خلافت و ملوکیت: مقاصد شریعت کی روشنی میں 

محمد شاہد خان

اس بات پر ہمیں پختہ یقین ہوچلا ہے کہ مختلف فیہ دینی وفقہی اور اعتقادی مسائل میں بحث وتکرار سے ضیاع وقت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا بلکہ بسا اوقات گفتگو اپنے دائرے سے نکل کر تلخ کلامی، الزام تراشی، دشنام طرازی، پامالی آبرو اور قطع تعلقات پر منتج ہوتی ہے اسلئے ان موضوعات سے تغافل شعاری ہی درست پالیسی ہے۔

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک بار پھر خلافت وملوکیت کا موضوع گرم ہے اسلئے نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اس موضوع پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی جسارت کررہے ہیں، ممکن ہے کہ افراط وتفریط سے پاک ایک معتدل نقطہ نظر پیش کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکے۔

زمانہ طالبعلمی ہی میں ہمیں مطالعہ کا یہ اصول سکھایا گیا تھا کہ مطالعہ ہمیشہ معروضی ہو نا چاہئے کیوں کہ ذہن میں اگر پہلے سے کچھ تصورات قائم ہوں گے تو کسی کتاب کے مطالعہ سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہوسکیں گے۔

اس کو اس مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اہل مکہ سے سامنے دعوت اسلامی پیش کی تو انھوں نے پہلے پہل یہ کہہ کر انکار کردیا کہ آپ کے یہ مذہبی تصورات ہمارے آباء واجداد کے مذہبی تصورات کے خلاف ہیں اسلئے ہم انہیں قبول نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ اس انکار کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ وہ تقلیدی روایات سے ہٹ کر نئے افکار کی قبولیت کو گمرہی خیال کرتے تھے۔

افسوس کہ اس ذہنی غلامی کا دور اب تک ختم نہیں ہوا ہے، اسلام جس ذہنی جمود کو توڑنے کے لئے آیا تھا وہ اب بھی برقرار ہے، فکر ونظر کی جولانیاں سرد پڑ گئی ہیں، بحث وتحقیق بھی روایت پرستی کا شکار ہے، آزادانہ غوروفکر پر بندشیں عائد ہیں یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلامی کے تئیں ہمارا رویہ ہمیشہ سے ظالمانہ رہا ہے۔

اسلامی تاریخ کو امت کا ایک طبقہ ہمیشہ سے تقدس کی نظروں سے دیکھتا رہا ہے، عہد صحابہ میں رونما ہونے والی آپسی جنگوں اور سیاسی اختلافات پر گفتگو کو ہمیشہ گناہ کبیرہ اور ان واقعات سے چشم پوشی کو عین اقتضائے ایمان سمجھتا رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت فاروق اعظم کے بعد رونما ہونے والے عظیم واقعات،جن کی ابتدا حضرت عثمان کی شہادت سے ہوئی اور پھرحضرت علی کی خلافت، حضرت امیر معاویہ کی بغاوت، جنگ جمل، جنگ صفین، نواسہ رسول کی شہادت، عبد اللہ بن زبیر کی شہادت، حرمین کے تقدس کی پامالی اور یزیدکی بربریت کی کیا توجیہ کی جائے گی؟ کیا اس دور میں واقع ہونے والے ان بڑے بڑے واقعات سے چشم پوشی ہی مسئلہ کا حل ہے کہ ان پر ایک چاکلیٹی چادر ڈال دی جائے یا ان واقعات کی کوئی منطقی توجیہ بھی ممکن ہے؟ کیا مؤرخ اس دور کے حالات کا جائزہ لئے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے؟ کیا اس دور میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ صرف مستشرقین ہی کا حصہ ہے کہ وہ جس طرح چاہیں ان حالات وواقعات کا پوسٹ مارٹم کریں یا انصاف پسند مسلم مؤرخین کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ اس موضوع کا جائزہ لے سکیں؟

