وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی، وہ شاہد  

ڈاکٹر سلیم خان

گجرات میں بی جے پی  کے ستارے جیسے ہی گردش میں آئے امیت شاہ کو دن میں  تارے نظر آنے لگے۔ جئے شاہ کے معاملے تو عدالت پر دباو ڈال کر کسی طرح رفع دفع کردیا  گیالیکن جریدہ کاروان کے  بیباک صحافی نرنجن ٹاکلے نے  امیت شاہ کی نیند اڑا دی۔سہراب الدین مبینہ انکاؤنٹر کی سماعت کرنے والے سی بی آئی جج برج گوپال ہرکشن لویا کی موت پر  شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ  سے اس کا قتل ِ ناحق ہونا  اظہر من الشمس ہے۔ دراصل وہ  مقدمہ سہراب الدین یا پرجا پتی  کا نہیں بلکہ امیت شاہ کاتھا۔ ہندوستان کی عوام نے 2014 کے انتخابی نتائج کے ذریعہ جب انہیں  دہلی میں بیٹھ کر قتل و غارتگری کے پروانہ نواز دیا توانہوں نے بے دریغ  اپنی راہ کے ہر کانٹے کو بلا جھجک اکھاڑ کر پھینکنا شروع کردیا  اور جسٹس برج گوپال ہرکشن لویا اس سفاکی کاشکار ہوگئے  لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب شاہ جی  کے پاپ کا گھڑا  بھر چکا ہے۔ برج گوپال کی اہلیہ اور بچے تو ہنوز خوف و ہراس کے مارے چپی ّ سادھے ہوئے ہیں لیکن ان کی بہنوں اور والد نے تمام شواہد اس جرأتمندی کے ساتھ پیش کردیئے کہ تردید مشکل ہے۔  کاروان کے ان انکشافات کی روشنی میں   شاہ جی  پر  امیر مینائی کا  ضرب المثل شعر صادق ہوا چاہتا ہے؎

قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

امیت شاہ پر قتل کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام 7 سال قبل قومی  خفیہ ایجنسی نے لگایا تھا۔ اس کے بعد انہیں  استعفیٰ دینا پڑا  اور وہ  گرفتار  ہونے کے بعد ریاست بدر کردیئے گئے۔ان کا  مقدمہ گجرات سے ممبئی میں منتقل کردیا گیالیکن  مرکز اور مہاراشٹر  کا اقتدار ہاتھ میں  آجانے کے بعد  سی بی آئی اور عدالت دونوں  قابو میں آ گئے۔پھر کیا تھا  پہلے جج کا تبادلہ عمل میں آیا اور اسی کے ساتھ سی بی آئی کی نمائندگی کرنے والے استغاثہ اور تفتیش کارکو تبدیل کیا گیا۔ اس صورتحال میں اول تو امیت شاہ کو مقدمہ میں مستقل غیرحاضری کی اجازت مل گئی  اور پھر آگےچل  کر سی بی آئی عدالت نے بے قصور قراردے دیا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سہراب الدین اور پرجا پتی کے قاتلوں نے برج گوپال لویا کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جج برج گوپال کےدردناک  انجام نے فیض کی مشہور نظم ’نثار میں تری گلیوں کے‘ کی یاد تازہ کردی؎

