مسلمانوں کا تجارت پیشہ اور صنعت کار طبقہ اسلام کا سر اونچا کرسکتا ہے!

میم ضاد فضلی

یہ ایک مسلمہ تا ریخ ہے کہ دنیا میں مذہب اسلام تیرو تفنگ سے نہیں پھیلا، نہ ملا کی لمبی لمبی، لچھے دار، جوشیلی اور جذبات کو بھڑکا دینے والی تقریروں سے پھیلا ہے، بلکہ دنیائے انسانیت کو جس چیز نے بے ساختہ مذہب اسلام کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور کیا وہ اعلی اسلامی تعلیمات سے آراستہ ان کے معاملات اور اخلاقیات سے معمور ان کے طرز رہائش تھے،جس نے دشمنوں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ مشہورمغربی مصنف اسٹین لی پول نے اپنی کتاب ’’اسلام ان چائنا‘‘میں مسلمان تاجروں کی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیاہے۔’’وہ متعصب نہ تھے، بلکہ جہا ں تک شریعت اسلامی انہیں اجازت دیتی تھی وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔وہ چینیوں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں ۔‘‘

مسلمان تجار کے یہی اعلیٰ اخلاق کی بدولت وہ جن راستوں پر چل کردنیاکے مختلف حصوں میں تجارت کرنے جایا کرتے تھے، وہ سب اسلام کے سایہ عاطفت تلے آتے چلے گئے۔

ایک اورمستشرق ہیدنے مسلمان تاجروں کی عظمت وکرداراوران کی تبلیغی مساعی پر جن الفاظ سے روشنی ڈالی ہے ملاحظہ کریں ۔ ’’یہ امردلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ دنیاکا نقشہ بتاتاہے کہ جہاں سے مسلمانوں کے تجارتی قافلے گزرتے گئے، وہاں آس پاس کی آبادیاں مسلمان ہوتی گئیں ۔‘‘ ایک دیگرمستشرق آرنلڈکے قلم سے مسلمان تاجروں کی مدح سرائی بھی سنیے۔’’ان تاجروں کے ساتھ ساتھ داعیانِ اسلام، جو دراصل تاجرہی تھے۔ مسلمان تاجروں کے متعین کردہ تجارتی راستوں پر پیدل اورسوارچل کر ان علاقوں میں اسلام کی شمع روشن کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جن راستوں پر چل کر مسلمان تاجردنیاکے مختلف حصوں میں تجارت کرنے جایا کرتے تھے، یعنی حبشہ، صومالیہ اورافریقہ کے دوسرے ممالک مثلا کینیا، یوگنڈا، تانگانیگاو غیرہ اسلام کے سایہ عاطفت تلے آگئے۔دراصل ان ممالک کی فتوحات شمشیروسناں سے زیادہ مسلمان تاجروں کی صداقت وعظمت کی رہین منت ہیں ۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ نے چین کا سفر کیاتواس نے مسلمان تاجروں کا حال یوں بیان کیا۔ ’’ چین کے تمام شہروں میں مسلمانوں کے مکانات تھے اوران کے ہرمحلے میں مسجد تھی جہاں وہ نمازیں اداکرتے تھے، وہ نہایت معززاورمحترم تھے‘‘۔