ظاہر ہے کہ تاریخ کے اس دور کا جائزہ لئے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا، اسے سیاہ باب بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ورنہ اسکے بعد کی پوری تاریخ مشکوک ٹھہرے گی، اسے پھلانگا بھی نہیں جاسکتا ورنہ تاریخی تسلسل میں انقطاع لازم آئے گا۔

تاریخ بہت بے رحم واقع ہوئی ہےاور اسے انسانی اعمال کو ہمیشہ اپنے اصولوں پر پرکھنے کی عادت رہی ہے وہ مرور ایام کے ساتھ صحیح اور غلط کا فیصلہ کردیتی ہے۔ چنانچہ اس سمت سفر میں بڑھتے ہوئے لوگوں کو اکثر جو سب سے بڑی دشواری پیش آتی ہے وہ عدالت صحابہ کا مسئلہ ہے۔ یہ حدیث کہ ‘الصحابة كلهم عدول ‘ سارے صحابہ راستباز ہیں، ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عادل اور راستباز کا مفہوم وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام سے غلطیوں کے صدور کا اعتراف ان کی صفت عدالت کے منافی ہے، حالانکہ راستباز کا مفہوم غلطیوں کا سرزد نہ ہونا ہرگز نہیں ہے اس لئے کہ معصوم صرف انیباء ہیں، انیباء کے علاوہ کوئی بھی فرد بشر غلطیوں اور گناہوں سے پاک نہیں ہے، کیا صحابی رسول حضرت ماعز اسلمی اور غامدیہ زنا کے مرتکب نہیں ہوئے تھے ؟کیا واقعہ افک پیش نہیں آیا تھا ؟ جس میں بعض صحابہ کرام ملوث تھے ؟ کیا تین صحابی مرارہ بن الربيع، هلال ابن امية اور کعب ابن مالک غزوۂ تبوک میں پیچھے نہیں رہ گئے تھے یہاں تک اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور انھیں معاف کیا۔ تو جب صحابہ کرام سے عہد نبوت میں غلطیاں سرزد ہوتی رہیں تو پھر یہ سلسلہ حضور کی وفات کے بعد کیوں کر ختم ہو سکتاہے۔

بلکہ غلطیوں کا صدور تو انبیاء سے بھی ہوتا رہا ہے۔ کیا ایک موقعہ پر جب اللہ کے رسول ان شاءاللہ ‘ کہنا بھول گئے تھے تو چودہ دنوں تک وحی کا سلسلہ رکا نہیں رہا تھا، کیا آپ صلی اللہ نے ایک نابینا شخص سے منھ نہیں پھیرا تھا جس پر اللہ تعالی نے عبس وتولی ‘ جیسی آیت نازل فرمائی۔ کیا آپ نے ایک غلط فہمی کی بنا پر شہد نہ کھانے کی قسم نہیں کھائی تھی ؟

پس ثابت ہوا کہ غلطیاں انبیاء سے بھی سرزد ہوتی ہیں لیکن ان سے گناہوں کا صدور نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ براہ راست خدا کی نگرانی میں ہوتے ہیں اسلئے زیادہ دنوں تک غلطی پر باقی نہیں رہتے۔ لیکن باقی انسانوں کا معاملہ ان سے بالکل مختلف ہے ان سے غلطیوں اور گناہوں کا صدور ہروقت ممکن ہی نہیں بلکہ ضروری ہے تاکہ ان کے سلسلے میں معصومیت کا عقیدہ پروان نہ چڑھ سکے۔