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

گجرات کے اندر وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی نےپولس انکاؤنٹر اور  سیاست کے اشتراک کا ایک منفردتجربہ کیا تھا جس کو روبہ عمل لانے کی ذمہ داری ان کے وزیرداخلہ امیت شاہ  پرتھی۔ گجرات  میں انکاؤنٹر کا شکار ہونے والے سارے لوگوں پر مودی  جی کےقتل کا الزام لگا کر ایک  شخص خاص کوسیاسی فائدہ پہنچایا گیا۔ آگے چل کرونجارہ  اور چڈسامہ جیسےپولس افسران  نے اپنے سیاسی آقا ؤں کےآشیروادسے  پیشہ ورمافیاتشکیل دی جوصنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے اشارے پر ان سے بھتہ وصول کرنے والوں  کا صفایہ کرتا تھا۔ سی بی آئی نے 7 مئی 2013 کو جو فرد جرم داخل کی تھی  وہ اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ یہ پیشہ ور گروہ ای ایم جی ایل  یعنی انکاؤنٹر مشینری آف گجرات لمیٹیڈکے نام سے جانا جانے لگاتھا۔ اس سے تعلق رکھنے والے کئی افسران کو  جیل کی ہوا کھانی پڑی مگر  رہا ئی  کے بعد ان کی خدمات کے بدلے ترون باروٹ، پی پی پانڈے  اوراین کے  امین  کو سبکدوشی کے بعد بھی حکومتِ گجرات نے خصوصی ٹھیکے پر ملازم  رکھ لیا۔ اس تقرر کے خلاف جب  سپریم کورٹ میں  مفاد عامہ کی عرضی داخل کی گئی تو اس سال اگست میں ان لوگوں  کو رسوا ہوکر ازخود استعفیٰ دینے پر مجبور ہوناپڑا۔

2002 سے لے کر  2006 تک گجرات میں  6 انکاؤنٹر ہوئے جس میں 2 خواتین سمیت  13 لوگ پولس کی بربریت کا شکار ہوئے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سمیر خان کے جن 8 ساتھیوں پر پولس نے مودی جی  کےقتل کی سازش کا الزام لگایا تھا انہیں گجرات ہائی کورٹ نےرہا کردیااور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی۔ یہ حسنِ اتفاق نہیں ہے کہ سی بی آئی کی فردِ جرم مئی کے مہینے میں داخل ہوئی  اورجون کے اندر نریندر مودی  کوبی جے پی نے 2014 کی انتخابی مہم کا سربراہ بنایا۔ انہیں  جرائم کی سنگینی کا اندازہ  تھا ۔ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ان کا اختیارِ عمل گجرات تک محدود تھا  اور سی بی آئی چونکہ  مرکزی حکومت کے تحت کام کرتی ہے اس لئے اس پر قابو پانے کے لیے  مرکزی اقتدار پر قابض ہونا ضروری تھا۔ اس وقت  کانگریس کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ اگر  2014 کے انتخاب سے قبل وہ مودی کو وزیرا علیٰ کی عہدےسے استعفیٰ دینے پر مجبور کرتی  تو اس پر حریف وزیر اعظم کے امیدوار پر انتقامی کارروائی کا الزام لگ جاتا۔ اس سے نریندر مودی کے تئیں عوامی ہمدردیوں میں اضافہ  کا امکان تھا، اس لیے کانگریس نے اسے انتخاب کے بعد تک کے لیے ملتوی کردیا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ انتخابی نتائج ان کے خوابوں کو چکنا چور کردیں گے اوراقتدار سنبھال کے بعدامیت شاہ کیا کیا گل کھلائیں گے؟

انتخابی مہم کے دوران امیت شاہ  کوسہراب الدین اور کوثر بی کے معاملے میں  کورٹ سے ضمانت مل چکی تھی نیز وہ اترپردیش میں بی جے پی کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔ تلسی پرجاپتی کا کیس جب  سامنے آیاتو امیت شاہ کو احساس ہوا کہ اس  معاملے میں انہیں ایک بار پھر جیل جانا پڑ سکتا ہے۔اس لیے انہوں نے  سپریم کورٹ میں ان  تینوں مقدمات کی  الگ الگ  ایف آئی آر کے بجائے انہیں یکجا کرنے کی درخواست کی  جسےعدالت نےقبول  کرلیا مگر تینوں مقدمات کے اشتراک سے  اس میں  زیادہ سے زیادہ سزا کے طور پرپھانسی کا پروویژن شامل ہوگیا کیونکہ سی بی آئی نے تلسی پرجاپتی فرضی انکاؤنٹر کو ایک ’پرفیکٹ مرڈر‘ قرار دیا تھا۔ دانتا کورٹ میں سی بی آئی کی  چارج شیٹ میں درج تھا کہ  وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنی طاقت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے ریاستی پولس کے افسروں پر یہ دباؤ ڈالا کہ تلسی پرجاپتی کا قتل کر دیا جائے۔ اسی طرح کی بات کوثر بی  کی بابت بھی تھی کہ ڈی جی ونجارا  سہراب الدین کے قتل سے مطمئن تھے، لیکن امیت شاہ کی  ہدایت پر کوثر بی کو زہر کا انجکشن دے کر مار دیا گیا۔

