مادر علمی اور طلباء کے فرائض و ذمہ داریاں

اللہ بخش فریدی

(مجھے ایک دینی مدرسہ کے معلم کی طرف ٹاسک دیا گیا ہے اسے مدرسہ کے سالانہ جلسہ دستار بندی کے موقع پر مادر علمی اور طلباء کے فرائض و ذمہ داریاں کے عنوان پر بیان کرنا ہے تو اس کے لئے مجھے کوئی اچھا سا مضمون تیار کر کے دیں ۔بہت اہم موضوع اور بہت اہم ٹاسک تھا اور اس کے لئے مجھے دن کا وقت دیا گیا۔اس اہم مقصد کے لئے یہ مضمون تیار کر کے ان کی خدمت میں پیش کیا جسے بہت سراہا گیا جو اپنے اندر ایک مادر علمی اور طلباء کیلئے بیشمار پیغامات، نصیحتیں اور حکمتیں سمیٹے ہوئے ہے۔)

تعلیم نام ہے ایک نسل کے دوسری نسل کو اپنے تجربات، احساسات، نظریات اور نتائج منتقل کرنے کا۔ ایک نسل دوسری نسل کو جو آداب زندگی او ر ذہنی وراثت منتقل کرتی ہے اسے عرفِ عام میں تعلیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تعلیم دراصل کسی قوم کی مادی و روحانی زندگی کی روح رواں ہوتی ہے۔ جتنا کسی قوم کا نظام تعلیم مضبوط، مستحکم اور دینی اصولوں سے ہم آہنگ، جاندار و قوی ہوگا وہ قوم اتنی ہی مضبوط اور طاقتور ہو گی اور ترقی، کامیابی و کامرانی کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہوگی۔دینی طرز حیات ہی قوموں کو عروج و کمالات عطا کرتی ہے۔دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کا نہ ہونا قوموں کو زوال و پستی کی طرف لے جاتا ہے۔ جتناکسی قوم کا نظر یہ حیات مستحکم ہوگا اتنا ہی وہ اپنی تعلیم کوروشن روایات عطاکرسکے گی۔ علم کو انسان کی ’ تیسری آنکھ‘ کہا جاتا ہے۔انسان کو اپنے مقصد حیات،مقصد تخلیق، سچائی کی پہچان‘ حقائق کا ادراک اور معاشرے میں مہذب زندگی گزارنے کا سلیقہ علم ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا راز بھی یہی علم اور تعلیم و تربیت ہے۔اس علم کوحاصل کرنے، تعلیم و تربیت سیکھنے، عملی و فکری استعداد کر بڑھانے میں مادر علمی(سکول و مدارس) کا کردار سب سے اہم ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔انسان کی عملی و فکری افزائض میں مادر عملی کو فوقیت حاصل ہے۔

