گؤ تنکواد: مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

ڈاکٹر سلیم خان

گئوتنک واد سے متعلق اعداوشمار چونکانے والے ہیں۔ ۲۰۱۲ ؁ سے ۲۰۱۷ ؁ تک جملہ ۷۸ واقعات میں  ۲۷۳ لوگ  اس دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ان میں ۱۵۰ بڑے حملے تھے جن میں ۲۹ افراد ہلاک اور ۸۰ لوگ معمولی زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں ۸۴ فیصد مرد اور ۹ فیصد خواتین تھیں۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں کےاندر مرنے اور زخمی ہونے والوں میں ۲۲ فیصد کے مذہب کی  معلومات نہیں دی گئی    بقیہ ۷۸ فیصد میں ۵۳ فیصد مسلمان، ۱۲ فیصد دلت، ۱۰ فیصد ہندو، ۲ فیصد قبائلی اور ایک ایک فیصد عیسائی و سکھ اس  تشدد کا شکار ہوئے لیکن اگر صرف ہلاک ہونے والوں کو الگ سے دیکھا جائے تو ۲۹ میں سے ۲۵ مسلمان تھے۔ ایک تہائی واقعات میں پولس نےالٹا تشدد کا شکار ہونے والوں پر مقدمہ درج کررکھا ہے یعنی جو گئورشکوں سے بچ نکلا وہ  پولس کے شکنجے میں پھنس گیا۔ ان میں وارداتوں میں ۶۴ فیصد شمالی ہندوستان میں ہوئے۔ ۲۰۱۵؁ سے قبل یہ معاملہ شمالی ہندوستان تک محدود تھا  لیکن  بعدمیں  جنوب اور مشرقی  ہندوستان میں بھی پھیل گیا۔ ان میں سب سے آگے  ہریانہ اور راجستھان ہیں دس دس تو گجرات میں ۶ واقعات ہوئے۔ بے سروسامانی کے عالم میں گئوتنکواد کا شکار ہونے والوں پر حیدر علی آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

عجب کیا چھٹا روح سے جامۂ تن         

لٹے راہ میں کارواں کیسے کیسے

 مودی جی کے اقتدار سنبھالنے سے قبل دو سالوں میں ہر سال صرف  ایک ایک واقعہ ہوا۔ مودی جی کے  پہلے سال میں ۳ اور دوسرے و تیسرے سال میں بالترتیب ۲۴ اور اور ۳۷ واقعات رونما ہوئے۔ اس بد ست بدتر   صورتحال کے باوجود اس ہفتہ  پہلی مرتبہ گئوتنک واد کا شکار ہونے والے ایک فرد کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی کی تصویر اخبارات کی زینت بنی۔  یہ انوکھا معاملہ وزیراعظم کے اپنے صوبے گجرات کے  بی جے پی رہنما  کا تھا۔  سابق ریاستی وزیر اور حالیہ رکن پارلیمان لیلادھر واگھیلا پر اچانک  حملہ ہوگیا۔  گجرات کے اندر ایسی  جرأت کا مظاہرہ تو سابق   ہندو ہردیہ سمراٹ پروین توگڑیا بھی نہیں کرسکتے۔ یہ دلیری   کسی  گئوتنکوادی نے  نہیں بلکہ خود گئو ماتا نے دکھائی۔ ایسا لگتا ہے کہ گائے بھی اپنے نام   پر جاری و ساری سیاسی  استحصال  سے بیزار ہوچکی ہے اس لیے اس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کردیا۔۸۴ سالہ واگھیلا کا زخمی ہونا قابلِ افسوس ہے مگر گائے کا حسن انتخاب  یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ اس نے گئوتنکوادیوں کی مانند کسی غیر متعلق آدمی کو اپنے غم غصے کا نشانہ نہیں بنایا۔گئو ماتا کی اس بے رخی پر  آتش کے اس شعرکی مصداق ہے ؎

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا 

تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

سیاستدانوں کی صبح سورج کے زوال پر ہوتی ہے اس لیے غالباً  واگھیلا جی  ۳۰ اگست کو  تقریباً ساڑھے تین بجے کھانے فارغ ہوکر  ٹہلنے  کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ان کے  گھر والوں کے مطابق  وہ  کبھی بھی  دوپہر میں گھر سے نہیں نکلتے تھےلیکن  اس دن قضا نے انہیں چہل قدمی کے لیے مجبور کردیا۔  راستے میں  ایک گائےآگئی اس  جبے انہوں  نے بھگانے کی کوشش کی تو وہ ان پر حملہ آور ہو گئی۔ لیلادھر کولوگوں نے  زخمی حالت میں اسپتال پہنچایاتو ڈاکٹروں نے بتایا کہ چوٹ کافی گہری ہے۔ دو پسلیاں ٹوٹ گئی ہیں  اور خون جم گیا ہے  اس لیے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے۔فی الحال لیلادھر  اپولو اسپتال کے خصوصی نگرانی کےکمرے میں  زیر  علاج ہیں ۔ یہ سانحہ غماز کہ نہ صرف ہاردک پٹیل بلکہ  گئوونش  بھی فی الحال غیض و غضب کا شکار ہے۔ ایسا لگتا ہے بی جے پی اپنے سارے کرم فرماوں کو  ناراض کرچکی ہے؎

