اتحاد نہیں تو فساد کے لئے کمر بستہ ہوجائیں

   مھدی حسن عینی قاسمی

            29ستمبر کو لکھنؤ میں بریلوی مشرب کے راہ نما مولانا توقیر رضا خان اور دیوبندی مشرب کے راہنما مولانا محمود مدنی کے ایک اسٹیج پر آجانے کے بعد دوسرے ہی دن مولانا توقیر رضا خان نے مجھ سے پوچھا کہ اب اتحاد تو ہوگیا لیکن کرنا کیا ہے؟ کہیں حملہ بولنا ہے یا کچھ طے شدہ چیزیں ہیں جن پر ایک ہو کر قدم اٹھانا ہے؟ تقریباً یہی سوال آج ہر دوسرا مسلمان کررہا ہے، یہ تحریر اسی لائن آف ایکشن کو بتانے کے لئے لکھ رہا ہوں، ہندوستان میں جب بھی مسلمانوں کے زوال و پسماندگی کی بات ہوتی ہےتوچہار جانب سے اس کی وجہ باہمی انتشار و نا اتفاقی ہی بتلائی جاتی ہے،کیونکہ قرون اولی کے لوگوں نےوحدت کا جام پیا تھا اس لئے وہ  فوزوفلاح کےمعراج کمندیں ڈالنے میں کامیاب ہوئے تھے،اور قرون اولی کےبعد جب امت میں فروعی مسائل کو سمجھنے اور ان پر سہولت سے عمل درآمد کرنے کے لئےاجماع امت سے مسالک ومشارب کی تقسیم ہوئی تو اسلام دشمنوں نے کچھ مفاد پرست کذابوں کو مال و زر سے خرید کر انکی اپنی اپنی  دیڑھ ہاتھ کی مسجد ضرار بنوادی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملت متحدہ کو ہزار خانوں میں بانٹ دیا اور پہر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹاجانےلگا،

دشمنان اسلام نے ملت اسلامیہ کو کبھی بھی متحد ہونے نہیں دیا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس دن ایک ہی صف میں محمود و ایاز آگئے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کابال بھی بیکا نہیں کرسکتی، تو خلاصہ یہ نکلا کہ اتحاد وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے،پر سوال یہ پیداہوتا ہےکہ اتحادکاپیمانہ کیا ہو؟ کس نقطےپرپہونچ کرسبھی مسالک ایک ہوسکتے ہیں؟ تو اس کے لئے سب کے پاس الگ الگ جواب ہیں، کوئی کہتا ہےکہ مسائل کا اختلاف ختم کردیاجائے،کوئی کہتا ہے کہ مسلک و مشرب کچھ نہیں، اصل وہی ہے جو نبی رحمت نے چھوڑا ہے،یوں تواس سلسلےمیں قول فیصل کلام اللہ کی آیت "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا”ہے جس کا خلاصہ یہ ھیکہ "حبل اللہ”(اللہ کی رسی) ہی مرکزاتحادہے اور اللہ کی رسی سے مراد  باجماع مفسرین قرآن و سنت ہے،یعنی”کلام اللہ،سنت رسول اللہ، طریقہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین”  اب اس سے ایک ضابطہ یہ متفرع ہوتا ہے کہ اصول اسلام یعنی عقائد اسلام میں اختلاف قابل قبول نہیں ہوگا.یعنی جن فرقوں کی جانب سےعقائد اسلام میں قرآن و سنت کی صریح مخالفت ہے انہیں اہل اسلام میں شمارنہیں کیاجائےگا.

البتہ جن مسالک میں آپس میں فروعی اختلافات ہیں ان کو باہمی مفاہمت سے سلجھایا جائےگا.اور انہیں ہی یعنی "اصول اسلام پر متفق فروعات میں مختلف”فرقوں کو اہل اسلام میں سےگرداناجائے گا،لیکن اتحادکاپیمانہ طےکرنےسے پہلے انتشار و اختلاف کےسبھی پہلؤوں پرغورکرناضروری ہے، واضح رہے کہ عصر حاضر میں ملت اسلامیہ میں باہمی انتشارکو تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے، 1.مسلک و مشرب کا انتشار 2.ملی انتشار.3.سیاسی انتشار۔

