سعودی حکومت کا اسلام، چڑھاؤ سے اتار کی طرف

احمد الریسونی، ترجمہ: ذوالقرنین حیدر

نصف صدی سے زائد کچھ عرصے سے سعودی حکومت اپنے بھاری قدرتی وسائل اور دولت کے سہارے اور اپنے جغرافیائی اور دینی جائے وقوع کی بدولت ایک خاص قسم کے سیاسی، ثقافتی اور دعوتی رنگ کو پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام میں پھیلانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ چنانچہ اسلام کی وہ شکل جسے کہ میں نے ’سعودی اسلام‘ سے تعبیر کیا ہے۔ دنیا بھر کے دیندار حلقوں اور اسلامی تحریکوں کاایک بڑا طبقہ  بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

کیا ہے یہ سعودی اسلام؟

بعض کے نزدیک وہ وہابی اسلام ہے۔ بلاشبہہ بنیادی طور پر اس کی جڑیں وہابی فکرمیں ملتی ہیں، لیکن سعودی اسلام وہابیت کی ایک من پسند تبدیل شدہ شکل ہے۔

بعض اس کو سلفی اسلام کے نام سے جانتے ہیں ۔ مگر یہ سلفیت کی ایک بگڑی ہوئی اور یک رُخی تصویر ہے۔

بعض کے نزدیک یہ حنبلی اسلام ہے۔مگر اس کی حنبلیت نجد کے ایکمخصوص جمود سے عبارت ہے۔

بعض اس کو جدید ظاہریت سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ صحیح بھی ہے لیکن اس کی ظاہریت تحریف شدہ ہے۔

بعض اس کی نسبت ابن تیمیہ کی طرف کرتے ہیں ۔لیکن فی الحقیقت ابن تیمیہ کی شخصیت اس کے ظلم کی سب سے زیادہ شکار ہوئی۔

اور بھی بہت سی صفات بیان کی جاتی ہیں اس کی۔ مثال کے طور پر تشدد، انتہاپسندی، بدوی فقہ، قدامت پسندی کی فقہ وغیرہ۔ درحقیقت سعودی اسلام میں ان تمام اوصاف کی کسی نہ کسی مقدار میں آمیزش پائی جاتی ہے، لیکن یہ اپنی ترکیب میں ایک مخصوص قسم کا فہم اورر دینداریبن گیا ہے۔ جس میں ریت والی سختی اور ریال والی نمی ہے، اس کی تشکیل آل سعود کے زیر ہدایت اورزیر نگرانی،گلے ملتی دو تلواروں کے سائے میں ہوئی ہے۔

چونکہ سعودی اسلام کا خمیرایک معجون مرکب ہے، اور اس کی جڑ کئی جگہ جا کر ملتی ہے، اس لیے ہم اس کے نسب کی بحث کو چھوڑتے ہوئے اس کی بنیادی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔یاد رہے کہ اس کی کچھ خصوصیات محمد بن عبدالوہاب، اور محمد بن سعود کے زمانے سے وابستہ ہیں تو کچھ خصوصیات سعودی حکومت کے تیسرے دور کی پیداوار ہیں، جو کہ ملک عبدالعزیز اور اس کے بیٹوں، پوتوں پر مشتمل ہے اورجو ہنوز جاری ہے۔

میرے پیش نظر ان چیزوں کا تذکرہ نہیں ہے جنہیں اس سعودی اسلام کی خوبیاں، فائدے اور مثبت پہلو کے طور پر ذکر کیا جاسکے، اس تحریر میں ان منفی پہلووں اور خصوصیات کا تذکرہ ہے جو سعودی اسلام میں بہت نمایاں اور اس کا غالب رنگ ہیں ۔

سختی اور درشتی: یہ بہت نمایاں پہچان ہے، افکار ہوں یا احکام، یا پھر الفاظ، یہاں تک کہ لفظ سلفی یا وہابی عام لوگوں کی نگاہوں میں سختی اور شدت کی علامتبن گیا، سعودیوں کی روزمرہ کی زندگی میں جو شخص کسی معاملے میں بہت سختی اوردرشتی کا مظاہرہ کرنے لگے اس سے کہا جاتا ہے، (لا تحنبلھا) یعنی  اس معاملے میں حنبلی سلفیوں والا شدت پسندانہطرزعمل نہ اختیار کرو۔

مسلمانوں کوکافر گمراہ اوربدعتی قرار دینے کا کلچر: قوموں، گروہوں اور مسلکوں کے ساتھ بھی، جماعتوں اور افراد اور اکابر علماء دین کے ساتھ بھی، وہ قدیم علماء ہوں یامعاصر علماء ہوں، غرضمسلمانوں کے ساتھ یہ اسی طرز کا معاملہ رکھتے ہیں، کوئی ان کی جانب سے صادر ہونے والے  بدعت اور گمراہی کے فتووں سے محفوظ نہیں ہے، بلکہ اکثر اوقات معاملہ تکفیر تک پہنچ جاتا ہے۔

