مسلمانوں کو دین کیوں سمجھ میں نہیں آتا؟

قمر فلاحی

 قرون اولی کے مسلمانوں کا ذہن و دماغ اسلام قبول کرنے سے قبل توحید سے خالی تھا،یا توحید کے خلاف نظریہ ذہن ودماغ میں بھرا ہوا تھا لہذا پہلے تو توحید کے خلاف منفی خیال توحید کے فلسفہ سے ٹکرایا اور متصادم ہوا مگر جونہی توحید کے فطری دلائل ملتے گئے ذہن و دماغ کا خالی پن پُر ہوتا گیا اور منفی خیالات نکلتے چلے گئے۔

آج غیر مسلموں کو اسلام سمجھنے میں دشواری بھی اسی وجہ سے ہورہی ہے، اور اسلام قبول کرنے کے بعد پرانے مسلمانوں کے مقابلہ میں نئے مسلمان اسی لئے مضبوط ثابت ہو رہے ہیں۔

دوسری طرف آج مسلمانوں کو دین سمجھ میں نہ آنے کی وجہ ذہن ودماغ میں اسلام کے تعلق سے فاسد نظریات کا پایا جانا ہے، مسلمانوں کا ذہن پہلے سے پُر ہے جسے وہ کسی حال بھی خالی کرنے کو تیار نہیں ہیں، اور فطرت کا یہ اصول ہے کوئ جگہ خالی نہیں ہوتی، کسی نئ چیز کو پُر کرنے کیلئے پہلے پرانی شئے کو نکال باہر کرنا ہوتا ہے۔

مسلمانوں نے پہلے سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اسے دین اسلام کی ساری باتیں معلوم ہیں کیوں کہ وہ پیدائشی مسلمان ہیں،جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے مسلمانوں کی اکثریت کا عالم یہ ہیکہ انہیں صف بندی اور نماز کے بنیادی مسائل تک نہیں معلوم ہیں، انہیں قبر میں مردوں کو اتارنے اور نماز جنازہ کی دعائیں نہیں معلوم، انہیں قربانی کرنے اور کفن پہنانے کیلئے جانکاروں کی تلاش کرنی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب دین اسلام کی کسی باریکی پر گفتگو ہوتی ہے تو مسلمانوں میں بے نیازی دیکھنے کو ملتی ہے۔

تمام مسالک اور مکتبہ فکر کی نصاب تعلیم جُدا جُدا ہیں، کسی نصاب تعلیم کا مقصد عقیدہ کو مضبوط کرنا، کسی کا اخلاقیات پہ زور دینا،اور کسی کامقصد علماء اور بزرگوں کی تعظیم ذہن و دماغ میں بٹھانا ہے۔

کسی نصاب تعلیم میں حلالہ جائز ہے، کہیں حرام ہے، کسی نصاب تعلیم میں فاتحہ خلف الامام کے بغیر نماز نہیں ہوتی، اور کسی نصاب تعلیم میں یہ بتایا گیاکہ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں کی نماز نہیں ہوتی۔ کہیں مسح چوتھائ سرکا فرض ہے تو کہیں مکمل سرکا مسح فرض ہے۔ یہ دومتصادم نظریات رکھنے والے یکساں طور پہ دین کے اصل خادم ہونے کا دعوی کرتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلط ہے اس میں سے کوئ ایک ہی درست ہے۔

یہود ونصاری کے تعلیمی عروج کی وجہ ہر چیز کو تحقیق کی نظر سے دیکھنا ہے چنانچہ وہ اسلامی نظریات کی نفی کرنے کیلئے انتھک کوششیں کرتے ہیں مگر جب انہیں انکار کرنے کی کوئ وجہ نہیں ملتی تو بالآخر پکار اٹھتے ہیں لا الہ الا اللہ۔

مسلمانوں میں عجیب و غریب خصلت پائ جاتی ہے، وہ کسی چیز کو درست بھی نہیں مانتے مگر اسے قبول بھی کر لیتے ہیں اور برداشت بھی کر لیتے ہیں۔ کسی چیز کو وہ حرام بھی کہتے ہیں مگر جو لوگ حرام کر رہے ہیں ان کی اصلاح بھی نہیں کرتے، اور ایک عجیب نظریہ رکھتے ہیں کہ "یہ ہمارے نزدیک حرام اور انکے نزدیک حلال ہے ” ان لوگوں  نے شریعت کو اپنی ذاتی پروپرٹی بنا رکھی ہے۔ ایسے منافقانہ ذہنیت والے دین کی بصیرت کبھی نہیں حاصل کر سکتے۔ ان کے دلوں پہ قفل لگے ہوئے ہیں۔

