آنکھوں میں سرور عشق نہیں چہرے پہ یقیں کا نور نہیں

حفیظ نعمانی
لوک سبھا الیکشن میں نریندر مودی نے وزیر اعظم کے امیدوارکی حیثیت سے اتر پردیش کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ کہ تم میرا ساتھ دوگے تو میں اترپردیش کو بھی گجرات بنا دوں گا۔ اور جب سپا لیڈر ملائم سنگھ نے کہا کہ ہم خود اسے گجرات بنائیں گے تو جواب میں مودی نے کہا تھا کہ گجرات بنانے کے لیے56 انچ کی چھاتی چاہیے۔ اترپردیش کے شریف آدمی دھوکہ میں آگئے اور مودی کا ایسا ساتھ دیا کہ کسی صوبہ نے نہیں دیا۔ لیکن افسوس کہ یہ بھی جھوٹ نکلا اس لیے کہ گجرات وہ ہے جہاں ایک مہیش شاہ کے گھر میں 13860کروڑ روپیہ نوٹ بندی کے 20 دن کے بعد ملا ہے۔ اور25 دن کے بعد وہ کل حراست میں لیا گیا ہے۔ جس کا نام مہیش شاہ ہے۔ شاہ ہونے کی حیثیت سے وہ امت شاہ کا رشتہ دار یا برادری کا بھی ہوسکتا ہے؟ اس لیے وہ آرام سے لیے بیٹھا تھا۔ اور اس کا گجراتی ہونا ہی اس کی حفاظت کررہا تھا۔
گجرات میں ہی کل دکھایا گیا کہ گانے والے گارہے ہیں بجانے والے بجا رہے ہیں اور جن کے گھر میں یہ تقریب ہورہی ہے وہ دو دو ہزار کے نئے نوٹ بر سا رہے ہیں اور جب ایک ایک نوٹ پھینکتے پھینکتے تھک گئے تو مٹھی میں لے کر برسادیا۔ کہا جارہا تھا کہ دو لاکھ ہیں یا چار لاکھ لیکن گجرات ہے یہاں سب جائز ہے۔
گجرات نریش نریندر مودی جی کل مراد آباد میں اپنی پارٹی کی پریورتن ریلی کو خطاب کررہے تھے۔ کانگریس اور بی ایس پی کی بدولت مراد آباد، رام پور اور سنبھل میں بھی لوک سبھا کی سیٹ بی جے پی کو ملی تھی۔ اس لیے ریلی میں شور مچانے والے بھی تھے اور سننے والے بھی۔ لیکن مودی جی نے جو کچھ کہا وہ تقریر نہیں تھی بلکہ سانڈے کے تیل بیچنے والے کی نقل تھی جو سڑک کے کنارے چادر بچھا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور تقریر کرنے کے بجائے سوال جواب کرتے ہیں کہ میں نے کہا تھا کھٹائی نہ کھانا، کہا تھا کہ نہیں۔ میں نے فضلو کو تیل دیا تھا دیکھو اس کو فائدہ ہوا کہ نہیں؟ میں نے کہا تھا کہ گرم پانی سے مت نہانا، کہا تھا کہ نہیں تم نہیں مانے نقصان ہوا کہ نہیں۔ وزیر اعظم بجائے اس کے کہ ان ان مزدوروں کا دکھ بانٹتے جو کارخانوں کے بند ہونے کی وجہ سے رکشا چلارہے ہیں۔ ان سے ہی کہہ رہے ہیں کہ میں نے 50 دن مانگے تھے کہ نہیں۔ میں نے تھوڑی تھوڑی تکلیف اٹھانے کی بات کی تھی کہ نہیں؟ تم شکر ، مٹی کا تیل اور غلہ کے لیے لائنیں لگاتے تھے۔ میں نے ان لائنوں کو ختم کرنے کے لیے یہ لائن لگوائی ہے۔ اوریہ آخری لائن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یا تو مودی خود پھنس گئے یا انہیں ان کی ہی پارٹی کے شاطروں نے پھنسادیا۔انھوں نے بے شک 50 دن مانگے لیکن 50 دن کیا قوم نے دئے؟ کہیں سے آواز آئی کہ ہم نے 50 دن دے دئے اور تھوڑی سی تکلیف کی بات کہی تھی، کیا یہ تکلیف تھوڑی ہے؟ آج 26 دن ہوگئے ہیں ہر کارخانہ، ہر فیکٹری، ہر صنعت بند پڑی ہے۔اور کام کرنے والے گھروں میں بیٹھے یا رکشا چلا رہے ہیں۔اس کی بھی سواری نہیں ملتی تو خود کشی کررہے ہیں۔