جہاں تک بات مسالک ومشارب کےالگ الگ ہونے کی ہے،تواس کی بنیادی وجہ فروعی و نظریاتی اختلافات ہیں،جن کوختم کرپانا ناممکن ہے،کیونکہ ہرایک مسلک ومشرب اپنی اپنی جگہ اپنے دلائل کی روشنی میں برحق ہے، البتہ بعض فرقوں کاباطل ہوناعقل ونقل اور اجماع امت سے مفہوم ہوتاہے، اس لئے اتحاد بین المسالک والفرق کاخواب شاید ان حالات میں شرمندہ تعبیر ناہوسکے، البتہ تمام مسالک میں وحدت کامزاج برقرار رکھنے کےلئےباہمی مفاہمت و معاونت کا ماحول بناناہر ایک عقل مند کادینی وقومی فریضہ ہے،اور ملت  کے حق میں مسلمانوں کےباہمی عقائدونظریات کے اختلاف کو بندہ اور خدا کے مابین معاملہ سمجھ کر چھوڑ دینا چاہیے، لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ تقابل ادیان اور دفاع اسلام  کاکام چھوڑدیاجائے، رہی بات  ملی  مسائل میں اتحاد کی  تو اس کا پیمانہ یہ ھیکہ جو مسائل مسلمانوں کے درمیان مشترک ہیں،یعنی مسلمان سمجھے جانے والوں کے جو شعائر اور مسائل ہیں مثلاً تحفظ قرآن و سنت ، تحفظ مساجد و مدارس،  احیائےاذان ونماز، قیام نکاح وطلاق،نشر تعلیم وغیرہ تو ان کے لئے متحد ہوکر آواز اٹھانا ہر کلمہ گو کے لئےضروری ہے. نیزمسلم پرسنل لاء اور مسلمانوں کےعائلی مسائل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں لہذاان کی بازیابی کےلئےمتحد ہونابھی فریضہ شرعی ہے.اس لئےموجودہ دشوار ترین حالات میں ضرورت اس بات کی ھیکہ اپنے اپنے مسلک و مشرب پر رہتے ہوئے  مسلمانوں کے ملی وعائلی مشترکہ مسائل پر متحد ہوکرسبھی کلمہ گو مسلمان،خواص و عوام،علماء و دانشوران،جماعت و تنظیمیں مل کر آگےبڑھیں، اور ملت کو ان کےحقوق دلانے کے لئے حتی المقدور کوشش کریں. بغیرروڈ میپ وحکمت عملی کےبڑی بڑی کانفرنسوں و سیمیناروں میں قوم کوناجھونک کرملی رہنماؤوں کوچندخطوط پر متحدہونا ہوگا، انہیں متحد ہوناہوگا نونہالان قوم کی تعلیم و تربیت کےلئے، انہیں مل کر قدم اٹھاناہوگامعاشرتی جرائم وبرائیوں کےخاتمہ کےلئے، انہیں ایک ہوکرمظلوموں کےلئے،جیل میں بند بےگناہوں کےلئے انصاف وقانون کی لڑائی لڑنی ہوگی، اسلام اورمسلمانوں کےحوالےسے زوروں پر جاری میڈیائی پروپیگنڈوں کاقلع قمع کرنے کےلئےانہیں خود اپنی میڈیا، اپناقانونی سیل بناناہوگا، یہ وہ مسائل ہیں جن کےلئے ملت کے دردمندوں و مسیحاؤوں کااتحاد  وقت کی ضرورت ہے.اورخودساختہ مصلحتوں کےجال کو توڑ کردفاعی پوزیشن سےاٹھ کر اقدامی پہل کرنا ہی اس ملک کےمسلمانوں کےلئےان کی عبادت گاہوں کےلئے،انفرادی  و اجتماعی زندگیوں کےلئے،سماجی،معاشرتی واقتصادی شعبوں کےلئےخوش کن اور حوصلہ افزا ہی نہیں بلکہ تحفظ کاضامن ہوگا، رہا مسئلہ سیاسی اتحادکاتو یہ موجودہ وقت میں نہایت اہم اور قابل غور لائق فکر امر ہے. جس کےسبھی اسراررموزپرغائرانہ نظر ڈال کرکوئی حتمی لائحہ عمل طےکرکے عملی اقدام ہی اس ملک میں مسلمانوں کےمحفوظ مستقبل کی ضمانت ہوگی، کیونکہ ملک جس ڈھرےپرجارہاہے،مسلمانوں کو بالکل کاٹھ کاالوبنادیاگیاہے،ہم نابول سکتے ہیں، نا آہ کرسکتے ہیں اور نا ہی اپنی رائے کھل کردےسکتےہیں،ہندوستان کی جیلیں مسلمانوں کے دم سےہی آباد ہیں،میڈیاسے لےکر حکومتی اہلکار مسلم نام سن کرآگ اگلنےلگتےہیں،اگر یہی حالات چلتے رہے تو حق رائے دہی بھی ہم سے چھن جائےگی اور اف تک کرنے کے مجاز نہیں ہونگے،اسی لئے ہم سب کو مل کر سیاسی مستقبل کےبارےمیں سوچناپڑےگا۔

