اسلام مکمل ہے اس میں دخل برداشت نہیں ہوگا

حفیظ نعمانی

اپنے ملک ہندوستان کی حیثیت ایک چھوٹی دنیا کی ہے۔ ہم نے ملک کو ہر طرف سے دیکھا ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ پورا ملک دیکھ لیا جیسے ہم مہوبہ کبھی نہیں گئے۔ اس وجہ سے یہ معلوم نہیں کہ وہاں آبادی کا تناسب کیا ہے۔ مسلمان کتنے ہیں اور غیر مسلم کتنے ہیں؟ لیکن وزیر اعظم کی مہوبہ میں تقریر سے اندازہ ہورہا ہے کہ شاید وہاں مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم نے تین طلاق کے مسئلہ پر بولتے ہوئے کہا کہ اس پر سیاست نہیں کرنا چاہیے۔ انھوں نے اس معاملہ پر سیاست کرنے والوں اور ٹی وی پر بحث کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات خواتین کو ان کے حقوق سے دور کرتے ہیں۔

مودی صاحب نے یہ بھی کہا کہ طلاق کو سیاسی اور فرقہ وارانہ مسئلہ بنانے کے بجائے قرآن کے ماہرین کو بٹھا کر اس پر بامعنی بحث کرائیں۔

ہمیں تو اس پر بھی حیرت ہے کہ طلاق کے مسئلہ پر مودی جی کیوں بول رہے ہیں اور یہ حق انھیں کس نے دیا کہ وہ یہ کہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں تین طلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور وہ یہ بھی نہیںبتاتے کہ ہندوستان میں ایک طلاق ہوگی یا 30 طلاقی ںہ وںگی۔ انھوں نے قرآن کے ماہروں کو بٹھا کر بحث کرانے کا مشورہ دیا ہے۔اسلامی شریعت کی وضاحت ہمیشہ کے لیے ہوچکی ہے کہ سب سے پہلے قرآنِ عظیم اس کے بعد حدیث شریف کہ قرآن کے کس حکم کا کیا مطلب ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو مسائل سامنے آئے ان کے لیے صحابہ کرامؓ کی پارلیمنٹ جسے جماعت صحابہ کہا جاتا ہے اور ان کی وضاحت فقہ کے امام ابوحنیفہؒ ، امام شافعیؒ ، امام حنبلؒ وغیرہ۔ اس کے بعد اجتہاد۔ اگر اسلامی شریعت کے کسی نازک مسئلہ پر فیصلہ کرنا ہوگا تو صرف قرآن کے ماہروں کی بحث کافی نہیں ہے۔ قرآن پاک میں احکامات میں تفصیل نہیں ہے۔

مودی جی کے سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ اسلامی شریعت ایسی ہی ہے جیسے میڈیکل سائنس کہ جو دل کا ڈاکٹر ہے وہ ہڈی کا نہیں ہے جو دماغ کا ڈاکٹر ہے وہ پیٹ کا نہیں ہے، جو آنکھوں کا ڈاکٹرہے وہ دانتوں کا نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ سناتن دھرم کی کتابیں پڑھنے میں کتنے برس لگتے ہیں اور عیسائی مذہب کا نصاب کتنے برس کا ہے؟ البتہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام مذہب کانصاب آٹھ برس کا ہے۔ اس کے بعد اگر قانون پڑھنا ہے تو وہ الگ اور قرآن کی تفسیر پڑھنا ہے تو الگ سے دو سال لگتے ہیں۔

میں دور کی بات نہیں کرتا کہ 20ویں صدی کے آخری ۵۰ سال میں صرف لکھنؤ میں دو عالموں کو بہت بڑا سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے والد مولانا محمد منظور نعمانی اور دارالعلوم ندوہ کے ناظم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔ ان دونوں سے اگر کوئی معلوم کرتا تھا کہ اگر کسی نے اپنے بیوی کو طلاق دی اور اس طرح دی تو کیا طلاق ہوگی؟ تو وہ کہہ دیا کرتے تھے کہ بھائی ہم مفتی نہیں ہیں۔ آپ فرنگی محل چلے جائیں یا ندوہ ،وہ مفتی جو فتویٰ دے دیں اس پر عمل کرلیں۔ ان دونوں کے علم کا یہ حال تھا کہ والد کی ایک کتاب اسلام کیا ہے؟ کچھ نہیں معلوم کہ دنیا کی کتنی ز بانوں میں چھپ چکی ہے اور نہ یہ معلوم کہ دس لاکھ چھپ چکی ہے یا20لاکھ؟ مولانا علی میاں نے برسوں ندوہ میں قرآن کی تفسیر پڑھائی ہے۔ والد کا رسالہ الفرقان جب بریلی سے نکلتا تھا تو اس میں مولانا کے مضامین چھپتے تھے۔ اس میں لکھا رہتا تھا کہ استاذ تفسیر دارالعلوم ندوۃ العلماء۔ اور انھوں نے عربی اور اردو میں درجنوں کتابیں لکھی ہیں۔

