عید نوید اتحاد ہے، اسے اختلاف کا ذریعہ نہ بنائیں! 

احساس نایاب

مومنوں کے لئے عید کا پیغام لیکر بادِ صبا آئی ہے

فرشتوں سے مباردکباد لیکر بادِ صبا آئی ہے

آج خوشیوں سے جھوم رہا ہے سارا عالمِ اسلام

روزہ کے بدلے عید کا انعام لیکر بادِ صبا آئی ہے

اے روزہ داروں تمہاری شان سے ساری کائنات رشک کھائی ہے

مبارک ہو تمہیں! آج تمہارے حصے میں شہنشاہی عید آئی ہے

کتنا پرنور اجالا آج سارے عالم میں چھایا ہے

ذرا دیکھو تو ہرسو کیسا خوش رنگ بہارا ہے

کیا حسین دلکش ہے سما کہ محبتوں سے مہک رہا ہے سارا جہاں

کہ ہر ایک دل میں آج جذبہِ دین کی شمع نظر آئی ہے

صبح جب گونج اُٹھی ہے ہرسو اللہ اکبر کی

یہ وہ منظر ہے جسے دیکھ کر شیطان بھی آنسو بہاتا ہے

بھلا کر آج سارے شکوہ گلے ملالو دل سے دل

یہی وہ شانِ انداز ہے جو دشمنِ اسلام کو مات دیتا ہے

توڑ دو آج تم فرقوں وہ مسلکوں کی تمام بندشیں

مسلمان ہو! تو ایک دوجے کے گلے مل جاؤ  کہ یہی اسلام سکھاتا ہے

الحمدللہ! ماہِ رمضان کے روزہ مکمل ہونے کے بعد جب بادلوں کو چیرتے ہوئے عید کا چاند نکلتا ہے تو دنیا بھر کے لئے اور خاص کر مسلمانوں کے لئے رحمت، برکت اور ڈھیر ساری خوشیاں اپنے ساتھ لیکر آتا ہے، یہ چاند صرف عید کا چاند ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے اتحاد کی نوید بن کر طلوع ہوتا ہے۔ چاند کی آمد سے ہرسو خوشیوں کی لہر دوڑنے لگتی ہے کیونکہ یہ وہ مبارک گھڑی ہے،جب مسلمان کئی دنوں تک اللہ کی قربت حاصل کرنے کی چاہت لئے حالتِ روزہ میں بھوکا پیاسا دن رات عبادت میں مصروف ہوکر تقویٰ وپرہیزگاری،  صبر و شکر کو اختیار کر اسلام کے تمام احکامات کو مانتے ہوئے  زکوٰۃ اورصدقۃ الفطر ادا کرکے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر وہ کام بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتا ہے جس سے اللہ تعالی راضی ہوجائیں۔ اورجس کے بدلے اللہ رب العزت کی طرف سے تمام روزہ داروں کے لئے عید کا دن خاص انعام ہے، جو مومن بندوں کی بےلوث محبت، جذبہ عبادت اور صبر  کا انعام کہا جاتا ہے۔

اور عید کے دن کی اہم خصوصیات یہ بھی ہیں کہ مسلمان صبح سویرے اللہ کا شکر ادا کرکے، بآواز بلند وحدانیت کی گواہی دیتے ہوئے اللہ کی شان بیان کرتے ہوئے اجتماعی  طور پر اپنے اپنے شہر کے عیدگاہوں اور مساجد میں جمع ہوکر عید کی نماز ادا کرتے ہیں، جسکا اصل مقصد بنا کسی بھید بھاؤ کے امیر غریب اپنے پرائے سبھی کو ایک جگہ ایک صف میں کھڑے ہوکر اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونا ہے اور جب کھلے آسمان کے نیچے ہزاروں لاکھوں مسلمان ایک ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ہرسو اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں تو اس منظر کو دیکھ کر جہاں شیطان آنسو بہاتا ہے، وہیں دشمنانِ اسلام خوف کھاتے ہیں اور مسلمانوں کے اس عظیم الشان اتحاد انکی شان و شوکت اور طاقت کو دیکھ کر دشمن کے ہوش اڑجاتے ہیں۔

