ملک کا بنیادی تعلیمی ڈھانچہ تباہی کے دہانے پر

محمد عارف اقبال

 کسی بھی ملک کا مستقبل اُس نئی نسل پر منحصر کرتا ہے جسے دنیا میں آنکھ کھولے محض تین چار سال ہی ہوتے ہیں۔ میری مراد اُن بچّوں سے ہے جو ملک کے معصوم سرمایہ ہوتے ہیں اور آئندہ بیس برسوں میں ملک و سماج کی ذمہ داریاں انہی کے کاندھوں پر ہوں گی۔ دنیا میں چاہے انسان جس قبیلے، علاقے، ذات یا دھرم و مسلک سے تعلق رکھتا ہو، اس کی پہچان اس کے ازلی والدین آدم و حوّا ہی سے ہے۔ نہ گورے کو کالے پر اور نہ ہی کالے کو گورے پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔ انسان کے جسم کا کوئی بھی عضو اس کی پیدائش کے وقت غریبی یا امیری کا محتاج نہیں ہوتا۔ ہر انسان کی آنکھ دنیا میں اس کے مقدر کے ساتھ کھلتی ہے کیونکہ خالق کائنات ہی تقدیر کا مالک اور بہترین عدل کرنے والا ہے۔ رب العالمین کے نزدیک اس کی تمام مخلوقات محبت و احترام کی مستحق ہیں۔ وہ کسی معمولی کسان کے بیٹے کو بھی امریکہ کا صدر بناسکتا ہے اور تاج و تخت کے مالک شاہی نسل کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں سرداری یا حکمرانی کا معیار بھی عدل وانصاف ہی رہا ہے۔ ہمارے ملک کے دستور میں بھی ہر شہری کے لیے عدل و انصاف پر مبنی بنیادی حقوق متعین کیے گئے ہیں۔

ہندوستان جب آزاد نہیں ہوا تھا تو انگریزی حکومت (British Empire) نے عوام کی بنیادی تعلیم کے لیے اپنے اصول پر تعلیمی ادارے قائم کیے۔ ان کے نزدیک تعلیم کو ہمیشہ اوّلیت حاصل رہی۔ بچّوں کی تعلیم کے سلسلے میں انگریز حکمراں ہمیشہ سنجیدہ رہے۔ جب انگریز ہندوستان کے حکمراں تھے تو ان سے بعض معاملات میں شدید اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن گورننس اور تعلیمی شعبے میں ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی کے بعد ہم ایک طرف جہاں اپنی غلامی سے نجات پر فخر سے جھومنے لگے وہیں دھرم اور ذات پات کے نام پر بدترین ذہنیت کا مظاہرہ بھی کرتے رہے۔ ایک ثانیے میں اہنسا (Non-Violence) ہنسا (Violence)  میں تبدیل ہوگئی۔ 30 جنوری 1948 کو تو اہنسا کو ہم نے قتل ہی کردیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کا تحریکی جذبہ دھندلا پڑتا گیا۔ قومی سطح پر انہی افراد کو قائدانہ رول ادا کرنے کے بہتر مواقع ملے جنہوں نے آکسفرڈ کی شکل دیکھی تھی۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ان کی قائدانہ اور مدبرانہ صلاحیتیں منجمد سی ہوگئیں۔ انہوں نے ملک کے تمام ہندوستانیوں سے آزادی کا نذرانہ اور قربانیاں تو وصول کیں لیکن ان کی ذہنی و فکری آبیاری کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ ملک کی آبادی کے اَسّی فیصد دبے کچلے لوگ بھی ان ہی کی طرح خالق کائنات کی مخلوق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان سے تو سوشلزم کا نعرہ لگایا جاتا رہا لیکن عملاً بدترین سرمایہ داری (Capitalism) کی نمائندگی کی جاتی رہی۔ انہوں نے ہندوستانیوں کی بنیادی تعلیم کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں کیا۔ عام ہندوستانیوں کے بچّوں کو مقامی مدرسوں، مکتبوں اور میونسپلٹی کے اسکولوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان کی یہ مجرمانہ غفلت اس لیے بھی سنگین ہے کہ وہ خود انگریزی نظام حکومت کی دانش گاہوں کے پروردہ تھے۔ ان کے تعلیمی نظام سے خوب واقف تھے۔ یہ بھی جانتے تھے کہ کسی ملک کی ریڑھ کی ہڈی (Back-bone)بلاتفریق مذہب و ملت اور ذات پات بچّوں کی بہترین منظم تعلیم میں مضمر ہے۔ اس معاملے میں ہندوستان میں سرسیّد احمد خاں (17 اکتوبر 1817۔ 27 مارچ 1898) کی شخصیت مثالی ہے کہ انہوں نے آکسفرڈ میں تعلیم حاصل تو نہیں کی لیکن انگلینڈ دیکھنے کے بعد علی گڑھ کے مضافات میں ایسا مثالی تجربہ کیا کہ اس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہونا چاہیے۔ وہ تعلیمی ادارہ اگرچہ مسلمانوں کے نام پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (A.M.U.) کہلایا لیکن نظام تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ہندوستان میں پہلا تعلیمی ماڈل تھا جو صد فیصد کامیاب رہا۔ اس تعلیمی ماڈل سے بھی آزاد ہندوستان کے ہمارے حکمراں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ ہمارے انگلینڈ ریٹرن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر (14 اپریل 1891۔ 6 دسمبر 1956) نے اونچ نیچ اور چھوت چھات کے خلاف آواز تو بلند کی اور دلتوں کو آئین (Constitution) میں تحفظ تو فراہم کیا لیکن لندن اسکول آف اکانومکس کے سندیافتہ ڈاکٹر صاحب نے ہندوستان کے مثالی تعلیمی ماڈل پر توجہ مرکوز نہیں کی۔

