سر زمینِ شام سلطان صلاح الدین ایوبی کی منتظر

محمد وسیم

فاتحِ بیت المقدس اور صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کی کمر توڑنے والے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کی پیدائش 1138ء میں تکریت میں ہوئی، جو اب عراق میں ہے۔ نام یوسف اور لقب صلاح الدین تها، سلطان کی زندگی عیسائیوں کے ساتھ جنگ میں گزری۔ سلطان کی زندگی کا مقصدِ اول تها کہ تیسرے حرم شریف یعنی بیت المقدس کو عیسائیوں سے آزاد کرایا جائے، وہی بیت المقدس جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیائے کرام کی امامت فرمائی اور جہاں سے آپ عرش تک تشریف لے گئے۔ جس کے لئے سلطان یورپ کے تمام بڑے بڑے فوجی جرنیلوں اور لاکهوں پر مشتمل کافروں کی فوجوں سے ٹکرا گیا اور بالآخر سلطان کو فتح نصیب ہوئی، سلطان صلاح الدین ایوبی کی وفات 1193ء میں ہوئی، وفات کے وقت سلطان کے پاس کفن دفن کے بهی پیسے نہیں تھے۔ نور الدین زنگی کی وفات کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی فوج کے سپہ سالار بنے۔

ایک پریشان شخص نور الدین زنگی کے مزار پر رو رو کر فریاد کر رہا تھا کہ اے نور الدین زنگی ! تو عدل و انصاف کی روشنی میں انصاف کیا کرتا تھا، مگر کیا سارا عدل و انصاف بهی تو اپنے ساتھ قبر میں لے گیا ہے ؟ اب میرے ساتھ انصاف کون کرے گا ؟ وہ اپنی دکھ بھری کہانی کہنے میں مصروف تها کہ ایک شخص نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں کروں گا انصاف۔ وہ شخص جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو پیچھے سلطان صلاح الدین ایوبی تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نور الدین زنگی کی بڑی عزت کرتا تھا۔ وہ اس سے بڑی عقیدت بهی رکهتا تها، ایک بار ایک بچی آئی اور اس نے صلاح الدین ایوبی سے کہا کہ یہ قلعہ مجهے چاہیے۔ سلطان نے وہ قلعہ اپنی جان پر کھیل کر فتح کیا تھا۔ سلطان نے وہ قلعہ اس بچی کو دے دیا۔ لوگوں نے اس پر احتجاج کیا۔ تو سلطان نے کہا کہ وہ میرے محسن اور میرے استاد نور الدین زنگی کی بیٹی ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھ سے میری جان بهی مانگ لیتی تو میں انکار نہ کرتا۔

آج وہی سرزمینِ شام جہاں پر مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ، مردوں اور عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ ٹرمپ۔ ولادیمیر پوتن، حسن روحانی اور بشار الاسد مل کر معصوم بچوں کی دردناک موت پر قہقہے لگا رہے ہیں ۔ وہی سرزمین آج پهر سے ادھر ادھر نظر دوڑا کر کسی سلطان صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہی ہے۔ آج تمام باطل طاقتیں اکٹھا ہو کر سلطان صلاح الدین ایوبی کی سرزمین پر ظلم کی تاریخ رقم کر رہی ہں ۔ معصوم بچے جو اپنے ماں باپ تک کو نہیں جانتے مگر کسی سلطان صلاح الدین ایوبی کے منتظر ہیں۔ تمام امیدوں کے باوجود بھی کسی سلطان کی آمد دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ وہ خلیفہ معتصم باللہ جو اپنی سلطنت سے سیکڑوں میل دور ایک مسلمان عورت کی مدد کے لئے دشمن کو سبق سکھانے کے لئے پہونچ جاتا ہے- مگر آج مسلمانوں کے پاس تمام جنگی ہتھیار ہونے کے باوجود بھی کسی مسلم عورت کی لٹتی عصمت پر دشمن کی بستیوں میں اڑان بھرنے کے لئے تیار نہیں۔

قارئینِ کرام ! آج مسلمانوں کی تعداد اکثریت میں ہے، مال و دولت کی کمی نہیں ، 57 اسلامی ممالک کے 57 وزرائے اعظم و صدور، 57 آرمی چیف و وزرائے خارجہ ہیں۔ مگر تمام طاقتیں مسلمانوں پر ہو رہے مظالم پر خاموش ہیں ، جو کہ امت مسلمہ کے لئے انتہائی افسوسناک ہے۔ وہ اسلام جو مشرق میں ہو رہے مسلمان کی ہلکی سی تکلیف کو بھی مغرب کے مسلمان کو محسوس کرنے پر زور دیتا ہو۔ اسی اسلام کے ماننے والے افراد مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے سامنے کیوں نہیں آتے ؟ ملکِ شام یہ وہی سلطان صلاح الدین ایوبی کی سرزمین ہے، جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ محشر کی سرزمین ہے، کل قیامت کے دن اسی محشر میں جب ظالموں کو ان کے انجام تک پہونچا دیا جائے گا، تو کیا مظلوم شامی مسلمانوں پر خاموش رہنے والے اسلامی ممالک کے حکمران اللہ کے سامنے جوابدہی سے بچ نکلیں گے…؟

تبصرے بند ہیں۔