لیکن افسوس آج ہم مسلمانوں کے درمیان آپسی اختلافات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہم عید کا اصل مقصد ہی بھول چکے ہیں، جس اتحاد اور اجتماعی طاقت کو دیکھ کر دشمنانِ اسلام اور شیطان خوف کھایا کرتے تھے آج وہی ہمارے اختلافات کو دیکھ کر ہم پہ ہنستے ہوئے ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔

کیونکہ آج ہم فرقوں اور مسلکوں میں اس قدر الجھ کر اپنی ذاتی انا کے چکر میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ  عبادات اور عید کا اصل مقصد ہی بھول بیٹھے ہیں۔

 جہاں ایک دور تھا جب چاند رات سے ہی ہر ایک کے چہرہ پہ خوشی کی چمک نظر آیا کرتی تھی، سبھی ایک ساتھ مل کر ایک دوسرے کو چاند کی مبارکبادی دیا کرتے تھے، آج وہیں ہر ایک کے چہرہ پہ پریشانی، اداسی، فکر، الجھن اور کشمکش نظر آتی ہے  کہ ایک شہر میں ہونے کہ باوجود ناجانے سبھی ایک ساتھ عید میں شامل ہوپائیں گے یا نہیں یا اگلے دن روزہ ہوگا یا عید اور انہیی الجھنوں، کشمکش کی وجہ سے مسلمانوں کو ان مبارک دنوں کی اصل خوشیاں بھی میسر نہیں ہوتی، یہاں تک کہ اس مقدس موقع پہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے پہ الزامات تک لگانے سے پیچھے نہیں ہٹتے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، فقرے کسنا معمول بنا رکھا ہے, جس سے آپسی انتشار میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ اور ایسے حالات صرف چاند رات تک محدود نہیں ہیں، بلکہ صبح عید کی نماز ادا کرنے تک یہی معاملات پیش آتے ہیں۔

اسلام نے جہاں ہر مسلمان کو بنا کسی بھید بھاؤ کے ایک ساتھ اجتماعی نماز ادا کرنے کا حکم دیا  ہے، وہیں ان فرقوں، مسلکوں، علاقائی عصبیت اور ذاتی انا کی وجہ سے غیر، اجنبی تو دور کی بات ہے آج تو ہمارے اپنے سگے رشتے دار دوست احباب حتی کہ سگے بھائی بھی ایک ساتھ مل جل کر عید کی خوشیاں نہیں منا پارہے ہیں بلکہ ہر کوئی اپنے لئے الگ فرقہ بناکر عید کی صبح اپنی راہیں بدل لیتے ہیں اپنوں سے منہ موڑ لیتے ہیں، جس کے چلتے عید کا اصل مقصد اتحاد، اخوت و بھائی چارگی، پیار ومحبت، خلوص اور اپنوں سے جڑی تمام خوشیوں سے بھی مسلمان محروم ہوچکے ہیں، اور عید کے اصل معنی ہی بھلا کر شخصیت پرستی کے غلام بن چکے ہیں، جبکہ عید کا اصل مطلب تو اپنے غموں، اداسیوں، رنجشوں کو پیچھے چھوڑ کر کچھ پل اپنوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے، دلوں سے میل، بغص، کینہ مٹاکر، تمام گلے شکوے بھلاکر ، نفرتوں کو مات دیتے ہوئے روٹھوں کو منانا، ہر ایک کی غلطیوں کو معاف کر کے دوستی، رشتے داریوں کو نبھاتے ہوئے ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونا ہے۔

لیکن آج ہم ان رحمتوں و برکتوں والے لمحات کو بے مطلب کے اختلافات کی وجہ سے ضائع کررہے  ہیں۔

اور اس بات کو بھول چکے ہیں کہ عید کا دن اللہ تعالی کی طرف سے مومنوں کے لئے انعام کے ساتھ ساتھ آزمائش اور امتحان کا بھی ہے۔

 اس دن اللہ تعالی اپنے بندوں کو ان گنت نعمتوں سے نواز کر انکا امتحان لیتے ہیں کہ  بندہ اپنے رتبہ اور ذاتی انا کی وجہ سے مغرور بنتا ہے یا عاجزی انکساری کو اختیار کرتا ہے، قیمتی لباس پہن کر کئی قسم کے لوازمات کا مزہ چکھنے کے بعد اللہ کی دی گئی ڈھیر ساری نعمتوں کو حاصل کر تکبر میں مبتلا ہوتا ہے یا اللہ کا احسان مانتے ہوئے اپنے دل میں غرباء کے لئے ہمدردی رکھتا ہے،