مودی جی نہیں جانتے تو انہیں بولنا بھی نہیں چاہیے۔ ماہرین قرآن مفتی نہیں ہوتے ،اور ٹی وی کی جو تفریح گاہ ہوتی ہے اس میں صرف انہیں بلایا جاتا ہے جو نہ خود مذہب پر عمل کرتے ہیں اورنہ مذہب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہیں کہ عارف محمد خاں ایک ڈائری لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ چونکہ حکومت مودی صاحب کی ہے اس لیے پروین توگڑیا بھی بتاسکتے ہیں کہ تین طلاق کیا ہے؟ عارف محمد خاں کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ انھوں نے قرآن شریف میں ’’الطلاق مرتان‘‘پڑھ لیا ہے، وہ اس کو پکڑے بیٹھے ہیں کہ طلاق تو دو مرتبہ ہے۔ جن بیوقوفوں کو یہ نہ معلوم ہو کہ مسئلہ تین طلاق کا ہے ہی نہیں، مسئلہ تو یہ ہے کہ کس طرح دی جائیں ؟ طلاق تو تین ہی ہیں۔حضرت عمرؓ کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا کہ میری بیوی نے اتنی بری حرکت کی کہ میں نے اسے ایک ہزار طلاق دے دیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک کوڑا مارا اور فرمایا کہ تین طلاق سے تو تیری بیوی الگ ہوگئی997 طلاقیں تو اپنی گردن میں ڈال کر گھومتا رہ۔

شوہر کا بیوی سے اور بیوی کا شوہر سے الگ ہونے کا سب سے باعزت طریقہ اسلامی شریعت میں ہے جو طلاق ہے۔ اور ہر دانش ور یہ بتارہا ہے کہ سب سے کم واقعات طلاق کے مسلمانوں میں ہوتے ہیں۔جو حضرات ایسی نوٹنکیوں میں جاتے ہیں وہ اگر یہ معلوم کریں کہ جتنے مسلمان لڑکے یا لڑکیاں یہاں بیٹھی ہیں وہی بتادیں کہ کسے طلاق ہوچکی ہے؟ یا کسے ہونے والی ہے ؟تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ صرف تفریح ہے۔

ہم نہیں سمجھتے مودی صاحب کو مسلمان بہنوں کا کب سے درد ہونے لگا؟ زکیہ جعفری، عشرت جہاں اور سہراب الدین کی بیوی کوثر بھی مسلمان بہنیں تھیں۔ عشرت اور کوثر تو ان کی اگر بیٹیاں ہوتیں تو ان کی عمر کی ہوتیں۔ ان کا نعرہ بیٹی بڑھائیں بیٹی پڑھائیں اب بھی گونجتا رہتا ہے اور گودھرا سورت اور احمد آباد میں جو مسلمان لڑکیوں پر بیتی ہے وہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ مودی صاحب ۳ طلاق کو سیاست کا موضوع بنانے پر اعتراض کررہے ہیںاور خود اسے الیکشن کا موضوع بنا رہے ہیں، صرف ان دو چار ہزار بے دین اور آوارہ فطرت عورتوں اور لڑکیوں کے ووٹ کے لیے جنھوں نے اسے موضوع بنالیا ہے۔

