پہلے مرحلے کے انتخاب کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی بوکھلاہت میں اضافہ

صفدر امام قادری

          گذشتہ تین مہینوں سے جو سیاسی زشا کشی اور مقابلہ آرائی کا سلسلہ قائم تھا، اس کا پہلامرحلہ خدا خدا کر کے مکمل ہوحسبِ توقع تھوڑی بہت زندگیوں کا اتلاف، چھوٹی بہت جھڑپیں ای۔ وی۔ ایم مشینوں خرابی اقلیتی علاقوں میں ووٹوں کی رفتار میں سستی جیسے واقعات ہوئے، کچھ کاموں میں حکومتِ وقت کی شمولیت بھی رہی ہوگی مگر زمینی حقائق اس بات کا اشارہ کرنے لگے ہیں کہ پہلے مرحلے میں صاحبِ اقتدار پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی واضح نقصانا ت کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔ کئی ایسے لیڈران جوپہلے مرحلے میں اپنی قسمت آزما چکے، ان کے لیے اگلے مراحل میں سے نئے حلقہ انتخاب کی تلاش کا کام شروع کرنا ہوگا۔

          پہلے مرحلے سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی صفِ اوّل کی قیا دت پر اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ حکومت نے پہلا کا م لالو یادو کی ضمانت نہ دیے جانے میں دکھایا۔ عدالت کی تکنیکی حکمت اپنی جگہ مگر یہ بات قابلِ غور ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ بات معلوم ہے کہ لالو یادو کے جیل سے باہر آنے باقی ماندہ مرحل میں سیاس سرگرمیوں میں شامل ہونے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو واضح پریشانی ہو سکتی تھی۔ ہمیں اندازہ ہے کہ بہار، اتر پردیش اور بنگال کی کم از کم پچاس ساٹھ سیٹوں پر لالو یادو کی موجودگی سے سیکولر ووٹوں کو مزیددھار دار اور موثر بنایا جا سکتا تھا۔ عدالت نے بھلے ہی تکنیکی بنیادوں پر نتائج اخذ کیے مگر بہر طور یہ سوال اہم ہے کہ ایک سیاست داں کوعمومی انتخابات کے دوران اس کی سرگرمیوں سے دور رکھ کر کیا ہم جمہوری اداروں کے استحکام کی ضمانت لے سکتے ہیں ؟لالو یادو کے انتخابی منظر نامے سے باہر رہنے سے صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اسے توقع ہو گی کہ پہلے مرحلے میں پچھڑنے کے بعد اسی سے کچھ بھرپائی ہو سکتی ہے۔

          اچانک ساکشی مہاراج اپنے دیرینہ رنگ میں نظر آئے۔ ان کی فرقہ وارانہ تقریروں سے تو ملک برسوں سے عادی ہے۔ مگر ادھر ان کی کچھ خاموشی مخصوص موضوعات سے علاحدگی کی وجہ سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ اب ایسے موضوعات پراتنے جوشیلے نہیں رہے۔ مگر انھوں نے تمام اہلِ اسلام کو یہ دھمکاتے ہو ئے خبر دار کیا کہ اگربھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ نہیں دیا تواس کے خطرات سے مسلمان واقف ہو جائیں۔

