غیروں سے زیادہ اپنوں کی سازش کے شکارہیں ہم

احساس نایاب

تیر لگا جب سینے میں زخم کا اتنا نہ ہوا احساس 

 درد کی انتہاءتو تب ہوئی جب کمان دیکھی اپنوں کے ہاتھوں میں

آج جوکچھ میں سپردقرطاس کرنے جارہی ہوں،وہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کاانکارکرناحقائق پرپردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا ۔آج ہم جس معاشرے اورسماج میں جی رہے ہیں،جن حالات سے دوچارہیں اس کی تلخی اورکڑواہٹ سے ہرسمجھدارانسان واقف ہے،ممکن ہے میری حق بیانی بہت سارے لوگوں کوہضم نہ ہوپائے، لیکن جوحقیقت ہے اسے میں آشکاراکرنے میں کسی طرح کاترددنہ کروں گی،بھلے ہی اس سے میرے اپنے بھی خفاکیوں نہ ہوجائیں!!!ایک وقت تھا جب ہم سب روٹی، کپڑا، مکان اورگھریلو ذمہ داریوں میں الجھ کر روزمرہ کی الجھنوں کو سلجھاتے ہوئے جیسے تیسے اپنی تمام ذمہ اریوں کو پورا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ر ہ کر کسی طرح اطمینان بخش زندگی گذارنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے اور اپنے بچوں سے جڑے مستقبل کے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔پر جس دن سے فسطائی طاقتوں کی مددسے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس دن سے لیکر آج تک ہر شخص پریشان حال ہے،تو دوسری طرف کتنے کمزورموقف رکھنے والے افرادفکری طورپرگمراہ ہوچکے ہیں۔

2014 سے لیکر 2018 تک کا جائزہ لینگے تو یہ چار سال ملک اور عوام کے لئے بہت ہی ناگوار اور آزمائش بھرے گذرے ہیں۔ اس حکومت نے اپنے جھوٹے اور کھوکھلے وعدوں و دعوؤں سے آئے دن نت نئے قوانین نافذکرکے ہر انسان کو پریشان کر رکھا ہے۔کبھی نوٹ بندی تو کبھی جی یس ٹی جیسے بیکار قوانین کو عمل میں لاکر نہ صرف عوام کا جینا محال کررکھا ہے بلکہ ملک کی اقتصادی حالت کو بھی خراب کررکھا ہے ۔ایک انسان کا غلط فیصلہ ، جس کا ہرجانہ  غریب، مزدوراورکسان سے لیکر چھوٹے سطح کے تاجروں یہاں تک کہ گھریلو خواتین کوبھی چکاناپڑرہاہے۔ آئے دن کسان خودکشی کرنے پہ مجبور ہورہے ہیں تو بے شمارمعصوم بچے ہسپتالوں میں طبّی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ کوئی خودکشی یا قدرتی موت نہیں بلکہ قتل ہے جو حکومت کی لاپرواہیوں کی وجہ سے ہورہے ہیں تو دوسری طرف ملک کے پڑھے لکھے نوجوان جو ملک کا مستقبل کہلاتے ہیں وہ بیروزگاری کے چکر میں اپنی زندگیاں برباد کررہے ہیں ۔ اورافسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک کی قسمت کافیصلہ وہ لوگ کررہے ہیں جو ان پڑھ، جاہل اورحکومت چلانے کے فن سے ناواقف ہیں، جنہیں صحیح و غلط کی کوئی سمجھ نہیں ہے، جو خود مجرم ہیں یا ان پر مجرمانہ مقدمے چل رہے ہیں۔جب ان تمام حالات سے تنگ آکر کچھ ذمہ دار لوگ ان غلط فیصلوں کے خلاف سوال کرتے ہوئے اپنی آوازیں بلند کرتے ہیں تو یہ حکومت اپنا اصلی چہرہ دکھاتے ہوئے اپنی گندی سیاست کا کھیل شروع کردیتی ہےجسکے لئے کچھ شرپسندوں کا استعمال کیا جاتا ہے، جنہیں میڈیا نے مودی بھکت بنا رکھا ہے اور اس اندھی بھکتی کے چلتے آئے دن شیطانی حرکتیں کرتے رہتے ہیں ،ان کی ان حرکتوں کو روکنے کی بجائے حکومت ان کی پشت پناہی کرتی ہوئے انہیں بڑھاوا دیتی ہے۔

