اپنی مظلوم بیٹی کے نام، علامہ قرضاوی کا خط

ترجمہ: محی الدین غازی

میری چہیتی بیٹی ’’عُلا‘‘

میرے جگر کا ٹکڑا، میرے دل کی زندگی، میری روح کی ٹھنڈک۔

میری پیاری بیٹی، تم پر میرا پورا دل نثار ہے، میرے دل کی ساری محبت نثار ہے، میری محبت کی ساری صداقت نثار ہے، اور میری صداقت کا سارا خلوص نثار ہے۔

میری پیاری بیٹی، سو دن سے زیادہ ہوگئے، تمہیں باغیوں اور سرکشوں کی جیلوں میں رہتے ہوئے، آہ مظلوم کے اوپر ظلم کے دن کتنے بھاری گزرتے ہیں، ایک دن ایک برس کے برابر لگتا ہے، مگر تسلی رکھو، اللہ نے چاہا تو ظلم کے یہ دن بھی ختم ہوں گے، اور تم اور تمہارے شوہر اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں کے درمیان ضرور لوٹو گے، اس طرح کہ سلامتی تم پر سایہ فگن ہوگی، اور اللہ کی رحمت کی تم پر بارش ہوگی۔

تم نے سوچا ہوگا کہ ظالموں کا دھیان تمہاری طرف نہیں جائے گا، کیوں کہ تم ہمیشہ ان سے دور رہیں، نہ ان کے ملک میں پیدا ہوئیں، نہ ان کے اسکول اور کالج میں داخلہ لیا، نہ ان کے محکمے میں نوکری کی، پھر ان سے تمہارا کیا لینا دینا؟؟

تم ایک بیوی ہو، ایک ماں اور ایک دادی ہو، ایک امن پسند عورت ہو، اپنے ملک کے سفارت خانے میں ملازم ہو، جس کی تمہارے پاس شہریت ہے، ان کا تمہاری ملازمت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، پھر تمہارا سیاست سے بھی کوئی رشتہ نہیں رہا، تمہارے شوہر کا سیاست سے ضرور تعلق رہا، مگر وہ بھی کسی ممنوعہ پارٹی سے نہیں، بلکہ وسط پارٹی سے، جو ملک کی ہر طرح سے تسلیم شدہ اور قانونی پارٹی ہے، اس کے باوجود تمہارے شوہر کو ان ظالموں نے دو سال سے زیادہ جیل میں بند رکھا، عدالت میں کیس چلایا، جب کچھ نہیں ملا تو بری قرار دے کر رہا کیا، اور اب پھر انہیں جیل میں ڈال دیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ تمہارے شوہر ہیں۔

ہر انسان اصولی طور سے قانون کی نگاہ میں بے گناہ ہوتا ہے، ہر قانون میں، ہر ملزم بھی بے گناہ ہوتا ہے، جب تک کہ منصف عدالت اسے مجرم قرار نہ دے دے، اس کے بعد بھی اسے اعلی عدالت میں اپیل کرنے کا حق ہوتا ہے، اور اعلی عدالت اس کے ساتھ ہوتی ہے، جب تک کہ اس کی بے گناہی یا جرم کا فیصلہ نہ ہوجائے، اور پھر اللہ تو ہر چیز سے باخبر ہے۔

آخر یہ ظالم تمہارے ساتھ ایسی سنگ دلی کا سلوک کیوں کررہے ہیں؟ تم کو ایک تنگ وتاریک کوٹھری میں تنہا کیوں رکھا گیا ہے؟ جہاں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کب دن ہوا اور کب رات ہوئی، بلکہ تم کو قید ہی کیوں کیا گیا؟ اور عدالتی کارروائی کے دوران تمہارے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیوں کیا گیا؟ تم کو بنیادی حقوق سے کیوں محروم رکھا گیا؟ نہ کوئی تم سے مل سکتا ہے، اور نہ تمہاری صحت اور دوا کا کوئی خیال اور انتظام ہے، تم نے تو کوئی بڑا گناہ کیا، کوئی چھوٹا گناہ بھی نہیں کیا، نہ دین کے معاملے میں اور نہ دنیا کے سلسلے میں، نہ کسی مظاہرے میں حصہ لیا اور نہ کسی مہم جوئی میں، کتنے سال سے تم اس ملک میں ہو، ضابطے اور قانون کے مطابق سفر بھی کرتی رہیں، تمہارے ریکارڈ پر کبھی کوئی حرف نہیں آیا، پھر اب ایسا کیا ہوگیا؟