          ساکشی مہاراج کے سر میں خلافِ توقع سرملانے کے لیے مینکا گاندھی نظر آئیں۔ مینکا گاندھی پوری مدت تک وزیر رہیں اوراب تک ان کی کسی کھلی فرقہ وارنہ گفتگو سے ہماری واقفیت نہیں تھی۔ وہ خواتین، ہ جنگلات اور جانوروں کے تحفظ کے سوالوں پر حساس طریقے سے عمل پیرا نظر آتی تھیں۔ ان کی تعلیمی لیاقت سے دانش وارانہ رویہ بھی جھلکتا ہے۔ حالاں کے ان کے صاحب زادے ورون گاندھی کی کھلی فرقہ پرستیاں اور بے سر پیر کی باتوں سے جھلّاہٹ پیدا ہوتی تھی کہ ماں اور بیٹے کے خیالات میں کتنا فرق ہے۔ مگر مینکا گاندھی بروزجمعہ اپنی انتخابی تشہیر میں اپنی ماں کی دانش وری کا اچانک مظاہرہ کر دیا۔ صاف صاف کہا کہ علاقے کے مسلمانوں نے اگر ہمیں ووٹ نہیں دیااور ہم فتح یاب ہو گئے تو کل آپ کا کوئی مسئلہ آئے گاتو ہم اس کے لیے  کیوں کوشش کریں گے۔ انھوں نے دھمکی بھرے انداز میں کہا کہ مسلمانوں لیے یہی بہتر ہے کہ وہ بھارتیہ جنتاپارٹی کو کھل کر ووٹ دیں ورنہ اپنا مستقبل سمجھ لیں۔ اس موضوع پرانھوں نے اور بھی الفاظ خرچ کیے اور یہ بات سمجھ میں آئی کہ ان کی زبان پھسل نہیں رہی بلکہ وہ  ارادہ کر کے اس بات کو بر سرِ عام پیش کر رہی ہیں۔

          جمہوری اداروں کی کارکردگی پر یقین کرنے والے ایک شہری کے طور پر ہر آدمی الیکشن کمیشن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اصولی طو رپر ایسے ہنگاموں کے سر کچلنے کی ذمہ داری صرف اور صرف الیکشن کمیشن کو حاصل ہے۔ مگر اس الیکشن میں اس بات کا اندازہ شدت کے ساتھ ہو رہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے فرائض کی ادائیگی میں سست روی اور بے عملی کا شکار ہے۔ نہ وہ کسی کو سزا دے پا رہا ہے اور نہ غلط کاریوں کو روک پا نے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جہاں تک ممکن ہے صاحبِ اقتدار جماعت کو کھلی چھوٹ دے پانے میں کامیاب ہے۔ ایسے میں یہ توقع آسان نہیں کہ وہ ساکشی مہاراج یا مینکا گاندھی کے سلسلے سے بھی کوئی سخت اقدام اٹھائے گی۔ صرف اس بات کا اندازہ کیجیے کہ آج اگر ٹی۔ این۔ سیشن زندہ ہو نے اور چیف الیکشن کمیشن ہو تے تودن میں ہی کئی فیصلے ہوچکے ہو تے۔ وہ اگلے دن کا انتظار کہاں کرتے تھے۔ معلوم ہو تا کہ اس جگہ کا لیکشن ہی ملتوی کر دیا۔ مگر یہ سب اب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ پہلے مرحلے کے انتخاب میں ہندستانی جمہوریت کے رائے دہندگان کی بالغ نظری اور خاموشی سے فیصلے کرنے کی صلاحیت کے جگہ جگہ سے اشارے مل رہے ہیں کہ خدا کرے انداز درست ہوں اوربالآخر نتائج سے مطابقت رکھتے ہوں۔ یہ اچھا ہی ہے کہ ہندستانی جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت میں بتدریج نا بلوغیت بڑھ رہی ہے اورروز بہ روز ان کا بچکانہ پن سامنے آرہا ہے، وہیں ووٹرسنجیدگی سے اپنے حق کا ذاتی استعمال کر رہا ہے اور ایک قومی تصورکے تحت اپنے نتائج پیش کر رہا ہے۔ مختلف مقامات سے الیکشن کے پہلے مرحلے کی جو خبریں آئیں، ان کے کچھ خوش آئند نتائج سمجھ میں آ رہے ہیں۔ وہاں یہ توقع تھی کہ ذات برادری کا زور چلے گا،معلوم ہواووٹروں نے خاموشی سے اس ناگ کو کچل دیا۔ کہیں جذبا تیت کی ندی بہہ رہی تھی مگر ووٹ کے دن جو انداز نظر آیاوہ پکار پکار کر یہ کہہ رہا تھاکہ ہم سلجھی ہوئی قوم ہیں اور دور اندیش اقدام کے ساتھ اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کئی جگہوں پر جہاں ہندو مسلم تنازعات پیرا ہو چکے تھے، وہاں بھی ایک طرفہ ووٹ نہیں پڑنے کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔

