بابری مسجد، پرسنل لا بورڈ اور مولانا سلمان ندوی

سعادت اللہ حسینی

بابری مسجد ، پرسنل لا بورڈ اور مولانا سلمان ندوی صاحب وغیرہ سے متعلق جو واقعات گذشتہ چند دنوں میں پیش آئے ان کے بارے میں ہر طرف سےسوالات کی بوچھار ہے۔ ان مسائل پر اپنی گذارشات اختصار کے ساتھ درج کررہاہوں۔اللہ تعالی ہم سب کی صحیح اور مبنی بر عدل و اعتدال ، سوچ کی طرف رہنمائی فرمائے آمین۔

۱۔ یہ کہنا کہ بابری مسجد کی جگہ حوالہ کردی جائے تو فرقہ پرست قوتوں کے پاس ۲۰۱۹ کے لئے کوئی ایشو نہیں رہے گا، بڑی کمزور بات ہے۔اس کے بالمقابل واقعہ یہ ہے کہ، ان قوتوں کا اصل مسئلہ اب یہی ہے کہ یہ ایشو اب باقی نہیں رہا، بلکہ گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کو لعن طعن کرکے اور ہجوم کے ہاتھوں قانون شکنی کے ذریعہ اس ایشو کوزندہ رکھنا ممکن تھا۔ اب جبکہ مرکز اور ریاست ہر جگہ پر انہی کی حکومت ہے، وہ عوام کے پاس کیا منہ لے کر جائیں؟ انہوں نے تو مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ اب اقتدار ملنے کے بعد ان کے ووٹرز اس وعدہ کی تکمیل کی توقع رکھتے ہیں۔یہ ایشو دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے تو صرف اس صورت میں کہ کسی طرح اس وعدہ کی تکمیل اور مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہو۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ آخری مرحلوں میں ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے مقدمہ کے فیصلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کمزور قانونی بنیاد بھی مندر کے حق میں فیصلہ کے لئے موجود نہیں ہے۔ اگر عدالت یہاں بھی بندر بانٹ کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو دنیا بھر میں ملک کے عدالتی نظام کا وقار بری طرح مجروح ہوگا۔ اور اگر مسجد کے حق میں فیصلہ سناتی ہے تو حکومتوں میں رہتے ہوئے عدالت کے حکم کی صریح خلاف ورزی، ان قوتوں کے لئے، ناممکن نہ سہی بہت مشکل ضرورہوگی۔

اس الجھن کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ کسی طرح فیصلہ سے پہلے مسلمان خود دستبردار ہوجائیں۔ وعدہ کی تکمیل اور عوام کو منہ دکھانے کی گنجائش نکل آئے۔ اس طویل کشمکش کی پر امن یکسوئی کا سہرا باندھ کر اور فتح یابی کے تاریخی جشن کے درمیان ۲۰۱۹ کا بگل بجایا جائے۔

اس لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مقدمہ سے دستبرداری، حکمران جماعت سے ایشو چھیننا نہیں بلکہ اُسے ایشو فراہم کرنا ہے۔ ایک مردہ ایشو کو جو اس کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے، دوبارہ زندہ کرنا ہے۔