بی جے پی سرکار ان شرپسندوں کو اپنی نفرت کی سیاست کے لئے مہروں کی طرح استعمال کررہی ہے اور ان تمام سازشوں کا مقصد عوام کو ہمیشہ کے لئے بنیادی مدعوں سے بھٹکائے رکھنا ہے تاکہ یہ اپنی ناکامیوں اورمجرمامہ لاپرواہیوں پرپردہ ڈال سکیں، اس لئے برسوں سے چلے آرہے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کا کام کیا جارہا ہے ۔جسکے لئے آئے دن خودساختہ افواہوں کو ہتھیار بناکر ملک کے پرسکون ماحول میں زہر گھول دیا جاتا ہے ۔ آئے دن ہم میڈیا میں یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ سنگھ پریوار کے ایجنٹ جنہیں ہم اور آپ سیاستدان کہہ رہے ہیں وہ کبھی گاؤکشی پراشتعال پھیلا رہے ہیں تو کبھی لوجہاد کو مسلمانوں کو روندنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ کبھی وندے ماترم جیسے غیرضروری مدعے پر سیاست کی جارہی ہے تو کبھی تاج محل اور بریانی کو مذہب سے جوڑا جارہاہے ۔وہ تو خیر کہ مرغیاں اور مچھر سنگھ پریوار کی نظروں میں نہیں آئے ورنہ انکا دل چاہے تو انکی بھی خیر نہیں، پل بھر میں مرغی کو ہندو اور مچھر کو مسلمان کہہ کر مچھر کے خون پینے اور مرغی کے گھاس و دانے کھانے پر انہیں دیندار بنادیا جاتا ۔ موجودہ سرکار اپنی مفاد پرستی اور نفرت کے چلتے کسی کو نہیں بخش رہی ہے ۔ ذات و مذہب کے نام پر فسادات کرواکر جمہوریت کا مذاق بنا رکھا ہے اور اس تشدد کی آگ میں ہر سیاسی پارٹی گھی ڈال کر آگ کو ہوادینے کاکام کررہی ہے جسکی وجہ سے سارا ملک بھیانک آگ میں  جھلس رہا ہے اور ہر سیاسی پارٹی اس آگ میں اپنی اپنی مفاد کی روٹیاں سینکتے ہوئے باز نہیں آرہے ہیں، ہر کوئی اس آگ کو بجھانے کی بجائے بھڑکانے میں لگاہوا ہے، جسکی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کاہی ہورہاہے۔

