دلتوں کے دکھ: قانون سے نہیں سماجی بدلاؤ سے ہوں گے دور

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک بار پھر دلت میڈیا کی سرخیوں میں ہیں۔ اس بار پارلیمنٹ کے ذریعہ ایس سی- ایس ٹی قانون میں ترمیم نے انہیں بحث کا موضوع بنا دیا ہے۔ اسی سال 20 مارچ کو سپریم کورٹ نے ایس سی -ایس ٹی قانون کے غلط استعمال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ’دفعہ 18 کے’ کی ان شرائط کو خارج کردیا، جن کے تحت الزام لگنے پر فوراً گرفتار کرنے، ایف آئی آر لکھنے اور پیشگی ضمانت نہ دینے کا نظم تھا۔ عدالت نے اسے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایس سی / ایس ٹی (ہریجن) قانون کے تحت شکایت ملنے کے بعد فوراً معاملہ درج نہیں ہوگا، پولس سپرنٹنڈنٹ یا اس رینک کا افسر پہلے شکایت کی ابتدائی جانچ کرکے پتا لگائے گا کہ معاملہ جھوٹا یا اس کے پیچھے کوئی سازش تو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون میں شکایت درج ہونے کے بعد ملزم کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ سرکاری ملازم کی گرفتاری سے پہلے اس کا تقرری کرنے والی اتھارٹی یا افسر اور عام آدمی کی گرفتاری کے لئے ایس ایس پی کی منظوری لی جائے گی۔ اتنا ہی نہیں عدالت نے ملزم کے لئے عبوری ضمانت کا راستہ بھی (سی آر پی سی دفعہ 438 کے تحت) کھول دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر مخالفت ہوئی تھی۔ اسے دلتوں کو تحفظ فراہم کرنے والے قانون کو کمزور کرنے کے طور پر دیکھا گیا۔ احتجاج کے لئے سبھی دلت جماعتوں نے مل کر دو اپریل کو ’بھارت بند‘ کرنے کا اعلان کیا۔ احتجاج کے دوران کئی ریاستیں سلگ اٹھیں۔ ان میں سب سے زیادہ تشدد کے واقعات وہیں ہوئے جہاں دلتوں پر صدیوں سے زیادتی ہوتی رہی ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، بہار، اتر پردیش، ہریانہ ان تمام ریاستوں میں آندولن متشدد رہا۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ ان تمام ریاستوں اور مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ ایس سی -ایس ٹی کے 131 ممبران پارلیمنٹ میں سے67 اس کے ہیں۔ اس کے باوجود سرکار نے عین احتجاج کے دن سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن داخل کی۔ جو اب بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اگر یہ درخواست پہلے داخل کر دی گئی ہوتی تو آندولن کے دوران گئی گیارہ لوگوں کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ ملک گیر بند کے دوران ہوئے تشدد کے واقعات کے لئے دلتوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا جبکہ ان سبھی معاملوں میں مرنے والے بند کے حمایتی یا دلت تھے۔

دلتوں کا دکھ سماجی نابرابری کی اپج ہے، اس سے ملک کی بڑی آبادی متاثر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 37 فیصد دلت غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ 54 فیصد دلت آبادی نقص تغذیہ کے زمرے میں آتی ہے۔ ہر 18 منٹ میں ایک دلت کے خلاف جرم واقع ہوتا ہے۔ ملک میں 560 گاؤں اب بھی ایسے ہیں جہاں دلت مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ انہیں مندر جانے کی اجازت نہیں ہے، وہ اپنے جانوروں کو اس تالاب میں پانی نہیں پلا سکتے جہاں اعلیٰ ذات والوں کے جانور پانی پیتے ہیں۔ وہ گھوڑی پر نہیں چڑھ سکتے، ان کی شادی میں بارات نہیں بج سکتی۔ اس لحاظ سے سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کی امید کو کمزور کرنے والا تھا۔ دلت یا کمزوروں کے معاملے قانون کی موجودگی کے باوجود انصاف کی راہ دیکھتے رہتے ہیں۔ اعلیٰ پولس افسر کی جانچ کے بعد مقدمہ درج کرنے کی شرط کی وجہ سے متاثرین کی بڑی تعداد انصاف سے محروم رہ جاتی۔ یہ صحیح ہے کہ قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے لیکن اس کی آڑ میں قانون کو مفلوج بنا دینا تو کوئی سمجھداری کی بات نہیں ہے۔