          یوروپ اور امریکہ میں اکثراوقات انتخابات میں کوئی لہر نہیں چلتی پہلے مرحلے میں جو تیر کی طرح نظر آتا ہے۔ آخر آخر وہ لیڈر بن گیا۔ ترقی یافتہ اقوام کو یہ معلوم ہو تا ہے کہ پچھلی حکومت اگر قابلِ اطمنان نہیں تھی تو اسے کس سلیقے سے بدل دینا ہے۔ پہلے مرحلے میں ہمارے ووٹروں نے جس اندازسے کام کیا ہے اس سے جمہوریت کے ان بزرگوں اور تجربہ کا ر قوموں کی پرچھائیں دکھائی دیتی ہے۔

           ہمیں یہ یا د ہونا چاہیے کہ ہندستانی جمہوریت دنیا کی سب سے جوان جمہوریت ہے یہاں تقریباًچالیس فی صد ووٹروں کی عمراٹھارہ سے پینتیس برس کے درمیان کی ہے۔ گذشتہ بار یہ طبقہ نریندر مودی کے خواب میں الجھ گیا تھا۔ کانگریس کی ناکامیوں کوجس انداز سے ۲۰۱۴ء  کے الیکشن میں واضح کیا گیا تھا اوربے روزگاروں کو نئے خواب دکھائے گئے تھے  اسی نے نریندر مودی کو اتنی طاقت عطا کی مگر اب شکست ِ خواب کا دور ہے۔ ان نو جوان ووٹروں کو روزگار چاہیے۔ ان کی تعلیم اور صنعت کے لیے ایک کارگر اور موثر حکومت چاہیے۔ جملے بازیوں سے پانچ برس لہو لہا ن ہو چکے ہیں۔ سارے بچوں کی زندگی کی گاڑی وہیں پر رکی ہوئی ہے۔ فرقہ پرستی اور ذا ت برادری کا ووٹوں میں نئی نسل کہاں الجھنے والی ہے۔ اس لیے انھیں بنیادوں پر حکومت چاہیے اور بے تکی قیادت سے وہ اپنا دامن جھاڑنا چاہتے ہیں۔ یہ نئی نسل تعلیم سے آراستہ ہے اور سیاسی کھیل تماشوں سے اپنے کاموں میں رکاوٹ نہیں آنے دینا چاہتی ہے۔ پہلے مرحلے میں رپوٹیں سامنے آئیں ہیں ان سے یہ سمجھنا دشوا ر نہیں کہ نو جونوں نے اپنے بزرگو ں کے انداز میں ملک کی تعمیر و تشکیل کے طریقہ کار کو اپنا نے سے انکار کر دیا۔ ہمارے نئے ووٹر ٹھوس بنیادوں پر ہندستانی جمہوریہ کو نئے سرے سے کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ایمان اور نصاف برابری اور ترقی جلوہ سامانیاں انھیں چاہیے۔ وہ بھلا کیوں مذہبی جنون یا ذات برادری کی نفرتوں کو اپنے لیے رہ نما تصور کریں۔ اس لیے جگہ جگہ فرقہ پرست کھلاڑیوں کے جملے زیادہ شکست خوردہ نظرآتے ہیں اور ووٹر کے فیصلے مختلف انداز سے سامنے آرہے ہیں۔ انتخابی ماہرین کی پیشن گوئیاں ضائع ہو رہیں ہیں۔ یہ توقع کرنی چاہیے کہ الیکش کے اگلے مراحل میں ان جمہوری بالغ نظری میں مزید بال وپر جڑیں گے اور ساتویں مرحلے کے انجام تک ہندستانی جمہوریت ایک نئی کروٹ لے لے گی۔ اس تبدیلی کے بغیرنئی نسل اور نئے ووٹروں کا مستقبل روشن نہیں ہو گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