عصر حاضر میں مساجد کا مطلوبہ کردار (آخری قسط)

محمد آصف ا قبال

واقعہ یہ ہے کہ آج امریکہ و برطانیہ اور یورپ میں مساجد جدید سنٹر کی شکل اختیار کررہی ہیں۔ مسجد میں معاشرتی زندگی کی وہ تمام ضروریات اور تقاضے پورے کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے جن کی فرد اور معاشرہ کو ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عمر خالد، آغا خان پروگرام سے وابستہ اسلامی فن تعمیر میں شامل Massachusetts Institute of Technology, Cambridgeکے ایک سینئر ریسرچ اسکالربتاتے ہیں کہ امریکہ میں آج تین طرح کی فن تعمیر میں مساجد نمایاں ہیں۔ ایک وہ جو روایتی ڈیزائن سے مزین مساجد ہیں، دوسرے وہ جو ان امریکن ڈیزائن اور روایتی ڈیزائن سے کا مرکب ہیں، تیسرے وہ ہیں جو مکمل طور پر جدید ہیں۔ مثلاً Plainfield، Indianaمیں اسلامی سوسائٹی شمالی امریکہ کا ہیڈ کوارٹر۔ لیکن ان تینوں ہی طرح کی مساجد میں کلاسس روم کا اہتمام کیا جاتا ہے، وہاں لائبری ہوتی ہے، کانفرنس سینٹرس ہوتے ہیں، کتابوں کی دکانیں، کچنس اور سماجی ہال ہوتے ہیں، یہاں تک کہ رہائشی اپارٹمنٹ کے طور پر بھی ان مساجد کے مخصوص حصوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی مسجد کی تعمیر میں ایک اور اہم بات کا خیال رکھا جاتا ہے اوروہ ہے خواتین کی عبادت کرنے کی جگہ کا ہونا۔

امریکہ میں عام طور پر خواتین مسجد کی سرگرمیوں کا لازمی حصہ ہوتی ہیں ساتھ ہی مسلم معاشرہ کی تعمیر و ترقی اور اصلاح سے متعلق سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ لہذا آج مساجد ملت کی تعمیر و ترقی اور ارتقاء کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ڈاکٹر خالد ہی نہیں بلکہ وہ تمام افراد جو امریکہ کے ان اسلامک سینٹرس کا مشاہدہ کرچکے ہیں وہ اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ مشرقی و مغربی ممالک میں مساجد کے ساتھ مختلف قسم کی اصلاحی و تعمیری سرگرمیاں ملحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں اور خصوصاً غیر مسلموں کے سامنے مسجد ایک مکمل اسلامی سینٹر کے طور پر ابھر کے سامنے آتی ہے۔ جہاں غیر مسلموں او رمسلمانوں کے شبہات اور سوالات کا شافی جواب دینے کاانتظام کیا جاتا ہے، ابتدائی تعلیم کی سہولت فراہم کی جاتی ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے لیے باوقارتفریح کے مواقع موجود ہوتے ہیں نیز اضافی مراعات کا انتظام ہوتا ہے۔ جیسے:شام کے وقت کا اصلاحی اسکول۔ یہ اسکول نئی نسل کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ یہاں شناخت سے لے کر ثقافت اور تہذیب اور مذہبی روایات کو زندہ رکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہیں ضعیف لوگوں کے لیے اُن کا مرکز۔ جہاں ضعیف اورپرسان حال لوگوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ مسجد میں مکتبہ اور دارالمطالعہ کا نظم بھی ہوتا ہے۔ جس میں ہر طرح کا لٹریچر مہیا کیا جاتا ہے۔ پڑھنے والوں کے لیے مختلف زبانوں میں کتابیں، رسائل اور اخبارات فراہم کیے جاتے ہیں۔ انہیں مساجد میں دیگر بڑے اور چھوٹے پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ جس میں مسلمان مرد، عورتیں، بچے، سب مل جل کر استفادہ کرتے ہیں۔

