صحت کا دشمن تمباکو اور عالمی یوم انسداد تمباکو 

 ڈاکٹر سیّد احمد قادری

 ہر سال 31 مئی کو’ عالمی ادارہ صحت ‘ (WHO  ) کے ذریعہ عالمی سطح  پر ’ عالمی یوم ا نسداد تمباکو‘  کا انعقاد کیا جاتا ہے۔حقیقت  یہ ہے کہ کسی بھی  بہتر سماج، قوم و ملک کے لئے یہ ضروری ہے کہ لوگ صحت مند، چاق وچوبند، متحرک اور فعال رہ کر بہتر زندگی گزاریں ۔ اس لئے کہ زندگی قدرت کا انمول تحفہ ہے، اس تحفہ کی جتنی قدر ہوگی، وہ اسی تناسب میں خوشگوار اور بھرپور ہوگی۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک بشمول بھارت، لوگ  اپنی بیش قیمتی زندگی کو تمباکو کے مختلف اقسام مثلاََ سگریٹ، بیڑی، زردہ، گٹکا، بھانگ، افیم، گانجہ اور دوسرے دیگرکئی طرح کے ڈرگس کے ساتھ ساتھ شراب کے استعمال سے تباہ و برباد کر تے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارا ملک بھارت پوری دنیا میں تمباکو کی پیداوار میں تیسرے مقام پر ہے اور تمباکو کے صنعت سے تقریباََ 26  لاکھ سے زائد لوگ جڑے ہیں ۔ جو یقینی طور پر بہت ہی تشویشناک صورت حال کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وقتی طور پر بظاہر ان نشیلی چیزوں کو استعمال کرنے والے والا ہی متاثر ہوتا ہے اور اسے مختلف طرح کے امراض، مثلاََ دل کا مرض، کینسر، اسٹروک، السر، دمّہ، تپ دق وغیرہ میں سے کوئی بھی مرض اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ایسے موضی مرض میں مبتلا ہونے کے بعد نہ صرف اس شخص کی زندگی تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے، بلکہ اس کا پورا خاندان شدّت سے متاثر ہوتا ہے۔ علاج و معالجہ میں ساری جائداد اور گھر کا اثاثہ تک کو اس شخص کی زندگی کو بچانے کے لئے داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن اہل خانہ اس وقت ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ، جب گھر کے اس مریض کی جان بچتی ہے اور نہ ہی گھر کی جائداد اور دیگر اثاثہ۔ نتیجہ میں مفلوک ا لحالی کا شکار ہوکر اس کا پورا  خاندان بد حالی کے اندھیرے میں گم ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے سرکاری اسپتالوں کا جو حال ہے، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ بڑے شہروں میں دولت مندلوگوں کے لئے تو بہت سارے نجی اسپتالوں کی سہولیات میّسر ہیں ، پریشانی ان کے لئے ہے، جو غربت اور مفلوک ا لحالی کی زندگی  بسر کرتے ہیں ، اور نشہ کی لت انھیں سرکاری اسپتال تک پہنچا دیتی ہے، جہاں بنیادی سہولیتیں بھی موجود نہیں رہتی ہیں ۔ انجکشن لگانے کے لئے اسپرٹ کی جگہ پانی کا استعمال  تو میں نے اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہے۔