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں  

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

گئوتنکواد سے متعلق ایک اور دلچسپ خبر یوگی جی کے اتر پردیش سے آئی جہاں چار مبینہ گئو رکشکوں کی  گاؤں والوں نے پہلے تو  لاٹھی ڈنڈوں سے خوب جم کر  پٹائی کی اور پھر  وہ ان   کی بارات  پولس تھانے لے گئے۔ مودی سرکار کے زیر سایہ ملک میں  گئورکشکوں کی ایک فوج تیار ہوگئی ہے  جو  گائے کے نام پر قتل وغارتگری کرتے پھرتے ہیں۔  غیر قانونی وصولی کو چاٹ اس کو اس حدتک  لگ چکی ہے کہ اب وہ بھینس لے جانے والے تاجروں کو بھی نہیں بخشتے۔ ایسا ہی معاملہ  کانپور کے  تاجر عباس کے ساتھ ہوا اور گئو رکشکوں نےان  سے ۱۰ ہزار کا مطالبہ کیا اور انکار کرنے پر مارپیٹ کرنے لگے۔ مگرگاؤں والوں نےحسبِ روایت کے مطابق  حملہ آوروں کا ساتھ دینے  یا خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے گئو رکشکوں پر حملہ کردیا۔ پولس نے گئو رکشکوں کو بچانے کے لئے دونوں فریقین میں مفاہمت کرائی  اور کیوں نہ کراتی اس طرح کے جرائم وہ حصہ دار جو ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پرجب اس کی ویڈیو وائرل ہوئی تو پولس ہوش میں آئی اور اس  نے وکی، روی، آشیش اور دیواکر کو حراست میں  لےلیا۔ اس سے زیادہ قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ   لاپرواہی برتنے والے برجیش نامی پولس اہلکار کو معطل کردیا گیا۔ یوگی راج میں  اس چمتکار کی توقع کسی کو نہیں تھی لیکن یہ کھیل   اگر گجرات کی گائے کو سمجھ میں آنے لگا  ہے تو کیا اتر پردیش کا انسان گائے سے  بھی گیا گذرا ہے؟ اس واقعہ سے ظاہر ہوگیا عوام کو کمزور سمجھنے والے ناسمجھ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ؎

توجہ نے تیری ہمارے مسیحا 

توانا کئے ناتواں کیسے کیسے

پچھلے سال  مہاراشٹر کےشری گونڈا  میں  بھی ۱۲ گئو رکشکوں کو اسی طرح کا سبق سکھایا گیا تھا جن  میں سے ۷زخمی ہوگئے تھے۔ احمدنگر کے کاشٹی گاوں میں مویشی میلا لگتا ہے جہاں  جائز طریقہ جانوروں کی خرید و فروخت  ہوتی ہے۔ وہاں جانے والے ۲ گایوں اور ۱۲ بیلوں  سے بھرے  ٹرک پر  اکھل بھارتیہ کرشی گئو سیوا سنگھ کے کارکنان کو شک ہوگیا کہ یہ ذبح کرنے کے لیے لے جائے  جارہے ہیں۔ وہ  پونہ سے تعاقب میں لگ گئے اور شری گونڈا پولس تھانے میں  شکایت درج  کرانے کے لیےپہنچ   گئے۔اس وقت پولس انسپکٹر باجی راو پوار کھانے کے لیے ہوٹل میں  گئے ہوئے تھے ایسے میں ۲۰ تا ۲۵ لوگوں گئورکشکوں پر حملہ کردیااور ان کے سردار شیوشنکر راجندر سوامی کا طلائی  ہاربھی چھین کر لے گئے۔ اس حملے کے بعد  پولیس  نےبھیڑ کو منتشر کردیااور سوامی کی شکایت  پر ۳۰ افراد کے خلاف دفعہ ۳۰۷کے تحت مقدمہ  درج کرلیا  جن میں ٹیمپو کا مالک واحد شیخ اور ڈرائیور راجو فطرو بھائی شیخ بھی شامل تھے۔ آگے کیا ہوا یہ تو نہیں پتہ مگر مہاراشٹر کی حدتک  کم از کم گئوتنکواد پر لگام لگ گئی۔ کانپور اور احمدنگر کے واقعات میں مسلمانوں کے  لیےسبق ہے لیکن گجرات کا واقعہ بی جے پی کے لیے درسِ عبرت ہے۔

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