لگتا ہے کہ اچانک انہیں یاد آگیا کہ تم قرضاوی کی بیٹی ہو۔

میری بیٹی، تمہارا باپ بھی کون ہے، زندگی بھر دنیا والوں کے بیچ دین کے ساتھ چلتا رہا، لوگوں کو دین سکھانے کا کام کرتا رہا، فقیہ اور مفتی، داعی اور معلم، شاعر اور مصنف، کبھی اپنی امت کے ساتھ اس نے خیانت نہیں کی، کبھی اس نے اپنی امت کے مشن کے ساتھ بے وفائی نہیں کی، جب سے لوگوں نے اسے جانا ہے، اور نوے سال سے زیادہ عمر ہوجانے تک زندگی میں ایک بار بھی اپنی امت کو کوئی دھوکہ نہیں دیا۔

تمام براعظموں کا سفر کیا، سارے اہم ملکوں کا دورہ کیا، لیکن کہیں بھی امت کے کسی مسئلے کو فراموش نہیں کیا، مسلمانوں کے تعلق سے اپنی کسی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا، اگر یہ سب کچھ انہیں اچھا نہیں لگا، اور اس لئے اچھا نہیں لگا کیوں کہ انہیں نہ تو اسلام کی فکر ہے، نہ اسلامی امت کی فکر ہے، نہ اسلامی تہذیب کی فکر ہے، تو آخر اس میں تمہارا کیا قصور ہے، تمہیں یہ کس بات کی سزا دے رہے ہیں، یا تم پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر تمہارے باپ کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں، انہوں نے تمہارے باپ پر بھی مقدمہ دائر کر رکھا ہے، الزام یہ ہے کہ وہ اسی اور پانچ یعنی پچاسی سال کی عمر میں جیلوں میں گھس گیا تھا، اور اس جیل سے قیدیوں کو نکال بھگایا تھا جس کا نام بھی اس نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ خود اس الزام کی اس کو کبھی خبر نہیں دی گئی۔

یہ ظالم اپنے دل کا کینہ اور نفرت اب ایک آزاد خاتون پر انڈیل رہے ہیں، اسے شکست دینا چاہتے ہیں، لیکن اللہ انہیں شکست دے گا، مجھے یقین ہے، میرا رب میری بیٹی کی نگہداشت کرے گا، اپنی اس آنکھ سے جو سوتی نہیں ہے، میرا رب اس کی حفاظت کرے گا اپنی اس پناہ میں جہاں کسی کی پہونچ نہیں ہے۔

میری بیٹی علا، تمہارے نام کا مطلب بلندی ہے، تو سمجھ لو کہ اللہ نے چاہا ہے کہ تمہارے نام کی برکت تمہیں حاصل ہوجائے، اس نے چاہا ہے کہ دنیا اور آخرت میں تمہارے درجات بلند کرے، ان آزمائشوں سے تمہاری نیکیوں کا ترازو بھاری کرے، تم جیل کی تنگ کوٹھری میں رہتے ہوئے اللہ کے نزدیک اونچے محل میں رہنے والے سرکش ظالم کے مقابلے میں بہت بلند ہو، اور اللہ کو اور اللہ کے بندوں کو اس کے مقابلے میں بہت زیادہ محبوب ہو، تصور کرو، دنیا کے کونے کونے میں کتنے مومن مرد اور عورتیں تمہارے لئے استغفار کررہے ہیں، تمہارے لئے اللہ سے دعا کررہے ہیں، اللہ تمہیں اور تمہارے تمام مظلوم بھائیوں اور بہنوں کو جلد رہائی عطا کرے، اور ان ظالموں کو ان کے ظلم کا مزا چکھائے، ان کی یہ دعائیں رائیگاں نہیں جائیں گی، ضرور رنگ لائیں گی، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

تمہاری اور تمہارے شوہر کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، تمہارے دلوں کو سکون ملے، تمہارے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلے، یقین رکھو کہ ان جیلوں میں ستائے جانے والے مظلوموں کی ایک دعا اتنی تاثیر رکھتی ہے کہ ظالموں کی ساری دنیا تباہ وبرباد کرڈالے، اور انہیں ناکام ونامراد کردے، تسلی رکھو کہ تمہارا رب ان کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے، اور ظالموں کو ضرور معلوم ہوجائے گا کہ انہیں کس انجام سے دوچار ہونا ہے۔

تمہارے ابو

یوسف قرضاوی

تبصرے بند ہیں۔