وزیراعظم نریندرمودی تو  اپنے ارمان نکالنے کے لیے دنیا بھرکی سیر پر نکل  کھڑے ہوئے لیکن امیت شاہ دامن پر لگے خون کے دھبےّدھونے میں جٹ گئے۔ اپنے اس مقصد کی کامیابی  میں انہیں 8 ماہ لگ گئے لیکن اس بیچ سی بی آئی جج برج گوپال لویا کی ناگہانی موت نے نیا معمہ کھڑا کردیا۔ امیت شاہ کے معاملے میں سپریم کورٹ نے واضح ہدایت دے رکھی تھی کہ سماعت گجرات میں نہ ہواوردرمیان میں جج  کا تبادلہ نہ کیا جائےلیکن عدالت عظمی ٰکے دوسرے حکم کو پامال کرکے جج جےٹی اتپت کو ہٹایا گیا اس لیے کہ انہوں نے 6 جون 2014کو امیت شاہ کی  غیرحاضر ی پر پھٹکار لگاتے ہوئے26جون کو پیش ہونے کی تاکید کی تھی۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 25 جون کو جج اتپت کا تبادلہ ہوگیا۔ ان کی جگہ آنے والے برج گوپال لویانے بھی امیت شاہ کی غیر حاضری پر اعتراض کرکے  ۱۵دسمبر کی تاریخ طے کی مگر  یکم دسمبرکو وہ پرلوک سدھار گئے۔ مرزا شوق لکھنوی نے تو بجا فرمایا کہ ’موت سے کس کو رستگاری ہے،آج وہ کل ہماری باری ہے‘ لیکن برج گوپال لویا کی موت سے متعلق واقعات کی جو تفصیل ان کی بہنوں اور والد نے پیش کی ہے اور مختلف رپورٹوں میں تضاد بیانی  شکو ک و شبہات کو جنم دیتا  ہے۔

جج برج گوپال ہرکشن لویا کی بہن انورادھا بیانی کا  الزام ہے کہ ممبئی ہائی کورٹ کے سابق  چیف جسٹس موہت شاہ نےسہراب الدین انکاؤنٹر معاملے میں ملزمین کےموافق فیصلہ دینے کے عوض 100 کروڈ اور ممبئی میں ایک مکان کی پیشکش کی تھی۔ پیشکش کنندہ اور ملزم  کے ناموں کی یکسانیت بہت کچھ کہتی ہے۔اس الزام کی تصدیق کرتے ہوئے  مقتول کے  والد ہر کشن نےکہا کہ  ان کے بیٹے نے  دیوالی کے موقع پر کہا تھا کہ  وہ دباو  میں آکر جھکنے کے بجائے  گاوں میں آکر زراعت کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اس قدر ایماندار اور انصاف پسند  جج کی مشکوک حالات میں  موت قوم کے لیے تازیانۂ عبرت ہے۔ لویا کا انتقال  اپنے اعزہ و اقارب سے دور ناگپورمیں ہوا جہاں اتفاق سے  آرایس ایس کا صدر دفتر بھی  ہے۔ ساتھی جج سوپنا جوشی کے بیٹی کی شادی میں شریک ہونے کی غرض سے  انہوں نے ممبئی سے ناگپور کا قصد  کیا تھا۔