مودی کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اگر انہیں معلوم تھا کہ نوٹ ابھی نہیں چھپے ہیں تو انھیں یہ اعلان 8؍جنوری کو کرنا چاہئے تھا جب ضرورت سے بھی تھوڑے زیادہ نوٹ چھپ چکے ہوتے۔ جنھیں وہ خاموشی سے اپنے محل یا صدر کے محل میں رکھ دیتے۔ اور 9 جنوری کو چھٹی کرکے 10 سے نوٹ بدلنے ا ور جمع کرنے کا کام شروع کرتے۔ جو پچاس ہزار لاتا اسے 50 ہزار دیتے جو ایک لاکھ لاتا اسے ایک لاکھ دیتے اور جو 10 لاکھ کے اندر رہتا یا 10 لاکھ سے زیادہ لاتا تو اس پر انکم ٹیکس کے افسروں سے کہتے کہ اگر وہ ٹیکس دئے ہوئے ہیں تو چپ رہو۔ اگر ہر بینک صبح ۸؍ بجے سے شام کو ۸؍ بجے تک کھلتا اور ہر بینک 5 سے 10 کروڑ بدل دیتا تو لائن میں لگنے اور ہائے ہائے کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
مودی نے وزیر خزانہ اسے بنایا ہے ۔جس پر کیرتی آزاد درجنوں الزام بدعنوانی کے لگارہے ہیں اور انہیں جب موقع ملتا ہے ان کی بدعنوانیوں کے قصے سناتے ہیں لیکن جب مودی کے گجرات میں مہیش شاہ پونے چودہ ہزار کروڑ لیے بیٹھے رہتے ہیں تو جیٹلی وزیر خزانہ کیوں نہ بنیں گے؟ مودی کو تو بس، بول چھورے، بھرشٹاچار ختم کرنا اچھا ہے کہ نہیں اور کالا دھن ختم کرنے سے ملک ترقی کرے گا یا نہیں؟
وزیر اعظم اور ن کی کابینہ کا ہر وزیر بس ایک سبق سناتا ہے کہ ستر برس میں کیا ہوا؟ اور یہ شعور نہیں ہے کہ اگر 70 برس میں سب ٹھیک ہوا ہوتا تو پھر ان سے حکومت کون لے سکتا ہے۔ اور تم بھی اب وہی کررہے ہو تو تھوڑے دنوں کے بعد تم کو بھی آنے والے کہیں گے کہ ۵ برس میں ملک کو جتنا مودی نے برباد کیا اسے ٹھیک کرنے میں ہمیں برس لگ جائیں گے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مودی کی اس سختی کی وجہ سے بینکوں پر بھروسہ نہیں رہے گا۔ یہی بات ڈاکٹر من موہن سنگھ نے راجیہ سبھا میں کہی تھی کہ اگر عوام کا بینکوں سے بھروسہ اٹھ گیا تو حکومت کی آمدنی پر کتنا اثر پڑے گا؟ اربوں اور کھربوں کی جو آمدنی ہے وہ ہمارے آپ کے روپے سے ہے جب بینک بند ہوجائیں گے اور سماج کیش لیس ہوجائے گا تو چین کا تو بھلا ہوجائے گا لیکن ہندوستان فقیر ہوجائے گا۔
مودی جی ان سے تو نرالے رہے ہیں جنھوں نے حفاظت کے لیے جن دھن کی پناہ لے لی۔ لیکن ایک بار بھی اس کا ذکر نہیں کیا کہ تھوڑی سی تکلیف 60 دن کے فاقے بن گئی۔ 8؍ کو اعلان ہوا۔ 9؍ صبح کو ہر مالک نے کہہ دیا کہ اپنے اپنے گھر جاؤ جب پیسہ آجائے گا تو بلا لیں گے۔ ایسے مالکوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہوگی اور یہ وہ ہیں جو ہر ٹیکس وقت پر دیتے ہیں ان کے مالکوں کی پریشانی اور مزدوروں کی بھوک کی ایک بار معافی مودی نے نہیں مانگی۔ جیٹلی نے لائن میں لگنے، روپے نہ ملنے اور فا قوں سے مرنے والوں کو جنگ آزادی میں مرنے والوں سے ملا دیا۔یہ عجیب جنگ ہے۔ مہیش شاہ گجراتی ہے اس لیے 14 ہزار کروڑ لئے بیٹھا ہے اور گھوم رہا ہے اور جو ہر ٹیکس دے رہے ہیں وہ مر رہے ہیں۔ ہم نے کبھی راہل گاندھی کی تعریف نہیں آج اس کی تائید کرنا پڑتی ہے کہ ایسا وزیر اعظم ملک کو کانگریس نے نہیں دیا۔ برا وقت بھی گذر جاتا ہے لیکن انتقام کی آگ جلتی رہتی ہے۔ جن شاہ زادوں کو مودی نے فقیر بنایا اور جنھیں بے قصور بھوکا مارا وہ سب کچھ بھول جائیں گے لیکن بچوں کے فاقے اور بیوی کا رونا نہ بھول سکیں گے۔ یہی مودی ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا۔ اور یہی ہیں جنھوں نے کہا کہ سو کروڑ کالا دھن لاؤ 45 کروڑ ہمیں دے دو اور 55 تم رکھ لواور اب وہی کہہ رہے ہیں کہ اچھا آدھا ہمیں دے دو آدھا تم رکھ لو۔ اس نوٹ بندی کے عذاب سے جو غریب بوڑھے اور بد نصیب تھے وہ سو سے زیادہ مر گئے اور مہیش شاہ جیسا ایک بھی نہیں مرا اور جس کی وجہ سے مرے، کیا وہ ملک کا وزیر اعظم کہلانے کے قابل رہا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