 اگر سوچ سمجھ کر ماحول کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ آج کے دورمیں کوئی بھی سیاسی پارٹی  مسلمانوں کی ہمدرد  نہیں ہے، بلکہ یہ تمام سیاسی پارٹیاں ہمیں صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کررہی ہے۔ہماری اس طاقت کا چند منافقوں نے قیمتیں طئے کی ہیں تو کہیں ڈرا دھمکا کر حقوق صلب کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور ان تمام بگڑے ہوئے حالات کی وجہ کہیں نہ کہیں ہماری نااتفاقیاں،خوداعتمادی کی کمی،مفادپرستی تو کہیں چند بزدلوں کی منافقت ہے جسکی وجہ سے انکی ہمت  اتنی بڑھ گئی ہے ورنہ ہم مسلمانوں کے جسم کو کیا ہمارے سائے کو بھی چھونے کی انکی اوقات نہ تھی کیونکہ ہماری پہچان ان تمام اسلام کے شیردل جنگجوؤں سے ہے جنہوںنے ہمیشہ سے ساری دنیا میں اسلام کا نام بلند رکھا، حق کی خاطر شانِ شہادت کو اپناتے ہوئے کئی ظالموں کے نام ونشان مٹادئیے۔ ہم ایسی زندہ قوم کی پہچان ہیں جنہوںنے ہمیشہ مظلوموں کے حق کےلئے دشمنوں کو للکارا اور اپنی نیاموں سے تلواریں نکال کر ظالمو ں کا صفایا کیا۔ پر افسوس زندہ قوم کہلانے والے ہم آج مظلوموں کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں، ہم مسلمان جو ساری دنیا کو انصاف صحیح و غلط کا درس دیتے تھے آج خود ہمارے اپنے شرعی مسائل کو مسجدوں سے نکال کر کھلے عام پولیس اورعدالتوں میں انصاف کی تلاش کررہے ہیں۔ جنہیں سلجھانا ہمارے علماءکا کام تھا آج انہیں غیر مذ ہب کے لوگ سلجھانے کے نام پہ ہمارا ہماری قوم کا سرِ عام تماشہ بناتے ہوئے مذاق اڑارہے ہیں جسکی ذمہ داری ہماری لاپرواہیاں ہیں، کیونکہ آج کل کچھ لوگ قوم کی خدمت محض اپنے مفاد کے لئے کررہے ہیں تو کچھ لوگ شہرت حاصل کرنے کے لئے تنظیموں کو وجود میں لارہے ہیں ، اپنے ناموں کے آگے بڑے بڑے عہدے سجاکر آئے دن جلسے منعقد کروانا، مائکس پہ نام کے لئے نام کی بیان بازیاں کرنا، گل پوشی، شال پوشی کرواتے ہوئے خود پہ واہ واہی کروانے میں قوم کے خود ساختہ لیڈران مصروف ہوچکے ہیں ، یا کہیں بے مطلب کی آپسی رنجشیں ، فضول آپسی اختلافات میں الجھ کر ضروری مدعوں کو غیروں کے ہاتھوں میں سونپ چکے ہیں جس سے ان لوگوں کی ہمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ یہ ہمارے شرعی معاملات میں بھی بے دھڑک مداخلت کررہے ہیں، ہمارے علماء سے بدزبانی کررہے ہیں اورہمارے دین کے بارے میں جھوٹے بے بنیادی تہمتیں لگانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے ،ہم یہ نہیں کہتے کہ تنظیمیں بنانا غلط ہے بلکہ تنظیموں کے نام پر تقسیم ہونا غلط ہے، بیشک تنظیمیں بنائیں ایک نہیں کئی بنائیں پر اپنی طاقت کو کبھی بکھرنے نہ دیں۔ کام بھلے اپنے اپنے انداز میں اپنے مطابق کریں پر مقصد ہمیشہ ایک رکھیں، کسی تنظیم کو چھوٹی یا بڑی نہ سمجھیں، نہ ہی کسی کو غلط کہیں، اپنی جو بھی غلط فہمیاں ہیں، اختلافات ہیں، انہیں آپس میں مل جل کر سلجھائیں کسی اور کو اپنی کسی بھی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کا موقعہ نہ دیں، تاکہ مستقبل میں کوئی ہمارے آگے کھڑا نہ ہوپائے ، ہمیشہ انگلیوں کی شکل بنکر کمزور ہونے کی بجائے وقت آنے پر تمام انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملاکر مٹھی کی طاقت بن جائیں اور جو بھی ہمارے دین، ہماری قوم، ہمارے ملک کے اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کرے، انکا منہ توڑ جواب دیں۔

کیونکہ ہماری خاموشی، ناسمجھی اور آپسی رنجشوں کی وجہ سے آئے دن ہم پہ دہشت گرد کا ٹھپہ لگا کر کبھی ڈاکٹر ذاکر نائک جیسے اسکالرس ، مفکروں پہ تو کبھی بے قصور نوجوانوں اور پی ایف آئی جیسی تنظیموں کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں اور کوئی بھی اس تاناشاہ سرکار کے خلاف آواز نہ اٹھاسکے اور نہ ہی کوئی حق کے لئے کھڑا ہوسکے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک حد تک یہ لوگ اپنی سازشوں میں کامیاب بھی ہوچکے ہیں اور ہم زندہ قوم کہلانے والے آج مردہ قوم بنتے جارہے ہیں کہ حق بات کہنے سے بھی کتراتے ہیں آج ہم ہر اس انسان سے پوچھنا چاہتے ہیں جو خود کو سچے اور حق پہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔ کیا ڈاکٹر ذاکر نائک اور پی ایف آئی جیسی تنظیم دہشت گرد ہوسکتی ہیں؟ نہیں تو ان پہ دہشت گردی کا الزام کیوں ؟؟جب ان پہ دہشت گرد ی کا الزام لگارہے ہیں تو یہ یوگی آدیتیہ ناتھ ، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر جیسے سنگھی نیتا اور انکی آر ایس ایس  بجرنگی تنظیمیں کیا ہیں؟؟؟ آخر انہیں دہشت گرد کیوں نہیں کہا جاتا ؟؟؟ان پہ کیوں کوئی روک تھام نہیں کی جاتی ؟؟؟ جبکہ ساری دنیا جانتی ہے انکے غلط منصوبوں کے بارے میں جو آئے دن ملک کا ماحول بگاڑتے ہوئے، گائے کے نام پہ ، تو کئی غیر ضروری بے بنیادی مدعوں کو لیکر مسلمانوں کا سرعام قتل کیا جارہا ہے، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی حکومت کیوں ان پہ دہشت گرد کا ٹھپہ نہیں لگارہی  ہے،آخر سیکولر ملک میں متعصبانہ نظریہ کیوں ؟؟؟

