سیاسی بساط پر مسلمانوں کی حیثیت (دوسری قسط)

محمد آصف اقبال

لوک سبھا الیکشن کے پہلے مرحلے کی پولنگ بیس ریاستوں کی اکّیانوے سیٹوں پر مکمل ہو گئی ہے۔ اترپردیش،بہار،مغربی بنگال، آندھراپردیش،تلنگانہ اور اتراکھنڈسمیت20ریاستوں میں صبح سے ہی پولنگ بوتھوں پر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں اور کل 59%فیصد ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا۔ اکّیانوے سیٹوں کے چودہ کروڑ سے زائد ووٹروں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔ ان میں جموں و کشمیر کی دو لوک سبھا سیٹوں پر بھی پہلے مرحلے میں ووٹنگ ہوئی اور ریاست میں کل 49.54فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے۔ بارہمولہ میں 29.32فیصد اور جموں میں 39.67فیصد کے قریب ووٹنگ ہوئی جو گزشتہ انتخابات2014میں 57%فیصد کے مقابلہ کافی کم ہے۔

 اسی درمیان چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس سنجے کے کول نے بدھ کے دن دیئے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ رازداری کے نام پر میڈیا کی رپورٹ نہیں روکی جاسکتی۔ دراصل ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے کہا ‘نہ تو ہندوستانی پارلیمنٹ کا بنایاکوئی قانون اور نہ ہی انگریزوں کا بنایا آفیشیل سکریٹ ایکٹ’ میڈیا کو کوئی دستاویز یا معلومات شائع کرنے سے روک سکتا ہے اور نہ ہی کورٹ ان دستاویزات کو خفیہ مان سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مرکزی حکومت قومی سلامتی کا حوالہ دے کر آرٹی آئی یا حق اطلاعات کے تحت طلب کی گئی معلومات دینے سے انکار نہیں کر سکتی ہے۔ حالانکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ صرف معلومات مانگنے بھر سے معلومات مل جائے گی۔ اطلاع مانگنے والے کو اپنے دلائل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس طرح کی معلومات کو چھپانے،معلومات دینے سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتاہے۔ وہیں دوسری طرف سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو زبردست جھٹکا دیتے ہوئے ‘خاص اور خفیہ’دستاویزات پر مرکز کے استحقاق کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے دستاویزات عدالت میں درست ہیں۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی،جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے مرکز کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت میرٹ کی بنیاد پر کی جائے گی اور اس کے لیے نئی تاریخ مقرر کی جائے گی۔ برخلاف اس کے مرکزی حکومت کا ابتدائی اعتراض تھا کہ کیا عدالت نظر ثانی درخواست دائر کرنے والوں کی جانب سے دستیاب کرائے گئے خصوصی اور خفیہ دستاویزات پر سماعت کر سکتی ہے؟سابق مرکزی وزرا،ارون شوری اور یشونت سنہا اور جانے مانے وکیل پرشانت بھوشن رافیل لڑاکا طیارے سودا معاملہ میں عدالت کے گزشتہ سال14دسمبر کو دیئے فیصلے کا جائزہ لینے کے لیے عرضیاں دائر کی تھیں، جن میں انہوں نے کئی ایسے دستاویزات لگائے تھے،جو مرکزی حکومت کی نظر سے خاص قسم کے اور خفیہ تھے۔

        لوک سبھا الیکشن کی گہما گہمی کے درمیان دارلعلوم دیوبند کے حوالہ سے یہ وضاحتی خبر بھی سامنے آئی کہ دارلعلوم دیوبند ایک غیر سیاسی اور خالص تعلیمی ادارہ ہے جس کی جانب سے ماضی و حال میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت میں کوئی بیان جاری نہیں کیا اور نہ کیا جائے گا لیکن اطلاعات مل رہی ہیں کہ کسی شر پسند کے ذریعہ سوشل میڈیا پر دارلعلوم دیوبند کی جانب سے کوئی جعلی سیاسی اپیل پھیلائی جا رہی ہے جس میں کسی ایک کی حمات اور مخالفت کی اپیل ہے،یہ سراسر غلط ہے۔ دارالعلوم دیوبند اور اس کے تمام ذمہ داران کی جانب سے اس وقت تک کسی کی حمایت یا مخالفت میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ وہیں دوسری جانب شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے اس استدلال کے ساتھ تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے مسلمانان ہند کو مایوس کیا ہے،لہذا2019کے لوک سبھا الیکشن میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت میں اپیل نہ کرنے کا فیصلہ و اعلان کیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کس کی حمات کی جائے اور کس کی نہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملت کی سیاسی،اقتصادی،تعلیمی اور سماجی پسماندگی،وقف املاک پر ناجائز قبضے،اقلیتی بہبود کی وزرات کی کارکردگی،مختلف ادوار میں محض کاغذی فلاحی اسکیمیں سامنے لانے کے علاوہ وعدوں، بنایات اور اعلانات کی ایک طویل فہرست ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے ملک کے عوام کو اور خصوصاً مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر اور دُور رس نتائج کو سامنے رکھ کر ایک نئی حکومت بنانے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