تلوار اور ظلم کا سہارا: سعودی حکومت ظلم و تعذیب اور قید و قتل کے معاملے میں دنیا کی صف اول کی چند حکومتوں میں شمار کی جاتی ہے، اوراس کی ان تمام حرکتوں کو جائز اور آئینی قرار دینے اور اس کی مارکٹنگ کرنے کے لیے سعودی اسلام کے شیوخ کے یہاں پوری پوری گنجائش رہتی ہے، ان کے رضاکارانہ فتوے اس کے لیے مہیا رہتے ہیں، غور طلب بات یہ بھی ہے کہ سعودی حکومت نے جن بہت سی جنگوں میں حصہ لیا ہے وہ ساری کی ساری مسلمانوں کے خلاف لڑی گئیں ۔

مسلمانوں کے ما بین فتنوں اور اختلافات کو ہوا دینا:  سعودی اسلام کے خدمت گار شیوخ کا سب سے پسندیدہ مشغلہ حملے کرنا اور جنگیں چھیڑنا ہے،مسلمانوں کے  فقہی مسلکوں کے خلاف، مسلمانوں کے کلامی اسکولوں کے خلاف، مسلمانوں کے حلقوں کے خلاف، مسلمانوں کی دعوتی تحریکوں کے خلاف۔مسلم علماء و مفکرین کے خلاف۔ وہ غیرمعمولی مالی وسائل اور حکومتی سپورٹ کے ذریعے بہت سی مسجدوں، مدرسوں اور خاندانوں میں فقہی اور کلامی فتنے، عداوتیں اورمعرکے چھیڑنے میں کامیاب بھی رہے ہیں ۔

امت اور علماء کے لئے زہر میں بجھے تیر،حاکموں اور طاغوتوں کے لئے ریشم وحریر:  جب کہا جاتا ہے کہ سعودی اسلام کے مشایخ تشدد اور تنگی کے حامل ہیں، تو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کی ساری سختیاں اور شدت پسندیاں خاصہیں مسلم عوام کے لیے، ان کی عادتوں، ان کی عبادتوں اور ان کے معاملات کے تعلق سے۔ لیکن حکومتوں اور ریاستوں کے لیے ان کے یہاں بے حد نرمی اور بے حساب رخصتیں نکل آتی ہیں ۔ حاکم، جو بھی کہے اور جو کچھ بھی کرے، کس قدر بھی حدوں کو تجاوز کرجائے، اس کے لیے اس کی طلب سے زیادہ تاویلیں اور عذر تلاش  کردیے جاتے ہیں ۔وہ ایک طرف مسلم عوام اور ان کے علماء کے لیے خوارج کی طرح بے نیام تلوار اور بے رحم دشمن بنے رہتے ہیں، وہیں دوسری طرف اپنے طاغوتی حکمرانوں کے لیے پستی میں گر کر وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں، (مداخلہ نامی طائفہ اس معاملے میں حاکم پرستی کی علامت بن گیا) ۔

تنزلی اور اس کے مظاہر و اسباب:

سعودی اسلام جو گزشتہ نصف صدی میں خوب پھلا پھولا، چند سالوں سے اضمحلال کا شکار ہونے لگا،بلکہ حالیہ دنوں میں تو زیادہ تیزی کے ساتھ تنزلی اور گم نامی سے دوچار ہے۔ اسے ہر طرف واضح طور سے دیکھا جاسکتا ہے، تاہم اس کے چند مظاہر کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

عام سعودی شہریوں، خصوصا نوجوانوں کے درمیان اس سے نفرت اور بیزاری: استشدد پسندی اور طعندرازی والی فکر سے جو دوسری طرف مستقل ظلم اور فساد کی حمایت کر رہی تھی، لوگوں میں نفرت پیدا ہونے لگی ہے اور اچھا خاصا پڑھا لکھا ترقی یافتہ طبقہ اسسعودی زدہ وہابی ماڈل سے باہر اپنے لیے متوازن اور درست دین اور فکر کی تلاش میں مصروف ہے۔ سعودی عرب میں رہنے والے یا سعودی باشندوں کے ساتھ رہنے والے اس رجحان کو بہت صاف دیکھ رہے ہیں ۔ چنانچہ آج بہت تیزی سے سعودی عرب میں وہ فقہی، صوفی اور فکری مکتب فکر اور افکار جوپہلے ختم کردیے گئے تھے اور ممنوع قرار دیے گئے تھے اب جلا پانے لگے ہیں ۔