الصحابة كلهم عدول ’ تمام صحابہ راست باز ہیں‘ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی روایت کردہ احادیث کو بلا تکلف قبول کیا جائے گا، انہیں عام راویوں کی طرح روایت حدیث کی کسوٹی پر پرکھا نہیں جائے گا اور نہ ہی دوسروں کی طرح ان کی چھان بین کی جائے گی، کیونکہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرہی نہیں سکتے اور یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ ہزار ہا اختلافات کے باوجود کبھی کسی صحابی نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہیں کی۔
اس اصول کو تسلیم کرنے کے بعد کہ صحابہ کرام سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور ان سے گناہ بھی سرزد ہوسکتا ہے لیکن اسکے باوجود ہماری نظر میں عظمت صحابہ میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ امت مسلمہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسب سے افضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہی ہیں انھوں نے شمع رسالت سے براہ راست استفادہ کیا ہے، ان کی پاک صحبت پائی ہے اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور پوری تندہی وجانفشانی سے پیغام محمدی کو دوسروں تک منتقل کیا ہے اس لئے اللہ اور اسکے رسول نے ان کا جو مقام ومرتبہ متعین کردیا ہے اس میں رتی برابر بھی فرق واقع نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی کے والد اپنی کسی خامی کی وجہ سے منصب پدری سے معزول نہیں ہوجاتے اسی طرح صحابہ کرام بھی اپنی بشری غلطیوں کی وجہ سے اپنے مقام ومرتبہ نہیں گرتے بلکہ ان کا مقام و مرتبہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے۔

تاریخ انسانی کا سب سے مبارک دور عہد رسول سے شروع ہوتا ہے اور بنو امیہ کے دور سے اس میں بڑی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوجاتی ہیں، خلافت کا مزاج تبدیل ہوجاتا ہے وہ شورائی نظام سے ہٹ کر وراثتی نظام میں سمٹ جاتا ہے، تاریخ اسلامی کے سنہری صفحات پر خونیں لکیریں پھیل جاتی ہیں، اس لئے اس عہد کو مذہبی نقطہ سے دیکھنے کے بجائے تاریخی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ بیسویں صدی کے بڑے جید علماء میں سے ایک تھے ان کے تجدیدی کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے بعض علماء نے انھیں بیسویں صدی کے مجددین میں شمار کیا ہے، مولانا مودودی نے اس دور انحطاط میں اسلام کو بطور نظام دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کا سیاسی نظام، معاشی نظام، اخلاقی نظام وغیرہ پر کتابیں لکھیں، مغربی تہذیب پر شدید تنقید کی، اسلامی تعبیرات ومفاہیم پر پڑی گرد کو جھاڑااور اسے عصر ی زبان میں پیش کیا۔ ۱۹۲۰ میں خلافت اسلامیہ کے مکمل خاتمے کے بعد سے امت کے بے شمار مصلحین خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لئے تڑپ رہے تھے، یہ تڑپ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے اندر بھی موجود تھی اس لئے انھوں نے اپنے عہد تک کے تجدیدی کارناموں کا جائزہ لیا اور ,تجدید واحیاء دین ‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تاکہ آئندہ ان غلطیوں کے اعادہ سے بچا جا سکے۔ انھوں حکومت الہیہ ‘ کا خاکہ بھی پیش کیا کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ کسی بھی آئیڈیالوجی پر مکمل عمل بغیر حکومت کے قیام کے ناممکن ہے۔ اسلام کے بہت سے احکامات ایسے ہیں جو بغیر حصول اقتدار کے نافذ نہیں کئے جاسکتے، ان کی شاہکار تصنیف خلافت وملوکیت بھی اس سلسلے کی ایک حسین کڑی ہے۔

خلافت ملوکیت کے موضوع کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس تعلق سے خالق کائنات کی مرضی ومنشا کو بھی سمجھ لیا جائے۔