ہندوستان پر مسلمانوں نے سیکڑوں برس حکومت کی۔ انھوں نے دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے دھرم میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی۔ مودی جی اپنی فکر کریں کہ آج بھی نہ جانے کتنے ہندو اپنے رشتہ داروں میں شادی کرتے ہیں اور لاکھوں ہندو کھاپ پنجایت کے اس قانون کو مانتے ہیں کہ ایک گائوں کا لڑکا لڑکی دونوں سگے بھائی بہن جیسے ہیں اور اگر وہ رشتہ کرلیتے ہیں تو سپریم کورٹ کی طرح سزائے موت دے دی جاتی ہے اور عمل بھی کرلیا جاتا ہے اور ملک کا قانون منہ دیکھتا رہ جاتا ہے اور یہ بھی ہندوہی کرتے ہیں کہ اگر چار بھائیوں میں کوئی ایک مر گیا تو جس بھائی نے اسے ہری چوڑیاں پہنا دیں یا اس پر چادر ڈال دی وہ اس کی پتنی ہوگئی۔ اور مودی جی! کیا اس رواج پر آپ کو شرم نہیں آتی کہ اتراکھنڈ اور ہماچل کے درمیان جو آبادیاں ہیں ان میں آج بھی یہ رواج ہے کہ کئی بھائی ایک عورت کو مشترک بیوی بنا کر رکھے رہتے ہیں۔

وزیر اعظم اور ایسے ملک کا وزیر اعظم جہاں ہر سو کلومیٹر کے بعد زبان بدل جائے اور ہر 500 کیلومیٹر کے بعد دھرم نام رواج بدل جائیں اور جس کی سرحد دوہزار میل ہو وہاں یکساں سول کوڈ کی باتیں کرے اور ۳ طلاق کو موضوع بنائے۔ جبکہ پوری عمر اٹل بہاری باجپئی جی نے کبھی نہیں کہا کہ ہم نے دھرم کو بچالیا بلکہ بس یہ کہا کہ سماج کو بچا لیا۔ ہندوستان میں صرف اسلام ایسا مذہب ہے جو اول سے آخر تک مکمل ہے اور دینی مدرسے وہ قلعے ہیں جو اس مذہب کی حفاظت کرنے والی فوج تیار کررہے ہیں۔ طلاق ہو، نکاح ہو، حلالہ ہو اس کا فیصلہ صرف مدرسوں کے مفتی صاحبان کریںگے اور اگر اجتہاد کی ضرورت ہوگی تب بھی صرف وہی کریںگے۔

یہ ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا ہی اثر ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میںسماج حائل ہوگیا ہے۔ قرنِ اول میں بہت کم ایسے مسلمان تھے جن کی بیوی طلاق شدہ نہیں تھی اور بہت کم عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کنوارے تھے۔ اسلام کی سب سے پہلی شادی آقائے نامداد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی اور ان سے کی جو مطلقہ تھیں یعنی حضرت خدیجہ اور وہی تھیں جو عورتوں میں سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئیں۔

یہ ہندو رسم و رواج کا اثر ہے کہ طلاق ایک گالی ہوگئی اور مطلقہ کو طوائف کی طرح نیچے درجے کی چیز سمجھ لیا گیا۔ ذرا اس محبت کو دیکھئے کہ جب ہجرت کے بعد مہاجر مدینہ منورہ آئے تو نہ ٹرین تھی، نہ ٹرک نہ بس، نہ ٹریکٹر ،نہ ٹرالی اور نہ سب کے پاس اونٹ یا گھوڑے۔ جو جیسے بھی آسکا ۵۰۰ کلومیٹر پہاڑوں پر چڑھ کر آیا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اقبال تھا کہ ا نصار اور مہاجروں میں بھائی چارہ کرایا۔ ایسا کہ جس کی دوسری مثال دنیا میں نہیں ملے گی۔ مکان میں شرکت ، باغوں میں شرکت، انتہا یہ تھی کہ جس کی دو بیویاں تھیں اس نے کہہ دیا کہ تم جس کو کہومیں طلاق دے دوں تم اس سے شادی کرلینا ۔اور اس پر عمل بھی ہوا۔ اسلام نہ ہوتا اور ہندوستان کے اس علاقہ کا رواج ہوتا تو آسان تھا کہ ہر چیز میں شرکت، بیوی میں بھی شرکت، جس مذہب میں طلاق غصہ میں دی گئی ہو اور دوبارہ اس کے ساتھ ہی وہ زندگی گذارنا چاہیں تو جو سزا ہے کہ حلالہ کرائو۔ کیا اس سے بڑی بھی کوئی سزا ہوسکتی ہے ۔یا اس سزا سے ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں طلاق کو کتنا برا سمجھا گیا ہے۔

یہ ایک ایسے مذہب کا مسئلہ ہے جو مکمل مذہب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس کے لیے نہ لا کمیشن بنایا جائے، نہ اس پر بحث کی جائے اور مسلمانوں کے علاوہ کسی مذہب کے ماننے والے کو دخل دینے کا تو کسی طرح بھی حق نہیں، چاہے وہ کوئی ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