مولوی صاحب کی دھواں دھار تقریر اور ہماری قوم

عزیز اعظمی

میں سعودی عرب  کی ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازم ہوں ، اکثر پروجیکٹ شہر سے باہر ہوتے ہیں اس لئے کمپنی کے کیمپ میں ہی رہائش رہتی ہے، یہاں تو مسجدوں کے امام حکومت کی طرف سے منتخب ہوتے ہیں لیکن کمپنیز کے عارضی کیمپوں کی مسجدوں میں کوئی امام منتخب نہیں ہوتا لیکن سعودی اسلامک سینٹر کی طرف سے دین و اسلام کی خدمت پر معمور ہندوستانی، پاکستان، فلپائن سمیت دیگر ممالک کے علمائے دین کیمپوں میں آکر وعظ و نصیحت کرتے ہیں ، کبھی کبھار تو ہمارے ملکوں کے علماء اپنی روایتی انداز میں دھواں دھار تقریر بھی کرتے ہیں بلاشبہ قوم و ملت کے لئے علماء کی خدمات اور انکی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، علمائے کرام اسلامی معاشرہ کے فکری معمار ہیں، جو دینی معاشرہ کی درستگی کے لئے ایک موثر کردار ادا کرتے ہیں۔

 لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود محرابوں اورممبروں سے ملت کو جس قدر فائدہ پہونچنا چاہیے تھا وہ نہیں پہونچ سکا۔  پچھلے جمعہ کو میرے کیمپ کی مسجد میں مولانا انتہائی پرجوش انداز میں  تقریر کر رہے تھے۔ میں اپنے کمرے میں تھا کہ میرے کانوں میں ایک جوشیلہ انداز بیان سنائی دیا، میں جلدی سے تیار ہوا اور مسجد چلا گیا کہ مولانا کسی اچھے موضوع پر تقریر کر رہے ہیں شاید دین و اسلام کی کچھ ایسی باتیں، قرآنی آیت کی کچھ ایسی تفسیر اور تحقیق سننے کو مل جائے جو ابتک نہ سنی ہو، جیسے مسجد کے قریب ہوا تو سنا کہ وہ موسی علیہ السلام اور فرعون کے قصے سنا رہے تھے۔ قارون کے خزانے کی بات کر رہے تھے، جس کو بارہا سن چکا تھا ، مولانا اپنے جوشیلے انداز بیان سے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ دنیا کہ ساری چیزیں اللہ کی ہیں اور دنیا کی ساری ایجادات، ساری ترقیاں اللہ ہی کی ہیں انسانوں کا اس میں کوئی کردار نہیں۔

میں ایک تعمیراتی کمپنی میں ہوں تعمیراتی کمپنیوں میں عمارتوں کی تعمیرات کے لئے مشینریوں کا بہت استعمال ہوتا ہے، اس لئے بڑی بڑیں کرینیں ، بولڈزر، جی سی بی، فورک لفٹ وغیرہ باہر کھڑی تھیں ، انکی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا بڑے پر اعتماد اور جوشیلے انداز میں کہ رہے تھے ، اے مسلمانوں ! باہر  یہ جو بڑی بڑی مشینیں تم دیکھ رہے ہو اسکا بنانے والا اللہ ہے انسانوں کی بس کی  بات نہیں ، لوہا، تانبا، سونا، چاندی سب اللہ ہی کا ہے بس انسان تو اسکو ٹیڑھا۔  میڑھا کر کے کچھ چیزیں بنا لیتا ہے۔  مسلمانوں ! امیریکا نے ہمیں جہاز بنا کے دیا کوئی احسان نہیں کیا، موبائل بنا کے دیا تو احسان نہیں کیا، لاپ ٹاپ، کمپیوٹر بناکے دیا تو احسان نہیں کیا، یہ ساری چیزیں تو اللہ کی ہیں ، ہوا،  بجلی،  پانی، لوہا، تانبا، ساری نعمتیں تو اللہ کی ہیں اگر اللہ یہ سب چیزیں نہیں دیتا تو انسان کے بس میں تھا کہ کوئی چیز بنا لیتا – دل تو چاہا کہ وہیں مسجد میں یہ سوال پوچھ لوں کہ مولانا یہ لوہا، تانبا ساری نعمتیں صرف امیریکا کے لئے تو نہیں آپ کے لئے بھی تو تھیں جو امیریکا نے بنا کے دیا وہی آپ بنا لیتے، آپ دنیا میں بھی کامیاب نظر آتے اور آخرت میں بھی۔  لیکن میرے اس سوال پر بوال ہو جاتا اس لئے خاموشی سے بیٹھ کر مولانا کی بات پر لوگوں کے ساتھ  انکے ہر جملے پر سبجان اللہ پڑھتا رہا اور انکی تقریریں سن کر اپنے اندر کا سارا جذبہ سارا حوصلہ مارتا رہا کہ جب سب کچھ کرنے والا اللہ ہے تو مجھے کرنے کی کیا ضرورت، مجھے  سوچنے کی کیا ضررت، کچھ بنانے کی کیا ضرورت جب اللہ کی مرضی ہوگی تو بن جائے گا۔

