دیش بھکتی ثابت کرنے کا درد اور دوغلی سماجیت

ڈاکٹر عابد الرحمن

’اب تک کئی سالوں میں مجھے انڈیا سے پیار ثابت کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی، یہ میرے لئے مایوس کن ہے کہ میری شہریت کا اشوجو کہ ذاتی قانونی اور غیر سیاسی ہے اور دوسروں کے لئے پریشانی کا باعث بھی نہیں، اسے غیر ضروری تنازعہ میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ ‘

 یہ اداکار اکشے کمار کا ٹویٹ ہے جو انہوں نے ان کے کینیڈا کے شہری ہونے کے متعلق اٹھائے گئے سوالات پر کیا۔ انہوں نے پچھلے دنوں مودی جی کا ’غٰیر سیاسی ‘ انٹر ویو لیا تھا لیکن اس کے بعد ہوئے الیکشن میں وہ ووٹ ڈالنے نہیں گئے تھے۔ جس پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں سوال اٹھایا گیا تھا وہیں سے کینیڈا کے شہری ہونے اور بھارتی شہریت چھوڑ چکنے کے متعلق بھی ان پر تنقید کی گئی تھی۔ اکشے کمار کے مذکورہٹویٹ میں وہ درد دیکھئے جو کسی بھی شخص کو اس کی دیش بھکتی ثابت کر نے میں ہوسکتا ہے۔ اکشے کمار کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ واقعی کینیڈا کے شہری ہیں ان کے پاس کینیڈا کا پاسپورٹ ہے اور ایک ایسا ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں گشت کر رہا ہے جس میں وہ ٹورنٹو کینیڈا میں ایک مجمع سے کہہ رہے ہیں کہ ٹورنٹو ہی ان کا گھر ہے اور فلم انڈسٹری سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ وہیں بسنے والے ہیں، اس معاملہ میں جہاں لوگ ان کی شہریہت پر سوال اٹھا رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ان کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔ دیش بھکتی ثابت کر نے کا سب سے زیادہ سوال مسلمانوں سے کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کا معاملہ بالکل مختلف ہوتا ہے، مسلمان انڈیا ہی کے شہری ہیں کسی اور ملک کی شہریت ہم میں سے کسی کے بھی پاس نہیں، نہ کسی اور ملک کا پاسپورٹ مسلمانوں کے پاس ہے اور نہ ہی کہیں اور جا بسنے کا ہمارا کوئی ارادہ ہے۔

 ہم مسلمان یہیں پیدا ہوئے اور یہیں پیوند خاک ہونے والے ہیں، ارے جب مذہب اور قومیت کے نام پر پاکستان کی تشکیل ہوئی تو ہم نے پاکستان جانا پسند نہیں کیا انڈیا کو ہی اپنا ملک بنایا، دو قومی نظریہ کو لات مار ی اور اپنی ساری حب الوطنی اور دیش بھکتی انڈیا سے وابستہ کردی۔ انڈیا میں ہم سے زیادہ دیش بھکت کوئی کیا ہوسکتا ہے کہ ہم نے اپنے مذہب اور قومیت کے نام ایک متبادل موجود ہونے کیء باوجود آزادانہ طور پر اپنی مرضی سے انڈیا کو اپنا ملک چنا۔ اس کے باوجود جب ہم سے دیش بھکتی پر سوال کیا جاتا ہے تو محسوس کیجئے ہمیں کتنا درد ہوتا ہوگا اور کس کوفت کی کیفیت سے ہم گزرتے ہوں گے۔ اس معاملہ میں اکشے کمار کے بھی تو حمایتی موجود ہیں جو ان کا دفاع کر رہے ہیں لیکن ہمارا تو کوئی حمایتی بھی نہیں ہوتا، ہم الگ تھلگ کر دئے جاتے ہیں اور پورا دیش ہمارے خلاف ایک ہو جاتا ہے، جو گنے چنے لوگ ہماری حمایت میں آگے آتے ہیں انہیں بھی دیش دروہی کہہ کر پاکستان یا قبرستان کا راستہ دکھادیا جاتا ہے۔

حالانکہ یہ بات منافقت ہی میں شمار ہوگی کہ ایک طرف آپ اپنی پروفیشنل لائف میں دیش بھکتی کی نمائش کریں، بلکہ پر تشدد دیش بھکتی کا پرچار کریں اور دوسری طرف آپ اسی ملک کے شہری نہ ہوں بلکہ آپنے ایک دوسرے ملک کے لئے اپنے آبائی ملک کی شہریت چھوڑ دی ہو اور ریٹائر منٹ کے بعد کی زندگی گزارنے کے لئے آپ نے کسی دوسرے ملک کو اپنے ملک پر فوقیت دی ہو۔ جس دیش نے آپ کو سپر اسٹار بنایا، مہنگے اداکاروں میں سے ایک بنایا، اوردنیا کے امیر ترین آدمیوں میں جگہ دلوائی آپ اس ملک کی بھکتی کے لئے اداکاری کریں تو یہ اس ملک پہر کوئی احسان نہیں بلکہ اس کا حق ہے لیکن اگر آپ اس ملک کی شہریت چھوڑدیں اور اس کے مقابلے کسی دوسرے ملک کو اپنا وطن چن لیں تو بتائیے یہ منافقت نہیں تو اورکیا ہے۔