مادر علمی کا تعلق ایک تربیتی اور عملی وفکری ادارے سے ہوتا ہے جہاں ایک طالب علم اپنی تعلیمی، تربیتی، عملی و فکری استعداد کو پروان چڑھانے کیلئے ایک خاص مدت زیر تعلیم رہتا ہے۔ ایک طالب علم اپنی زندگی کا ایک خاص حصہ، ایک معین مدت تعلیمی ادارے میں گزارتا ہے۔یہ تعلیمی ادارے کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے کہ طالب علم پر خاص توجہ دے۔وہ جس مقصد کیلئے اپنا گھر بار، خاندان، عزیز واقارب چھوڑ کر تعلیمی ادارے کے دامن میں چھپا ہے، زیر سایہ پناہ لی اسے وہ مقصد دینے میں تعلیمی ادارے سر توڑ بازی لگائیں ۔ سخت محنت اور دیانتداری سے تعلیم و تربیت طالب علم کو منتقل کرے۔ قوم و ملت کیلئے ایسے صاحب علم، باشعور، باکمال لوگ تیار کرے جو قوم وملت کو عروج و کمالات کی طرف لے جائیں اور قوموں کی صفوں میں ایک ممتاز مقام عطا کریں ۔وہ طالب علم کو دنیا میں عزت و وقار سے سر اٹھا کر جینے کے ڈھنگ سیکھائے۔وہ قوم کے لئے ایسے مجاہد تیار کریں تو نہ جھکنے والے ہوں نہ بکنے والے۔اس کے لئے ضروری طلباء کی بھرپوری ذہنی نشوو نما کی جائے، ان کی علمی استعداد کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جائے، طلباء میں موجود تخلیقی و تکنیکی صلاحیتوں کو پرکھا جائے، ان میں موجود عملی و فنی مہارت کا مشاہدہ کیا جائے اور طلباء کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جس سے طلباء کی تخلیقی و تکنیکی صلاحیتیں اور مہارتیں نکھر کر سامنے آئیں ۔کیونکہ ہر انسان میں اللہ کریم نے کوئی کوئی تخلیقی و ارتقائی صلاحیت،کوئی نئی و منفرد سوچ، اور فکر رکھی ہے جس کو اجاگر کرنے کیلئے انہیں بھرپور مواقع میسر آنے چاہیں تاکہ طلباء میں تخلیقی وتکنیکی اور ارتقائی استعدادیں ابھریں اور فکری و اختراعی انداز فکر پیدا ہو۔

علم کے تمام سرچشمے قرآن کریم سے پھوٹتے ہیں ، تمام علوم و حکمت، اخلاق و تمدن، فنون و سائنس کی اصل قرآن حکیم ہی ہے۔دنیا میں علم کی جستجو، کائنات کی تخلیق میں غور و خوض، تخلیق کے راز کوجاننے، کائنات میں گھوم پھر کر چیزوں کا قریب سے مشاہد ہ کرنے اور اس کی حقیقت کو جاننے کی دعوت اور حکمت قرآن نے عطا کی۔ قرآن ہی نے انسانیت کو پکارا کہ آؤ! غور کرو،فکر کرو، جستجو کرو، مشاہدہ کرو آسمان کی بلندیوں اور زمین کی تہوں سے رب کائنات کے پوشیدہ رازوں اور خزانوں کو ڈھونڈ نکالو اور ان پر تحقیق کرو۔اسلام اپنے ماننے والوں کے دل و دماغ کند نہیں کرتا بلکہ سائنسی تحقیق کو فرض قرار دیتا ہے۔ کائنات کے اندر غور و فکر کرنا، اس کی پوشیدہ حقیقتوں کو عیاں کرنا، مختلف مخلوقات پر ریسرچ کرنا یہ اسلام کی دعوت و فطرت ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ ساری دنیا انسان کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے کہ وہ اسے مسخر کرے، اس سے فائدہ اٹھائے۔ جو کام ہمارے کرنے کا تھے جس کا ہمیں حکم اور دعوت فکر دی گئی تھی وہ اہل مغرب میں بخوبی انجام دیا اور دے رہے ہیں۔