ابھی حال ہی میں ایک سرکاری اسپتال کے سؤیپر کے ذریعہ ایک مریض کو مرہم پٹی لگانے کی خبر سرخی بھی بنی تھی۔ نتیجہ میں ایسے نشہ کی لت والے مریض سیدھے موت کے منھ میں جاتے ہیں اور جاتے جاتے گھر کی ساری خوشیاں بھی ساتھ لیتے جاتے ہیں ۔ ان کی بیوی بچوں کا مستقبل بھی اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ نشہ کے عادی ہو جانے والے لوگ ہر قیمت پر اپنی پسند کی نشیلی چیز کے حصول کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ چوری، ڈکیتی  اور قتل تک کرنے سے ایسے لوگ گریز نہیں کرتے اور  ایسے جرائم کو انجام دینے کے بعد حاصل ہونے والی رقم سے وہ اپنی پسندیدہ نشیلی چیز خرید کر اپنے نشہ کی شدّت کو کم کرتے ہیں اور بظاہر سکون حاصل کرتے ہیں ۔ میں نے امریکہ کے کئی شہروں میں دیکھا ہے کہ وہاں جرائم کرنے والے عام طور پر ایسے ہی نشہ کے عادی لوگ ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ امریکہ میں ـ’ہوم لیس‘ کہلاتے ہیں اور ڈاؤن  ٹاون میں اس طرح کے نشہ کرنے والے جگہ جگہ ’ ہیلپ می پلیز ‘ کی تختی لئے کھڑے نظر آتے ہیں اور مناسب رقم حاصل ہوتے ہی کھانے کے سامان کی بجائے اپنی پسند کی نشیلی اشیأ خریدنے نکل جاتے ہیں ۔ کبھی رقم نہیں ملی تو  نشہ کے لئے جرائم کرنے سے نہیں چوکتے۔ امریکہ میں گرچہ قوانین بہت سخت ہیں ، پھر بھی ایسے لوگوں کی وجہ کر وہاں کی پولیس بہت پریشان رہتی ہے۔

ہمارے ملک کے غریب اور مزدور طبقہ میں کھینی، بیڑی اور دیسی شراب کا استعمال عام ہے۔ ہر تیسرا شخص ایسے کسی نہ کسی نشہ کا عادی ضرور ہوتا ہے۔ اب تو گاؤں ، دیہات میں اپنے سامنے کے بڑے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر   بچّے بھی بیڑی اور کھینی  اور گٹکا وغیرہ کے عادی ہو گئے ہیں ۔ ان غریبوں کو اچھی غذا میسّر نہیں اور اس پر نشہ کی لت، ان کے جسم و جان کو ناتواں بنا دیتا ہے، قوت مدافعت دھیرے دھیرے جواب دینے لگتی ہے، جس کے باعث ایسے لوگوں کے اندر وقت سے قبل ہی زندگی کی صعوبتیں برداشت کرنے کی قوت جواب دے جاتی ہے۔

اس لحاظ سے 31  مئی کی تاریخ  بہت اہم ہے کہ آج  ہی کے دن عالمی ادرہ صحت  (W H O ) کی جانب سے پوری د نیا میں  world No Toabacco Day   کے طور پر منایا جا تا ہے۔ اس موقع پر بہت سارے ممالک  میں  طرح طرح کے اشتہارات، نعرے، لیکچر اور سیمینار وغیرہ کے ذریعہ عوام الناس کو تمباکو کے مضر اثرات سے با خبر کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی اور شاندار صحت کے لئے تمباکو کے استعمال سے دور رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ تمباکو، دراصل نیکو ٹیانہ خاندان کے پودوں کی پتیوں کو خشک کر انھیں مختلف شکل میں چبا کر یا اس کا منھہ میں دھواں  بنا کر لینے سے لینے جو نشہ ہوتا ہے، وہی نشہ بازوں کے لئے بظاہر سکون و اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ لوگ ابتدأ میں شوقیہ استعمال کرتے ہیں ، بعد میں یہی شوق، عادت اور لت میں بدل جاتا ہے اور لوگ اس کے نشہ میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں ۔ جا گتے اس وقت ہیں ، جب وہ کسی بھیانک مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ اگر مرض ابتدائی مرحلے میں رہا اور بہتر لیکن مہنگا علاج اور پرہیز ہوا تو کسی حد تک جان بچ جانے کی امید رہتی ہے، ورنہ موت تقریباََ یقینی ہوتی ہے۔

