چیف جسٹس معاملہ: ہزاروں سازشیں ایسی کہ ہر سازش سے دم نکلے

اے۔ رحمان

برطانوی وزیر اعظم بنجامن ڈسرائیلی نے 14جولائی1856 کو پارلیمنٹ کے ایوان عامہ(House of Commons)میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’ ’ میرا خیال ہے سازشوں کی جانب ملتفت ہونا فطرت انسانی کا خاصہ ہے۔ عوام کو (ہر سوال کا) جواب چاہیے کبھی کبھی بغیر ظاہری اسباب کے واقعات رونما ہو جاتے ہیں یا افراتفری پھیل جاتی ہے تو (اسباب کا علم ہوئے بغیر) لوگوں کی تسلی نہیں ہوتی۔ انھیں سبب درکار ہے، وہ (واقعات  اور افرا تفری کے لیے ذمہ دار) ولن دھونڈھتے ہیں، سازشی ٹولہ تلاش کرتے ہیں، سازش کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔ ‘‘

سازش کرنے سے قبل بھی ساز ش کی جاتی ہے۔ سازش کرنے کے ارادے سے کی جانے والی سازش کو قانونی اصطلاح میں ارتباط ذہنی Meeting of the Minds کہا جاتا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ ہم ذہن، ہم ارادہ اور ہم مقصد اشخاص اس مقصد کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں کہ حصول ِ مقصدکی منصوبہ بندی کر سکیں۔ ایک مقصد اگر کئی مراحل میں حاصل ہونا ہے تو ہر مرحلے کے لیے ایک مختلف سازش رچی جاتی ہے۔ جتنا دقت طلب اور خطرناک مقصد ہو سازش بھی اتنی ہی پیچیدہ اور معمائی ہوگی۔ اونچے درجے کے مجرم اکثر معمولی مقصد کے لیے بھی دوہری سازش تیار کرتے ہیں تاکہ ایک کی ناکامی پر دوسری کو بروئے کار لایا جا سکے۔ سازشوں کے تئیں عوام کے جبلّی رجحان اور تجسس کا تجزیہ کرتے ہوئے بیسویں صدی کے مشہور و معروف امریکی ادیب اور مستقبل شناس رابرٹ ولسن نے کہا تھا’’ کسی وقوعے کے جواًز میں کتنا ہی بچکانہ اور مضحکہ خیز نظریہ ٔ سازش پیش کر دیا جائے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ لوگ اس پراعتبار کر ہی لیں گے۔ ‘’ اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمارے اربابِ سیاست کے لیے نظریۂ سازش ڈھال کا کام کرتا ہے کیونکہ خود پر آئے ہوئے سنگین ترین الزام کو بھی یہ لوگ ایک ’گہری سازش‘ کا نتیجہ قرار دے کر عوام کے فوری رد عمل سے بچ جاتے ہیں۔ حالانکہ آج تک کسی ایسی ’ گہری سازش‘ کا پردہ فاش نہیں ہوا۔ وجہ یہ کہ ایک تو عوام کی یادداشت ہوتی ہی مختصر ہے دوسرے کچھ ہی دن بعد کسی دوسری گہری سازش کا واویلا مچ جاتا ہے۔ لیکن علل و معمول یعنیCause and effect  کے آفاقی  نظریے کے تحت غیر معمولی طور پر غیر معمولی اور غیر متوقع واقعات و حادثات عموماً کسی منصوبہ بندی یا سازش کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔

ہمارے عزت مآب چیف جسٹس پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا جانا ایک ایسا ہی غیر معمولی طور پر غیر معمولی اور افسوسناک وقوعہ ہے۔ چیف جسٹس کا فوری رد عمل تھا کہ یہ ان کے خلاف کسی ’بڑی طاقت‘ کی سازش ہے جو ان کے ’ بے عمل‘ کرنا چاہتی ہے۔ خصوصاً اس صورت میں کہ آنے والے دنوں میں چند نہایت حساس معاملات(بشمول رافیل سودے پر نظر ثانی) ان کے سامنے زیر سماعت لائے جائیں گے۔ یہاں سازش کے خطوط پر آگے بڑھنے سے پہلے چند حقائق پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ شکایت کنندہ ایک پینتیس سالہ خاتون ہے جو سپریم کورٹ میں بطور ٹائپسٹ ملازم تھی اور جسے اکتوبر2016 میں چیف جسٹس کی عدالت میں معاون کے طور پر مامو رکیا گیا تھا۔ اگست2018 میں اسے چیف جسٹس کے رہائشی دفتر (تمام سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا ایک دفتر ان کی قیام گاہوں پر بھی ہوتا ہے) کی ذمہ داری دی گئی اور اس کے الزام کے مطابق 10اور11اکتوبر کو چیف جسٹس نے جسمانی طور پر اس کے ساتھ دراز دستی کی۔ خاتون کی شکایت ایک طویل حلف نامے کی صورت میں ہے جو سپریم کورٹ کے بائیس ججوں کو بھیجا گیا۔ اگر مبینہ طور پر’ متاثرہ‘ خاتون کے بنیادی الزام یعنی جنسی ہراسانی کو درست تسلیم کر لیا جائے تو ایک بڑی سازش سامنے آتی ہے۔ چیف جسٹس نے اس کاجنسی استحصال کرنا چاہا۔ اس نے مزاحمت کی اور چیف جسٹس نے ممکنہ نتائج سے خوفزدہ ہو کر اس کے خلاف سازش کی جس کے تحت محکمہ جاتی کارروائی کرکے اسے برخاست کر دیا گیا۔ اس کا معذور بھائی جو حال ہی میں سپریم کورٹ میں (چیف جسٹس کی سفارش پر) ملازمت پر لیا گیا تھا بلا سبب نوکری سے نکال دیا گیا۔ ۔ پولیس نے رشوت ستانی کے ایک پرانے کیس میں اسے  (خاتون کو)گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور ان تمام حادثات کا مجموعی  نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی ذاتی، خانگی اور معاشرتی زندگی مکمل طور پر برباد ہو گئی۔ اگر خاتون کے بنیادی الزامات درست ہیں تو پوری سازش بے نقاب ہو کر سامنے آجاتی ہے۔