مسلمان تاجروں کی بلند اخلاقی اور معاملات کی صفائی اور ’’سستا بیچو زیادہ بیچو‘‘ جیسے اقتصادیات کے اسلامی تعلیمات کے طفیل ہندوستان کا جنوبی حصہ بھی ہادی عالم ﷺ کے زمانے میں ہی اسلام کا گرویدہ ہوگیا تھا۔انہیں مسلمان تاجروں کے اخلاق اس قدر بھاگئے تھے کہ وہاں کے مقامی بادشاہ نے عرب تاجروں کیلئے باضابطہ مسجد تعمیر کراکردی تھی،جہاں مسلمان تاجروں کو ٹھہر نے اور ان کی ضروریا ت کی تما سہولتیں مہیا تھیں ۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوڈنگلور کی چیرامان مسجد اسی زمانے میں مسلمان تاجروں کی عبادات اور قیام کیلئے تعمیر کرائی گئی تھی جب دنیا کا بہت ہی مختصر حصہ اسلام سے متعارف ہوسکا تھا۔ حالاں کہ باد شاہ چیرا من نے بعدمیں خود مذہب اسلام قبول کرلیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان کی  قدیم ترین مسجد کا تعلق  وطن عزیز کے جنوبی ساحل پر پھیلی ہوئی ریاست ’’کیرالہ‘‘ کے شہر’’کوڈنگلور‘‘ سے ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق اس مسجد کو حضرت مالک بن دینار البصری رحمہ اللہ نے کم از کم 1300 سال قبل اسی غیر مسلم بادشاہ کے خرچ پرتعمیر کیا تھا۔ حضرت مالک بن دینار نے 127 ہجری میں اسی شہر میں وفات پائی۔وہ اپنے آبائی وطن سے دور اسی شہر میں مدفون ہیں ۔’’چیرامان جامع مسجد‘‘ کی تعمیر اس وقت عربوں اور ہندوستان کے درمیان مستحکم تجارتی تعلقات کی دلیل ہے جو صرف اسلام اعلی اخلاقی قدروں کے نتیجے میں ممکن ہوسکی تھی۔ عرب تاجر جہاں گئے انہوں نے اسلام کی دعوت دی۔ اس دوران ہندوستان میں چیرا سلطنت کے آخری بادشاہ چیرامن پیرومل کی بعض عرب تاجروں سے ملاقات ہوئی جن کے ایمانی کردار سے وہ بہت متاثر ہوا۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم عصر تھا، اس لیے فوری طور پر مدینہ روانہ ہوگیا۔’’سوشل اسٹرکچر اینڈ چینج‘‘ نامی کتاب کے مطابق چیرامن پیرومل نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام تبدیل کرکے تاج الدین رکھ لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ چیرامن ہندوستان واپسی کے سفر کے دوران راستے میں فوت ہوگیا تھا۔ اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ جو تابعی ہیں ، انہوں نے یہ مسجد تعمیر کی۔ تاریخی حقائق کے اعتبار سے ان واقعات کے زمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مگر اس اختلاف کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ’’چیرامن جامع مسجد‘‘ دنیا کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے اور یہ مسلمان تاجروں کے حسن معاملہ اور اعلی اخلاقی قدروں کی بہترین یادگار ہے۔ اسی واسطے وزیراعظم نریندر مودی سعودی فرماں روا کے لیے اس قدیم ترین مسجد کا سونے کا پانی چڑھا ماڈل تحفے کے طور پر ساتھ لے کر گئے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم اپنی تجارتوں میں اسلامی اخلاق اور حسن معاملہ کو پیش پیش رکھتے تھے تب کٹر سے کٹر مخالف بھی بے تحاشہ  اسلام کی طرف دوڑتا چلا آتا تھا۔مگر آج ہمارے تجارت پیشہ طبقہ کے اخلاقیات اس قدر پستہ ہوچکے ہیں کہ ان کا مشاہدہ کرنے والا مسلمان کے نام سے ہی الٹیاں شروع کردیتا ہے۔

آج ہمارے اخلاق کسشدید پستی کا شکار ہیں اور معاملات یا تجارت میں ہم نے امانت کا و دیانت کے چیتھڑے ادھیڑ کر مذہب اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے، اس کی زندہ مثال رواں ماہ مقدس کے شب وروز ہیں ، جہاں پھلوں سے لے کرافطار کے پکوڑے تک پر تین گنا منافع وصول کیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ رمضان کا بابر کت مہینہ اور عید سعید کا مقدس تہوار ہر سال آتا ہے، علماء اور واعظوں کے بقول برکت کے اس مہینے میں ہم عامۃ المسلمین کی جیبوں پر ہی نہیں ان کی کھالوں پر بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں اور انھیں ننگا کر دیتے ہیں ۔ابھی تو صرف ماہ مقدس رمضان میں ہماری نفع خوری کی یہ انتہا ہے۔ تصور کیجئے کہ جب ہما رے معاشرہ کا غریب مزدور اپنے بچوں کی عید کے جوڑے خریدنے مسلم محلوں کی دکانوں میں ٹوپی پہنے اور ہاتھ میں تسبیح لئے دکانداروں کا رخ کریں گے اس وقت ہمارے غریب و مفلس بھائی کی کیا حالت ہوگی، یہ ہمارا اسلامی اخلاق ہے۔ یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو نہ اخلاق رہے گا اور نہ مسلمان باقی رہیں گے۔ یہ تاریخ کا اور قدرت کا اصول ہے کہ صرف اچھی چیز ہی باقی رہتی ہے ناقص ختم ہو جاتی ہے۔

رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی ہمارے تاجر صاحبان  جو اکثر حاجی نمازی ہوتے ہیں ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں اور اپنی دکانیں ہی نہیں گودام بھی سامان فروخت سے بھر لیتے ہیں ۔ جن اشیاء کا ذخیرہ نہیں ہو سکتا، مثلاً سبزیاں ، پھل وغیرہ ان کے نرخ روزانہ کے حساب سے بڑھادیے جاتے ہیں ۔ میرے ایک دوست کی بیوی کا فون آیا جو بازار سے ہو کر آئی تھی کہ افطاری میں حسب معمول سب کچھ ملے گا، لیکن فروٹ چاٹ نہیں ملے گی جس کی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ رمضان کے مہینے میں پھل فروٹ اور دوسری اشیاء کی پیداوار کم ہو جاتی ہے اور نہ ہی قدرت کسی تہوار سے ناراض ہو جاتی ہے۔بات ساری ہمارے اسلام سے نامانوس کردار اور حرص و ہوس کی ہے جو آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی خبر نہ آ جائے کہ خریداروں نے منڈی میں سامنے پڑے سامان کو لوٹ لیا ہے اور پھر یہ سلسلہ چل نکلے۔ ہماری تجارتی زندگی میں زوال کی وہ حد آ گئی ہے جب کبھی کسی پرانے دور میں کسی قوم میں آتی تھی تو اس پر خدا کا عذاب نازل ہوتا تھا۔ کتنی ہی عاد و ثمود جیسی قوموں کے کھنڈرات ہم آج دیکھتے ہیں اور ان کی نحوست کا اب بھی یہ حال ہے کہ ان کے قریب سے بھاگ کر گزرتے ہیں ۔ مسلمان قوم میں وہ ساری نحوستیں اور بد کرداریاں بدرجہ اتم موجودہیں  جو قوموں پر عذاب الٰہی کا باعث بنتی تھیں ۔ مثلاً آپ بیشتر مسلمانوں کے گھروں میں کوئی میٹر درست دکھا دیں ، کوئی ناپ تول کا ترازو درست دکھا دیں اور کاروباری عہد و پیماں جو کبھی زبانی کلامی ہوا کرتے تھے اب تحریری صورت میں بھی بے کار ہو گئے ہیں ۔ کاروباری لوگ ہاتھ پر کپڑا ڈال کر انگلیوں کے اشاروں کے ذریعے کاروباری معاملے طے کرتے تھے، تب بھی یہ مستند ٹھہرتے تھے۔ اب تو ہر بات حد سے گزر چکی ہے۔

ہمارے سرمایہ دار اور صنعت کار مسلمانوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ بھلے سے وہ ملاوٹ کریں ، اشیاء کی قیمتیں چار گنی وصول کریں ، اپنے نقلی اور ملاوٹی مصنوعات کی قسمیں کھا کھاکر تشہیر وتعریف کریں ۔ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ یہ ساری ترکیبیں اسلامی تجارت میں فریب کے زمرے میں آتی ہیں اور فریب دے کر مال بیچنا حرام ہے اور اس سے ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں ہوسکتی۔ چاہے آپ سفید ریش، جبہ و عمامہ پوش مولویوں کی جماعت کو اپنے دسترخوان پر بٹھاکر لاکھ کھانا کھلائیں ، فائیو اسٹاردعوتوں سے ان کے کام و دہن کو محظوظ کریں ،ہر سال عمرہ ادا کرنے چلے جائیں ، روضہ رسول کی جالی پکڑ کر روئیں ، گڑگڑائیں ، مفلس و مساکین کے درمیان خیرات لٹاکر فوٹو کھنچوائیں اور اگلے روزاخبارات میں چھپواکر واہ واہی لوٹیں ، اپنی داد ودہش کے ڈھنڈورے پیٹ کر صاحب توند مولویوں کے منہ سے تعریفوں کی بارش کروائیں ۔ ان ساری نیکیوں اور اور اعمال صالحہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

جب تک ہمارے اندر دوسروں کو فریب دینے، دونمبر کے مال کو ایک نمبر کہہ کر بیچنے اور چار گنا سے چھ گنا نفع لے کر غریبوں کوترسانے کی لت موجود ہے، اس وقت تک ہمارے اعمال اور کردار سے مسلم معاشرہ ہی نہیں بدنام ہوگا، بلکہ اس اللہ کا بھیجا ہوا دین اسلام جو ہمارے لئے سب سے عظیم نعمت ہے یہ نعمت بدنام ہوگی اور اس کا سبب ہم ہی لوگ ہوں گے اور ہوبھی رہے ہیں ۔ خاص کرہمارا تجارت پیشہ طبقہ اورمسلم صنعت کار وں کا گروہ جب تک یہ اس خوش فہمی میں مبتلارہے کہ بڑے بڑے بھاری بھرکم مولاناؤں کو دسترخوان پر اپنے ساتھ بٹھاکر محض کھانا کھلادینے سے سارے ناجائز کام جائزہوجائیں گے اور اپنے مزدوروں اور ملازموں کے خون چوسنے کی روش گناہ نہیں رہے گی۔ یہ سب خام خیالی ہے اورایسی داد ودہش، نام نمود اور دکھاوے کی خیرات سے اللہ کریم کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے غیر اسلامی کردار اور اخلاقی پستی سے نہ معاشرہ کا بھلاہو گا، نہ مذہب کا سر اونچا ہوگا،بلکہ معاملہ اس کا الٹا ہوگا۔ہم نے قوم عادو ثمود کی تباہی کی جانب انہیں سطور میں توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے مظالم، اپنے ملازمین اور مزدوروں کے ساتھ زیادتی اور بد اخلاقی ترقی کے بجائے ہماری تباہی کا شاخسانہ بن سکتی ہے۔ انسانی تاریخ میں اس قسم کی ہزاروں داستانوں سے بھری پڑی ہے۔اللہ ہمیں سمجھنے اور اپنے معاملات کے ساتھ کردارو اخلاق کو اسلام کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