لوگوں  کے اندر بڑھتے نشہ کی لت اور اس کے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت (W H O)  نے  15 مئی 1987 کے عالمی صحت اسمبلی سے پاس تجویز پر   7  اپریل   1988کوغور و فکر کرتے ہوئے یہ طئے کیا کہ ہر سال  31 مئی کو  World No Tobacco Day   کے طور پر منایا جائیگا۔ یہ فیصلہ اگلے ہی سال یعنی 31  ؍مئی  1989 ء سے نافذالعمل ہوا۔ عالمی صحت اسمبلی نے  31 مئی  1989  سے ہر سال اس موقع پر انعقاد کئے جانے والے’ عالمی یوم عدم تمباکو ‘ کا ایک تھیم بھی دیتی ہے، تاکہ اس تھیم سے لوگ زیادہ سے زیادہ متاثر ہوں اور اپنی صحت کے تئیں پوری طرح آگاہ رہیں ۔ ایسی ہی ایک تھیم علامتی طور پر  یہ بھی ہے کہ ’ ایش ٹرے‘ سے سگریٹ، بیڑی کو نکال کر اس میں  خوشنما پھول رکھا جائے۔

 ہم اگر عالمی ادارہ صحت کے ذریعہ کی گئی کوششوں اور تحریک کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ کم از کم ہمارے ملک میں کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آیا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ W H O  کی مستقل کوششوں سے دنیا کے بہت سارے ممالک نے اپنے ملک کے عوام کے اندر بڑھتے نشہ کے رجحان کودیکھتے ہوئے اس جانب بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مجبور ہوئی اور عوامی اور سرکاری جگہوں پر قانون بنا کر تمباکو نوشی پر پابندی عا ئد کر دی۔ اس قانون پر جہاں جہاں سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے، وہاں وہاں پر لوگ ایسے نشہ کے استعمال سے حتی ا لمکان گریز کرتے ہیں ۔ لیکن جہاں پر نشہ کے خلاف بنے قانون پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، وہاں پر ہر طرح کے نشہ کا استعمال دھڑلے سے کیا جاتا ہے۔ اگر اس معاملے میں بہت اندر تک ڈوب کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ نشیلی اشیأ کے خرید و فروخت میں مختلف شہروں میں کئی کئی گینگ پوری طرح متحرک ہیں ، اور انھیں قانون کے رکھوالوں کا تعاون حاصل ہے۔ نشہ کے اس طرح کے کاروبار میں کروڑوں لو گ، کروڑوں کما رہے ہیں ۔ کبھی کبھی آپسی ٹکراؤ کی صورت میں خون خرابہ بھی ہوتا ہے۔ اصل میں ایسے لوگوں کو صارفیت کے اس دور میں دولت کمانے کی ہوس نے ان کے ضمیر کو بھی مردہ  اور بے حس کر دیا ہے۔ انھیں دولت سے مطلب ہے، کسی کی جان جائے، تو ان کی بلا سے۔

     گرچہ’ عالمی ادارہ صحت ‘نے  31   مئی  2008 سے ہی تمباکو کے تمام پروڈکٹس کے اشتہار پر مختلف حکومتوں کے تعاون سے پابندی عا ئد کر رکھی ہے اور بازار میں فروخت ہونے والے تمباکو کے مختلف اقسام کے پروڈیکٹ کے ڈبوں پر مفاد عا مّہ کے لئے یہ وارننگ رہتی ہے کہ ’تمباکو صحت کے لئے مضر ہے ‘۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ’چھوٹتی نہیں ہے یہ کافر منھ کو لگی ہوئی ‘۔ نتیجہ یہ ہے کہ جس طرح سے بھی اور جتنی قیمت پر بھی ملے، نشہ باز لوگ اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ ایسی نشیلی اشیأ کے سلسلے ایک مسئلہ  ہمارے ملک میں یہ بھی ہے کہ یہاں ، زہر میں بھی ملاوٹ عام ہے۔ جس کی وجہ سے ان نشیلی اشیأ میں اس کے نقصانات کئی گنا زیادہ ہو جاتے ہیں ۔