    امریکہ و یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی جن مساجد اوراسلامی سینٹرس کی تصویر کی روشنی میں، کیا یہ سوال ہم خود ہی سے نہیں کرنا چاہیں گے کہ آخر ہم جبکہ ان مسائل سے دوچار نہیں ہیں جن سے یہ ترقی یافتہ ممالک دوچار ہیں، یعنی اخلاقی پستی کا طوفان جس میں نہ صرف فرد بلکہ خاندان اورمعاشرہ بھی اپنے آپ کو ان غلاظتوں سے محفوظ رکھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں جوچہار جانب پھیلی ہوئی ہیں اور جس میں اُس سوسائٹی کا تقریباً ہر فرد مبتلا ہے۔ اس کے باوجود اِن ممالک کے مسلمان آج اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ڈھالنے، اپنی شناخت برقراررکھنے اور اپنے تشخص کی بقا کے لیے کیسے سرگرم عمل ہیں۔ اس کے برعکس ہم ہندوستانی و برصغیر کے مسلمان، ان مسائل سے بہت حد تک محفوظ ہیں۔ لیکن ہمارے درمیان ایسی مساجد شاذونادرہی ہوں گی جو "اسلامی سینٹرس "کا کردار ادا کرتی ہوں یا ان جیسی سرگرمیاں انجام دیتی ہوں۔ توآخر کار ہمارے یہاں یہ صورتحال کیوں ہے؟اور وہ کون سے اسباب ہیں جن کے سبب ہم نے مسجد کو صرف نماز کی ادائیگی کا مرکز تو بنایا لیکن مطلوبہ کردار ادا کرنے کے تعلق سے ہم فکر مند نظر نہیں آتے اور دقتیں محسوس کرتے ہیں ؟اگر آپ وطن عزیز کی مساجد پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ہماری مساجد عموماً مسلکی اختلافات کی نمایاں پہچان ہیں۔ بے شمار مساجد کے باہر جلی حرفوں میں غیر متعلقہ مسلک سے وابستہ مسلمانوں کے لیے ہدایات لکھی ہوتی ہیں، بعض مساجد میں نماز کے علاوہ دیگر کسی قسم کی سرگرمی انجام دینے کی ممانعت ہوتی ہے، یہاں تک کہ درس قرآن کے پروگرام نہیں کرسکتے، تو بعض میں نماز پڑھنے تک کی اجازت نہیں ہوتی۔

بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہی مساجد اور ان کے متولین و آئمہ کرام مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کرنے اور منتشر کرنے کاسوچا سمجھا اور منصوبہ بند پروگرام چلا رہے ہیں۔ امت کے لیے یہ صورتحال بدترین ہے۔ اس پر ان تمام لوگوں کو ذرا ٹھہر کے غور کرنا چاہیے جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل حل ہوں، انہیں دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے، ان کی مثال اُس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہو جائے جسے قرآن حکیم میں بنیان مرصوص کی اصطلاح میں بیان کیا ہے۔ سوچیئے اور غور فرمایئے کیا اس واقعہ کی روشنی میں ہماری صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے؟اور جن خواہشات کو پالے ہر دن ہم نئی صبح کے سورج کے منتظر نظر آتے ہیں، کیا وہ خواہشات اس حقیقی صورتحال کی موجودگی میں پوری ہو سکتی ہیں ؟

