کوششیں تو مسلسل ہیں مگر نتائج مفقود کیوں؟

محمد قاسم ٹانڈوی

ایک صاحب ایمان کےلئے ضروری ہےکہ وہ اپنے مسلمہ عقیدہ کو مایوسیوں کے حصار میں قید کرنے سے پاک رکھے اور اس کی جگہ ایک پروردگار عالم کی رحمت کا امیدوار و جویا رہنا قرآن حکیم سے ثابت ہے، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، زندگی گزارنے کے مراحل و مواقع کتنے ہی مخدوش و ناموافق کیوں نہ ہو جائیں؛ مگر اس وقت بھی امت مسلمہ کے ہر فرد اور ہر شخص کو اسی حکم کی تاکی ہےکہ وہ اپنے پروردگار عالم اور ایک پالنہار کی چوکھٹ پر سرتسلیم خم کئے رہے، اس لئے کہ پروردگار عالم نے اپنی مقدس و متبرک کتاب قرآن کریم میں جا بجا اس چیز کا وعدہ کیا ہے کہ "تمہاری تمام تر کد و کاوش اور جدوجہد اسی ذات واحد کے عرش معلی سے ٹکرا کر تمہاری معین و مددگار ہوں گی”.

مذہب اسلام کے ماننے والوں اور دین و شریعت کے پابند رہنے والوں کی پوری تاریخ ان کے عظیم شاہکاروں، قابل فخر کارناموں اور ان کے عزم مصمم کی بدولت وجود میں آنے والے ناقابل تسخیر معرکوں سے پر ہے، خود نبئ آخر الزماں فخر رسل سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اور اپنی مقدس جماعت حضرات انبیاء علیہم السلام کے تعلق سے ارشاد نبوی ہے کہ:

اس روئے زمین پر راہ خدا میں جتنا انبیاء کرام کو ستایا گیا کسی اور کو اتنا نہیں ستایا گیا اور راہ خدا میں مجھے ان سب سے بھی زیادہ ستایا گیا” چنانچہ اس حدیث رسول کی روشنی میں جب کوئی آغاز اسلام اور دور مکہ کا مطالعہ کرتا ہے تو بکثرت اور واضح طور اسے اس بات کا اندازہ ہوتا ہےکہ ابتدائے اسلام میں کس کس نوعیت کا ظلم پیغمبر اسلام اور آپ کے جانثار صحابہ کرام کو سہنا اور برداشت کرنا پڑا اور کس عسرت و تنگدستی اور فرقہ کشی کی مار جھیلنی پڑی؟ آخر وہ کونسا ظلم و ستم تھا جس کو دین اسلام کے سچے پیروکاروں نے اپنے گلے سے نہ لگایا ہو اور اس سے رہائ پانے کی خاطر راہ حق سے پھر گئے ہوں؟ کوئی ایک واقعہ یا کوئی ایک مثال ایسی پیش نہیں کی جا سکتی جہاں حضرات صحابہ کرام کی مقدس و محترم جماعت میں کسی ایک صحابی نے جہاد میں جانے کےلئے نام لکھا دیا ہو اور پھر روانگی کے وقت انکار کر دیا ہو، غزوات بھی پیش آئے اور مختلف سرایا بھی روانہ کئے جاتے تھے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دوران جنگ یا لڑائی کے عین موقع پر مجاہدین میں سے کسی ایک نے پیٹھ دکھائ ہو یا کسی نے بھی موت کے خوف سے فرار اختیار کیا ہو؟ ہاں جو منافقین تھے اور جن کے دلوں میں نفاق کی تہہے جمی تھی وہ اور کچھ ایسے حضرات جو ابھی نو مسلم تھے، اسلام کی دولت ٹھیک سے ان کے اندر سرایت نہیں کی تھی اور وہ راسخ فی السلام والدین نہیں ہوئے تھے؛ ایسے کچھ لوگ ضرور تاریخ کے حصہ بنے مگر جب اہل نفاق کا نفاق  اور ان کے دل کا چور ظاہر و باہر ہو گیا تو انہیں عذاب الیم سے دوچار ہونے کی پیش گوئی اور جو حضرات ابھی نو مسلم تھے جب وہ مذہب اسلام میں راسخ ہو گئے تو انہیں باری تعالی کی طرف سے برآت کا مژدہ بھی سنایا گیا تھا.