چنانچہ قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ الله تعالی نے جب بنی نوع انسان کی تخلیق کی تو روئے زمین پر اسے اپنا خلیفہ مقرر فرمایا، وہ چاہتا تھا کہ جس طرح تمام مخلوقات تکوینی نظام میں اس کے احکامات کے تابع ہیں اسی طرح تشریعی نظام میں بھی انسان اسکے احکامات کے تابع ہو لیکن اس نے اپنے قوانین کے نفاذ کے لئے کوئی مخصوص طریقہ کار یا حکومتی نظام وضع نہیں کیا بلکہ یہ سارا اختیار انسانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا کہ وہ الہی قوانین کے نفاذ کے لئے جو مناسب طریقہ چاہیں اختیار کریں اور اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کو جس طرح چاہیں حل کریں، دنیوی انتظام و انصرام کو جس طرح چاہیں چلائیں، البتہ اللہ تعالی نے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ ضروری اصول وضوابط ( گائیڈ لائنس ) ضرور نازل فرمائےتاکہ انسانی معاشرہ عدل وانصاف پر قائم ہو، ظلم وجور کا خاتمہ ہو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی پاسداری ہو۔ اس کی نظر میں کوئی بھی نظام فی نفسہ نہ اچھا ہے اور نہ برا، چاہے وہ بادشاہت ہو خلافت ہو جمہوریت ہو یا اسکے علاوہ اور بھی کوئی نظام ہو کیونکہ اس کا اصل مطالبہ انسانوں کی انفرادی واجتماعی زندگی میں حتی الامکان قوانین الہیہ کا نفاذ ہے، لہذا کسی بھی نظام میں اگر قوانین الہیہ سے روگردانی کی جائے گی تو وہ نظام نا مسعود سمجھا جائے گا اور اگر قوانین الہیہ کی پاسداری کی جائے گی تو وہ نظام اچھا تصور جائے گا کیونکہ اصل مقصود خدا کی اطاعت ہے نہ کہ بذات خود کوئی مخصوص طریقہ کار یا نظام حکمرانی۔

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام کی دعوتی زندگی کی تمام تر توجہ رب اور بندے کے تعلق پر ہی مرکوز رہی ہے انھوں نے حصول اقتدار یا نظام کی تبدیلی کو کبھی بھی اپنا مطمح نظر نہیں بنایا۔

قرآن میں انبیاء کے حالات زندگی پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حصول اقتدار کبھی بھی کار نبوت کا جزء نہیں رہا بلکہ اللہ کے پیغام کو ہر عام وخاص تک پہونچانا، معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کرنا، اعلی اخلاقی اقدار کو فروغ دینا حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی تبلیغ کرنا انبیاء کا اول وآخر مشن رہا ہے۔

انبیاء نے ہمیشہ دعوت اسلامی کو عام انسانوں کے ساتھ ساتھ اصحاب اقتدار تک پہونچانے کی کوشش کی لیکن کبھی بھی اقتدار کے لئے ان سے رسہ کشی نہیں کی، حکمرانوں کی سرکشی اور دعوت اسلامی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے باوجود وہ پوری ہمدردی اور شفقت کے ساتھ تاحیات انھیں سیدھے راستے کی طرف بلاتے رہے، اس مقدمہ کو درج ذیل مثالوں سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی لیکن اس سے حکومت چھیننے کی کوشش کبھی نہیں کی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے سامنے دعوت اسلامی پیش کی لیکن کبھی اس کی حکومت کے لئے خطرہ نہیں بنے۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے بادشاہ وقت کو اسلام کی دعوت پیش کی لیکن اس سے کرسی چھیننے کی سعی نہیں کی۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کبھی سرداران قریش کنی سرداری کو چیلنج نہیں کیا بلکہ کفار قریش کے خلاف آپ دفاعی جنگیں ہی لڑتے رہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کو دعوتی کام کرتے ہوئے بادشاہت نصیب ہوگئی لیکن اسے انھوں نے چھینا نہیں تھا بلکہ عزیز مصر نے خود انھیں اس کے لئے منتخب کیا تھا۔

بعض انبیاء کرام مثلا حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ نے بادشاہت عطا فرمائی تھی لیکن یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لئے خصوصی انعام واکرام تھا، کار نبوت کا لازمی جزء ہرگز نہیں تھا قرآن کریم کی ان آیت کریمہ پر غور کیجئے حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ (سورہ ص -آیت نمبر ۲6)

اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں بادشاہ بنایا ہے پس تم لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، بے شک جو اللہ کی راہ سے گمراہ ہوتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس لیے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالی سے بادشاہت کے لئے دعا مانگی تھی تو اللہ نے انھیں ایسی بادشاہت عطا فرمائی جو پھر کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ (سورہ ص – آیت نمبر35)

کہا اے میرے رب! مجھے معاف کر اور مجھے ایسی حکومت عنایت فرما کہ کسی کو میرے بعد شایاں نہ ہو، بے شک تو بہت بڑا عنایت کرنے والا ہے۔