ملک کی آزادی کے بعد ہمارے حکمراں یوروپ اور امریکہ کا سفر بھی کرتے رہے لیکن انہیں شاید خیال بھی نہیں آیا کہ ملک میں تمام شہریوں کے لیے یکسانیت (Equality) پر مبنی مثالی بنیادی تعلیمی نظام قائم ہو۔ تاہم انہیں 1962 میں یہ ضرور خیال آیا کہ بیوروکریسی کو مضبوط رکھنے کے لیے ملک میں سنٹرل اسکول قائم کیے جائیں۔ لہٰذا 15 دسمبر 1963 کو منسٹری آف HRD کے تحت پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم (CBSE) کی بنیاد پر سنٹرل اسکول کا قیام عمل میں آیا۔ بعد میں اس کا نام کیندریہ ودیالیہ ہوا۔ اس میں درجہ VI سے VIII تک سنسکرت زبان کی پڑھائی لازمی قرار دی گئی۔ آٹھویں درجے تک کوئی فیس نہیں ہے اور نویں کلاس سے واجبی فیس لی جاتی ہے۔

31 مارچ 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں 1128 کیندریہ ودیالوں میں 12,27,951 طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اسٹاف کی تعداد 56,445ہے۔ بیرون ملک میں بھی تین سنٹرل اسکول ہیں یعنی کٹھ منڈو، تہران اور ماسکو۔ پورے ملک کو کیندریہ ودیالیہ کے قیام کے لیے 25 ریجنس (Regions) میں تقسیم کیا گیا ہے جس کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے۔ تاہم ملک کے 178 اضلاع اب بھی کیندریہ ودیالیہ سے محروم ہیں۔

ملک میں سنٹرل اسکولز کے لیے 1963 سے آج تک جتنے بھی تام جھام کیے جارہے ہیں، وہ صرف ان افراد کے بچّوں کے لیے ہے جو مرکزی حکومت کے ہاتھ پائوں خیال کیے جاتے ہیں یا جن کا تعلق کسی حد تک ڈیفنس ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آزادی کے 61 سال بعد ہندوستان کی پارلیمنٹ کو پہلی بار Right to Education کا خیال آیا۔ چنانچہ 4 اگست 2009 کو پارلیمنٹ میں 6 سے 14 سال کے بچّوں کے لیے Right of Children to Free and Compulsory Education Act (RTE) پاس کیا گیا جس کا نفاذ یکم اپریل 2010 سے ہوا، اس کے برعکس انگلینڈ (یوکے) میں 5 سے 18 سال تک کے بچّوں کے لیے بہت پہلے سے مفت تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بچّوں کی مفت تعلیم کے حقوق (RTE) کا یہ فیصلہ بھی محض نظریاتی یا سیاسی ہی تھا۔ کیونکہ عام بچّوں کی تعلیم کے مثالی ادارے پورے ملک میں حکومت کی سطح پر آج بھی صفر کے برابر ہیں۔ اگر مرکزی حکومت 1963 میں بھی بالغ نظری کے ساتھ پورے ملک کے عوام کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اسی سنٹرل اسکول کے نظام کو ریاستوں کی مفاہمت سے ایک ہی نصاب تعلیم (عوام کے مفاد میں جزوی ترمیم کے ساتھ) کے تحت شہری و دیہی علاقوں میں کیندریہ ودیالیہ قائم کرنے پر توجہ دیتی تو اس وقت شاید ملک کی تمام ریاستوں میں آبادی کے لحاظ سے عام بچوں کے لیے بھی کیندریہ ودیالیہ قائم ہوچکے ہوتے۔ میونسپل کارپوریشن اور میونسپلٹی کے اسکول تحلیل کردیے جاتے اور سماج کا کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہوتا۔

اس وقت ملک میں تعلیم اور تعلیمی اداروں (اعلیٰ سطح تک) کی صورت حال کیا ہے، اس سے ہر خواندہ اور تعلیم یافتہ شہری واقف ہے۔ مزید واقفیت کے لیے اگر آپ NDTV کے معروف اینکر مسٹر رویش کمار کے حال میں نشر کیے گئے 30 سے زائد ایپی سوڈز پر مشتمل رپورٹ دیکھ لیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ملک کا بنیادی تعلیمی ڈھانچہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ ایسی صورت میں ڈیجیٹل انڈیا کا خواب محض خواب ہے، حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