کیا مسلمانوں کو مودی سے ڈرنے کی ضرورت ہے؟

محمد شاہد خان

آزادی کے بعد گزشتہ ستر سالوں سے ہندستانی مسلمان سیکولر پارٹیوں بالخصوص کانگریس کا مستقل ووٹ بینک رہا ہے لیکن بدلے میں اسے کیا ملا؟ بے شمار مسلم کُش فسادات، بابری مسجد کی شہادت، سچر کمیٹی رپورٹ، تعلیمی اور سرکاری نوکریوں سے محرومی، دہشت گردی کے نام پر ہزاروں مسلمان نوجوان کی گرفتاریاں، ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین کا ظالمانہ نفاذ، کیا کیا شمار کراؤں، اگر ایک دو زخم ہوتے  تو گنواتا لیکن یہاں تو پورا کا پورا بدن چھلنی ہے

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو کچھ نہیں دیا ؟ کچھ تو ضرور دیا ہے، چودہ فیصد آبادی والی مسلم اقلیت سے ہمیشہ ایک مسلمان کو اپنی سیاست کا چہرہ بنایا، کرکٹ ٹیم میں بھی ہمیشہ ایک مسلمان کو جگہ دی، پارٹی دفتر میں ہر سال ایک عدد افطار پارٹی کا اہتمام کیا، اس سے زیادہ بھلا مسلمانوں کو اور کیا چاہئے ؟ ہاں کبھی کبھی جب زخم زیادہ گہرے لگے تو ان کے نمائندوں سے ملاقات کرلی، عزت کے ساتھ ان کے ساتھ ٹیبل ٹاک کرلیا، ان کی عرضی کو عزت کے ساتھ ایک ہاتھ سے تھاما اور دوسرے ہاتھ سے بے دردی کے ساتھ ڈسٹ بن میں ڈال دیا اور مسلمان اپنی عرضی دے کر خوش ہوتا رہا اور غفلت کی چادر تان کر سوتا رہا کہ باقی سب خیریت ہے، انھیں طفل تسلیوں کے سہارے  تو ستر اکہتر سال بیت گئے۔

مسلمانوں نے سوچا کہ ہندستان ایک سیکولر ملک ہے اس کے سیکولر ڈھانچے کو بچانا اس کی ذمہ داری ہے اس لئے مسلمان ہمیشہ مسلم پارٹیوں سے بیگانہ رہا کہ کہیں برادران وطن اس پر فرقہ پرستی کا لیبل نہ لگادیں۔

لیکن یہ کیا ؟ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں تو مسلمانوں نے ساری ہی سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیا تھا پھر بھی بی جے پی کی کراری جیت ہوئی اس کا ووٹ شئر کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا اس لئے کم از کم اب راہل گاندھی،     مایا وتی،اکھلیش یادو تیجسوی یادو اور کیجریوال یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ مسلمانوں نے ان کو ووٹ نہیں دیا لیکن آخر وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ خود ان کی اپنی برادری کا ووٹ کہاں چلا گیا ؟

اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ملک میں اب مودی کا ایجنڈا چل رہا ہے، پرگیہ ٹھاکر کا تین لاکھ ووٹوں سے جیتنا آخر کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ؟ اسے ووٹ دینے والے لوگ کن نظریات کے حامل ہیں ؟ اور خود کانگریسی لیڈر دگ وجے سنگھ کی خود کو بھگوا میں رنگ میں رنگنے کی کوششیں کیا کم تھیں ؟ لیکن پھر بھی وہ اصلی بھگوا رنگ کو مات دینے میں ناکام رہے ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابات جیتنے کے فورا  بعد اپنے خطاب میں کہا ہے کہ لوگوں کے چہرے سے سیکولرزم کا نقلی نقاب اتر چکا ہے پچھلے پانچ سالوں میں کسی پارٹی میں یہ ہمت نا ہوسکی کہ وہ سیکولرزم کے نام پر ووٹ مانگ سکے۔