ان مثالوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بادشاہت اپنے آپ میں کوئی ناپسندیدہ شے نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بے شمار بادشاہ ایسے گزرے ہیں جن کے کارنامے انسانی تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہیں۔

انسانی ذہن اور سماج ہمیشہ ارتقائی مراحل سے گزرتا رہتا ہے، کار گہہ حیات میں وہ نت نئے تجربات کرتا رہتا ہے مختلف قسم کے نظامہائے حکومت کی دریافت بھی دراصل انسانی ذہن کا ارتقائی سفر ہے۔

دنیا میں صدیوں سے بادشاہت کا نظام رائج تھا یہاں تک کہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور اس کے بعد دنیا ایک نئے نظام حکومت سے آشنا ہوئی اس کا نام خلافت تھاخلافت کا نظام کاروبار حکومت کو چلانے کا ایک نیا اور ایڈوانس فارمولہ تھا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ کی ریاست قائم کی تو آپ ہی مسلمانوں کے سربراہ تھے مسلمانوں کے تمام دنیوی امور کا فیصلہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )ہی فرماتے تھے اور بوقت ضرورت مسلمانوں سے صلاح مشورہ بھی کرتے تھے۔ اس امارت و سربراہی کے باوجود اللہ تعالی نے آپ کو قرآن میں کہیں بھی بادشاہ کے لفظ سے مخاطب نہیں فرمایا کیونکہ آپ نے بادشاہوں جیسی شان وشوکت اختیار نہیں کی۔ حدیث شریف آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا :

يا عائشة ! لو شئت ; لسارت معي جبال الذهب، أتاني ملك و إن حجزته لتساوي الكعبة، فقال : إن ربك يقري عليك السلام، و يقول لك : إن شئت نبيا ملكا، و إن شئت نبيا عبدا، فأشار إلي جبريل ضع نفسك، فقلت : نبيا عبدا . قالت :و كان صلى الله عليه وسلم بعد ذلك لا يأكل متكئا، و يقول : آكل كما يأكل العبد، و أجلس كما يجلس العبد

اس روایت کو أبو يعلى نے ” المسند ” میں بغوى نے” شرح السنة ” میں اور ابى الشيخ نے ” اخلاق النبى "میں نقل کیا ہے۔

اے عائشہ اگر میں چاہتا سونے کے پہاڑ میرے ساتھ ساتھ چلتے، ایک فرشتہ جس کی کمر کعبہ کی عمارت کے برابر تھی میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔ آپ کا رب آپ پر سلامتی بھیجتا ہے اور آپ کو اختیار دیتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی اختیار کرلیں اور اگر آپ چاہیں تو نبوت کے ساتھ ایک عام آدمی کی سی زندگی اپنا لیں۔ اللہ کے رسول کہتے ہیں تو جبریل نے مجھے تواضع اختیار کرنے کا مشورہ دیا لہذا میں نے فرشتہ کو جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالی کا ایک معمولی بندہ بن کر زندگی گزارنا زیادہ پسند ہے۔ عائشہ کہتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد اللہ کے رسول ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں ویسے ہی کھاؤں گا جیسے ایک بندہ کھاتا ہے اور میری نشست وبرخاست بھی بالکل اسی طرح ہو گی جس طرح کسی بندہ کی ہوتی ہے۔
چنانچہ آنحضور صلی اللہ نے اپنے لئے سادہ طرز زندگی کو پسند فرمایا اور دنیاوی جاہ وجلال کو ٹھکرادیا۔

جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت موعود آپہونچا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بادشاہی نظام کی طرح اقتدار کو اپنے اہل وعیال کی طرف منتقل نہیں فرمایا بلکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے سپرد کردیا کہ وہ جسے مناسب سمجھیں اپنا خلیفہ منتخب کرلیں چنانچہ آپ کے بعد مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق کو اپنا خلیفہ منتخب کیا اور جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا آخری وقت قریب آپہونچا تو انھوں نے بھی اقتدار کو اپنے خاندان میں منتقل نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کی سب سے قابل اورمستحق شخصیت یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت کے لئے نامزد کیا۔ اسکے بعد حضرت عمر نے بھی اقتدار کو اپنے خاندان میں منتقل نہیں کیا بلکہ مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی ایک کمیٹی کے سپرد کردیا۔

