاطر خواہ اس راہ میں ہر طرح کی قربانیاں ہی کیوں نہ دینی پڑے، کس قدر اذیتوں اور تکالیف سے دوچار نہ کیاجائے، اپنی عزیز جان، پیاری اولاد، قیمتی مال واسباب سے کیوں نہ ہاتھ دھونا پڑے، اپنے عزیز وطن، مانوس ماحول، اپنی جائیداد واسباب، مجبوب دوستوں، بچپن کے ہم جولیوں اور یہاں سے وابستہ اپنے قیمتی یادوں کو کیوں نہ ترک کرنا پڑے ؛ بلکہ اپنے ایمان وعقیدے کے ساتھ وابستگی، لگاؤ اورعقیدت کی کیفیت اس قدر گہری وگیری ہو کہ اپنے متاع ایمان کو بچانے کے لئے حقائق اشیاء کا انکار کرنے کی نوبت آئے تو انکار کردے، خواہ دن کو رات کیوں نہ کہنا پڑے، کھڑے دن میں سورج کے وجود کو کیوں نہ جھٹلان: کی نوبت آئے، جسمانی ونفسیاتی ہرطرح کی اذیتوں اور تکالیف سے کیوں نہ دوچار کیا جائے۔

فی الجملہ حضور اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کو (جو روئے زمین پر انبیاء کے بعد سب سے زیادہ لائق تعظیم اور برگزیدہ شخصیات تھیں) جن مصائب اور اذیتوں سے انہیں دوچار کیا گیا، اس طرح کی تکالیف نہ اس سے پہلے کسی نے سہی او رنہ آئندہ اس طرح کے مصائب سے کسی کو نبرد آزما ہونے کی امید ہے، لیکن ہجرت نبوی کے بعد مصائب کی ان گھٹاٹوپ اندھیروں سے خوش حالی وفارغ البالی کی وہ صبح روشن ہوئی کہ پھر یہ مسلمان طوفان وآندھی کی طرح دنیا کے افق پر چھاگئے، جنگلات، پہاڑوں، ریگزاروں اور دریاؤں اور سمندروں نے ان کی ایمان وایقان کی قوت کے سامنے اپنے راستے وا کردیئے، درندوں چرندوں نے انہیں رہ دیئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ دور وہ آیا کہ وہ آدھی دنیا کے حکمراں ٹھہرے، وقت کی سوپر پاور طاقتیں ان کے سامنے رام ہوگئیں، بتایا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ کے دور خلافت میں فی روز ساٹھ کیلو میٹر کی رفتا رسے اسلام پھیلتا تھا، یہ سب یوں کر ہوا کہ مکی میں دور انہوں نے  اپنے آپ کو مصائب کے بھٹیوں میں جھونک کر کندن بنایا، پھردنیا نے ان کے سامنے ہر طرح کے خزانے اگلے، مسلمانوں کے لئے ایک دور وہ بھی آیا کہ زکاۃ اور صدقہ دینے کے لئے کوئی غریب نہ ملتا، ایک بوڑھیا صنعاء سے حضرت موت تک اپنے قیمتی جواہرات کے ساتھ تنِ تنہا سفر کرتی، راستے میں اس سے تعرض کرنے والا کوئی نہ ہوتا، یہ سب کیوں کیوں کر ہوا، یہ ایمان اور ایقان کی طاقت تھی جس نے عرب کے بدوں کو وقت کے سوپر پاور امپائر کے رہنما ورہبر بنایا، ظلم وستم کی آندھیاں چھٹ گئی، ہر طرف امن وامان کا بول بالا ہوگیا۔

مسلمان اس وقت ساری دنیا میں جو مصائب کی بھٹیوں میں جھونکا جارہا ہے، یہ کوئی ان کے حق میں نت نئے بات نہیں ہے، لیکن یہ صبر واستقامت کا وقت ہے، ہمیں ہجرت کے اس سفر سے یہ سبق ملتا ہے، ہمیں مصائب کی ان گھڑیوں میں صبر واستقامت سے کام لینا ہے، اپنے اصول وعقائد، اپنے ایمان وایمان سے ہر گز برگشتہ نہیں ہونا ہے، یہ ظالم طاقیتں، یہ جابر قوتیں اپنی ظاہری ساز وسامان اور اپنے ہتھیار اور عصری ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیں سرنگوں کرنے کی ہرممکنہ کوشش کریں گی، لیکن ہم مسلمان اپنے عقائد واصول، اپنے ایمان وایقان سے ہر گز ٹس ومس ہونے والے نہیں، یہ ظالم طاقتیں ظلم وستم کی چکیوں میں ہمیں کیوں نہ پیس دیں، لیکن ہم ہرگز ہم کو اپنے اصول ونظریات سے ذرہ برابر پیش وپیش نہیں ہونا ہے، کامیابی اور خوشحالی اور فارغ البالی کی راہیں ظلم کی ان خادار جھاڑیوں سے ہو کر آتی ہیں، اگر ہمیں کہیں ظلم وستم کو سہنا پڑرہا ہے، ہمیں امتحانات وآزمائشوں سے گذرا جارہا ہے، ہمیں قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کیا جارہا ہے، آگ میں جلایا، گولیوں سے بھنا جارہا ہے، اپنے وطن میں بے وطن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، الٹا چور کوتوال کو ڈانتے کے مصداق اپنے سیاہ کارناموں پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمیں ’’دہشت گرد ‘‘ ’’دقیانوس‘‘ ’’قدامت پرست‘‘ کہا جارہا ہے تو کوئی حرج نہیں، حضور اکرم ﷺ کو بھی جادوگر، مجنون، شاعر وغیرہ کے الفاظ سے نوازا گیا۔ اللہ عزوجل کا یہ ارشاد گرامی ہمارے لئے ان احوال میں مشعل راہ ہے ’’ ویرید اللہ أن یحق الحق بکلماتہ ویقطع دابر الکافرین ‘‘ (الانفال : ۷) اللہ عزوجل یہ چاہتے ہیں کہ اپنے کلمات سے حق کو حق کر دکھائیں اورکافروں کی ہر تدبیر کا کاٹ کریں۔