لیکن اگر ’ متاثرہ‘ خاتون کے الزامات بے بنیاد ہیں تو ایک کہیں زیادہ سنگین اور اعلیٰ سطحی سازش سامنے آتی ہے جس کے رچیتا یعنی مرتکب ہیں وہ اربابِ سیاست جن پر چیف جسٹس نے انگلی اٹھائی اور جو چیف جسٹس کے قانونی کوڑے کی ضربوں سے پریشان ہو چکے تھے۔ مسجد مندر تنازعے کے مقدمے سے لے کر رافیل سودے کے معاملے میں نظر ثانی کی رضا مندی تک مرکزی حکومت کو چیف جسٹس کے ہاتھوں ایک کے بعد ایک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور رافیل سودے پر حکومت کے خلاف ممکنہ فیصلے کے خطرناک سیاسی نتائج ہو سکتے تھے خصوصاً عام انتخابات سے گرمائے ہوئے ماحول میں۔ لہٰذا چیف جسٹس کو مفلوج کرنے کے لیے ایک سازش تیار کی گئی جس کے تحت شکایت کنندہ خاتون کو۔ ۔ ۔ جس کے ذاتی حالات سازش کے تقاضوں کے عین مطابق تھے۔ ۔ ۔ مالی اور دیگر لالچ دے کر شکایت کرنے کے لیے آمادہ کر لیا گیا۔

لیکن اب منظر نامے میں داخل ہوتا ہے سپریم کورٹ کا وکیل اتسو بینس جس نے’ ثبوت و شواہد‘ کی بنیاد پر انکشاف کیا کہ چیف جسٹس کے خلاف شکایت کے پس پردہ ایک گہری سازش تھی جس کے بانی تھے کچھ با رسوخ اور طاقتور فکسرزFixersیعنی بعض وکلا اور دیگر لوگ جو موکلوں سے پیسہ لے کر سپریم کورٹ کی رجسٹری کے عملے کی مدد سے مخصوص مقدموں کو مخصوص ججوں کی عدالت میں لگوا دیتے ہیں۔ یہ انکشاف بذات خود ایک سازش ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب الزام خصوصی طور پر انگلی اٹھا کر لگایا جائے تو تفتیش کا سارا رخ اسی طرف مڑ جاتا ہے۔ اور وہی ہو ا بھی۔ چیف جسٹس کا الزام کہ ان کے خلاف سازش کسی ’بڑی طاقت‘ نے کی ہے ہوا میں تحلیل ہو گیا اور  اب سپریم کورٹ کے ایک سابق جج پولیس، سی۔ بی۔ آئی اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہان کی مدد سے اتسو بینس کے ذریعے پیش کردہ ثبوت و شواہد کی روشنی میں تفتیش کریں گے۔ لیکن اتسو بینس کا ’ انکشاف‘ بھی ایک گہری سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے جس کے دو رخ ممکن ہیں۔ سپریم کورٹ میں فکسرز کے کئی گروپ فعال ہیں۔ ممکن ہے ایک یا ایک سے زائد گروپوں نے مل کر اپنے حریف گروپ کو نیست و نابود کرنے کا منصوبہ بنایا ہو۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چیف جسٹس کے حامی وکلا نے چیف جسٹس کی سازش پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ سوانگ بھرا ہو۔ (وکلا کی بعض تنظیموں کی جانب سے یہ الزام لگایا بھی جا رہا ہے) لیکن گذشتہ کل پرشانت بھوشن نے یہ الزام لگا کر کہ اتسو بینس خفیہ طور پر دو مرتبہ چیف جسٹس سے ملا تھا  اس ممکنہ سازش کو ایک نیا زاویہ دے دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قضیے نے اعلیٰ ترین عدلیہ کے کمزور ترین اعضا(Underbelly)کو ننگا کر دیا ہے او رکئی چھوٹی بڑی بے ضابطگیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ امید افزا بات یہ ہے کہ انکوائری کی چھان پھٹک میں نہ صرف سو پ کے سوراخ سامنے آ جائیں گے بلکہ چھلنی بھی کچھ آلائش نکال دے گی۔ ہر چھوٹا بڑا حادثہ مستقبل کے لیے بہتر حفاظتی تدابیر اور اقدامات کی نشاندہی کر دیتا ہے۔ عدلیہ اور زیادہ شفاف اور پر تاثیر ہو کر سامنے آئے گی۔ کم از کم امید تو یہی رکھنی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