میڈیا اور عینی شواہد کی گواہی :  حالیہ دنوں میں سعودی ثقافتی اداروں کی طرف سے بے حساب کتابوں کو ضائع کر دیا گیا یا آگ کے حوالے کردیا گیا جو برسوں سے سعودی حکومت کی زیرنگرانی شائع اور تقسیم کی جا رہی تھیں، جیسے ابن تیمیہ کی کتابیں، موسوعۃ الدرر السنیۃ وغیرہ، اور آج سعودی فرماں روائوں کو اس میں اپنے لیے خوف اور خطرہ نظر آنے لگا ہے۔

حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ کاروسی چینل 24 پر نشر کردہ یہ اعلان کہ انہوں نے ہزاروں ائمہ و خطباء کو ان کی شدت پسندی کے سبب معزول کر دیا اور حکومت جلد ہی اپنے تعلیمی نظام میں بہت بنیادی اور بڑی تبدیلی لانے والی ہے تاکہ انتہاپسندی سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔ ان بیانات کو جس زاویے سے بھی دیکھا جائے بہرحال یہ تمام چیزیں سعودی اسلام کی ناکامی اور نااہلی کی بہت ہی واضح مثالیں ہیں ۔

رہے اس تنزل اور اضمحلال کے اسباب تو وہ اس طرح ہیں :

عرب بہاریہ کے تعلق سے سعودی موقف؛ عرب بہاریہ کی  اس نے کھل کر اول روز سے مخالفت کی، چنانچہ اس نے آخری لمحے تک بن علی کی حمایت کی، اور اس کی شکست اور فرار کے وقت اس کو اپنے یہاں پناہ دی، حسنی مبارک کی مدد میں اس نے جنونی حد تک سرگرمیاں دکھائیں ۔ اس کی شکست سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی، چنانچہ وہ اماراتی حکومت کے ساتھ مل کر محمد مرسی کا تختہ پلٹنے کے کھیل میں بڑھ چڑھ کر شریک رہا،اور پھر اسی نے کامیاب ہوتی یمن کی عوامی کوششوں کو بھی ناکام بنایا۔

تحریکات اسلامی کے خلاف عداوت و دشمنی اور ان کو جڑ سے ختم کر دینے کی ناپاک کوشش؛ جس کو یہ لوگ سیاسی اسلام کا نام دیتے ہیں، اور اس میں بھی وہ اماراتی حکومت کے شانہ بشانہ چلتے ہیں ۔ اسلام پسندوں کے خلاف دشمنی میں اس حد  تک آگے نکل گئے ہیں کہ شخصیات، تحریکات او ر علمی، فکری اور رفاہی اداروں کی ایک بڑی تعداد کو علی الاعلان یا خاموشی کے ساتھ دہشت گرد قرار دے دیا ہے، حالانکہ ان میں سے کئی ایک تو ان کے دوست ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ میں اور کئی ایک، کویت قطر اور ترکی میں موجود ہیں، سرکاری طور سے تسلیم شدہ ہیں، اور سرگرم ہیں ۔

سعودی عرب کی دینی اور فکری تنظیموں اور اداروں کی متضاداور متعارض سرگرمیوں اورپالیسیوں نیز حکومت کے ہر موقف  کی اندھی اورغیر مشروط تائید سے ان کی علمی حیثیت اور اخلاقی مقام  عوام کی نگاہ میں بالکل گر گیا۔ اس کی سب سے تازہ مثال خواتین کی ڈرائیونگ کے حلال اور حرام ہونے کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح امام حرم عبدالرحمن سدیس کا بدبودار بیان، جس میں انہوں نے کہا کہ سعودیہ اور امریکہ دنیا میں امن وسلامتی کے پیامبر اور قائد ہیں ۔ اس کا دندان شکن جواب ہندوستان کے عالم دین سید سلمان ندوی نے دیا ہے جس کا عنوان انہوں نے رکھا ہیـ ’ سدیس کی گندی قصیدہ خوانی کے بارے میں ہمارا دوٹوک موقف‘۔

ظلم و جبرکی بڑھتی ہوئی مار، جو کسی خاص فکر اور رائے والوں پر نہیں، بلکہ اندھا دھنداور اکثر بلا کسی وجہ اور سبب کے ہوتی ہے۔ چنانچہ بہت سے وہ لوگ جو حکومت اور اس کی پالیسیوں کے حامی اور اس کے مخلص مانے جاتے تھے وہ بھی آج سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ یہاں تک کہ استاذ جمال خاشقجی کو بھی کہنا پڑا کہ اب سعودی عرب میں کوئی محفوظ نہیں ہے۔ حالانکہ وہ زمانے سے آل سعود کی حمایت اور وکالت میں بہت پیش پیش رہا کرتے تھے۔ اب وہ کسی طرح وہاں سے جان بچا کے نکل آئے ہیں، محض اس وجہ سے کہ اب وہاں جیل میں بند کردینیکے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ کب کس کے نام کا وارنٹ آجائے کسی کو پتہ نہیں رہتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