 سال نو اور ہجرت کے اس واقعہ سے ہمیں بہت سارے سبق ملتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو بہر صورت اس اللہ عزوجل کی ذات پر جس کی ملکیت میں آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت ہے، اپنی یہ بادشاہت جس کو چاہے دیتا ہے او رجس سے چاہے چھین لیتا ہے، جس کو چاہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہے ذلیل وخوار کرتا ہے اور اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو خاتم النبین ہیں اور اس دین اسلام پر جس کو اللہ عزوجل نے ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنا پسندیدہ دین بنا کر رکھا ہے، ہمارے نبی ﷺ کی ذات ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، وہ سچا، برحق وامانت دار نبی جس کو لڑکپن ہی سے پاکیزگی وطہارت کا تمغہ امتیاز خو د اس کے جانی دشمنوں نے دیا، اسے اس راہ میں اس قسم کی تکالیف سے دوچار کیا گیا اور آپ ﷺ کے وہ اصحاب جو انبیاء کے بعد روئے زمین کی سب سے برگزیدہ، لائق تقلید شخصیات ہیں ان کو اس طرح کے انواع واقسام کی اذیتوں سے دوچار کیا گیا تو ہم مسلمانوں کی کیا حالت ہوگی جو عفت وپاکیزگی، تقوی وطہارت، قوت ایمانی اور حسن عمل میں ان کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتے۔

(1) سال نو اور واقعہ ہجرت سے سب سے پہلا سبق ہمیں یہ ملتا ہے ہم مسلمانوں ہر طرح کے مصائب کے باوصف اپنے اسلام، اپنے ایمان وعقیدے پر ثابت وقائم رہنا ہے، خواہ ہمیں اس راہ میں کس قدر مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، کامیابی وکامرانی اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے مسافرت کی تکان اور مشقوں کو انگیز کرنا ہی پڑتا ہے، یہ روئے زمین پر اللہ عزوجل کی سنت ہے جس میں کوئی تبدیلی اور تغیر واقع نہیں ہوسکتا۔

(2) ہجرت کے اس واقعہ سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ پہنچنے پر سب سے پہلا عمل مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد جو کیا ووہ مواخاۃ اور بھائی چارہ کا عمل تھا، آپ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان اسلام کی بنیاد پر اخوت قائم کی، آج بھی ہمیں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم ہر مسلمان کو اپنا اسلامی بھائی تصور کریں، انفرادی، علاقائی، ملکی وبین الاقوامی ہر سطح پر مسلمانوں کی مدد ونصرت اور ان کے مصائب میں کام آنا ایک مومن کا شیوہ اور جزو ایمان ہو۔

(3) اسی طرح حدیث کے بموجب ہجرت کا اطلاق جہاں ایک وطن چھوڑ کر دوسرے وطن کو اختیار کرنے پر ہوتا ہے جہاں سکون کے ساتھ اپنے اعمال کو انجام دیا جاسکتا ہے، اسی طرح ہجرت اسے بھی کہتے ہیں کہ ہمیں ہم اللہ عزوجل کے مامورات کو اپنا کر اس کے منہیات کو ترک کرنے والے بن جائیں، چونکہ حدیث میں یوں بھی آیا ہے کہ : مہاجر وہ ہے جو منہیات ربانی سے ہجرت (رک جائے)کرجائے۔ (شعب الایمان : حدیث :۱۱۱۲۲)لہٰذا مسلمانوں کو اس وقت سخت ضرورت اس بات ہے کہ کہ وہ شہوات سے طاعات، بخالت سے سخاوت، خیانت سے امانت، جھوٹ سے سچائی، باطل سے حق، قساوت سے رحمت، شر سے خیر، فساد سے صلاح، کمزوری سے ثبات، رذالت سے فضالت، ذلت سے عزت، اختلاف سے اتحاد، ریاء سے اخلاس، ضعف ارادی سے قوت ارادی، لوگوں کے ڈر سے اللہ کے ڈر کے جانب عود کر آئیں۔ یہی ہجرت کا سبق ہے۔

تبصرے بند ہیں۔