تحریک عدم اعتماد: کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے

ڈاکٹر سلیم خان

حکومت وقت کے خلاف تحریک عدم  اعتمادیوں تو ناکام ہوگئی لیکن وہ حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کے لیے اعتماد بحالی کا ذریعہ بن گئی۔ اس تحریک پر  تقریر کرتے ہوئے راہل نے اپنے اس دعویٰ کو سچ کردکھایا  کہ یہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں۔ یہ مجھے  ایوان میں بولنے نہیں دیتے۔ مجھے  اگر ۱۵ منٹ کا وقت بھی مل جائے تو میں ان کی دھجیاں اڑا دوں گا۔ اپنے خطاب کو ختم کرنے کے بعد راہل گاندھی نے مودی جی کے قریب جاکر انہیں  اسی حالت میں پہنچا دیا جس میں مولانا ارشد اعجاز قاسمی کو فرح فیض  لے گئی تھی یعنی  ’کہا بھی نہ جائے  اور سہا بھی نہ جائے‘ ہر دو صورت میں شکست ان کا مقدر بن گئی تھی ۔ ارشد قاسمی تھپڑ  مار کر پھنس گئے لیکن  اگر جواب میں ہاتھ  نہ چلاتے تب بھی رسوا ہوتے۔ راہل گاندھی جب وزیر اعظم سے معانقہ کرنے کی خاطر ان کے پاس آئے تو مودی جی کی وہی حالت تھی۔ راہل یہ کہہ کر پہلے ہی مودی جی کو ششدر کرچکے تھے کہ آپ میرا لاکھ مذاق اڑائیں مجھ سے بغض رکھیں لیکن میں آپ سے نفرت نہیں کرسکتا اس لیے کہ کانگریسی ہوں بقول شاعر؎

ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے

سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بناکے رکھنا کمال  یہ ہے

مودی جی  اگر اپنی جگہ سے اٹھ کر گرمجوشی سے گلے ملتے تو یہ کہا جاتا کہ راہل نے پوری قوم کے ساتھ ساتھ  پردھان سیوک کا بھی دل  جیت لیا۔ اس لیے دوڑ دوڑ کر غیر ملکیوں کو لپٹنے والے مودی جی کے پیر جم گئے۔ وہ  اپنی جگہ بیٹھے  رہے۔ راہل کو یہ توقع نہیں رہی ہوگی اس لیے وہ اسی حالت میں ان کے گلے پڑ گئے لیکن اس بیچ مودی جی کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ انہوں نےلوٹتے ہوئے راہل کو واپس بلایا، مصافحہ کیا اور پیٹھ تھپتھپائی۔ یہ دراصل نقصان بھرپائی (damage control) کی ایک کوشش تھی جس سے راہل کا کام ہوگیا اوروہ شاداں و فرحاں   اپنی نشست پر لوٹ آئے۔ اپنی اس دوہری کامیابی کا اظہار راہل گاندھی نے جیوترمئے سندھیا کو آنکھ مار کر کیا۔ اس پر بی جے پی والوں نے خوب ہنگامہ آرائی کی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان کی ہنگامے  کی واحد وجہ آنکھ مارنا نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ  پہلے بھی  دوران خطاب آسمان سر پر اٹھا چکے تھے۔ جمہوی سیاست کے اندر ہنگامہ آرائی کی ذمہ داری حزب اختلاف کی  ہوتی ہے۔ حزب اقتدار  کا ظرف یہ  ہونا چاہیے کہ وہ  اپنے  اوپر لگائے جانے والے الزامات و اعتراضات   کو صبر و تحمل  سے سنے اور پھر  اس کا منہ توڑ  جواب دے۔  آرایس ایس  نےاپنے لوگوں کے اندر صبر و ضبط کا خاتمہ کردیا اور جواب دینے کے لیے جس حاضر دماغی کی ضرورت ہے وہ پیدا نہیں کرسکی۔ راہل گاندھی کی دھواں دھار تقریر نےحزب اختلاف واقتدار کے فرق کو مٹادیا اور جو کچھ آئندہ انتخاب کے بعد ہوسکتا ہے اس کا منظر پیش کردیا۔ بی جے پی والے یہ بھول گئے کہ فی الحال  ان کا کام ہنگامہ کرنا نہیں بلکہ  اس پر قابو پانا ہے۔ یہ سب کرنے کے مواقع انہیں آئندہ سال سے خوب ملیں گے۔ راہل کے بھاشن  نے  دراصل بی جے پی کی چولیں ہلادیں۔  اکالی دل کی رکن پارلیمان  محترمہ بادل کی مسکراہٹ کا جس طرح راہل نے شکریہ ادا کیا اس پر یہ شعر صادق آتا ہے؎

وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑ کھڑائے شکست کھائے    

لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے

راہل نے جب  رافیل جنگی جہازوں کے سودے کا حوالہ دے کر کہا کہ اس بابت فرانس  صدر نے بذات خود ان سے کہا ہے کہ اس میں خفیہ رکھنے کی کوئی  شق  موجود نہیں ہے اور مودی سرکار اپنی بدعنوانی چھپانے کے لیے یہ جھوٹ گھڑ رہی ہے تو وزیر دفاع نرملا سیتا رامن  آپے سے باہر ہوگئیں۔ وہ سرکار کا دفاع کرنے کے لیے  اپنی باری کا انتظار بھی نہ کرسکیں۔ راہل نے یہ کہہ کر ’مودی جی رافیل ڈیل پر  میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ نہیں سکتے بلکہ مجھ سے نظر چرا رہے ہیں‘ ایسی چوٹ کردی کہ   بی جے پی والے تلملا اٹھے۔ ان کاہنگامہ اس قدر بڑھا کہ ایوان کی کارروائی معطل کرنی پڑی۔ تعطل کے بعد جب اپنی بات جاری رکھنے کا موقع ملا توراہل نے کہا کہ وقفہ کے دوران بی جے پی والوں نے بھی ان کو مبارکباد دے کر کہا تم نے ہمارے دل کی بات کہہ دی۔ اپنے  مخالفین پر جھنجھلاہٹ یا بیزاری کا اظہار کیے بغیر  حاضر دماغی سے بی جے پی کے شور شرابے کا سیاسی  فائدہ اٹھا لینا  کیاکمال نہیں  ہے؟

خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے       

ہوا کی زد پہ دیا جلانا، جلا کہ رکھنا کمال یہ ہے

کرناٹک انتخابی مہم کے دوران مودی جی نے راہل کو چیلنج کیا تھا کہ وہ ۱۵ منٹ بغیر کاغذ دیکھے تقریر کرکے دکھائیں۔ راہل نے ۴۵ منٹ تقریر کرکے ثابت کردیا کہ ان کی طرح خطاب  کرنا مودی جی کے بس کی بات نہیں ہے۔ راہل کو تقریر لکھ کر دینے والا  واقعی  تعریف کے قابل  ہے  کیونکہ اس نے سارے اہم مسائل کا احاطہ نہایت دلپذیر اور ظریفانہ انداز میں کیا۔ ایک ایک جملہ زہر میں بجھا ہوا تیر  بہدف تھا۔ ’جملہ اسٹرائیک ‘ اور ’چوکیدار نہیں بلکہ بھاگیدار‘ تو ضرب المثل گئے ۔ راہل نے بیروزگاروں کے مسئلہ پر پکوڑوں کے ساتھ امیت شاہ کے بیٹے کا ذکر کرکے بی جے پی  کولہولہان کردیا۔ آگے چل کر ایوان  کی صدر سمترا مہاجن نے اسے ہذف کردیا لیکن دیر ہوچکی تھی۔ ذرائع ابلاغ میں وہ  مکالمہ جنگل کے آگ کی مانند پھیل چکا تھا۔

راہل کا یہ کہنا کہ ہم اقتدار میں اور اس کے بغیر رہنا جانتے ہیں لیکن یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ  ان کے ہاتھ سے اقتدار کے جاتے ہی دوسری کارروائی شروع ہوجائے گی۔ اس لیے  یہ (مودی و شاہ جی جوڑی) بوکھلائے ہوئے ہیں۔ اس جملے  میں ایک ایسی لطیف دھمکی پنہاں  ہے کہ  اس نے بی جے پی کے حلیف شیوسینا کے رکن پارلیمان  سنجے راوت سے صفحۂ اول پر اداریہ لکھوادیا۔ روک ٹھوک کالم کے خالق سنجے نے لکھا’ بھائی تو کامیاب ہوگیا‘۔ ویسے امیت شاہ کا رعب فی الحال اس قدر کم ہوچکا ہے کہ شاہ جی کا فون بھی شیوسینا سے مودی سرکار کے حق میں ووٹ نہ ڈلوا سکا اور اس نے غیر حاضری  پر اکتفاء کیا۔ مودی جی کی تقریر کے درمیان ہنگامہ کرنے کی ذمہ داری ان کی سابق حلیف ٹی ڈی پی نے اپنے سر لے لی اور کانگریس پارٹی اس کارِ بد  سے بچ گئی۔

راہل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوسرے دن سارے اخبارات پر وہ چھاگئے۔ معروف  مراٹھی روزنامہ   لوک مت کے مطابق  مہاراشٹر کی ودھان سبھا میں  شیواجی کے مجسمہ پر ہونے والی  بحث کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے جب ایک نامہ نگار نے اپنے دفتر میں  فون کیا تو جواب ملا بعد میں دیکھیں گے  ابھی ہم راہل کی تقریر سن رہے ہیں۔ مجھے اسی رات سولاپور جانا تھا۔ میں ممبئی سے ٹرین میں سوار ہوا تو میرے بغل میں بیٹھا نوجوان کلیان  تک راہل کی تقریر  اپنے موبائل پر دیکھتا اور سنتا رہا۔ ایسا انہماک تو کبھی بھکتوں  کے اندربھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ مثل مشہور ہے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ راہل  گاندھی نے اپنی خوش بیانی مودی جی کے بول بچن کے چیتھڑے اڑا دیئے۔ کانگریس کروشیا کی طرح ورلڈ کپ تو ہار گئی لیکن  گولڈن بال ان کے کپتان  لوکا موڈریچ کے حصے میں چلا گیا۔ آئندہ انتخاب تک ہر روز مودی جی  کے خواب میں    یہ تقریر بھوت بن کر ڈرائے گی  یہاں تک کہ ’ بیما ر کو بے وجہ قرار آجائے‘۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران  پوری قوم نے دیکھ لیا ؎

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جوگلےملوگے تپاک سے  

یہ عجیب شہر کے لوگ ہیں ذرا فاصلے سے ملاکرو

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