یہی وہ نمایاں خصوصیات تھیں کہ جب وہ حضرات اسلام کی آبیاری اور دین و شریعت کے تبلیغ کے واسطے مختلف ادوار میں مختلف اوقات میں متفرق خطوں اور علاقوں کی طرف کوچ کرتے تو علاقہ کا علاقہ اور خطہ در خطہ ان کے زیر دست اور قبضہ میں آتا چلا جاتا تھا، جب انہیں محسوس ہوتا کہ یہ جنگل اور کھنڈر ان کی راہ میں حائل ہوکر مشکلات پیدا کر رہا ہے تو وہ حضرات اپنے دین و مذہب کا واسطہ اور اپنے نبی اکرم کی اتباع کامل کا اسوہ اختیار کرنے کے بعد جو بھی نعرہ جس جنگل کے کنارے پر کھڑے ہو کر لگا دیا کرتے تھے، وہ جنگل آنا فانا جنگل کے درندوں اور وحشیوں سے خالی ہو جایا کرتا تھا، بڑے بڑے اژدھے جو اس جنگل کے مکین ہوتے تھے وہ بھی اپنے بچوں کو منھ میں دبائے ان کی صدا کو سن کر سرنگوں ہو جایا کرتے تھے، وہ تعداد و شمار میں کم ہوتے تھے مگر دولت ایمانی سے ان کے ذہن و دماغ لبریز ہوتے تھے حلاوت ایمانی ان کے قلب و جگر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی جس کی وجہ سے وہ اثناء راہ حائل ہونے والی بھاری سے بھاری پتھر کی چٹان کو بھی ایک معمولی کانٹے سے زیادہ تصور میں نہیں لایا کرتے تھے اس کے بعد وہ حضرات بلا سوچے سمجھے اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر حالات سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے. یہ دین اسلام کے ان غازی اور مجاہدین کا دور ہے جب وہ ہر اعتبار سے کمزور، ہر کیفیت سے نبردآزما تھے سوائے ایمانی دولت، حق جل مجدہ کی نصرت اور اپنے نبی پاک کی محبت و عقیدت میں غرقیابی کے؛ کوئی دوسرا سہارا ان کے پاس اور ساتھ نہ تھا.

برعکس آج کے دور کے؛ کہ آج ہم تعداد میں بھی کسی طبقے اور برادری سے کم نہیں، آلات و اسباب بھی وافر مقدار میں موجود ہیں، دعوی محبت و عقیدت کرنے میں بھی ہم کسی طرح کم نہیں ہیں، آیات الہی کو سمجھنے اور بروقت ان کے مطالب و مفاہیم سے واقفیت رکھنے کا ہنر بھی ہم اپنے پاس رکھتے ہیں مگر پھر بھی جب ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس بات کو شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ ملت کو ہر سطح پر مایوسی کے مہیب سایوں نے اپنے حصار میں قید کر رکھا ہے، ہر ہر موقع پر ملت کو دو پرخار راہوں کا سامنا ہے، تعلیمی، تکنیکی، سیاسی، سماجی اور پھر سب سے بڑھ کر معاشی سطح جو کسی بھی قوم کو عروج و استحکام بخشنے میں سب سے زیادہ اہم رول نبھاتی ہے اور قوم و ملت کو عروج بخشنے میں یہی سب سے زیادہ مضبوط سطح ہوتی ہے اس پر ملت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے. آج کا دور تعلیم کا دور ہے، اکیسویں صدی کو تعلیمی صدی سے منسوب کر دیا گیا ہے، مفکرین و دانشوران چیخ چیخ کر تعلیم کو ترقی کا جزولاینفک قرار دے رہے ہیں اور یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ عوام پر حکمرانی اور ملک پر کی جانے والی حکومت و سلطنت اسی قوم کے دست نگر ہوگی جس کے ایک ہاتھ میں تعلیم اور دوسرے ہاتھ میں دولت کی فراوانی ہوگی.

اس پیشگوئی پر رسرچ کرنے والوں نے جب تحقیق کی اور مبصرین نے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے تو وہ یہی تھا کہ موجودہ اقتدار میں جو سب سے زیادہ اہم رول رہا ہے وہ آر ایس ایس کا ہے اور آر ایس ایس نے ملک پر حکمرانی کا جو خواب دیکھا تھا وہ ستر سال پہلے دیکھا تھا لہذا اسے یہاں تک پہنچنے میں پہلے مال کی فراوانی اور اس کے بعد تعلیمی سطح مضبوط کرنے میں وقت لگانا پڑا تب کہیں جاکر ستر سال کے بعد اقتدار اس کے ہاتھوں کی باندی بنا اور پھر وہ سب کرنے پر متوالا ہوا جس کا اس نے خواب دیکھا تھا. اور ہم کوششوں پر کوشش کر رہے ہیں، نئے نعرے نئے عناوین سے ملک کے دستور کی حفاظت اور تحفظ دین و شریعت کانفرنس اور اجلاس عام منعقد کر رہے ہیں مگر نتائج مفقود اور تبدیلی عنقا نظر آتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