اختلاف رائے کی آزادی کا قتل، متعصب گروہ کی پہچان

محمد آصف اقبال

  دنیا میں آج مختلف عقائد و نظریات کے ماننے والے موجود ہیں۔ جو اپنے مقابل دوسرے نظریہ اور عقیدہ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اس کے باجوود مختلف نظریات و عقائد اور مذاہب کے ماننے والے مل جل کے رہتے ہیں جسے عام الفاظ میں اختلاف رائے کی آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اختلاف رائے عمومی انداز میں کوئی برائی یا خرابی نہیں ہے۔یہ اختلافات گفت وشنید اور تبادلہ خیالات سے دور کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک نظریہ سے وابستہ فرد دوسرے نظریہ کا قائل ہو سکتا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ گفت و شنید اور تبادلہ خیالات کے مواقع میسر ہوں۔ بالمقابل اس کے جہاں تبادلہ خیالات نہیں کیا جاتا وہاں اختلافات مزید گہرے ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اختلافات تعصب اور نفرت کی شکل اختیار کرتے ہوئے دوسرے کو برداشت کرنے تک کی قوت صلب کر لیتے ہیں۔ پھر کوئی بھی شخص یا گروہ اپنے سے مختلف رائے رکھنے والے کو پسند نہیں کرتا۔جس وقت اور جن لمحات میں یہ احساسات فرد یا گروہ کے درمیان پنپ رہے ہوتے ہیں اگر اسی وقت اس کی شدت کو کم نہ کیا جائے تو اس کے نقصانات بہت جلد سامنے آنے لگتے ہیں۔ لہذا ایسے مواقع پر ضروری ہے کہ احساسات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس کی منفی شدت کو کم کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ افراد اور گروہوں کے درمیان تعلقات استوار ہوں یا اس کا نظم کیا جائے۔

اگر تعلقات ہی منقطع ہو جائیں، ایک فرد یا ایک گروہ دوسرے فرد یا گروہ سے ملنا جلنا ہی بند کردے،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ احساست کی ابتدا یا انتہا کی سمجھ پیدا ہو؟لیکن شاطر اور چال باز گروہ اور خصوصاً وہ جو نفرت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، اختلافات کو مزید گہرا کرنا جن کا مقصد ہوتا ہے،دوریاں پیدا کرنا ہی جن کا نصب العین ہے۔وہ سب سے پہلے افراد وگروہ کے درمیان رشتے منقطع کرانے کی ہر ممکن سعی کرتا ہے۔اور جیسے جیسے وہ اپنے نصب العین سے قریب تر ہوتا جاتا ہے،نفرت کی آگ مزید بھڑکاتا ہے،اختلافات کو مزید ہوا دیتا ہے،دوریاں قائم کرنے کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتا ہے اور اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے گروہ کی شناخت تک مٹادے یہاں تک کہ اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہ رہے۔پھر ہم ہی ہم ہوں گے،ہم جو کہیں گے وہی حق ہوگا،ہم جو چاہیں گے وہی انجام دیا جائے گا،اور جس طرح چاہیں گے اسی طرح دوسروں کو زندگی گزارنے پر مجبور کردیں گے۔یہی وہ بدترین خواہش نفس ہے جس کے نتیجہ میں فساد فی الارض رونما ہوتا ہے۔

        قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃالبقرہ کی آیت نمبر 213میں اس ابتدائی صورتحال کا تذکرہ کیا ہے جبکہ دنیا کے تمام انسان ایک امت واحدہ تھے،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اختلافات رونما ہوئے۔ پھر ان اختلافات نے ظلم و سرکشی اور زیادتی کرنے کی خواہش میں مزید اضافہ کیا تو یہ اختلافات بڑھتے گئے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ـ”ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے)تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج ر وی کے نتائج سیڈرانے والے تھے، اور ان کے ساتھ کتاب ِبر حق نازل کی تا کہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔۔۔(اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتداء میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا۔ نہیں، ) اختلاف ان لوگوں نے کیا،  جنہیں حق کا علم دیا جاچکاتھا۔ انھوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ پس جو لوگ انبیاؑ پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھادیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے،  راہِ راست دکھا دیتا ہے”(البقرہ:213)۔