 نماز کے بعد میں مولانا کی تقریر اوراپنی سوچ سے لڑتا ہوا مسجد سے روم پر آیا اور یہی سوچتا رہا کہ جب سب کچھ اللہ کرتا ہے تو اس تپتی ریت میں ساحل سمندر پر پٹرول نکالنے کی  لئے، پھر اسکو ریفائن کرنے کے لئے ان مشینوں کو لگانے کے لئے سعودی عرب کو انگریز کمپنی آرامکو کو بلانے کی کیا ضرورت، ہندستانی، بنگلادیسی لاکھوں مزدوروں کی خدمات لینے کی کیا ضرورت، پھرپیٹرول نکالنے کے بعد اسکے بچے ہوئے میٹیریل سے سبزی کی پلاسٹک سے  لیکر کمپیوٹر کی پلاسٹک  تک، پھر کارپیٹ سے واسلین اور اسکی ڈبی بنانے تک  کی مشینیں لگانے کی کیا ضرورت، پھر ان مشینیوں کے بنانے اور ایجاد کرنے کی کیا مطلب، جب اللہ کی مرضی ہوتی تو اللہ ان عربوں کے ہاتھوں پیٹرول نکلوا لیتا امریکن انجینئر اور انکے ماہرین کو بلانے کی کیا ضرورت، میں اپنی سوچ اور مولانا کی تقریروں میں الجھ کر رہ گیا، مجھ جیسے ہزاروں کم پڑھے لکھے لوگ، قرآن کی آیت کا مطلب اور تفسیر نہ سمجھنے والے لوگ، قرآن کی ایک ایک آیت کی  گہرائی اور گیرائی کو نہ سمجھنے والے لوگ، ان آیتوں پر تحقیق اور تدبر نہ کرنے والے لوگ مولانا کی ان باتوں پر مطمئن ہر روز صبح کام پر جاتے ہیں اور شام تک تپتی ریت میں اپنا پسینہ نچوڑتے ہیں، پتھروں کو کاٹتے اور توڑتے ہیں اور مشینوں کو بنانے والے اسکے ایجاد کرنے والے ایرکنڈیشن کی ٹھنڈھی ہواوں میں بیٹھ کر ہم پر حکمرانی کرتے ہیں ، ہم مولانا کی تقریر سن کر توکل علی اللہ پڑھ کر عقل اور دماغ کو گھٹنے میں رکھ کر شام کو پتھر توڑ کر واپس آتے ہیں اور واٹس اپ، فیس بک دیکھ کر سو جاتے ہیں اور دنیا کی نعمتوں پر غور کرنے والے، صحرا، خشکی،  سمند ، حجر و شجر پر اللہ کی نعمتوں کو تلاش کرنے والے کے محتاج بنے رہتے ہیں ، اور پھر یہ جواز نکالتے ہیں کہ سب کچھ اللہ کرے گا، وہی کھانا بھی پکائے گا  وہی اپنے ہاتھوں سے کھلائے گا بھی۔  ارے اپنی عقلوں کو گھٹنے میں رکھنے والوں ، بیشک نعمتیں اللہ کی ہیں اللہ نے ساری نعمتیں تو تم کو دے دیں ہیں اب تم اپنی عقل اور دماغ سے ان نعمتوں سے قسم قسم کی چیزیں بناو، نئی نئی  چیزیں وجود میں لاو اگر تم عقل والے ہو، اللہ نے قرآن میں واضح طور پر بیان کیا کہ۔

قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ۔ (یونس: ۱۰۱)

ان سے کہو ’’زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو‘‘۔

وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعاً مِّنْہُ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَاٰیٰتٍ لَّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ۔ (الجاثیۃ: ۱۳)

اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمھارے لیے مسخّر کردیا۔ سب کچھ اپنے پاس سے۔  اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں ۔