یہ علمی ورثہ ہمارا تھا جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے آگے غیروں کو منتقل کر دیا۔انہوں نے قرآن سے علم بھی سیکھا، راہنمائی بھی لی، ایجادات و تخلیقات بھی کیں اور اجتماعی رہن سہن، حسن معاشرت، اخلاقیات کے آداب سیکھے بھی اور اپنائے بھی۔جبکہ ہم نے قرآن سے راہنمائی لینے کی بجائے اس علوم و عرفان کے سمندرکو پس پست پھینک کر مغرب کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور قرآن کو صرف کتاب ثواب و برکت سمجھ کے محض ثواب و برکت کی غرض سے پڑھنے کیلئے غلافوں میں لپیٹ کے گھروں میں رکھوا دیا اور معاشرہ کو پروان چڑھانے اور ترقی کیلئے مغرب کی نقل پر اتر آئے۔ تقلید اور نقل معاشرے کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے کی راہ میں رکاوٹ ہے خواہ وہ تقلید مغرب کی ہو یا کسی اور کی۔ جو تقلید کرتے ہیں وہ تہذیبی و فکری جنگ ہار جاتے اور اپنی انفرادیت کھو بیٹھتے ہیں ، اس لیے ہمیں تقلید کے بجائے محنت، لگن تحقیق و جستجو کا جذبہ پیدا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ( علم و حکمت اور معاش ) کی تلاش میں نکلو اور علوم و فنون، معرفت، دانش وحکمت کے موتی تمہیں جہاں کہیں سے ملیں فوراً حاصل کر لو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنے دور عروج میں علمی وعملی لحاظ سے تمام دنیا پر فائق تھے اور پوری دنیا ان کی دست نگر بن کر رہ گئی تھی۔ پھر ایک زمانہ آیا کہ مسلمانوں نے علمی و عملی میدان میں کام کرنا چھوڑ دیا۔ تحقیق کی جگہ اندھی تقلید نے لے لی اور عمل کی جگہ بد عملی کو اپنایا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر جگہ ان کا غلام بنا دیا جو علمی و عملی میدان میں ان سے آگے تھے۔ کہیں ان پر انگریز مسلط ہوگئے، کہیں پرتگالی اور کہیں فرانسیسی استحصال کرنے لگے توکہیں جرمن۔کیونکہ دور جدید میں جہاں مسلمانوں نے کام کرنا چھوڑ دیا وہاں اہل یورپ نے ان کی جگہ لے لی او رعلمی و عملی میدان میں حیرت انگیز کارنامے سرانجام دئیے اور علم و عمل کی بدولت ساری دنیا پر چھا گئے۔

دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کا نہ ہونا قوم کو زوال و پستی کی طرف لے جاتا ہے اور ہمارے راج الوقت نظام تعلیم میں دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اخلاقی و سماجی تعلیم و تربیت کے بغیر معاشرہ صرف قانون کے سہارے نہیں چلایا جاسکتا۔ قانون تو چند مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کو قابومیں رکھنے کے لیے ہوتا ہے جو دین سے بیزارہو کر وحشی درندے بن چکے ہوں ، جبکہ عام لوگ اجتماعی مفاد، دینی اصول اور اخلاقیات کی پاسداری کی خاطر ایک روایت کے طور پر قانون و اقدار کی پابندی کرتے ہیں ، مگرہمارے ہاں کسی اعلیٰ اجتماعی اخلاقی نصب العین اور دینی ضابطہ کے نہ ہونے کی بنا پر لوگ اپنی ذات اور مفاد سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے ہمارا ہر شخص، ہرگھر، ہرسڑک، گلی محلہ، ہر دفتراور ہر فیکٹری اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی بھر پور خلاف ورزی کا نمونہ بن چکی ہے۔جب ہم اسلامی تعلیمات و اخلاقیات پرعمل پیرا ہوں گے اورمضبوطی سے اس پر ثابت قدم رہیں گے، اور اپنے ذہنوں میں یہ تصور بٹھائیں گے کہ دنیا کی زندگی ایک عارضی زندگی ہے، اس کی چمک دمک محض ایک دھوکہ ہے، اصل زندگی آخرت کی ہے۔ تو پھر ہمارا ضمیرہمیشہ بیدار رہے گا اورہم عارضی دنیاکوترجیح دینے کے بجائے آخرت کی دائمی زندگی، اس کی راحت و سکون کو فوقیت دیں گے اور اس طرح معاشرہ ترقی کرے گااور زوال پذیری کے اثرات زائل ہوں گے۔