اس عہد مبارک میں دنیا نظام حکومت کا ایک نیا منظر دیکھ رہی تھی، یہاں اقتدار کی منتقلی موروثی طرز پر نہیں ہورہی تھی بلکہ شورائی نظام پر عوامی نمائندہ کا انتخاب ہورہا تھا، ان کا وہ نمائندہ رعایا کے سامنے ہمہ وقت جوابدہ تھا، وہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور کروفر کے بجائے نبوی طرز کی انتہائی سادہ زندگی گزارتا تھا یہاں تک کہ عوام کے درمیان بطور حاکم اس کی شناخت کرنا بھی مشکل ہوتا تھا، وہ مسلمانوں کا ایک ایسا نمائندہ تھا کہ برسر منبر ایک بڑھیا بھی اسے ٹوک دیتی تھی وہ اپنے غلام کو سواری پر بٹھاکر اس کی نکیل پکڑ کر خود چلتا تھا یہ سوچ کر کہ وہ بھی انسان ہے اور اسے بھی آرام کا حق ہے، وہ راتوں کو گلیوں میں گشت کرتا تھا، حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتا تھا اپنی پشت پر سامان لاد کر یتیموں اور بیواؤں کے گھر پہونچاتا تھا، اگر بیت المال کے تعلق سے کسی کو بھی ذرا بھی بدعنوانی کا شک ہوتا تو وہ سرعام اس سے جوابدہی کرسکتا تھا، وہ مسلمانوں کے بیت المال سے اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات لئے اتنا ہی لیتا جتنے میں اسکی ضرورت پوری ہوجائے۔ خلاصہ کلام یہ کہ خلیفۃ المسلمین ایک انتہائی خداترس انسان ہوتا تھا، خلافت راشدہ کا یہ مبارک دور لگ بھگ پینتیس سے چالیس برسوں تک قائم رہا، انسانی تاریخ نے اس بہتر ماہ وسال کبھی نہیں دیکھے، اس کے پاکیزہ اثرات اتنے گہرے ہیں کہ چودہ سو سالوں کے بعد آج بھی ہمیں اسکی کسک محسوس ہوتی ہے، بلا شبہہ خلافت راشدہ انسانی تاریخ کا سب سے سنہری دور تھا لیکن اسکے بعد وہ بھی پرانے بادشاہی نظام کی طرح موروثی نظام میں تبدیل ہو گیا۔
یہاں پر ہمار ے لئے بادشاہت، خلافت اور جمہوریت کے مزاج کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ دنیا میں رائج ان نظامہائے حکومت کی خوبیوں اور خامیوں میں فرق کیا جاسکے۔

دنیا میں رائج سب سے قدیم نظام بادشاہت ہے بادشاہت بالعموم موروثی نظام پر چلتی ہے، اس نظام میں بادشاہ رعایا کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا، وہ تاحیات حکمراں ہوتا ہے اسکے کام کاج میں رائے عامہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا، اپنی رعایا سے اس کا تعلق حاکم ومحکوم کا ہوتا ہے۔

اس کے بعد دنیا میں خلافت کا نظام متعارف ہوا، نظام خلافت میں امیر کا انتخاب شورائی نظام پر ہوتا ہے اس نظام میں عوامی رجحانات کو نظر انداز نہیں کیا جاتا، مختلف جماعتوں اور قبیلوں کے نمائندے اسے منتخب کرتے ہے لیکن اس کے انتخاب کا کوئی متعین فارمیٹ نہیں ہے، خلفاء راشدین کے طریقہ انتخاب سے اسے مسئلہ کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے، خلیفہ کا انتخاب بھی تاحیات ہوتا ہے، اسے معزول نہیں کیا جاسکتا لیکن اس نظام میں خلیفہ خود کو عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے، قومی دولت پر وہ من مانا تصرف نہیں کرتا بلکہ وہ اسے امانت خیال کرتا ہے اور وہیں خرچ کرتا ہے جہاں اسے خرچ کیا جانا چاہئے، نظام خلافت میں خلیفہ کا بنیادی طور سے خداترس اور نیک و صالح ہونا نہایت ضروری ہے خلافت کا اصل ماڈل خلفاء راشدین کا عہد حکومت ہے۔