مختصر جواب اگر کچھ ہو سکتا ہے تو یہی کہ ہم نے مساجد کو مسالک اور مدارس کی شناخت سے وابستہ کر دیا ہے۔ اس شناخت سے ہمیں باہر نکلنا ہوگا۔ مدارس اسلام کی تعلیم دینے والے بنیادی ادارے ہیں۔ اور مسالک دین و شرعیت پر مکمل عمل کرنے میں مددفراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ادارہ مقاصد کے حصول میں مسائل کھڑے نہیں کرتا، مسائل کھڑے کرتے ہیں تو وہ ہم، آپ اور وہ علماء کرام و اکابرین امت ہیں جو خود کو اِن مدارس و مسالک سے وابستہ کرنے کے بعد، سمجھتے ہیں کہ ہمارا مسلک ہی اصل اسلام ہے۔ ممکن ہے علماء کرام اور اکابرین اس فکر سے نکلنے میں کچھ وقت لگائیں لیکن ہم آپ سے یہی گزار ش کریں گے کہ خدا کے واسطے آپ اس فتنے میں نہ مبتلا ہوئیے۔ اگرآپ اس فتنے سے نکل جائیں گے تو لازماً یہ علماء و اکابرین بھی مجبور ہوجائیں گے۔ اور اُسی صورت میں مساجد اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ساتھ ہی دنیا کے دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی ان مساجد سے بھر پور استفادہ کرپا ئیں گے، انشاء اللہ۔

 آپ جانتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں مساجد کا کردار نمایاں اور واضح ہونے کے باوجود آج معاشرے میں انارکی او رافراتفری موجود ہے۔ ہر طرح کے جرائم چاہے وہ معاشی ہوں، معاشرتی، اخلاقی یا جنسی، عام ہورہے ہیں۔ اسلام کے خلاف فضا ہموارکی جارہی ہے، غلط فہمیاں بڑے پیمانہ پر پھیلائی جا رہی ہیں، اسلامی تعلیمات کو غلط طریقہ سے پیش کیا جا رہا ہے، سماج کو منتشر کیا جا رہا ہے، نفرتیں عام ہو رہی ہیں اور منظم طور پر مختلف قووتیں اِن سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں، جن کے ہم اور آپ شکار ہیں۔ انسانیت کا خون کھلے عام بہایا جا رہا ہے۔ شدت پسندی اور عدم برداشت کی فضا پروان چڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود کہ ہمارے ہر محلہ، گلی اور کوچے میں مساجد موجود ہیں لیکن ان سے دعوت و تبلیغ اوراصلاح معاشرہ کا وہ کام نہیں لیا جارہاہے جس کی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ منبر و محراب سے اٹھنے والی صدائیں کچھ اور ہی کہہ رہی ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مسجد ایک پھر اپنا وہ کردار ادا کرے کہ جس کے نتیجہ میں ہر بے عمل شخص باعمل بن  جائے اور ہر نمازی شعوری مسلمان  میں تبدیل ہو  جائے۔ شعوری مسلمان سے مراد یہ ہے کہ نہ صرف وہ اسلام پر مکمل طور پر عمل کرنے والا ہو بلکہ اسلام کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے والا بھی بن جائے۔ مساجد میں غیر مسلم برادران وطن کو لائیے، انہیں وہاں کی پرسکون اور باوقار فضا کودکھائیے، اسلام سے متعلق جو سوالات ان کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں ان کا تسلی بخش جواب فراہم کیجئے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا جب وہ کھلا ثبوت اپنی آنکھوں سے ان مساجد میں دیکھیں گے، قرآن کو دیکھیں گے، سنیں گے، اورپڑھنے کا مواقع انہیں میسر آئیں  گے، جس معاشرت سے آپ اور آپ کا خاندان وابستہ ہے اور جو اسلامی تعلیمات انسان کو انسان بنانے کی تعلیم دیتی ہیں، اس سے واقف ہوں گے، تو خدا کی قسم وہ بھی آپ اور آپ کے دین سے قریب سے قریب تر ہوتے جائیں گے۔ اس تبدیلی میں ہمارے آئمہ کرام اہم ترین کرداراداکرسکتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے آئمہ اس جانب توجہ فرمائیں اور وہ تبدیلی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں جو مطلوب ہے۔ آج کے اس پرفتن دور میں اصلاحِ معاشرہ کے لیے مساجد کے کردار کوایک بار پھر فعال بنانا ہوگا۔ اور اُنہیں خطوط پر عمل پیرا ہونا ہوگاجن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے، جنہیں اپنا کر عرب کے بدودنیا کے امام اور رہبر بن گئے تھے!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ختم شدہ)

تبصرے بند ہیں۔