اب ہم ایک مادر علمی میں اس کے اور اس میں زیر تعلیم و زیر پرورش طالب علموں کے فرائض اور ذمہ داریوں پر بات کرتے ہیں تو تعلیمی ادارہ کی سب سے پہلی اور اولین ذمہ داری طلباء کی علمی، ذہنی اور فکری استعداد کو بڑھانا اور خوب پروان چڑھانا ہے۔ اس کی تعلیم وتربیت اور ذہنی نشوو نما اور پرورش ہے۔ ایک طالب علم کی سب سے اولین ذمہ داری علمی میدان میں ترقی کا حصول ہے۔اس کی یہی تعلیمی ترقی اس کا بات باعث بنے گی کہ وہ مستقبل قریب و بعید میں اپنے اعلیٰ تعلیم و ذہانت کے سبب اپنے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرسکے۔ جدید ٹیکنالوجی ایک طالب علم کے حصول علم کی راہ میں معاون ثابت ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس کا جائز اور مناسب استعمال کیا جائے۔ اس بنا پر ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے توسط سے جدید علمی تحقیق سے اپنے علم کو اپ ٹو ڈیٹ کرے اور کرتا رہے۔

اسلام کا دامن حکمت اور دانائی کے موتیوں سے بھرا پڑا ہے۔ دین اسلام تمام دنیا کے انسانوں کو فکرو عمل کی دعوت دیتا ہے اور ہر قسم کے علوم وفنون کیلئے اس کی آغوش کھلی ہے۔اسلام اصولی طور پر تحقیقات اورسائنس ہی کا دین ہے جو خود کائنات میں غور و فکر اور مشاہدے کی دعوت دیتا ہے۔ دنیا کااور کوئی مذہب کائنات میں غورو فکر اور مشاہدے کی دعوت نہیں دیتااور یہ ان کے باطل ہونے کی کھلی دلیل ہے۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو کہتا ہے کہ فطرت کے قریب آؤ، فطرت کو قریب سے دیکھو اور اس میں غور وفکر کرو کہ اسے کس نے پیدا کیا؟اس کو پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اور اس سے انسانی زندگی کیلئے کیا کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ؟جس قدر سائنس کی تحقیقات، ایجادات اور انکشافات میں اضافہ ہو گا اسی قدر اسلام کے دین فطرت اور دین حق ہونے کااعتراف بڑھتا جائے گااور توحید حق کے پرستاروں میں اضافہ ہوگا۔ جس طرح ماضی میں مسلمانوں نے بے نظیر سائنسی کارنامے سرانجام دئیے اور دنیا میں ایک پر وقار مقام حاصل کیا، اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر دنیا میں اپناوہ کھویا ہوا عظیم مقام پھر سے حاصل کریں۔

مادر علمی، اساتذہ وطلباء کیلئے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دینی علوم کو فروغ دیں بھائی چارہ، اخوت، رواداری، اسلامی مساوات، یگانگت، باہمی تعاون و اتحاد جیسے عوامل کا پرچار کر کے دنیا پر واضح کر دیں کہ اسلام مسلکوں اور فرقوں کا نام نہیں بلکہ اسلام ایک نظام کا نام ہے، اسلام ایک ضابطہ حیات کا نام ہے۔ اسلام ایک اخوت اور بھائی چارہ، مساوات اور برابری کا نام ہے اور پھر اسلام پے چل کر، قرآن و سنت کا دامن مضبوطی سے تھام کرجدید علوم و فنون، سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ میں انتہا درجہ کی مہارت حاصل کریں ۔وہ اتنی ذکاوت و مستعدی اور علم رکھتے ہوں اور سخت سے سخت محنت کرنے پر کمربستہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جو طبعی قوتیں پیدا کی ہیں ، اور زمین میں دولت و قوت کے جو چشمے اور دفینے رکھ دیے ہیں ، ان سے کام لیتے ہوئے اِن کو اسلام کے عظیم مقاصد اور صحیح تشخص کے لیے مفید بناسکیں۔