اللہ نے اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ ہم پر کچھ خاص انعامات کئے، ہمارے لئے کچھ خاص نظام بنائے جن میں سے ایک جمعۃ کا مبارک دن ہے تاکہ تم متحد رہو، ایک رہو، اور اکٹھا ہوکر اللہ کا ذکر بھی کرو اور اپنے مسائل کا حل بھی تلاش کرو  جمعۃ کی شکل میں اجتماعیت کا ایک بہترین نظام جو رب العالمین نے ہمیں دیا وہ نظام دنیا کی کسی اور قوم کے پاس نہیں ، لیکن اس اجتماعیت اور اس دن کی اہمیت اور فضیلت کا جو فیض قوم و ملت کو ملنا چاہئے تھا وہ شاید نہیں مل سکا۔  قران و حدیث کی روشنی میں مسجدوں کے اونچے میناروں اور ممبروں سے خطیبوں اور مقروں کی آواز سے  دین و اسلام کی روشنی میں ملت اسلامیہ کو جس مقام پر ہونا چاہیے تھا وہ مقام نہیں مل سکا، دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں ہمارا شمار نہیں ہو سکا –

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہجرت کے بعد کا کئی صدیوں تک مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا جس میں مسلمانوں کی ترقی و ترویج ایک مقام رکھتی تھی اس وقت یوروپ تاریکیوں میں تھا اور مسلمان اسلامی شناخت کے ساتھ  سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور میں نیا باب رقم کر رہا تھا معدنیات، نباتات، حیوانات، علمِ کیمیا، طبعیات، فلکیات، ریاضیات، طب اور فلسفہ  تک کی، تحقیق و تفتیش کا ثبوت پیش کر رہا تھا۔  مسلمانوں کی اس کامیابی پر امریکی سائنسی مورخ چارلس گیلسپی نے اپنی مایا ناز کتاب ڈکشنری آف سائنٹفک بایوگرافی میں عہدِ وسطی کے ایک سو ینتیس سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی تھی جنہوں نے اپنی تحقیقات سے سائنس کو فروغ دیا  اس فہرست میں ایک سو پانچ سائنس دانوں کا تعلق اسلامی دنیا سے تھا۔  صرف دس سے بارہ ہی تھے جن کا تعلق  یوروپ سے تھا۔  ابر بن حیان، ابنِ سینا، زکریا الرازی، البیرونی، الخوارزمی، الکندی، ابونصرالفارابی، ابنِ رشد، ابنِ زہر، ابنِ خلدون،  الطوسی جیسے بے شمار مسلم سائنس دانوں نے تحقیق و تخلیق کے میدان میں کارہائے نمایا انجام دیئے لیکن افسوس کہ پندرہوں صدی تک پونچتے پہونچتے مسلکی اختلافات کا ایسا زہر پھیلا کہ مسلمان زوال کا شکار ہوگئے اور ان کی سیاسی، علمی، سائنسی ساری قوتیں مفلوج ہو کر رہ گئی اسکے بعد سے مسلمانوں کی پستی کے دور کا جو آغاز  ہوا وہ اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لیا۔

اب ایسے حالات سے باہر نکالنے کی زمہ داری ہمارے علمائے دین کی تھی کہ وہ ممبروں اور میناروں سے مسلمانوں میں حوصلہ پیدا کرتے اور کہتے کہ ساری تحقیق اور ایجادات کا محور قران ہے تم اس قران کی روشنی میں دین و شریعت پر عمل کرتےہوئے  سائنس اور ٹیکنولوجی کی میدان میں خود مختار بنو اورنئی نئی دریافت کرکے قران کی عظمت کو دنیا کے سامنے پیش کرو اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کرتے ہوئے کہو کہ دیکھو اللہ نے ہمیں اپنی کتاب دی اور اسکی روشنی میں ہم نے خلاء میں سٹلائیٹ لگا دی، قرآن آیات پر تحقیق کیا توکمپیوٹر اور موبائل بنادیا، قرآن پر تدبر کیا تو  جہاز اور راکٹ بنا دیا، تاکہ وہ قرآنی آیات کے کرشمے، ہمارے کارنامے، اللہ کی کتاب کی عظمت سے متاثر ہو کر ایمان لاتے لیکن افسوس کہ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا، بجائے اسکے کہ  یھود و نصاری ہم سے متا ثر ہوتے ہم ان سے متاثر ہو گئے، وہ قران پڑھ کر اسکی آیتوں پر تحقیق کر دنیا کو اپنی ٹیکنلوجی اور ایجادات سے بھر دیا، اور ہم ایجاد کرنا تودور انکی دی گئی ٹکنالوجی کے صحیح استعمال کا ہنرتک نہ سیکھ سکے،  ہمارے علماء جن کو قرآنی تعلیمات اور تحقیقات پر زور دینا چاہئے تھا، قرآن کے ترجمے اور تفسیر کو عام کرنا چاہئے تھا وہ علماء صدیوں سے مسلکوں اور فرقوں میں بنٹ کر ایک دوسرے پر کفر کا فتوی لگاتے رہے، دنیاوی تعلیم کو حرام قرار دے کر جلسہ، جلوسوں ، تقریروں میں صرف ہارون و قارون کے قصے سناتے رہے، حضرت یوسف اور زلیخا کی خوبصورتی بیان کرتے رہے، لیکن ان آیتوں پر کبھی زور نہیں دیا جہاں تعلیم کی بات ہے، ان آیتوں پر کبھی جوشیلی تقریر نہیں کی جہاں دنیا پر غور و خوض کرنے کی بات ہے۔