دنیا میں حکومت کا سب جدید طرز جمہوریت ہے، جمہوریت ایسی طرز حکومت کا نام ہے جہاں عوام ایک متعینہ مدت تک کے لئے اپنا نمائندہ خود منتخب کرتی ہے، اس طرز حکومت میں رائے عامہ بہت اہمیت رکھتی ہے، حکومتی فیصلوں میں اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اس نظام میں ملک کا ہر باشندہ یکساں حقوق رکھتا ہے گویا حکومت میں وہ بھی ایک طرح سے شریک ہوتا ہے۔

نظام حکومت کوئی بھی ہو، حاکم کا صالح اور خداترس ہونا بہت ضروری ہے۔نظام خلافت کی سب سے اہم خصوصیت یہی رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک مثالی نظام حکومت کے طور پر آج بھی اپنی اہمیت اور اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے، اسی کشش کے نتیجہ میں وقتا فوقتا نظام خلافت کے احیا کی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں اور مسلمانوں میں انہیں خاطر خواہ پذیرائی بھی ملتی رہی ہے۔ خلافت راشدہ کے اختتام کے بعد جب ملوکیت کا دور شروع ہوا تو اس سلسلہ کا ایک شخص مسلمانوں کا حاکم مقرر ہوتا ہے لیکن وہ اپنے طرز عمل میں خلفاء راشدین کے مشابہہ ہوتا ہے اس لئے تاریخ میں اسے پانچویں خلیفہ راشد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کا نام نامی حضرت عمر بن عبدالعزیز تھا۔

خلافت وملوکیت میں کچھ قدریں مشترک بھی ہیں یہاں تک کہ ایک بار خود حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اپنے بارے میں شبہہ ہوا کہ وہ بادشاہ ہیں یا خلیفہ ؟

عن سفيان بن أبي العوجاء قال: قال عمر بن الخطاب: والله ما أدري أخليفة أنا أم ملك، فإن كنت ملكا فهذا أمر عظيم. قال قائل: يا أمير المؤمنين إن بينهما فرقا، قال: ما هو؟ قال: الخليفة لا يأخذ إلا حقا ولا يضعه إلا في حق، فأنت بحمد الله كذلك، والملك يعسف الناس فيأخذ من هذا ويعطي هذا. فسكت عمر۔

سفیان بن ابی عوجاء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نےفرمایا کہ خدا کی قسم مجھے نہیں پتہ کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ ؟ اور اگر میں بادشاہ ہوں تو یہ میرے لئے بڑی خطرناک بات ہے، ان کی بات سن کر کسی نے کہا کہ اے امیرالمومنین دونوں میں بڑا فرق ہے۔ حضرت عمر نے سوال کیا کہ وہ فرق کیا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ خلیفہ نہ ناحق لیتا ہے اور نہ ہی اسے ناحق خرچ کرتا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ آپ ایسا ہی کرتے ہیں، لیکن بادشاہ کا معاملہ بالکل اسکے برعکس ہوتا ہے وہ لوگوں پر ظلم ڈھاتا ہے لیتا کسی اور سے ہے اور دیتا کسی اور کو ہے، یہ سن کر حضرت عمر خاموش ہوگئے۔

اس واقعہ سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ خلیفہ وقت اگر خداترس اور انصاف پرور نہ ہو تو وہ ایک ڈکٹیٹربن جاتا ہے لیکن اگر کوئی بادشاہ خداترس اور انصاف پسند ہو تو وہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی خلیفہ کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے۔ اگر یہ شرط نکال دی جائے تو جمہوریتیں بھی ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل ہوجاتی ہیں، ہمارے زمانے میں عرب ممالک کا جمہوری نظام اسکی جیتی جاگتی مثال ہے، جب کہ دوسری طرف مغربی ممالک کی جمہوری حکومتیں اپنی اصل روح کے ساتھ کام کررہی ہیں۔