دورِ حاضر سائنس و ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کا دور ہے ہمیں روایتی تدریس سے ہٹ کر جدید ذرائع سے اپنی تعلیم کو موثر کرنا ہوگا تاکہ طلبا کو روز ہونے والی تبدیلیوں اور انقلابات سے واقف کراتے ہوئے ان میں موجود پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے، صرف اسی صورت میں مسلمان پوری دنیا پر غالب آ سکتے ہیں اور دنیامیں اپنا کھویا ہوا عظیم مقام پھر سے حاصل کر سکتے ہیں جب وہ زیورِتعلیم کو قرآن و سنت کے بالکل آئین مطابق آراستہ کریں وگرنہ ترقی یافتہ اقوام کی غلامی اور صہیونی و سامراجی قوتوں سے نجات پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

اخلاقی پرورش مادر علمی میں ایک طالب علم کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق کی بہترین انداز سے پرورش کرے۔ ایک بہترین طالب علم اسی وقت بہترین اور ذمہ دار طالب علم بن سکتا ہے کہ جب وہ اخلاقی اقدار کو بھی اپنی عملی زندگی میں زندہ کرے۔اخلاقیات کو زیادہ سے زیادہ اچھا اور بلند اوصاف سے مزین کرے۔زمانہ طالب علمی میں انسان کے پاس ایک بہترین موقع اور فرصت ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے پاس وقت کی وافر مقدار کے ہوتے ہوئے اپنی علمی ترقی کے ساتھ اپنی اخلاقی اقدار کی بھر پور طریقہ سے پرورش کر سکتا ہے۔اخلاقیات کسی بھی قوم کی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں ۔ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل شئے اخلاق ہے، اچھے اور عمدہ اوصاف و کردار ہیں جس کی قوت اور درستی پر قوموں کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔جس معاشرہ میں اخلاق ناپید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا، اس میں کبھی اجتماعی رواداری، مساوات،اخوت و باہمی بھائی چارہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔ جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی عام ہوجائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہوسکتا۔ جس ماحول یا معاشرہ میں اخلاقیات کوئی قیمت نہ رکھتی ہوں اور جہاں شرم و حیاء کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو اس قوم اور معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے، جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔

اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں ۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائے گی۔ انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویہ کے ما تحت کام کرتی ہے، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تویہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت، رواداری اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔ جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو خونی درندے کی طرح کھانے لگتا ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں ۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے۔ یہ مادر علمی کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ علوم کے ساتھ ساتھ طلباء کی اخلاقیات پر بھی بھرپور توجہ دیں ، انہیں اچھے اخلاق اور اعلیٰ اوصاف سے مزین کریں تاکہ طلباء جب یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد معاشرہ میں قدم رکھیں تو لوگ اس کے اچھے اوصاف و عمدہ اخلاق اور تہذیب کے سبب اس کے ادارہ کی بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں ۔
تعلیم و اخلاق کے بعد جو تیسری ذمہ داری مادر علمی اور طالب علم پر عائد ہوتی ہے وہ سماجی اغراض و مقاصد اورخدمات سے آگاہی ہے۔ ایک طالب علم کو اس سے بخوبی آگاہ ہونا چاہے کہ اس کے سماج میں ، اس کے معاشرہ میں اس کی کیا ضرورت ہے اور وہ اپنے معاشرہ کے لئے اچھے سے اچھا کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ ایک طالب علم اسی وقت اپنے سماج اور سوسائٹی کیلئے کار آمد ثابت ہو سکتا ہے کہ جب وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنے سماج سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ بھی ہو اور انہیں نبھانے کیلئے خود کو تیار بھی کرے۔ جب ایک طالب علم صرف اپنی توجہ کو حصول تعلیم کیلئے مرکوز رکھے اور اپنی سماجی ذمہ داریوں کیلئے خود کو آمادہ نہ کرے تو وہ عملی میدان میں ایک بہترین اور کامیاب انسان نہیں بن سکتا۔ سماجی و ملی منشوعات اور ضروریات اور ذمہ داریوں سے آگاہی اور ان کیلئے خود کو تیار کرنا ہی ایک طالب علم کومستقبل میں ایک نڈر اور کامیاب انسان بنا سکتا ہے اور اس سے نہ صرف اس کی عملی و علمی صلاحیتوں کا حقیقی معانی میں پروان چڑھانے کا سبب قرار پائے گا بلکہ وہی طالب علم جب میدان عمل میں قدم رکھے گا تو زمانہ طالب علمی کی اس کی محنت و جد وجہد اس کیلئے کارآمد ثابت ہو گی۔