جب کہ قرآن میں اللہ نے کہا کہ:

وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO

اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر اُن کی سیاہی، اُس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (یعنی کلامِ اِلٰہی کی وُسعت و جامعیت کا اِحاطہ نہیں ہو سکے گا)، بیشک اللہ تعالی غالب حکمت والا ہے۔

ہم نے پھر بھی کبھی ان آیتوں غور نہیں کیا، نہ کبھی اسکی تلقین کی نہ کبھی اس بات پر زور دیا کہ تم بھی ریسرچ کرو، تم بھی سائنس داں بنو، تم بھی انجینیئر، ڈاکٹر بنو، مولویت کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کو بھی تعلیم کا حصہ سمجھو، قران و حدیث کو پڑھو اس پر عمل کرو، اللہ کی نعمتوں کو بروئے کار لاکر تم بھی نئی نئی چیزوں کو ایجاد کرو، دریافت کرو اور ثابت کرو کہ اس دنیا کی تعمیر و ترقی میں ہمارا بھی حصہ ہے۔

لیکن افسوس کہ ہمارے علماء نے قرآنی آیت کے ذریعہ ہمارے حوصلے بلند نہیں کئے، قوم کے اندر تعلیم کی وہ روح نہیں پھونکی جو آخرت کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا میں بھی کامیاب بناتی،  وہ تو  مسجدوں کے ممبروں سے فرعون و نمرود کی وعید سناتے رہے، بڑے بڑے جلسوں کی تقریروں سے حوروں کی خوبی اور خصوصیات گناتے رہے کہ اگر وہ سمندر میں تھوک دیں تو سمندر شہد بن جائے، ہم حوروں کے تھوک  سے سمندر کو شہد بناتے رہے اور یہود و نصاری قرانی آیات پر غور و خوض کرکے سمندر سے ياقوت و مرجان، گیس پٹرول، اور یورینیم نکالتے رہے۔

 ہائے رے  ہماری بد نصیبی ! قرآن ہمارے پاس، پٹرول ہمارے پاس، قدرتی نعمتیں ہمارے پاس، اللہ کے سارے انعامات ہمارے پاس پھر بھی وہ حاکم اور م محکوم، وہ طاقت ور ہم کمزور۔اللہ نے کہا میری عبادت کرو اور دنیا کی نعمتوں پر غور کرو، یہ چاند، سورج، زمیں، آسمان سب کچھ  ہم نے تمہارے لئے مسخر  کر دیئے تاکہ تم اس پر غور کرو، ہم نے کبھی غور نہیں کیا اور آج اس خوبصورت دنیا کی ترقی و ترویج میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ، اور یہی وہ کمی ہے کہ آج پوری دنیا میں ہم کمزور ہوگئے، مظلوم ہوگئے، وہ اپنی تحقیق و تفتیش سے آج ترقی یافتہ ہو گئے اور ہم پسماندہ رہ گئے، وہ ہتھیار بنا کر جابر بن گئے ہم تلوار کو میان اور قران کو جزدان اور غلاف  میں رکھ کر مظلوم بن گئے  قرآن کی روشنی میں ہماری تحقیاقات، ہماری ایجادات، صرف دین و اسلام کو مضبوط ہی نہیں بناتی بلکہ دین و شریعت کی حفاظت بھی کرتی۔ پھر ہمیں دین بچاو شریعت بچاو ریلیاں نکالنے کی ضرورت نہیں  پڑتی۔

 اے قوم کے رہبرو، لیڈرو، رہنماؤں، سیاست دانوں! اب بھی وقت ہے آپ قوم کی طرف لوٹ آئیں، مفاد پرستی چھوڑ کر قوم کو متحد اور یکجا کر کے ان کو صحیح راستہ دیکھا ئیں، تعلیمی مراکز، تحقیقی ادارے قائم کرکے اس خوبصورت دنیا میں اپنی حصہ داری قائم کریں، پھر دنیا تمہیں دہشت گرد کہنا تو دور تمہاری طرف آنکھ اٹھانے کی بھی جرآت نہیں کر پائے گی، تمہیں گھر واپسی کرانا تو دور تم پر الزام تراشی کی بھی جرآت نہ کر سکے گی۔  اور اگر ایسا نہیں کر سکتے، دنیا کی ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکتے، تومرو پھر شور مچاتے کیوں ہو۔

تبصرے بند ہیں۔