آج اس ایک طرفہ نظریئے کی قیمت ہر ہندوستانی عام انسان اور خاص کر ہم مسلمانوں کی جان اور عورتوں ،بچیوں کی عصمت سے چکانی پڑرہی ہے۔ اخلاق ، جنید ، آصفہ اور ان جیسی کئی معصوم بچیوں کی شکل میں ، آج جانوروں کی جانیں مسلمانوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہوچکی ہیں اور ہم سبھی ان ناانصافیو ں کو دیکھتے ہوئے بھی بزدلوں کی طرح چپی سادھے ہوئے ہیں، یا نصیب، وقت اور امید کے سہارے اپنی ناکامیوں و کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسروں پر ہوتے ظلم وستم کو دیکھ کسی اور کا معاملہ کسی اور شہر کا حادثہ یا کسی اور کے گھر کی بات کہ کر اپنا پلہ جھاڑلیتے ہیں ،کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس قسم کی زہر آلود ہوائیں کبھی بھی اپنا رخ موڑ سکتی ہیں، کبھی بھی ہمارے شہر ،ہمارے محلے ،یہاں تک کہ ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہیں، اسکی جیتی جاگتی مثال حال ہی میں ایک بے گناہ مسلم نوجوان کو صرف اسلئے مارا پیٹا اور چاقو سے وار کرتے ہوئے اپنی نفرت کا نشانہ بنایا کہ ہم ٹیپو جینتی بنانے والے ہیں ،وہ شیر دل ٹیپوسلطان جنہوں نے ہمیشہ ایکتا اور اتحاد کی مثال قائم کی ،جنہوں نے ملک کی آزادی کی خاطر اپنے خاندان ،اپنی سلطنت کی قربانی دی اور انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت کو اپنایا ، حق کی خاطر جان دیتے ہوئے بھی ساری دنیا میں اسلام کے ساتھ ملک کا نام بھی اونچا رکھا، لیکن اس نفرت بھرے زہر نے کسی کو نہیں چھوڑا ، آج اس تعصب کی زد میں آکر نہ ہمارے بچے محفوظ ہیں نہ ہماری خواتین، ہر ایک کے سر پہ خطرہ منڈلا رہاہے تو وہیں پر کچھ ہمارے اپنے جو ہمارے بیچ میں رہکر پیچھے سے وار کرواتے ہیں جو اپنے ہوکر بھی اپنے نہیں رہے، جو دشمنوں کی سازشوں میں بڑھ چڑھ کر شامل ہیں جو خود کو دانشور، مفکراور ہمدرد کہتے ہوئے بھی منافقت کرتے ہیں۔ جنہیں اس دور کا میرصادق کہنا غلط نہ ہوگا ۔ خدا کے لئے ایسے منافقوں کے جال سے خود کو اور قوم کو بچا کررکھیں۔

ٹیپوسلطان کے دور میں ایک میرصادق تھا پر آج کے دور میں ایسے کئی میرصادق جنم لے چکے ہیں جو اپنے فائدے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، کسی بھی اسلام دشمنوں سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار ہیں، چاہے وہ ہاتھ اپنے ہی بھائیوں کے خون سے کیوں نہ رنگے ہوئے ہوں۔ آج ہمیں اور ہماری قوم کو کھلے دشمنوں کے ساتھ ایسے اپنوں سے بھی خطرہ ہے۔ جو اپنے بھائی کا گلا کاٹنے والوں کے گلے میں گل پوشی کر انکے گن گان گاتے ہیں، ان سے رابطے قائم رکھتے ہیں، انکے ساتھ پارٹیاں مناتے ہیںاور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہمیشہ یاد رکھیں کہ دشمن کے ساتھ بیٹھنے والا شخص کبھی آپکا دوست نہیں ہوسکتا۔بیشک دشمن میں اتنا دم کہاں تھا، وہ تو ہمارے اپنے ہی تھے جنکے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک پہنچے۔

تبصرے بند ہیں۔