چوتھی چیز جو بیک وقت مادر عملی اور طلباء پر عائد ہوتی ہے وہ سیاسی بصیرت کا حصول ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ایک سمجھدار اور ذہین طالب علم وہی ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے نشیب و فراز سے آگاہی کیلئے خود میں سیاسی بصیرت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیاسی بصیرت کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ ایک طالب علم اپنے علمی صلاحیتوں کو مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی بنیاد پر ضائع کردے بلکہ وہ دیکھے، مشاہدہ کرے کہ کون ان کے ملک و قوم کے لئے اچھا اور کون برا۔ زمانہ طالب علمی میں اپنے ملک اور خطے کے حالات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی حالات و واقعات کا صحیح انداز اور زاویے سے تجزیہ کرنا سیکھے۔ یہ تجزیہ و تحلیل اس میں سیاسی بصیرت کی بنیادوں کے استحکام کا باعث بنے گی۔ یہ سیاسی بصیرت اسے عملی زندگی میں مدد کرے گی کہ وہ زمانے کی رنگ رنگینیوں کے پر فریب مظاہر میں خود کو گم نہ کرے اور اپنے ملک میں عالمی سامراج اور اس کے استکباری نظام سے وابستہ افراد اور جماعتوں سے لا تعلقی کا اظہار کرے۔

پانچواں فرض جو مادرعملی اور طلباء پر عائد ہوتا ہے وہ تقویٰ کا حصول ہے۔مادر علمی کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسے افراد تیار کر کے معاشرہ کو دے جو تقویٰ، پرہیزگاری سے سرشار ہوں اور معاشرتی طہارت و پاکیزگی پر یقین رکھتے ہوں ۔ ان سے فارغ التحصیل طالب علم کوئی ایسا کردار ادا نہ کریں جو اسلامی معاشرہ کی پاکیزگی و پاکدامنی پر دھبہ ثابت ہوں اور وہ اپنے ادارے اور خاندان کی بدنامی کا باعث بنیں ۔ ایک حقیقی طالب علم وہ ہوتا ہے جو اپنی دنیا کو اپنی آخرت کیلئے مقدمہ سمجھتا ہے اور اس بنا پر اس کی تعلیم سمیت اس کی تمام فعالیت اس کی آخرت اور قرب الٰہی کا وسیلہ قرار پاتی ہے۔اس مقصد کے حصول کیلئے وہ اللہ کے قوانین کی حقیقی پیروی اور حلال و حرام کی جانب توجہ مبذول ہوئے اپنے رب کو اپنی زندگی سے راضی کرنے کی تگ و دو میں مصروف عمل رہتا ہے۔

زمانہ طالب علمی میں تقویٰ کے حصول کی کوششیں عملی زندگی میں اس کی معاون ثابت ہوں گی۔ اپنی زندگی میں خدا کے قوانین کو لاگو کرنا اور لازم الاجراء بنانا ہی ایک سچے مسلمان طالب علم کی حقانیت و صداقت پر دلیل ہے۔ یونیورسٹی کی فضا میں نامحرم طالبات کے ساتھ روابط وتعلقات میں اللہ کی مرضی و منشا کو مد نظر رکھنا اور حلا ل و حرام کی حدود کی پابندی کرنا ایک طالب علم کی اولین اور بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ایک مسلمان طالب علم ہونے کے ناطے ہم طالب علموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ زمانہ طالب علمی میں خود کو ان بہترین صفات سے آراستہ کرنے کی کوشش کریں جو نہ صرف اس کے لئے بلکہ اس کے خاندان اور ملک و قوم بہتر ثابت ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