مدارس کے نظام میں ایک چیز کو دین سمجھ کر پڑھا اور پڑھایا جاتاہے وہ ہے اختلاف۔ اس مسئلہ میں فلاں،فلاں کا اختلاف ہے۔ پھر جرات یہ ہیکہ "اختلاف امتی رحمۃ” والی حدیث گھڑ لی گئ ہے۔ اسی بات کو اس انداز سے بھی کہا جاسکتاتھا کہ فلاں حدیث کی بنیاد پہ فلاں عالم نے اس مسئلہ کو اس طرح سمجھا ہے۔ مگر یہ سوچ اور فکر اب تک مسلمانوں میں بیدار نہیں ہوپائ ہے۔

مدرسوں سے فارغ یہ طلباء اپنے سروں کی ٹوپیاں، جسم کا لباس، کرتوں کو دامن کو تبدیل تک کرنا بھی حرام سمجھتے ہیں تو ایسے چکنے صراحی پہ کوئ پانی کی چاہے جتنی دھار بہا لے کوئ فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ واللہ آپ ٹوپی اور کرتہ سے یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کس مکتبہ فکر کے علماء ہیں۔

اب ایک مثال سے اس بات کو سمجھئے اللہ سبحانہ نے یہ فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑے [زوج ] کی شکل میں پیدا کیا۔ یہ ایک بات قرآن مجید میں اصولا بیان کر دی گئ ہے،اب علماء دین نے زوج اور زوجہ  کو الگ الگ کیا اور زوج معنی شوہر اور زوجہ معنی بیوی بتادیا۔۔۔۔۔۔ یہ بات ذہن میں بیٹھا دی گئ اب کیا مجال کہ کوئ شخص اس معنی کو ان علماء کے ذہن سے نکال دے الا ماشاء اللہ

یہود و نصاری اور دین کے مخالفین نے زوج کو اصل حالت پہ رہنے دیا، اس میں تحقیق کی اور انکی تحقیق یہاں تک پہونچی کہ انہوں نے کائنات میں ہر چیز کے جوڑے تلاش کر لئے اور اس جوڑے کی حقیقت سے بے انتہا فائدہ پہونچایا۔ اب آپ الیکٹرک کی مثال ہی لے لیں اس میں مثبت positiveاور منفی negativeلائن ہوتی ہے یہ آپس میں جوڑے ہیں، ایک کے بغیر دوسرے کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔

اب علماء تو میاں بیوی میں الجھے رہے اور اغیار اصل کو لیکر کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

اس ذہنی پستی اور زوال سے نکلنے کا واحد راستہ ہیکہ ہر چیز کو تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے، یہ عقیدہ بنایا جائے کہ کسی انسان کی تحقیق اور فکر آخری نہیں ہوسکتی سوائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ انہیں براہ راست وحی ملتی تھی، اس ہستی کے علاوہ ہر شخص کی بات کو شک کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ کتاب و سنت کی اصطلاحات اور اصولوں کی ہر زمانے میں زمانے کے مطابق تطبیق دینے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ اسلامی اصول وضوابط ہر زمانے کیلئے نئے ہوتے ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم یہ مان کر چلیں کہ ہمیں بہت کچھ نہیں معلوم ہے جیسے ہی ہمارے ذہن میں یہ بات سرایت کر جائیگی کہ ہمیں بہت کچھ اور سارا کچھ آتاہے اسی لمحے علمی زوال شروع ہوجائے گا۔

حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ جو سورہ کہف میں ہے اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ علم کا منبع اللہ کی ذات ہے وہ جسے چاہتا ہے علم عطا کرتاہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کا علم حضرت خضر علیہ السلام سے کم تھا، جب کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ چونکہ وہ نبی ہیں لہذا اس وقت ان سے زیادہ دین کا جانکار کوئ نہیں  ہے۔

سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو فوقیت اللہ تعالی نے عطا کی، مثلا جنگ بدر کے قیدیوں کے تعلق سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں پیسوں کے بدلے نہ چھوڑا جائے۔ اسی طرح عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھانے کے تعلق سے حضرت عمر کی رائے یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں۔

ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔یعنی علم بھی اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے جتنا عطا کردیتا ہے۔ من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔ اور جسے چاہتا ہے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