۲۔ یہ سمجھنا بھی بہت سادہ لوحی کی بات ہے کہ یہ ایشو ختم ہوجائے تو اس طرح کی سیاسی جماعتوں کے پاس ایشو ختم ہوجائیں گے ۔ گذشتہ چند سالوں ہی کا جائزہ لے لیجئے کہ کتنے نئے ایشو پیدا ہوگئے؟ کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ ’لو جہاد‘ جیسی نامعقول بات بھی اکیسویں صدی کے ہندوستان میں ایشو بن سکتی ہے؟ بابری مسجد کا مسئلہ بھی مصنوعی طور پر تخلیق کردہ ایشو ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ، خاص طور پر جسٹس سدھیر اگروال کا تفصیلی فیصلہ جن لوگوں نے پڑھا ہے ،وہ جانتے ہیں کہ اب یہ بات عدالت کی مہر کے ساتھ ثابت ہوگئی ہے کہ رام چندر جی کی اُس مقام پر پیدائش کی آستھاکی بنیاد، نہ کوئی مذہبی کتاب ہے اور نہ کوئی قدیم روایت۔ انیسویں صدی میں زبردستی بت رکھ کر اور پھر شور شرابہ کرکے یہ آستھا پیدا کی گئی ہے۔ ان قوتوں کے سیاسی عزائم اور ان کے حتمی مقاصد کا حصول ایسے ایشوز تخلیق کرتے رہنے میں ہے، سو وہ کرتے رہیں گے۔ ملک میں امن و امان کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہو اور تمام سیاسی ہتھکنڈے اورنظریاتی کشمکش قانون کے تابع ہو۔ اس لئے نہایت ضروری ہے کہ قانونی عمل مکمل ہو۔ قانونی عمل میں کسی بھی قسم کا خلل اور عدلیہ کی کاروائی کا رک جانا دراصل موبو کریسی کے مقابلہ میں قانون کی شکست ہوگی۔ اور اس سے اس طرح کے نئے ایشوز کی تخلیق اور موبو کریسی کے رجحان کو زبردست تقویت ملے گی۔

۳۔یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ مقدمہ سے دستبرداری قانونی طور کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے، نہ یوپی سنی وقف بورڈ کے لئے، نہ کسی اور مسلمان فریق کے لئے، نہ پرسنل لا بورڈ کے لئے اور نہ ہی کسی عالم یا سیاسی رہنما کے لئے۔ ماہرین قانون کہتے ہیں کہ قانون وقف کے مطابق وقف کی جائیداد فروخت کرنا، ہبہ کرنا یا اس کا تبادلہ کرنا سب، غیر قانونی ہے۔غیر قانونی طور پر وقف کی جائیدادوں پر قبضہ ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن اس قدر حساس اور مشہور مقدمہ میں، باقاعدہ سپریم کورٹ میں صریح خلاف قانون موقف، وقف بورڈ نہیں لے سکتا۔پھر یہاں وقف بورڈ اکیلا فریق نہیں ہے، کئی فریق ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ ایک Representative Suitہے۔ یعنی مسلمان فریق ،یہاں دراصل سارے مسلمانوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ایسے میں ان نمائندوں کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ مقدمہ سے دستبردار ہوجائیں۔ سارے مسلمان فریق بھی مقدمہ واپس لینے کی درخواست دے دیں تو قانونی طور پر کورٹ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اشتہار دے اور کوئی بھی مسلمان گروپ اٹھ کر فریق بن جائے تو مقدمہ چلتا رہے گا۔ گویا مقدمہ سے دستبرداری اسی وقت ممکن ہے جب ہندوستان کے مسلمان سب کے سب اس پر متفق ہوجائیں۔

۴۔ اس لئے زیادہ معقول بات یہی ہے کہ مسلمان اس مقدمہ کو اس کے حتمی اور منطقی انجام تک پہنائیں۔ اہل ملک کے سامنے سچائی پوری طرح واضح ہوجائے۔ مکر و فریب اور جھوٹ اور دغا کے علم بردار ہیرو نہ بنیں بلکہ ان کا جھوٹ ملک اور دنیا کے سامنے بے نقاب ہو۔ حریفانہ جذبات کی شدت کی عمر ہمیشہ بہت کم ہوتی ہے لیکن سچائی اور حقیقت تاریخ کا اٹل حصہ بنتی ہے۔ یہ فرقہ وارانہ کشمکش آج ہے، کل نہیں رہے گی لیکن یہ بات تاریخ میں ہمیشہ کے لئے نقش ہوجائے گی اور ہمیشہ اس ملک میں ہندو مسلم تعلقات کی بنیاد بنی رہے گی کہ، بابری مسجد کی یہ لمبی لڑائی مسلمانوں نے سچ کی بنیاد پر لڑی تھی یا ایک جھوٹے دعوے کے لئے ؟