سرکاری موقف یہ ہے کہ  جج لویا سرکاری مہمان خانے روی بھون میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ نصف شب میں ان پر دل کا دورہ پڑا۔ اس بیان سے شکوک و شبہات کی ابتداء ہوتی ہے کیونکہ عام طور جن عادات و اطوار سے دل کا عارضہ ہوتا  ہے ان سے لویا بہت دور تھے۔ شراب تو کجا وہ پان اورسگریٹ تک کے قریب نہیں پھٹکتے  تھے۔ ان کے خاندان میں ۸۰ سالہ والد سمیت  کوئی  دل کا مریض  نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سردی کھانسی جیسی معمولی بیماریوں  کے لیے اپنی بہن سے مشورہ کرنے والے شخص کی ڈاکٹر بہن سے اس کے  دل کا مرض پوشیدہ رہے۔ کسی جج کو سرکاری مہمان خانے میں دل کا دورہ پڑ ے اور اسے آٹو  رکشہ کے ذریعہ کسی  دور افتاد غیر معروف  دواخانے میں لے جایا جا ئے یہ  بھی  عجیب سانحہ لگتا ہے۔ کیا  اس وی آئی پی گیسٹ ہاوس میں کوئی گاڑی نہیں تھی  جو 2 کلومیٹرکے فاصلے سے آٹو منگوایا گیا؟  ایک  ایسے علاقہ میں جہاں دن کے وقت آٹو رکشا مشکل سے ملتا ہے آدھی رات میں  آٹوکا مل جانا بھی  کسی معجزے سے کم نہیں لگتا۔

ایک طرف تو یہ دعویٰ  کیا جاتا ہے کہ وہ فطری موت تھی دوسری جانب لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا جاتا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کہتی ہے کہ صبح سوا 6 بجے انتقال ہوا جبکہ 5 بجے گھر والوں کو اطلاع دے دی جاتی ہے۔ اہل خانہ لاش پر خون کے دھبے اور سر پر زخم دیکھتے ہیں مگر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اس کے تذکرے سے خالی ہے۔ سرکاری اسپتال کے اہلکار کے مطابق فریب دہی کی خاطر  رات ہی میں پوسٹ مارٹم کے نام پر لاش کو چیر کر پھر سے دوبارہ سی دیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ پر کسی چچا زاد بھائی کے دستخط ہیں جبکہ لویا خاندان کوئی فرد ناگپور میں نہیں پایا جاتا۔ لاش کولواحقین مشورے کے کے بغیر ممبئی میں  بیوی بچوں کے پاس بجائے  آبائی گاوں میں روانہ کیے جانے کی اطلاع ایک اجنبی  آرایس ایس کے کارکن ایشور بھیٹی کے ذریعہ موصول ہوتی ہے۔ یہی بھیٹی موت کےچند روز بعد فون تو لوٹاتاہے لیکن اس سےپہلے سارا ڈاٹا ڈیلیٹ کردیا جاتا ہے۔ لاش کےساتھ سفر کرنے کی زحمت کوئی گوارہ  نہیں کرتا۔ جن لوگوں  کی دعوت پر لویا نے سفر کیا تھا وہ مہینوں تک  پسماندگان سے رابطہ نہیں کرتے۔ مقتول کی بہن جب دوبارہ پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کرتی ہے تو ایشور بھیٹی پھر سمجھا بجھا کر معاملہ رفع دفع کروا دیتاہے کیا یہ معلوم کرنا ضروری نہیں ہے کہ آخر یہ ایشور بھٹی نے کس کے ایماء پر اس معاملے اس قدر دلچسپی  لے کر  سارے شواہد مٹادیئے۔