2017 اور پھر 2019  مسلمانوں کےلئے بڑی آزمائش و امتحان کےایام ہونگے، رام مندرکی تعمیر اور ہندو راشٹر کےقیام کا راگ الاپنےوالے کسی بھی حد تک جانے  کےلئے تیار ہیں، ایسے میں مسلم سیاسی قیادت کیاکرےگی اور  ان سےکس حدتک امید رکھی جائے  یہ اترپردیش کا الیکشن طے کرےگا،لیکن موجودہ حالات میں مسلم سیاسی اتحاد کی بانگ دینے والوں کو اس حقیقت سے نظر ہرگز نہیں چرانا چاہئےکہ ہم اس ملک میں محض 15 فیصد ہیں۔ مسلم اتحاد ہویا نا ہو پراکثریتی طبقہ منفی طریقہ سے متحد ہوجائےگااور پھر اس کا نقصان کیا ہوگا اس کا مشاھدہ 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں بخوبی کیاجاچکاہے، اس لئے فی الوقت سبھی سیاسی پارٹیوں کے مسلم لیڈروں کی ذمہ داری ھیکہ وہ زمینی سطح پر اپنے اپنے علاقوں میں خوب محنت کریں اور تعمیری کام کریں، تاکہ عوام کا اعتماد جیت سکیں، پھربہارکےطرزپر قومی سطح پر ایک مضبوط فرنٹ یعنی  مہاگڈھ بندھن کی تشکیل پر زور دیاجائے جس کی بنیادحقیقی سیکولرزم کو ہی رکھاجائے اس میں سبھی بڑی چھوٹی سیکولر پارٹیوں کی شراکت داری ہو، اس ملک  اور اقلیتوں کی بھلائی ملی جلی حکومت میں ہی ہے، تاکہ اپنے اپنے علاقہ کے مسائل کےحل کے لئے حکومت پردباؤ بنایاجاسکے،

یہی حالات کی پکار ہے، کیونکہ ملکی حالات پرگہری نظررکھنے والے اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ مذھب کی بنیاد پرحکومت سازی آزاد بھارت کے خون میں ہی نہیں ہے، اور اس کےپیچھے بھاگنا سراب کےپیچھے بھاگنے کےمترادف ہے، اس لئے ہمارے سیاسی لیڈروں کو سمجھنا چاہئے کہ روڈ چھاپ بیان بازیوں اور جذباتی تقریروں سےملک و ملت کے لئے وہ ایک جہنم کدہ تیار کردیتے ہیں، اس لئےان سب چیزوں سے کلی اجتناب کرتے ہوئے،تمام مذاھب کا احترام کرتے ہوئے آئین کےدائرے میں رہتے ہوئے،قانون پرعمل کرتے ہوئے مثبت طریقہ سےاپنی لیڈرشپ مضبوط کریں،

ملک بھر میں 1 درجن مسلم لیڈر ہیں جوملی و ملکی مسائل پر اگر  سیاسی طور پر متحد ہوجائیں توپوری قوم متحد ہو سکتی ہے، لیکن اس کےلئے کروڑوں عوام کو اپنے پیچھے لےکرچلنے والےملی و سیاسی قائدین کو بند کمرے میں سیاسی پارٹیوں سےسانٹھ گانٹھ کا سلسلہ ختم کر کے عوام الناس کے سامنے کھلم کھلا معاھدہ کرنا ہوگا،اور یہ طے کرناہوگا ہوگا کہ مسلمان اسی پارٹی کو ووٹ دینگے جو ملک اورمسلمانوں کو غربت، فسادات،اور بھگوا دہشت گردی سے نجات دلانے کاعزم رکھتی ہو،آخری بات یہی ھیکہ جس دن مسلمانوں کی مسیحائی کادم بھرنے والے ملی و سیاسی قائدین اپنے مفادات پر ملت کو ترجیح دینے لگیں گےیہ قوم اسی دن سے ترقی و عروج کاسفر شروع کردیگی انشاءاللہ.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