اس لئے مدار نظام حکومت پر نہیں بلکہ اصول حکومت پرہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں بادشاہت کو بھی رحمت بتایا گیا ہے:

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب جامع المسائل میں لکھتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ کے بعد فتنوں اور اختلافات کادور شروع ہواجس کی خبر اللہ کے رسول نے خود دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آئندہ نبوت ورحمت کا دور آئے گااسکے بعد نبوی خلافت ورحمت کا دور آئے گا اور اسکے بعدبادشاہت ورحمت کا دور آئے گا اور پھر اسکے بعد ظالم بادشاہوں کا دور شروع ہوگا۔
چنانچہ نبوت ورحمت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے نبوی خلافت ورحمت خلفاء راشدین کا دور ہےاور حضرت امیر معاویہ کی امارت بادشاہت ورحمت کا دور ہےاور پھر ان کے بعد ظالم وجابر بادشاہوں کا عہد شروع ہوتا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے کوئی بھی نظام، چاہے وہ بادشاہت ہو، خلافت ہو، یاجمہوریت ہو یاآئندہ دنیامیں اور بھی کوئی نیا نظام حکومت ایجاد ہو جائے وہ فی نفسہ برا نہیں ہے بشرطیکہ خدا کی سرزمین پر خدائی احکام کا نفاذ ہو، عدل وانصاف کا قیام ہو، ظلم وجور کاخاتمہ ہو، اعلی اخلاقی اقدار کا فروغ ہو اور معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو۔ اقامت دین کے تعلق سے یہ بات بہت اہم ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں اس کے اتنے ہی کے مکلف ہیں جتنا کہ ان کی زندگیوں میں اسکے نفاذ گنجائش پائی جاتی ہو کیونکہ اللہ تعالی کے بے شمار انبیاء ایسے گزرے ہیں کہ جن کی عمریں دعوت دین کے راستے میں ختم ہوگئیں لیکن ان کے پیروکاروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی وہ اپنے ماحول کو نہیں بدل سکے اس کے باوجود قرآن میں انھیں کہیں بھی ناکام نہیں کہا ہےبلکہ اصل ناکامی اس قوم کی بتائی گئی ہے جس نےان کی دعوت کا انکار کیا اور اپنی کافرانہ روش پر باقی رہے۔

اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے تصورات کو مقاصد شریعت کی روشنی میں ٹھیک سے سمجھا جائےاوران پر عمل پیرا ہواجائے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کی کتاب
    "خلافت وملوکیت”
    دو رکعت کے اماموں کی سمجھ میں آنے والی کتاب یقینا نہیں ہے۔ یہ ان مبلغوں کی ضرورت ہے جو عالمی سطح پر اسلام کو ایک کامیاب اور جامع نظام زندگی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر ان کا سابقہ ان جاہل مولویوں کے جاہل مقتدیوں جیسوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے پیش آتا ہے جو جدید علوم و نظریات کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کا بھی تنقیدی مطالعہ رکھتے ہیں۔ پھر انھیں "شخصیات” سے بھی متاثر نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہیں قائل کرنے کیلئے علمی اور عقلی استدلال سے کام لینا پڑتا ہے۔
    اور سید مودودی نے خلافت و ملوکیت لکھ کر اسی اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ اسلام پر عائد ہونے والے اعتراضات کو دلیل کی قوت سے رد کیا ہے اور شخصیات کی غلطیوں کو ان شخصیات کی ذات تک محدود بتایا ہے۔ اور اہم بات یہ کہ یہ سب تحقیق انہوں نے گھر بیٹھے خود سے اختراع نہیں کیا بلکہ سلف صالحین سے حوالوں کے ساتھ نقل کرکے واضح کیا ہے جسے حاسدانہ مخالفت پر کمربستہ طبقہ
    یکسر نظرانداز کرتا آیا ہے

تبصرے بند ہیں۔