عدلیہ کے ساتھ موجودہ حکومت ایک خاص قسم انتقامی سلوک کررہی ہے۔ اس سال ستمبر کے اواخر میں کرناٹک ہائی کو رٹ کے سینیر جج جینت پٹیل نے الہ باد ہائی کورٹ میں تبادلے کے خلاف  احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ۹ اکتوبر  2017کو  کرناٹک کے چیف جسٹس سوبھرو کمل مکھرجی سبکدوش ہونے والے تھے اور ان کے بعد جینت پٹیل کو ان کا عہدہ سنبھالنا  تھا۔ پٹیل کو اس ترقی سے محروم رکھنے کی خاطر تبادلہ کردیا گیا اس لیے کہ الہ باد ان سے سینیر 3 اور جج موجود تھے۔  جینت پٹیل کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے عشرت جہاں کیس میں سی بی آئی کی تفتیش کا حکم دیا تھا۔ یہی وہ معاملہ ہے جس میں کئی اعلیٰ پولس افسران کو جیل کی ہوا کھانی پڑی اور مودی جی  خوب بدنام ہوئے۔ اس واقعہ کا عدالتی برادری نے سخت نوٹس لیا اور کرناٹک و گجرات دومقامات پر بار ایسو سی ایشن نے ایک دن کے کے لیے عدالت کا بائیکاٹ کرکے یہ پیغام دیا کہ ؎

بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے

جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

اس سےقبل جون 2014 میں سابق سولیسیٹر جنرل  گوپال سبرامنیم کوعدالتی  کولیجیم کی سفارش کے باوجود سپریم کورٹ کا جج بننے سے روک دیا گیا۔ گوپال سبرامنیم کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں سہراب الدین اور کوثر بی کے کیس میں سی بی آئی  کے ذریعہ کی جانے والی تفتیش کی   وکالت کی تھی جبکہ حکومتِ گجرات اس کی مخالفت کررہی تھی۔ جسٹس گوپال سوامی نے اپنی عزت نفس کی خاطرازخود ا اپنے آپ کو الگ کرلیا۔  جسٹس ابھئے مہادیو  تھپسے کو بھی 2002 کے فسادات کے اندر بسٹ بیکری کیس میں  9  لوگوں کو عمر قید کی سزا دینے کے جرم میں 10 سال بعد  ترقی سے ہاتھ دھو کر   تبادلہ کا منھ دیکھنا پڑا  اور وہ  ترقی کے بغیر سبکدوش کردیئے گئے۔ جسٹس راجیو شکھدھر کو  دہلی ہائی کورٹ سے مدراس اس لیے روانہ کیا گیا کہ انہوں نے انٹیلی جنس بیورو کی مخالفت کی تھی جس نے 2015 گرین پیس ادارے کی کارکن پریہ پلاّئی کے  بیرون ملک سفر اور برطانوی ارکان پارلیمان سے خطاب پر پابندی لگا دی تھی۔ جسٹس شکھدھر نے پریہ کے بنیادی  حقوق کی حمایت کی  اور اس کو روکنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس کے سبب ہونے والی  رسوائی کا بدلہ لینے کے لیے انہیں  بلاجواز مدراس  ہائی کورٹ بھیج دیا گیا۔

  اپنی اس من مانی سے حکومت نے عدلیہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ جج صاحبان کو انصاف کے تقاضوں کے بجائے حکمرانوں کے چشم ابرو  کازیادہ  پاس و لحاظ رکھنا چاہیے نیز اگر کسی سیاسی باہوبلی  کا مقدمہ پیش نظر ہوتو جان کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ برج گوپال لویا  کی موت کے 29 دن بعد سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے امیت شاہ کے خلاف سارے الزامات خارج کر دیئے۔ خصوصی جج ایم بی گوساوی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’’میرے خیال میں سی بی آئی نے جو نتائج اخذ کیے ہیں انھیں پوری طرح تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور امیت شاہ کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا‘‘۔ عدالت نے یہ فیصلہ کس دباو میں کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس کا تعجب خیز پہلو یہ  بھی ہے کہ سی بی آئی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے اور بھکتوں نے شور مچا دیا کہ  کلین چٹ مل گئی۔  یہ کیسی کلین چٹ ہے جس پر جا بجا  خون کے چھینٹے ہیں ؟ ملک کی  موجودہ  صورتحال پر  ملک زادہ منظور کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎

وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد  

بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. اردو گلشن ممبئی کہتے ہیں

    انتہائی بہترین تجزیہ
    جناب سلیم خان صاحب

تبصرے بند ہیں۔