کیونکہ جس طرح بھوکا پیاسا رہنے کا حکم دیا گیا ہے اسکا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم غریبوں، یتیموں  کی بھوک پیاس انکا درد انکی تکالیف محسوس کرسکیں، انکا خیال رکھیں اور راتوں کو جاگ کر اللہ کو یاد کرنے سے بندہ میں عاجزی آئے اور اللہ کی رضا کے لئے اپنے مال سے غریبوں کو صدقہ زکوٰۃ دینے کا فریضہ جو انجام دیتے ہیں اس سے غریب بھی اپنی عید خوشی خوشی منا سکیں، کیونکہ عید کی خوشیوں پہ کسی ایک کا نہیں بلکہ ہر ایک کا حق ہے، یہ کسی ایک کی جاگیر نہیں ہے، اس لئے عید کی خوشیوں میں ہر انسان کو شامل کریں، چاہے وہ ہمارے غریب بھائی بہن ہوں  یا پڑوس میں رہنے والے برادران وطن۔

 اور ان  تمام احکامات کو ماہِ رمضان میں حالتِ روزہ کے ساتھ ساتھ عید اور باقی دنوں میں بھی یاد رکھتے ہوئے عمل کرنا اور اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ ہماری وجہ سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے ہمارے فیصلے ہماری انا کہیں فتنہ فساد کی وجہ نہ بن جائے ,  ہمارے آس پاس کوئی بھوکا نہ سوئے آور نہ ہی کوئی زندگی کی جائز خوشیوں، خواہشات سے محروم رہ جائے،

کیونکہ یہی اسلام کہتا ہے کہ ہم اپنی خوشیوں میں ہر ایک کو شامل کریں جن میں امیر غریب بچے بوڑھے یہاں تک کہ برادران وطن کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل رکھیں۔

لیکن یہاں پر بھی افسوس کے سوا کچھ نہیں ہے، کہ آج ہماری حالت ایسی ہے کہ ہم اپنوں کو بھی برداشت نہیں کرپارہے تو کسی اور کو کیا برداشت کرینگے۔

آج ہم اپنے ذاتی مفادات کے لئے افطار کی دعوتوں میں سیاستدانوں اور اسلام کے دشمنوں کو بلاکر، عید ملن عید کی پارٹیاں تو بڑی شان و شوکت سے انجام دیتے ہیں مگر اپنے غریب پڑوسیوں، غریب بھائی بہنوں کو شامل کرنا ضروری نہیں سمجھتے آور نہ ہی مسلمان ہونے کہ ناطے اپنے مسلم بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درگذر کر اپنے اتحاد کو دکھا پاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی آدھی ہونے کے باوجود ہم کمزور بن چکے ہیں، کیونکہ آج ہم  میں دوسروں کی غلطیوں کو درگذر کر آپسی اختلافات کو ختم کرنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ نہیں رہا، ہمارے اختلافات تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں اور ہم فرقوں، مسلکوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

اور جب  ہم مسلمان فرقوں مسلکوں کو بھول کر اللہ کے حضور ایک صف میں کھڑے نہیں ہوسکتے تو دنیا کو کیا خاک اپنی طاقت دکھا پائینگے۔۔

 یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں دشمن ہم پہ حاوی ہوچکے ہیں اور ہر دن ہمارے مسلمان بھائی بہن بچے انکے ظلم  زیادتی و بربریت کا شکار بنتے جارہے ہیں اور ہم اپنی حقیقی طاقت اصل خوشیوں سے کوسوں دور ہیں اسلئے چاند رات، عید جیسے خصوصی دنوں کو خوشیوں محبتوں سے گذاریں نہ کہ بہت بڑا انا کا مسئلہ بناکر , اختلافات پیدا کر کے قوم کو کمزور بنائیں اور ہمیشہ قوم کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں، ایک دوسرے کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے مل جُل کر عید کی خوشیاں خود بھی منائیں اور دوسروں کو بھی منانے دیں کیونکہ عید کا مطلب ہے اتحاد ،اس لیے عید کو اختلافات کا ذریعہ نہ بننے دیں اور عید کو اسلامی شان و شوکت کا عظیم مظہر بنا کر دنیا کے سامنے پیش کریں۔

تبصرے بند ہیں۔