ہم مسلمانوں کی اور آپ کی دیئش بھکتی میں یہی سب سے بڑا فرق ہے کہ ہمارے پاس کے متبادل موجود ہونے کے باوجود بھی ہم نے انڈیا کو نہیں چھوڑا، اسے ہی اپنا وطن چنا۔ یعنی آپ کی دیش بھکتی دلی نہیں ہے بلکہ پروفیشنل اور کمائی سے جڑی ہوئی ہے، آپ ملک کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل ہیں یہ بھی دیش پر کوئی احسان نہیں ہے کیونکہ یہ اس لئے ہے کہ دیش آپ کو اتنی کمائی دیتا ہے کہ آپ پرزیادہ ٹیکس عائد ہو۔ لیکن اس کے باوجود بھی اکشے کمار کے حمایتیوں کی کمی نہیں جو جس زبان سے مسلمانوں کی دیش بھکتی پر سوال اٹھاتے ہیں اسی زبان سے ان کی دیش بھکتی ثابت کر نے کے لئے تاویلیں ڈھونڈنے میں مصروف ہیں، انوپم کھیر نے تو سوال کرنے والوں کو دائمی نفرت کرنے والے(Chronic Haters ) اور ٹرولرس( Trollers )قرار دیا۔ یہ سب صرف اس لئے کہ ہماری سماجیت دوغلی ہو چکی ہے، نہ صرف کچھ ادارے کچھ لوگ کچھ گروہ اس دوغلے پن کا شکار ہیں بلکہ پورا سماج ہی دوغلا ہو چکا ہے، ہندو مسلم کا وہ بٹوارہ جو کبھی سیاسی ہوا کرتا تھا اب سماج کی رگ و پے میں اس قدر رچ بس گیا ہیکہ اب انتہائی حساص معاملات میں بھی ہندو مسلم دیکھ کر ہی رد عمل ظاہر کیا جاتا ہے۔ انتہائی مایوس کن بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی اور سلامتی اہلکاروں پر حملوں میں بھی ہندو مسلم دیکھا جا تا ہے۔ حال ہی میں مہاراشٹر کے گڑھ چرولی میں نکسلوادیوں نے سی آر پی ایف کی ایک گاڑی کو بم دھماکے سے اڑادیا جس میں ۱۶ جوان شہید ہو گئے لیکن اس معاملہ میں پورے ملک کو وہ غصہ نہیں آیا جو پلوامہ حملے کے بعد آیا تھا کیوں ؟ کیا اس لئے نہیں کہ پلوامہ میں دہشت گرد ی کا پس منظر مسلم تھا دہشت گرد مسلمان تھا جبکہ گڑھ چرولی میں دہشت گرد مسلمان نہیں تھے لیکن اکثریتی ہندو طبقہ سے ان کا کچھ نہ کچھ کنیکشن ضرور ہے؟

گڑھ چرولی کے معاملہ میں پلوامہ کی طرح نہ میڈیا میں بحث و مباحثے کے راؤنڈ چلائے گئے، نہ جنگی جنون بھڑکا یا گیا، نہ خاطیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، نہ نکسلوادیوں کے خلاف جنگی پیمانے پر کارروائی کی باتیں ہوئیں نہ سیاستدان روایتی ٹویٹس سے آگے بڑھے اور نہ کہیں بند رکھا گیا، نہ عوام کو غصہ آیا اور نہ خواص کا خون کھولا۔ وجہ؟کیا نکسلواد ہماری سیکیورٹی کے خطرہ نہیں ہے؟کیا اس سے ہمارے ملک کی سالمیت کو خطرہ نہیں ؟ ہے، خطرہ ہے، لیکن وہ مسلمان نہیں اس لئے ان کے معاملہ میں ہمارازبانی اور عملی ردعمل الگ ہے۔ اور یہ ہمارے دوغلے پن کی انتہاء ہے اور ملک کے لئے اتناہی خطرناک ہے جتنا کہ دہشت گردی اور نکسلواد خطرناک ہے۔ ہمارا یہ دوغلا پن سبھی حساس شہریوں کے لئے وجہ تشویش ہونا چاہئے۔ اکشے کمار کی بھی جو حمایت ہو رہی ہے تو وہ بھی اسی دوغلے پن کی وجہ سے، اس لئے کہ وہ مسلمان نہیں اکثریتی طبقہ کے فرد ہیں، اگر ان کی جگہ کسی مسلم اداکار کا یہ معاملہ ہوتا تو ابھی تک پورے ملک میں آسمان سر پر اٹھالیا جاتا، اس سے اس کی دیش بھکتی نہیں پوچھی جاتی بلکہ سیدھے پاکستان کا راستہ دکھایا جاچکا ہوتا اور کئی منھ زور اور جعلی دیش بھکت تو اسے دھمکیاں دے کر قبرستان کا راستہ بھی دکھ اچکے ہوتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