عالم اسلام کو فلسطین پر اپنی پالیسی بدلنی ہو گی

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
6 ستمبر 2016 کودہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں فلسطین کانفرنس کا انعقاد ہوا یہ کانفرنس معروف انگریزی پندرہ روزہ ملی گزٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ عربی کی جانب سے منعقد کی گئی تھی بحیثیت مقرر راقم الحروف کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیاگیاتھا۔ کانفرنس میں فلسطین کے موضوعات سے متعلق مضمون نگاری کے ایک مقابلے کے انعام یافتگان کو بھی سرفراز کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس موضو ع سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات بھی کانفرنس میں موجود تھیں نیز فلسطین کے معاملے ایک ماہر سیاست داں سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایّر صاحب بھی بحیثیت مہمان خصوصی تشریف فرما تھے۔ احقرنے اپنی مختصر سی تقریر میں اس بات پر ضرور دیا کہ فلسطین کا اصل معاملہ محض ایک خطہ زمین پر فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی جنگ نہیں بلکہ ایک سراسر مذہبی معاملہ ہے قیام اسرائیل کے نام پر یہودیت نے اسلام کے خلاف ایک مورچہ کھولا ہے اور اسلام کے خلاف ایک انتقامی جذبے کے تحت اسرائیلی عظمی کی سرحدیں مدینہ تک وسیع ہوئی ہیں۔ یہ جنگ گذشتہ سو سال سے جاری ہے اور محض عالم اسلام کو منتشر رکھنے کے خاطر کبھی بھی اس کو اسلامیت اور یہودیت کی جنگ نہیں سمجھا گیا کیونکہ اس نام پر عالم اسلام کے متحد ہو جانے کا خطرہ ہے۔ بلکہ فلسطین کا ایک مقامی معاملہ سمجھا گیا۔ میں یہ بات محض اس بنیاد پر کہتا ہوں کہ 1896میں تھیوڈر ہرزل نے اپنی کتاب ’’یہودی ریاست‘‘ میں سب سے پہلے یہ تصور پیش کیا تھا کہ اس روئے عرض پر ایک یہودی مملکت کا قیام ضروری ہے۔ اور اسی نظریے کے بنیاد پر اس تحریک کا آغاز ہو ا تھا یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوراً بعد یہ عام اعلان کیا گیا کہ دنیا بھر کے یہودی ہجرت کرکے اسرائیل میں آباد ہوں۔ اس سے قبل برطانیہ کے زیر تسلط فلسطین کا ایک حصہ جب اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے تجویز کیا گیا تو خلافت عثمانیہ کے امیر جسے ترکی کا مرد بیمار کہا جاتا تھانے یہ کہہ کر فلسطین کی ایک انچ زمین دینے سے بھی انکار کردیاتھا کہ فلسطینیوں کی زمین ان کی لاش پر ہی دی جاسکے گی۔ چنانچہ چند سال بعد ہی ترکی کے خلافت کا خاتمہ ہو گیا اورپہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی وزیر اعظم نے اسرائیل کے حق کو ایک یہودی ریاست کے حیثیت سے بیلفورڈ ڈکلیریشن کے تحت قبول کرلیا بعد ازاں 14جون 1948کو قیام اسرائیل کی قرار داد میں بھی اس عامرکا واضح ذکر موجود ہے کہ فلسطین یہودیوں کی پرانی مملکت رہی ہے اورایک یہودی ریاست کے قیام کے لئےیہی خطہ تاریخی، مذہبی اورثقافتی بنیادو ں پر موزوں تریں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اسرائیل کو یہودی ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے یکے بعد دیگر ے کئی امریکی صدور نے بھی متعدد بار اسرائیل کا ذکر ایک یہودی ریاست کے نام سے کیا ہے۔ ان تمام شواہد کے باوجود دنیا نے کبھی بھی اسرائیل کو ایک مذہبی ریاست نہیں مانا۔ اس کے برعکس اس خطے پر ان کے قومی حق خودارادیت کو تسلیم کیا ہے اور اسی بنیاد پر جہاں دنیابھر کے یہودی سمٹ سمٹ کر اسرائیل میں سکونت اختیار کرتے رہے ہیں۔ وہیں فلسطین کی 90فیصد آبادی مجبوراً ہجرت کرکے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کیمپوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جبکہ یہودیوں کے لیے انہیں فلسطینیوں سے چھینی گئی زمین پر روزانہ جدید طر ز کی نئی آبادیا ں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ دنیا جب فلسطین کے مسئلے پر بات کرتی ہے تو غاصب یہودیوں کے حق کو برابر کا تسلیم کر لیتی ہے۔ نیز دنیا بھر کے انصاف پسند جمہوریت پسند اورامن پسند رہنما اس مسئلے کا حل اس مفروضے میں تلاش کرتے ہیں کہ فلسطینی اور یہودی دونوں ایک ہی ملک میں ایک مخصوص نظام حکومت کے تحت امن پسند زندگی گزاریں حیرت کی بات یہ ہے کہ امن وانصاف پسندوں کا یہ فارمولہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح زمین کے کسی خالی پلاٹ پر کوئی مافیا آکر قبضہ کرلے اور جب اصل مالک فیصلے کے لیے تھانے میں یا عدالت میں جائے تو عدالت دونوں کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے پلاٹ کو آدھا آدھا تقسیم کردے ا ور کہے کہ انصاف ہوگیا۔ بین الاقوامی ادارے بالکل انہی غیر منصفانہ طریقوں سے اسرائیل اور فلسطین کے حق کو تسلیم کرلیتے ہیں جب کہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسرائیل نے آج تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے کی کسی قرار داد کا احترام نہ کرتے ہوئے بجبر و تشدد فلسطینیوں کو ملک بد رکیا ہے اورجو وہاں باقی بچے ہیں وہ بھی دو الگ الگ خطوں میں تقسیم کر دیئے گئے ہیں جس میں سے ایک خطہ غزہ کہلاتاہےجو محض26کلو میٹر لمبا اور 6کلومیٹر چوڑاخطہ ہے جس میں تقریباً 15لاکھ فلسطینی مقیم ہے اس خطے پر ایک جمہوری انتخاب کے ذریعے حماس کی حکومت قائم ہوئی تھی مگر ایک جابرانہ قرارداد کے ذریعے اس جمہوری انتخاب کو کالعدم قرار دے کر حماس کو دہشت گر د تنظیم قرار دیا گیا۔ تب سے ہی اسرائیل نے اس خطے کا سخت محاصرہ کرلیا اور کسی بھی قسم کے سامان رسد وہاں جانے سے روک دیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کی 15لاکھ آبادی گذشتہ 9سال سے ایک کھلی جیل میں قید ہے جہاں نہ غذا ہے نہ دوا ہے نہ بجلی نہ پانی نہ کاروبار اوپر سے اسرائیل کی جانب سے بار بار گولہ باری اور تھوپی جانے والی جنگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے دنیا بھر کی انصاف اور جمہوری حکومتیں اور ادارے اس کھلی دہشتگردی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ساری دنیا میں آج تک کسی کی ایک جرأت نہ ہوسکی کہ ان 15لاکھ محصور فلسطینیوں کو آزاد کراسکے۔ فلسطین کا دوسرا حصہ مغربی کنارے کے نام سے مشہور ہے اس خطے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن یہاں بھی محض22فیصد حصے پر ہی فلسطینیوں اتھارٹی کی حکومت ہے بقیہ تمام حصے پر کسی نہ کسی صورت میں اسرائیلیوں کا ہی تسلط ہے۔ ایسے میں جمہوریت انصاف اور قانون کی عمل داری کرنے والے لوگ جب اسرائیل کے حق کو تسلیم کرتے ہیں تو امن وانصاف کے تمام ادارے مشکوک ہو جاتے ہیں مذکورہ اجلا س میں منی شنکر ایّر صاحب نے بھی یہی فرمایا کہ اسرائیلی اور فلسطینی بقایے باہم کے بنیاد پر اسرائیل میں رہیں اور اسرائیل فلسطینیوں کے حق کو بھی تسلیم کرے۔ یعنی یہ عجب و غریب بات ہے کہ جس کا کوئی حق نہیں ہے اس کا ایک حصہ بھی کسی نہ کسی صور ت تسلیم کرلیا جائے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ جب دنیا بھر کے لوگ مسلمانوں کو بقائے باہم کے اصول پر جینے کا مشورہ دیتے ہیں آخر اتنی جلدی دنیا کیسے بھول سکتی ہے کہ 1300سو سال اسلام نے اپنی حکمرا نی کے دوران ساری دنیا کو اسی اصول کے تحت جینے کا عملی درس دیا ہے۔ خود فلسطین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ 1200سوسال سے زائد عرصے تک فلسطین پر مسلمانو ں کی حکومت رہی ہے، اوراس حکمرانی کے دوران یہودی عیسائی او رمسلمان اسی فلسطین میں امن و آشتی کے ساتھ زندگی گذارتے رہے ہیں یہودی آزادانہ اپنے معبدوں میں عبادتیں انجام دیتے رہے عیسائی امن کے ساتھ اپنے چرچوں میں عبادت گذار رہے اور مسلمان مسجد اقصیٰ میں نمازیں ادا کرتے رہیں اتنے طویل عرصے میں کبھی کسی مذہب کو ماننے والے کو ایک دوسرے پر سبقت دینے کی کوشش نہیں کی گئی اور سب کی عبادت گاہیں بھی محفوظ رہی اور حق عبادت بھی تسلیم کیا جاتا رہا خود ہندوستان اس کی بہت بڑی مثال ہے کہ جہاں 700سال سے زائد عرصے تک مسلمانوں کی حکمرانی رہی اور اس پورے عرصے میں ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، بودھ اور جین غرض ہر طبقہ مکمل امن وآشتی کے ساتھ اپنے عقائد پر عمل پیرا رہا۔ فرقہ وارانہ فساد کی کوئی قابل ذکر تاریخ اس عرصے میں نہیں ملتی۔ جب کہ اس برعکس محض صرف70سال کے عرصے میں یہودیوں نے اسرائیل کے نام پر مسلمانو ں کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے اپنے ہی ملک سے بے دخل کر دیا مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے پر سینکڑوں شرائط عائد کردی اور ہر جمعہ کو کچھ نہ کچھ فلسطینی مسلمان بیت المقدس میں شہید کر دیئے جاتے ہیں روزانہ کچھ نہ کچھ فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہو کسی نہ کسی کیمپ کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اور ساری دنیا کھلی آنکھوں سے یہ ظلم دیکھتے ہوئے بھی بس قرار دادیں پاس کرنے پر اکتفا کرتی ہے یہی حال خود وطن عزیز کا بھی ہے کہ محض 70سال کے عرصے میں 46ہزار فرقہ وارانہ فساد مسلمانو ں کے خلاف برپا کئے گئے بابری مسجد شہید کر دی گئی مسلمانوں کی معیشت اور تعلیم کو مرحلہ وار طریقے سے برباد کیاگیا اور حکومت میں ان کی حصہ داری کو عملاً بے دخل کر دیاگیا اس تقابلی جائزے کے بعد بھی جب کوئی رہنما مسلمانوں کو بقائے باہم کے اصول کے تحت زندگی گذارنے کا مشورہ دیتاہے تو ان کے علم، تاریخ سے واقفیت اور ان کی ایمانداری پر شک ہونے لگتا ہے۔
فلسطین کے معاملے میں ساری دنیا کا رویہ ہمیشہ ہی جانب دارانہ رہا ہے ایک لمبے عرصے تک روس کی کمیونسٹ حکومت یاسر عرفات صاحب کی سرپرستی کرتی رہی اوران کی زبان سے یہ کہلواتی رہی کہ فلسطین بیت المقدس کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ارض فلسطین کا مسئلہ ہے جب کہ یہ وہی روس ہے جس نے 14جون 1948کو قیام اسرائیل کے تیسرے ہی دن بحیثیت مملکت اسے تسلیم کر لیا تھا محض امریکی او ربرطانوی عمل دخل کو کم کرکے وہاں کےوسائل میں اور سیاسی معاملات میں ایک فریق کی حیثیت سے خود کو فلسطین میں رکھنے کی خاطر روس یاسر عرفات صاحب کی حمایت کرتا رہا اور بد لے میں مغرب اور مشرق (امریکہ اور روس) یہ دونوں طاقتیں مسئلے کو ایک مقامی مسئلہ بتاکر دنیا کے سامنے پیش کرتی رہیں۔ خود عالم عرب نے بھی اس معاملے کو محض فلسطینیوں کا قومی معاملہ ہی سمجھا اور اس نقطے پر کبھی غور نہیں کیا کہ قیام اسرائیل کی بنیاد یہودیت پر منحصرہے اور یہود ونصاریٰ نے مسلمانوں کے خلاف خیمہ بندی کی ہے۔ جبکہ قرآن نے ان دو نوں کو اسلام کا کھلا دشمن قرار دیا ہے ایسے میں عالم اسلام اور خود عالم عرب کا یہودونصاریٰ کی ان ریشہ دوانیوں کے جال میں پھنس جاناایک حیرت انگیز امر محسوس ہوتاہے۔ یہی وہ ایک بڑا سبب ہے جس کی وجہ سے فلسطین بتدریج سکڑتا چلا گیا اوراسرائیل بڑھتا چلا گیا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کے نقشے پر اسرائیل کی نام کی ایک مملکت تو واضح دکھائی دیتی ہے لیکن فلسطین بہت ڈھونڈ نے پر دکھائی دیتاہے۔ قیام اسرائیل کے دن سے لیکر آج تک اسرائیلیوں کے مظالم روز افزوں رہیں اور فلسطینیوں کی مظلومیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ان کی زمین ہی نہیں عرصہ حیات بھی تنگ کردیا گیا ساری دنیا میں فلسطین کی حمایت میں بڑے بڑے احتجاجی جلسے او رجلوس ہو تے ہیں ہر سال سینکڑوں کانفر نسیں اور سمینار مباحثے دنیا کے ہر ملک میں منعقد کئے جاتے ہیں بڑے بڑے جلوس اور کارواں نکالے جاتے ہیں جن کا میں خود بھی حصہ رہا ہوں قراردادیں پاس کی جاتی ہیں اسرائیل کی مذمت کی جاتی ہے اسے غاصب بھی کہا جاتاہے دنیا کے بڑے بڑے مجمع مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی سفارت خانے بھی موجود ہے فلسطین اتھارٹی حکومت کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے (حالانکہ غزہ میں حماس کی جمہوری حکومت کو دنیا کا کوئی بھی ملک تسلیم نہیں کرتا اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتاہے)لیکن اس سب کے باوجود نہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے میں آتا ہے نہ فلسطیینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا جاتا ہے نہ انہیں اپنی زمین پر واپس جانے کے انتظام کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے غیر جانب دار حقیقی انصاف پسند لوگوں کو فلسطین کے سوال پر از سر نو غور کرنا چاہیے۔ اور اب تو پورا مغربی ایشیا ء بارود کی بھٹی میں جھونک دیا گیا جس کی نتیجہ میں فلسطین پر ہونے والی بحثیں بھی کم سے کم تر ہو تی چلی جارہی ہے خو دہمارا ملک جو کبھی فسلطینیوں کا دوسرا گھر مانا جاتاہے اب کھلم کھلا اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف ہے۔ ایسے میں اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ قیام اسرائیل کا مقصد نہ صرف ایک یہودی ملک کا قیام تھا بلکہ یہودیت کے ذریعے تمام اسلام دشمن طاقتوں، قوموں اور اداروں کو متحد کرکے اسلام کے خلاف ایک متحدہ جنگ بپا کرنے کی طویل مدتی سازش تھی۔ جس کے نتائج اب سامنے آچکے ہیں۔ ایسے میں عالم اسلام نے اگر اپنی پالیسی میں تبدیلی کرکے اسرائیل کے خلاف متحد ہو کر فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے کی مشترکہ جدوجہد نہ کی تو اسرائیل عظمیٰ کا قیام جلد ہی ایک حقیقت بن جائے گا اور خادمین حرمین شریفین انگشت بدنداں دیکھتے رہ جائیں گے شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار خطبہ حج میں امام حرم نے بھی تحفظ حرمین کی مخصوص دعا فرمائی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