 مسلمانوں کے دو الگ الگ نمائندوں کے بنایات کے بعد اس خبر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس میں اترپردیش کے سلطان پور سے مرکزی وزیر اور بی جے پی امیدوار مینکاگاندھی نے کہا کہ ہم کھلے ہاتھ اور کھلے دل کے ساتھ آئے ہیں، آپ کو کل میری ضرورت پڑے گی۔ یہ الیکشن تو میں پار کرچکی ہوں۔ انہوں نے مسلمانوں سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہ اگر وہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے تو ان کے لیے بھی، مسلمانوں کے کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس بیان کو عام انداز میں ہر شخص نے مینکاگاندھی کی جانب سے مسلمانوں کو دھمکی سے تعبیر کیا ہے اور یہی اس کی حقیقت بھی ہے۔ گفتگو کے پس منظر میں جہاں ایک جانب مسلمانوں کو دنیا و آخرت کی سرخ روئی دلانے والے قائدین کنفیوژن کا شکار ہیں کہ 2019میں مسلمان جو ملک کا تقریباً15%فیصدحصہ ہیں اور آبادی کے اعتبار سے تقریباً20کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں، کسے ووٹ دیں ؟تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو اور نفرت کا بازار جو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے وہ کم ہو۔ دوسری طرف کھلے عام یا دبے لفظوں میں مسلمانوں کو نظر انداز کرنے،انہیں کنارے لگانے اور ان کے وہ مسائل جو قانون و آئین کے دائرہ میں آتے ہیں، جنہیں حل کرنا ہر ممبر آف پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے، اسے وہ حل کرنا نہیں چاہتے بلکہ الٹاانہیں ڈرایا اور دھمکایا جا تا ہے،اور کہا جا تا ہے کہ اگر وہ ایک خاص پارٹی کے امیدوار کوووٹ نہیں دیں گے تو وہ بھی ان کے کام نہیں کرے گا۔ یہ صورتحال صاف طور پر واضح کرتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت کس درجہ کمزور ہوتی جارہی ہے خصوصاً ان سیاسی پارٹیوں کے حوالہ سے جو ملک میں حکومت چلانے اور بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں اور جو کہتی ہیں کہ ہم کسی خاص گروہ کے لیے نہیں بلکہ تمام اہل ہندوستان کی خدمت کے جذبہ سے سیاست میں سامنے آئے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی واضح کرنی مناسب سمجھتا ہوں کہ متذکرہ مسائل صرف کسی خاص نظریہ والی پارٹی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ یہ صورتحال تمام سیاسی پارٹیوں میں موجود ہے۔ کیونکہ ایک جانب وہ ہیں جو کھلے طور پر اپنے عزائم اور ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں تو وہیں دوسرے وہ بھی ہیں جو گرچہ عزائم و ارادے بھونڈے انداز میں ظاہر نہیں کرتے اس کے باوجوداُن کی سرگرمیوں سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کو اور ان کے ووٹ کو صرف ایک مدت یعنی الیکشن کے دنوں میں تو اہمیت دیتے ہیں لیکن جب وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں، ان کی بات تک کرنا اپنی مجبوری سمجھتے ہیں، کیونکہ ہندوستان میں بے شمار ریاستیں ہیں۔ جن میں ضمنی انتخابات،اسمبلی انتخابات،پنچایت اور وارڈ کے انتخابات سال کے تقریباًہر دو یا تین ماہ ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لہذا اس صورتحال کے پیش نظر وہ اپنی زبان،پالیسی،پروگرام،منصوبہ،اسکیمیں، اور مسائل کا حل مسلمانوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہیں بنانا چاہتے کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اس سے اکثریت کے ووٹ بٹ جائیں گے اور وہ ناکام ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہی نہیں بلکہ گزشتہ ستر سال سے ایک طرف ہارڈ ہندتو کا نعرہ لگانے والے موجود ہیں تو وہیں سافٹ ہندتو کے علمبرداروں نے اپنے طرز عمل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہیں۔ انہیں صرف غرض ہے تو ووٹ سے۔ اس سے زائد مسلمان کسی دھوکہ کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی اکثریت سے وابستہ افراد کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہوئے انہیں نظر انداز کریں۔ اس صورتحال میں آپ باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ مسلم سیاستدانوں کی حیثیت کیا کچھ ہوگی؟ ان کا عمل دخل پالیسی بنانے اور اسے روبہ عمل لانے میں کتنا ہوسکتا ہے؟اور جو مسائل خصوصاً مسلمانوں کے ہیں اور وقتاًفوقتاً ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، ان کے حل میں انہیں کس حد تک پارٹی اختیار دیتی ہوگی؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