البتہ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس مسئلہ کو جس طرح جذباتی سیاست کی بنیاد بنادیا گیا ہے، اس سے ملت اسلامیہ ہند کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ آئندہ شدت سے احتیاط کرنا ضروری ہے کہ ہمارے کسی اقدام سے یہ مسئلہ سیاست کی اور سماجی کشمکش کی بنیاد نہ بننے پائے۔ یہ مسئلہ سچ اور جھوٹ کا اور قانون کا مسئلہ ہے، اسی دائرہ تک اسے محدود رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے۔

۵۔ ان سب باتوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، ہم اس حقیقیت کی طرف بھی اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس موقف کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ انسانی غور و فکر کا نتیجہ اور اجتہادی موقف ہے۔ اس میں غلطی کا ہمیشہ امکان موجود ہے۔ اس پر بحث و تبادلہ خیال اور مختلف رائے کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔ ہر زندہ اور باشعور قوم ایسے اہم مسائل پرغور و فکر اور تبادلہ خیال کی ہمیشہ ہمت افزائی کرتی ہے۔ ہمارے نزدیک مولانا سلمان صاحب کا اپنا نقطہ نظر ہوسکتا ہے، انہیں اپنی رائے رکھنے کا اور اسے پیش کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس نقطہ نرک کی بنیاد پر اکیلے اقدام کردینا، اسے اندرونی سطح پرغور و فکر اور سنجیدہ تبادلہ خیال کے بجائےمیڈیا کا ایشو بنادینا، اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانا او ر سنجیدہ بات چیت کی مناسب کوشش کے بغیر اجتماعی فورم سے علٰحدگی کا اعلان کردینا، یقیناً غلطی ہے۔اس غلطی پر انہیں سنجیدہ ماحول میں متوجہ کرنا چاہیے۔

مولانا ارشد مدنی صاحب کا اخبارات میں بیان شائع ہوا ہے۔ قیم جماعت اسلامی ہند، سلیم انجنیر صاحب نے ایک ٹی وی مباحثہ میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے، یہ سب سنجیدہ اور باوقار اظہار رائے و اظہار اختلاف کے نمونے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو بھی اسی اسلوب کی اتباع کرنی چاہیے۔

ان واقعات سے زیادہ افسوسناک وہ گفتگو ہے جو سوشل میڈیا میں سنجیدہ دینی حلقوں میں اس کے حوالہ سے ہورہی ہے۔ خیالات پر بحث کو خیالات تک محدود رکھنے کی صلاحیت اجتماعی شعور اور بالغ نظری کی بڑی اہم علامت ہوتی ہے۔ یہ بحث اگر تیزی سے ذاتیات کی سطح پر اترنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ ہمارا شعور ابھی بالغ نہیں ہوا ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس نابالغی کے مظاہرے ان دودنوں میں بہت کثرت سے ہوئے۔ اگر کوئی سیاسی قائد نامناسب زبان استعمال کرتا ہے تو اس کا تو کوئی سیاسی مقصد ہوسکتا ہے لیکن جو لوگ سوشل میڈیا پر ذاتیات کے حوالہ سے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں ان کی اس غیر ذمہ دارانہ روش کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے؟ ان اختلافات کا نہ سیاسی مقاصد کے لئے استحصال جائز ہے ،نہ گروہی، مسلکی، مکتبی یا کسی اور مفاد کے لئے۔

ہمارے بڑے بھی انسان ہیں۔ کبھی اختلاف کی حساسیت ان کو بھی جذباتی بناسکتی ہے۔ ایسے ماحول میں ہمارا رویہ وہی ہونا چاہیے جو گھر میں ماں باپ کے درمیان کسی وقتی تلخ کلامی پر بچوں کا ہوتا ہے۔ انہیں نہ خود کو دو گروپوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ایک دوسرے پر لعن طعن کی۔بحث کو زیر بحث مسئلہ تک محدود رکھئے ۔ اس امت کو بڑے مسائل کا سامنا ہےاور اندیشہ ہے کہ آئندہ اور بڑے مسائل کا مقابلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی معمولی باتوں پر ہم ٹوٹتے اور بکھرتے رہیں تو پھر ہم زندہ کیسے رہیں گے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