حالیہ انتخابات نے ثابت کردیا ہے کہ ملک بدل رہا ہے اب وہ ایک لمبے عرصے تک کے لئے اکثریتی مذہبی طبقے کے ہاتھوں میں جاچکا ہے آئندہ ریاستی انتخابات میں معمولی الٹ پھیر ہوتا رہے گا لیکن مرکز  سے مودی حکومت کو ہٹا پانا اب مشکل ہے، مستقبل  کے سیاسی منظر نامے سے رفتہ رفتہ بڑی سیاسی جماعتوں کا صفایا ہوجائے گا یا ان کی حیثیت اتنی بونی ہوجائے گی کہ وہ بطور اپوزیشن سر اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرسکیں گی کیونکہ کسی بھی ملک کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے جو وسائل درکار ہیں ان پر موجودہ حکومت کا قبضہ ہوچکا ہے، ملک کا سرمایہ دار طبقہ ان کی مٹھی میں ہے، حکومتی اداروں پر ان کا تسلط مضبوط ہوچکا ہے، میڈیا پر ان کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے اب لوگوں کو وہی معلوم ہوتا ہے جو وہ چاہتی ہے، اس لئے حکومت کی ناکامیوں کو چھپانا اور اسکے ایجنڈے کی تشہیر کرنا بہت آسان ہے جس کا مشاہدہ ہم پچھلے پانچ برسوں سے کررہے ہیں ؟

آخر مودی کی اس عظیم کامیابی کا راز کیا ہے ؟

اس کا راز ہٹلر کا وہ فارمولہ ہے جس کے مطابق ڈر اور لالچ دو ایسے عناصر ہیں  جس کی بنیاد پر کسی بھی جماعت کو متحد کیا جاسکتا ہے، بی جے پی نے ایک لمبے عرصے تک کانگریس کا ماڈل اپنانے کی کوشش کی لیکن وہ مسلم ووٹرس کو لبھانے میں ناکام رہی اس لئے اس نے اپنی پالیسی بدل لی اور ملک کے اکثریتی مذہبی طبقے کو مسلمانوں سے ڈرانا شروع کردیا، ان کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت بھرنا  شروع کردیا جس کی وجہ سے ہندو ووٹر متحد ہونے لگا پچھلے دو پارلیامانی انتخابات کے نتائج  ہمارے سامنے ہیں دراصل مسلم دشمنی ہی بی جے پی کا سیاسی ایندھن ہے۔

بی جے پی اور کانگریس میں کیا فرق ہے ؟

جانکاروں کا ماننا ہے کہ کوئی فرق نہیں ہے کانگریس سوفٹ ہندتوا ہے تو بی جے پی ہارڈ ہندتوا، یہی وجہ ہے کہ ایک کانگریسی بڑی آسانی کے ساتھ بی جے پی میں ضم ہوجاتا ہے اور ایک بی جے پی کارکن بڑی آسانی سے کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے اور یہی صورتحال دوسری علاقائی پارٹیوں کے لیڈران کا بھی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے بعد کہ دونوں ایک ہی سکہ کا دورخ ہیں۔ تو پھر مسلمان  بی جے پی کو اچھوت کیوں سمجھتا ہے  اور اس سے خطرہ کیوں محسوس کرتا ہے  ؟

دراصل اس سوال کے پس پردہ سنگھ پریوار کا وہ ایجنڈا ہے جس کی تشہیر سیکولر پارٹیاں دن رات کرتی ہیں اور مسلمانوں کو اس سے ڈراتی ہیں کہ اگر بی جے پی برسر اقتدار آگئی تو ملک کا دستور بدل دیا جائے گا۔ ہندستان ہندوراشٹر میں تبدیل ہوجائے گا۔ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے گا اور انھیں دوسرے درجے کا شہری بن پر مجبور کردیا جائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ حقیقت کے آئینے میں بی جے پی کے دور اقتدار کا جائزہ لیا جائے۔

دراصل مسلمانوں میں خوف کی نفسیات پیدا کرنا سنگھ پریوار کا بھی ہتھیار ہے اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا بھی، سنگھ پریوار ملک کی اکثریتی آبادی کو مسلم اقلیت سے ڈراتا ہے تو سیکولر پارٹیاں، دستور کی تبدیلی، حق رائے دہی سے محرومی، یکساں سول کوڈ کا نفاذ، ہندو راشٹر کا قیام جیسی باتوں سے ڈراتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندؤں کی معنویات بہت بلند ہوئی ہیں اور مسلمان ایک طرح کی نفسیاتی پسپائی کا شکار ہوئے ہیں، جگہ جگہ موب لنچنگ کے واقعات نے مسلم اقلیت میں عدم تحفظ کے احساس کو کافی بڑھاوا دیا ہے لیکن ان سب برائیوں کے باوجود مودی کے دور اقتدار کو ایک دوسرے نظرئے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے

مودی کا قد اب سنگھ پریوار سے بھی بڑا ہوچکا ہے اسلئے مودی سنگھ کی حکم عدولی بھی کرتے ہیں دراصل مودی کو اقتدار سے محبت ہے اس کے لئے وہ ہندتوا کا کارڈ بڑی ہوشیاری سے کھیلتے ہیں لیکن اس کے نفاذ کے لیے وہ سنجیدہ نہیں ہیں۔

مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو مسلم فسادات میں کمی واقع ہوئی ہے اور کانگریس کے دور اقتدار کی بنسبت مسلم نوجوانوں پر دہشت گردی کے الزامات اور گرفتاریوں کا تناسب کم ہوا ہے۔

مسلمان یہ بات دماغ سے نکال دیں کہ ملک کا دستور بدلے گا اور ملک ہندو راشٹر میں تبدیل ہوجائے گا، جب دستور تبدیل کئے بغیر سارا کام چل رہا ہے تو پھر اسے بدلنے کی کیا ضرورت ہے ؟

حالیہ انتخابی نتائج کے بعد مودی کی شاندار جیت اور اپوزیشن پارٹیوں کے پرسکون اعتراف شکست  نے ہندستانی جمہوری نظام کی مضبوطی کو مزید اعتبار بخشا ہے جب کہ الیکشن سے قبل ساری اپوزیشن پارٹیاں سیکولر ووٹرس کو تبدیلی دستور سے مسلسل خوف زدہ کررہی تھی کہ اگر اس بار بی جے پی کو شکست دینے سے چوک گئے تو سمجھ لو کہ ہمیشہ کے لئے چوک گئے۔

ہندو راشٹر کے حوالے یہ بات بھی قابل ذکر  ہے کہ آخر اس وقت ہندستان میں ہندو دھرم کے مطابق کیا نہیں ہو رہا ہے کہ اسے ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے، ہندستان بہت پہلے غیر اعلانیہ ہندوراشٹر میں تبدیل ہوچکا ہے تو پھر مودی کو تحصیل حاصل کام کرنے کی مزید کیا ضرورت ہے. لہذا اس مسئلہ سے بھی ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اسی طرح حق رائے دہی سے محرومی کے خوف کو بھی مسلمان اپنے دل ودماغ سے نکال دیں، انتخابات کے تقاضاوں کے پیش نظر حسب روایت ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے ناموں کے حذف واضافہ کا کھیل تماشہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

یاد کیجئے کہ ایک زمانے میں یکساں سول کوڈ کا جن بوتل سے باہر تھا جو مسلمانوں کو مسلسل پریشان کررہا تھا جب کہ زمینی سطح پر اس کا نفاذ نا ممکن تھا پھر بھی اس مسئلہ  پر سب سے زیادہ رد عمل کا اظہار مسلمانوں نے کیا تھا۔

مودی کو اقتدار چاہئے لہذا مودی حکومت اور اپوزیشن پارٹیاں آئندہ بھی مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے کا کھیل جاری رکھیں گی، کیونکہ اگر مودی کو ہندتوا کے ایجنڈے سے حقیقی محبت ہوتی تو پہلی ہی بار بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد رام مندر کی تعمیر ہوچکی ہوتی ، دستور ہند بدلا جاچکا ہوتا، یکساں سول کوڈ کا نفاذ ہوچکا ہوتا لیکن یہ سب دراصل حصول اقتدار کے ذرائع ہیں

اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان خوف کی نفسیات سے باہر نکلیں، رد عمل کی پالیسی ترک کریں، کسی بھی سیاسی پارٹی کو اچھوت نہ سمجھیں یہاں تک کہ بی جے پی کو بھی نہیں، مسلمان  تعلیم اور تجارت پر خصوصی توجہ دیں، پہلے مرحلہ میں صوبائی سطح پر اور پھر مرکزی سطح پر اپنی قیادت کو جنم دیں اور ہار جیت کی پرواہ کئے بغیر اسکی پشت پناہی کریں اور اگر کسی دوسری سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں تو اپنی شرطوں پر دیں، حکومتی اداروں میں گھسنے کی کوشش کریں۔

یاد رکھئے کہ دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ سینتالیس لاکھ ہے اتنی چھوٹی سی تعداد ہونے کے باوجود وہ پوری دنیا کا نظام چلارہی ہے اور ہماری تعداد تو صرف ہندستان میں بیس کروڑ ہے اور اتنی بڑی آبادی کو مٹانا کوئی آسان کام نہیں بس ضرورت ہے تو محنت کی لگن کی جذبہ کی اور صحیح سمت سفر کے تعین کی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