ترکی کی جمہوریت پسند نہتی عوام نے بغاوت کا سرکچلا! 

ڈاکٹراسلم جاوید
ترکی میں فوج کے ایک حصہ کی جانب سے اٹھنے وا لی بغاوت ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیخلاف سازش تھی، جسے ترک عوام نے اتحاد اور جذبہ حب الوطنی کے ذریعے ناکام بنا دیا۔اس جمہوریت دشمن فوجی بغاوت کو کچلنے کیلئے ترکی کے عوام اور صدر رجب طیب اردگان، وزیراعظم بن علی یلدرم اوردیگر قیادت کو جمہوریت کیخلاف سازش کو ناکام بنانے پرعالمی برادری نے مبارکباد پیش کی ہے۔ ترکی میں جمہوریت کیخلاف سازش کی ناکامی اس امر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ وہاں کے عوام اپنے صدر اور جمہوریت سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ ترک عوام نے اپنے عمل کے ذریعے عوام کی حاکمیت کے نظریے پر مہر تصدی ثبت کردی ہے۔ ترکی کے محب وطن شہری اپنے ملک کیلئے جمہوریت کو کتنااہم سمجھتے اس کا اندازہ گزشتہ سنیچر کی شب کے واقعہ میں ان کی کارکردگی سے لگا یا جا سکتا ہے۔ترکش فوج کے ایک دھڑے کی جانب سے اٹھائے گئے بغاوت کے اقدامات کوناکام بنانے کیلئے پامردی اور جرأت کیساتھ صدر رجب طیب اردگان،وزیراعظم بن علی یلدرم کی اپیل پر جس طرح گھروں سے نکل کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے جیسے سینہ سپر ہوگئے اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کے بزرگوں نے دین و ایمان اورانسانیت کی سربلندی کیلئے ماضی میں جس عزم وحوصلہ اور جوانمردی کا ثبوت دیا تھا،موجودہ ترک قوم کی رگوں میں ان کے بزرگوں کا وہی خون آج بھی گردش کررہاہے اوراسے مغربی استعمار یا ایران،شام، روس اوراس جیسی مذموم طاقتیں اپنے دام فریب میں کبھی بھی الجھا نہیں سکیں گی۔اس قوم کے متعلق شاعر مشرق علامہ اقبال نے لگ بھگ سوبرس پہلے جو بات کہی تھی اس کا ثبوت اس بغاوت کو کچل کر ترک عوام نے دنیاکے سامنے پھر لاکر رکھ دیا ہے۔
ہے عیاں قصۂ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی فوج کسی سازش یا اکساوے کے بغیر اس قسم کا انتہائی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتی۔اس گھناونی سازش کے پیچھے کون کون تخریبی طاقتیں کام کررہی ہیں اس پتہ لگا نا ترکی کیلئے ناگزیر ہوگیا ہے۔تاکہ تخریبی فکر کے حامل وحشیوں کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے آ جائے اوراس کے پھن ہمیشہ کچل دیے جائیں۔ عالمی طاقتوں نے اگراس تفتیشی عمل میں ترکی کاساتھ دیا اوراصل سازش کے کاروں کوبے نقاب کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس قسم گھناونی حرکت انجام دینے والوں کا منہ کالا ہوجائے گا اوروہ دوبارہ کسی بھی ملک کی جمہوریت پر شب خون مارنے کی حماقت نہیں کرسکیں گے۔قابل ذکر ہے کہ اب تک مسلم ملکوں میں سیاسی حکومتوں کے خاتمے کے لئے فوجی بغاوتیں تقریباً ہمیشہ ہی کامیاب ہو کر انقلاب کا نام پاتی رہی ہیں،یعنی کسی بھی اسلامی ملک میں فوجی بغاوت کیلئے ذمہ دار طاقتیں نامراد نہیں ہوپائیں۔ ان کی سازشیں کا میاب ہوئیں اورمسلم متاثرہملک کا کا تکا بوٹی ہوکر رہ گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس قسم کی بغاوت کے شکار کسی بھی مسلم ملک میں پوری عسکری صلاحیت جھونک دینے کے باوجود حکومتیں مستحکم نہیں ہوسکیں اورآج بھی وہاں دور دور تک امن وعافیت کا پتہ نہیں ہے۔مثال کے طورپر ’’عرب بہاریہ ‘‘کے نام سے موسوم تیونشیا سے شروع ہونے والی بغاوت کے بعدلبنان، مصر،لیبیااورشام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، لیکن گزشتہ شب اسلامی ملک ترکی کے دارالحکومت انقرہ اور ملک کے اقتصادی و ثقافتی مرکز استنبول کی سڑکوں پر دنیا نے ٹی وی اسکرینوں کے توسط سے یہ عجیب منظر دیکھا کہ فوج کے ایک گروپ کی جانب سے اہم مراکز پر قبضے،  حکومت کا تختہپلٹے جانے کے اعلان کے بعد صدر مملکت رجب طیب اردگان کی جانب سے بیرون ملک سے ٹی وی پر قوم سے کی گئی اپیل پر چند لمحوں میں ملک کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد جمہوریت کی حفاظت کے لئے گھروں سے باہر نکل آئے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے گولیوں کی بارش کی پروا کئے بغیر ایوان وزیر اعظم کی جانب بڑھتے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے ان حالات میں صدراردگان صبح سویرے استنبول ایئرپورٹ پہنچے تو عوام کی بڑی تعداد نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ صدراردگان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں جمہوریت کے خلاف سازش کی گئی تھی، لیکن آج کا ترکی پہلے سے مختلف ہے۔ گھروں سے نکل آنے والے لاکھوں عوام، جمہوریت پسند فوج اور پولیس نے بغاوت ناکام بنادی ہے۔اکا دکا مقامات پر باغی مزاحمت کررہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر جمہوریت کا تختہ الٹنے کی یہ کوشش ترک عوام نے صدر اردگان کی اپیل پر لبیک کہہ کر ناکام بنادی ہے۔ ترک صدر اور وزیر اعظم نے ناکام بغاوت کی اس کوشش کا محرک امریکہ میں مقیم اپنے سیاسی مخالف فتح اللہ گولن کو قرار دیا ہے،جبکہ شک کی سوئی شام، روس اورایران کے مثلث کی جانب بھی اشارہ کررہی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ترک حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے فوج کے ایک دھڑے کو بغاوت پرآمادہ کرنے میں جس شخص نے اہم کردار نبھایا ہے،وہ شیعہ ہے اور اس کا نام رٹائرڈ کرنل’’ محرم کوسے ‘‘ہے۔یہ ابتدائی معلومات ہیں، آ گے رافضی فتنہ کے کتنے بھیانک چہرے سامنے آ تے ہیں۔ دیر سویر سچ سامنے آ ہی جائے گا۔مگراس کے بعد رافضی تخریب کاروں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل سکے گی۔بہرحال ترکی کے اس تجربے میں پوری مسلم دنیا اور خود موجودہ ترک حکومت کے لئے بڑے اہم سبق مضمر ہیں۔مسلم ملکوں میں بالعموم فوجی انقلابات کے خیرمقدم کی بنیادی وجوہ میں سیاسی حکومتوں کی جانب سے غربت،  مہنگائی، بے روزگاری اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محرومی جیسے عوامی مسائل کا نظر انداز کیا جانا، میرٹ کے بجائے رشوت،  سفارش اور اقربا پروری کو فروغ دینا،  کرپشن کے مختلف حربوں سے قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ روا رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔پڑوسی ملک پاکستان میں بھی ان ہی وجوہ سے فوجی انقلابات پر عوام مٹھائیاں بانٹتے رہے ہیں۔ تاہم ترکی میں رجب طیب اردگان اور ان کے ساتھیوں نے اس کے برعکس گزشتہ بارہ برسوں میں اپنے ملک میں عوام کی بھلائی اور قومی ترقی کیلئے نتیجہ خیز کام کرکے دکھایاہے، بدترین کرپشن سے ملک کو نجات دلائی ہے، ڈوبی ہوئی معیشت کو مسلسل محنت کرکے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا، تعلیمی نظام کو قومی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ بنایا، بین الاقوامی معاملات میں جرأت مندانہ فیصلوں سے ترکی کو ایک خوددار اور خودمختار ملک کا مقام دلایا اور بحیثیت مجموعی اچھے طرز حکمرانی کے بیشتر پیمانوں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ ترکی کا تجربہ بتاتا ہے کہ عوام اچھے حکمرانوں سے محبت کرتے اور ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ میڈیا کی ترقی نے عوامی آگہی کی سطح جتنی بلند کردی ہے،  اس کے نتیجے میں آج عوام کیلئے قومی مفادات کے حوالے سے درست فیصلوں تک پہنچنا ماضی کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ اس بناء پر کسی بھی ایسے ملک میں جمہوریت کا تختہ الٹا جانا اب پہلے کی طرح آسان نہیں جہاں لوگ اپنی منتخب حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔ ترکی کا یہ تجربہ مسلم ملکوں میں عوام کی جانب سے اچھی جمہوری حکومتوں کی حفاظت کے ایک نئے اور صحت مند رجحان کے آغاز کا سبب بن سکتا ہے۔تاہم طیب اردگان اور ان کے ساتھیوں کو بھی اپنی حکومت کے خلاف بغاوت ناکام ہوجانے کے باوجود میڈیا پر پابندیوں اور عدلیہ کی آزادی پر قدغنوں وغیرہ کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کی روشنی میں اپنا جائزہ لینا چاہیے اور جہاں واقعی اصلاح کی ضرورت ہو وہاں بہتری کے لئے اقدام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ترکی کے عوام کے والہانہ جذبہ سے یہ پیغام ضرور ملتا ہے کہ وہاں کے عوام اپنی حکومت اورفرمانرواؤں کی کارکردگی سے بیحد خوش اور مطمئن ہیں۔ترکی کی جمہوری حکومت کو مستقبل میں بھی اسی جذبے کا احترام کرنا ہوگااوران کی امیدوں سے زیادہ کرکے دکھانا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