قرآن کہتا ہے کہ انسان نے جاننے اور علم رکھنے کے باوجود اختلافات کو جنم دیا اور اس لیے دیا کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس خرابی کو دور کرنے کے لیے انبیا ے کرام کو مبعوث کرنا شروع کیا۔ یہ انبیاؑ اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی امت بنا لے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہ حق کو واضح کر کے انھیں پھر سے ایک امّت بنا دیں۔ اور یہ ذمہ داری آج بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیوں پر فرض ہے کیونکہ اب وہی ہیں جن کے پاس قرآن اور حدیث کی روشنی میں حق اور سچائی موجود ہے۔لہذا یہ لوگ نہ تو حق کو چھپانے والے ہو سکتے ہیں، نہ حق کے خلاف عمل کرنے والے اور نہ ہی نفرتوں یا دوریوں و اختلافات کو فروغ دینے والے ہو سکتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں سے روابط استوار کریں، جنہوں نے منظم ومنصوبہ بند طریقہ سے روابط کے منقطع کرانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے ان کے برخلاف عمل کرتے ہوئے انسانی بنیادوں پر لوگوں سے تعلقات استوار کریں، ان کی ہر قسم کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائیں، ان کو سمجھیں، تبادلہ خیالات کے مواقع فراہم کریں، نفرت کو محبت سے تبدیل کریں اور وہ تمام کام انجام دیں جو اللہ اور اس کا رسول ؐچاہتا ہے۔لیکن اس بڑے کام کو انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان خود اپنے اندرون کی اصلا ح بھی متوازی لحاظ سے کرتے رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ملت کا شیرزہ بکھرا پڑاہو،  وہ خود ہی منتشر ہوں، ان کے درمیان ہی کوئی اتفاق اور اتحاد کی کیفیت موجود نہ ہو۔اس کے باوجود وہ چاہتے ہوں کہ وہ بڑا کام انجام دے لیں جس کی نشاندہی متذکرہ آیات میں گزری ہے۔

        قرآن حکیم میں سورۃ ا ل عمران کی آیت نمبر 104تا109میں اللہ تعالیٰ بہت صاف انداز میں ہدایت دیتا ہے کہ اے مسلمانوں تمہارے ذمہ کیا کام ہے اور تمہیں کیسا ہونا چاہیے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”تم میں کچھ لوگ ایسے ضرو رہی رہنے چاہیے جو نیکی کی طرف بلائیں،  بھلائی کا حکم دیں،  اور برائیوں سے روکتے رہیں۔  جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایا ت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے جبکہ کچھ لوگ سرخرو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہو گا، جن کا منہ کالا ہوگا(ان سے کہا جا ئے گا کہ) نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویّہ اختیار کیا؟ اچھا تو اب اس کفرانِ نعمت کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔ رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو ان کو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حا لت میں رہیں گے۔یہ اللہ کے ارشادات ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں کیو نکہ اللہ دنیا والوں پر ظلم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ زمین و آسمان کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور سارے معاملات اللہ ہی کے حضور پیش ہوتے ہیں "(آل عمران:109-104)۔

آیات کی روشنی میں واضح اور کھلی ہوئی ہدایات فراہم کر دی گئیں ہیں وہیں ساتھ ہی اس کے مثبت و منفی نتائج سے بھی آگاہ کر دیا گیا۔لہذا بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اپنے شب و روز کے معاملات انجام دیں۔ کیونکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات زماں و مکاں کی قیود سے پاک ہیں۔ یہ تعلیمات ہر زمانے اور ہر طرح کے حالات کے لیے ہیں۔ ان پر چل کے ہی دنیا و آخرت میں کامیابی اور امن و سکون برقرار رکھا جاسکتا ہے۔لہذا موجودہ حالات میں پوری دنیا میں اور خصوصا ً وطن عزیز ہندوستان میں جن حالات سے مسلمان اور دیگر اقوام برسرپیکار ہیں نیز جن مصائب میں وہ مبتلا ہیں ان کا حل متذکرہ آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔نفرت کی فضا کو محبت میں تبدیل کرنے اور اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے جب تک ہم عملی میدان میں قدم نہیں رکھیں گے۔مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے۔ممکن ہے برسراقتدار افراد و گروہ تبدیل ہوجائیں لیکن آپ کے دنیاوی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک کہ یا تو آپ خدا کے قولی اقرار کے ساتھ ساتھ عملی اقرار کی شہادت بھی نہ پیش کردیں یا بصورت دیگر نعوذ بااللہ آپ اپنے قول وعمل سے وحدہ‘ لا شریک اللہ تعالیٰ کا ہی انکار کربیٹھیں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