سگریٹ، بیڑی، گانجہ،بھانگ،ڈرگس،ہروئین وغیرہ کے ساتھ ساتھ سستی اور ملاوٹی شراب کے استعمال سے لوگوں کے جسم و جان کھوکھلے ہو رہے ہیں ، بڑی تعداد میں لوگ بے موت مر رہے ہیں ۔ لیکن ان ا موات کے سوداگروں کو ان باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ غریب اور مزدور طبقہ سستی بلکہ بہت سستی شراب کو ترجیح دیتا ہے۔ جس میں بعض اوقات زہریلے مادّے کی ملاوٹ  اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کے استعمال سے بیک وقت پچاسوں افراد کے فوت ہونے  اوران کے گھر  اجڑ جانے کی خبریں ، اکثر اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی سر خیاں اور بریکنگ نیوز بنتی رہتی ہیں ۔ ایسے حادثوں کے بعد حکومت وقت کے لوگ بس وقتی طور پر جاگتے ہیں ، کچھ کاروائیاں خانہ پری کے لئے ہوتی ہیں ، کچھ گرفتاریاں ہوتی ہیں اور معاملہ کے ٹھنڈا ہوتے ہی، پھر وہی خاموشی اور نظر انداز کرنے کا عمل عام ہوتا ہے۔ ایسی خاموشی میں کئی راز پنہاں ہوتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ، جس قدر نشہ کی زیادتی کے باعث ہونے والے جرائم کو روکنے اور ایسے ہی نشہ کے مضر اثرات سے بیمار پڑنے والے مریضوں پر کروڑوں روپئے خرچ کرنے کی بجائے، اگر ان نشیلی اشیأ پر ہی مکمل پابندی عائد کر دے، جیسا کہ ابھی حال ہی میں ایک فیصلہ کیا گیا ہے، تو جتنا حکومت ان نشیلی اور زہریلی اشیأ سے ٹیکس کے نام پر رقم وصول کرتی ہے اور ان پیسوں کو صحت عامّہ اور جرائم کنٹرول کرنے میں لگاتی ہے، اس کی نوبت ہی نہ آئے اور نشہ کرنے والے دھیرے دھیرے اس پابندی کے عادی ہو کر نشہ سے دور ہو نے پر مجبور ہو جائینگے۔ اس سے آپ ہی آپ بہت سارے مسائل کا تدارک ہو جائیگا  اور لاکھوں کی تعداد میں نشہ کے مضر اثرات سے مرنے والوں کی تعداد میں بھاری کمی  بھی آئیگی۔ کم از کم مستقبل کی آنے والی نسل تو ضرور ہی ان برائیوں سے پاک  رہے گی۔ جس سے بہتر اثرات مرتب ہونگے اور ہمارے ملک کے افراد، خاندان، سماج اور معاشرہ صحت مند ہوگا تو ملک بھی یقینی طور پر ترقی کے منازل طئے کریگا۔ اس اہم فیصلہ کے لئے بس حکمت عملی اور مضبوط ارادوں کی ضرورت ہے۔ اس عمل سے نہ صرف دنیا بھر میں  W H O  کے ذریعہ چلائی جا رہی مہم کی تائید  ہوگی اور اسے تقویت ملے گی بلکہ انسداد  تمباکو نوشی کو یقینی بنانے کی جانب بہت اہم اور قابل قدر قدم ہوگا، جس کی ستائش نہ صرف ہمارے یہاں کی آنے والی نسلیں کرینگی، بلکہ غیر ممالک میں بھی پزیرائی ہوگی۔ انسانی زندگی کے تحفظ کے لئے اگر ایسا قدم اٹھایا جاتا ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ انسانیت کے نام پر ایک بڑا اہم اور تاریخ ساز کارنامہ ہوگا۔ اس لئے کہ صحت نہیں تو کچھ نہیں  اور اگر صحت ہے تو جہاں ہے۔ یہ مقولہ ہمارے یہاں صدیوں سے زبان زد خاص و عام ہے، پھر کیوں نہیں ہم ان پر عمل کرتے ہوئے ایک بہتر خاندان، سماج اور قوم کی تشکیل کرنے میں معاون ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