پچھلے پندرہ سالوں میں جہاں دلت اپنے حق کے لئے کھڑا ہونا سیکھ گئے ہیں وہیں ان پر مظالم بھی بڑھے ہیں۔ گجرات جیسی ریاست بھی اس کی گواہ بنی ہے۔ گجرات کے آنند ضلع میں گربا دیکھنے پر پیٹ پیٹ کر 21 سالہ دلت نوجوان کا قتل، مری ہوئی گائے کی چمڑی اتارنے والے لڑکوں کو باندھ کر پیٹنا اسی ریاست کے واقعات ہیں۔ مونچھ رکھنے پر دلتوں کو پیٹنے، گھر میں گھس کر دلت بچیوں، خواتین کی عصمت دری، اسپتال میں موت ہونے پر لاش کو لے جانے کے لئے ایمبولینس فراہم نہ کیا جانا اور پیسے نہ ہونے پر آخری رسومات کے لئے نگر نگم سے مدد کا نہ ملنا ایسے واقعات ہیں جو ہریانہ، مدھیہ پردیش یا گجرات تک محدود نہیں ہیں۔ اس طرح کی خبریں گاہے بگاہے ملک کے مختلف علاقوں سے آتی رہتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے جیتن رام مانجھی کے پوجا کرنے کے بعد مندر کا دھویا جانا اور صدر جمہوریہ رام ناتھ کو وند کو پوری کے مندر میں گربھ گرہ تک نہ جانے دینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دلت خواہ کوئی بھی حیثیت رکھتا ہو وہ امتیازی سلوک سے محفوظ نہیں ہے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو اکیسویں صدی میں بھی منووادی سوچ کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان سے ہندوستان کے ترقی یافتہ ومہذب ہونے کے دعوؤں پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔

پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایس سی /ایس ٹی قانون میں ’دفعہ 18 اے‘ جوڑ کر بدل دیا۔ اب وہ پہلے جیسا ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف اعلیٰ ذات کے لوگوں نے ملک گیر سطح پر بند کرکے حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کی۔ اس دوران کئی جگہ ریل اور سڑک کے راستے روکے گئے۔ جس کی وجہ سے کئی مریضوں نے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔ ان میں ایک تین سال کی بچی بھی شامل ہے۔ ایس سی / ایس ٹی قانون میں حکومت کے ذریعہ کی گئی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیا ہے۔ اسے آئین کی دفعہ 14 اور 21 کے خلاف بتایا گیا ہے۔ درج فہرست ذات و قبائل ترمیمی ایکٹ کے خلاف اعلیٰ ذات والوں کے مورچہ کھولنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کوئی بھی عمل یا پالیسی جس سے دلتوں کی حالت میں بہتری اور عزت میں اضافہ ہوتا ہو انہیں منظور نہیں ہے۔ حکومت کی کوششوں کے باوجود اعلیٰ ذاتوں اور دلتوں کے درمیان فاصلے کم نہیں ہو رہے ہیں۔

آئین میں دی گئی سہولیات سے بلا شبہ دلتوں کی حالت میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن سماجی سطح پر وہ اب بھی دبے کچلے ہی ہیں، سماج کے بڑے طبقہ کی ایسی ذہنیت ہے۔ اس کے پیچھے ریزرویشن کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور اسے صحیح سے نافذ نہ کیا جانا ہے۔ اونچی ذات کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حق مار کر دلتوں کو دیا جا رہا ہے۔ اس لئے رہ رہ کر یہ مانگ اٹھتی رہتی ہے کہ ریزرویشن ذات کے بجائے اقتصادی بنیاد پر دیا جائے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ریزرویشن سماج کو بانٹنے والا ہے۔ دوسری طرف جن دلت خاندانوں کو ریزرویشن کا فائدہ ملا آگے بھی وہی اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ باقی کی حالت اب بھی جوں کی توں ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ جس فیملی کو ایک بار ریزرویشن کا فائدہ مل چکا ہے اسے دوبارہ نہ دیا جائے، البتہ تعلیم میں ریزرویشن دینے پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کو اب دلت لفظ پر بھی اعتراض ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس لفظ سے کمتری جھلکتی ہے، اس لئے اس کی جگہ درج فہرست ذات کا لفظ استعمال ہو۔ اس سلسلے میں بمبئی ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی بنیاد پر وزارت برائے اطلاعات ونشریات نے ایڈوائزری جاری کرکے میڈیا کے سبھی اداروں سے دلت کے بجائے درج فہرست ذات استعمال کرنے کی صلاح دی ہے۔

 سوال یہ ہے کہ دلت و کمزوروں کے دکھ دور کیسے ہوں، ان کی حالت میں سدھار کیسے لایا جائے، انہیں انصاف دلانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟  کیا دلتوں کے گھر کھانا کھانے، ان کے گھر رات گزارنے سے یا ان میں سے کچھ کو نوازنے سے یہ کام ہو سکتا ہے؟ کیا صرف ریزرویشن ان کی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے؟ اس کا جواب نہیں میں آئے گا۔ خود موہن بھاگوت اس طرح کی نوٹنکی کو بند کرنے کی بات کہہ چکے ہیں۔ در اصل دلت وکمزوروں کے تئیں عوام کے رویہ کو بدلنے پر زور دینا ہوگا۔ اس کے لئے مذہبی رہنماؤں کو آگے آکر ان غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا جو سناتنی روایتوں کے چلتے پیدا ہوئی ہیں۔ سماج کو بدلے بغیر نہ ان کے دکھ دور ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی حالت میں کوئی سدھار آ سکتا ہے۔ قانون سے تو ہر گز یہ کام نہیں ہو سکتا۔ آیئے مل کر سماجی بدلاؤ کے لئے کوشش کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