اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات کا تنقیدی جائزہ (قسط 4)

پروفیسر محمد رفعت

ہاکنگ کا سائنسی کارنامہ

 ہاکنگ کی تحقیقات کاایک اہم جُز قعرِ اسود یا بلیک ہول سے متعلق ہے۔ قعرِ اسود کا ابتدائی تصور تو ہاکنگ کا نہیں ہے (دوسرے لوگ پہلے اسے پیش کر چکے تھے)، البتہ اس کو سمجھنے میں ہاکنگ کی تشریحات نے بھی مدد کی ہے۔کائنات میں ہم  سیّاروں کے وجود سے واقف ہیں، سورج بھی ایک سیّارہ ہے، جو دوسرے سیّاروں کے مقابلے میں ہم سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ ہمارے حساب سے تو سورج بہت دور ہے، یعنی نو کروڑ میل یا پندرہ کروڑ کلو میٹر، لیکن اللہ تعالیٰ کی کائنات بڑی وسیع ہے۔ اس میں پندرہ کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔سورج سے روشنی زمین تک صرف آٹھ منٹ میں آجاتی ہے۔ اس کے بعد زمین سے قریب ترین جو سیّارہ ہے، اس کو الفاسنٹاری کہا جاتا ہے، اس سے روشنی کو زمین تک آنے میں چار سال لگ جاتے ہیں۔ یہ قریب ترین سیّارے کا معاملہ ہے۔ خدا کی کائنات کی وسعت کے تناظر میں زمین سے سورج کا فاصلہ معمولی فاصلہ ہے۔ سورج نظام شمسی کا مرکز ہے۔ اس نظام میں بہت سارے سیارے موجود ہیں۔ زمین بھی ان میں سے ایک ہے۔ سورج جیسے بہت سارے سیّارے کائنات میں موجود ہیں۔ سیّارے سے روشنی اور گرمی نکلتی ہے تو اس میں موجود توانائی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے۔ ایک بڑے لمبے عرصے کے بعد ایسا وقت بھی آتا ہے، جب سیّارے کی توانائی بالکل ختم ہوجاتی ہے اور وہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اس مرحلے میں سیّارے کو سائنسی اصطلاح میں White Dwarf کہا جاتا ہے، یعنی وہ سفید وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

قعرِ اسود

سوال یہ ہے کہ کوئی سیّارہ اس مرحلے تک پہنچ جائے تو اب کیا ہوگا؟ تحقیقات کی بنیاد پر تین امکانات ہیں : ایک امکان یہ ہے کہ وہ پھٹ جائے گا اور منتشر ہو جائے گا، اس کی توانائی دوبارہ یکجا نہیں ہوسکے گی۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ وہ سکڑتے سکڑتے چھوٹا ہوتا جائے گا۔ عام مادہ میں ایٹم ہوتے ہیں اور ایٹم میں الیکٹران، پروٹان جیسے  ایٹمی ذرات ایک دوسرے سے الگ الگ موجود ہوتے ہیں۔ سکڑ جانے والے سیّارے میں ایسا نہیں ہوگا، وہ اتنی چھوٹی شکل اختیار کر لے گا کہ ایٹم کے ذرات میں سے بس ایک ذرہ باقی رہ جائے گا، جسے نیوٹرون کہتے ہیں۔ گویا سیّارہ نیوٹرون اسٹار بن جائے گا۔ ایک تیسرا امکان بھی ہے۔ وہ ہے قعرِ اسود یا بلیک ہول کا ظہور، یعنی یہ ممکن ہے کہ سیّارہ بلیک ہول بن جائے۔

البتہ بلیک ہول کے ظہور کے لیے شرط یہ ہے کہ سیّارے کا جو ابتدائی وزن تھا وہ ہمارے سورج کے وزن سے کم از کم چالیس فی صد زائد ہو، اس مقدار سے کم نہ ہو۔ سورج کا وزن ہمارے پیمانوں کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ کاغذ پر آپ دو کا ہندسہ لکھیں اور اس کے آگے تیس صفر لگا دیں۔ اتنے کلو گرام سورج کا وزن ہے۔ ہماری گنتی سے اس مقدار کو بتایا نہیں جا سکتا۔ یوں سمجھیں کہ وہ دو ہزار ارب، ارب، ارب کلو گرام کا وزن ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں اس کا مادہ ہے۔ اس میں چالیس فی صد کا اضافہ کیجیے۔ سیّارے میں کم از کم اتنا مادہ ہوتب وہ قعرِ اسود یا بلیک ہول بن سکے گا۔مقدار مادہ کے متعلق یہ جو اندازہ ہے، اس کو چندر شیکھر لمٹ کہا جاتا ہے۔ چندر شیکھر نامی سائنس داں نے، جو ہندوستانی تھا، ۱۹۳۰ء میں یہ خیال پیش کیا تھا۔ اس وقت وہ نو عمر تھا، اس نے کہا کہ بلیک ہول بننا ممکن ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ سیّارے میں مادے کی مقدار سورج کی مقدارِ مادہ سے کم از کم چالیس فی صد زائد ہو۔ اس وقت لوگوں نے سوچا کہ یہ نوجوان ان معاملات کو کیا جانے، چنانچہ اس کے تصورات کو ایک لمبے عرصے تک نظر انداز کیا گیا۔بالآخر نصف صدی کے بعد تسلیم کر لیا گیا کہ اس نے جو اندازہ لگایا تھا وہ درست تھا۔

روایتی فہم کے مطابق بلیک ہول کی خصوصیات

تاہم یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اب تک کی تحقیق کی مطابق بلیک ہول کا ظہور ممکن ہے، لازم نہیں ہے۔ ابھی تک بلیک ہول صرف امکان کا نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے کچھ شواہد موجود ہیں، مگر ان کی حیثیت ایسی نہیں کہ وہ یقینی کہے جاسکیں۔ ان مشاہدات کی تعبیر دوسرے طریقوں سے بھی ہو سکتی ہے۔ بلیک ہول ایک ممکن حقیقت ہے، ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔بہر حال ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلیک ہول میں کیا ہوگا؟

بلیک ہول کی دو خصوصیات نمایاں ہیں : ایک یہ کہ اس کا حجم بڑا مختصر ہوگا، یعنی وزن تو بہت ہوگا(سورج کے وزن سے بھی چالیس فی صدزیادہ) لیکن حجم مختصر ہوگا۔ہر مادی وجود میں ثقل کی بنا پر کشش موجود ہے، وہ اپنا کام کرتی ہے اورسیّارے کے حجم کو گھٹاتی ہے۔ چنانچہ بہت چھوٹی سی جگہ میں قعرِ اسود موجود ہوگا۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ بلیک ہول سے کوئی چیز باہر نہیں جا سکتی۔ یہاں تک کہ روشنی بھی اندر چلی جائے تو واپس نہیں آئے گی۔ اس میں کوئی چیز گرے تو جذب ہو جائے گی، لیکن اس میں سے کوئی شئے نکل جائے، ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ گویا وہ ایک کھائی ہے، جس میں ہر چیز جو قریب آئے گی، گر جائے گی۔ اس سے باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

 بلیک ہول کا مقابلہ زمین سے کر سکتے ہیں۔ ہم سطحِ زمین سے اوپر کی جانب کوئی چیز پھینکیں تو وہ کچھ دور جائے گی، پھر واپس آجائے گی۔ الّا یہ کہ آپ بہت تیز پھینکیں، یعنی ابتدائی رفتار بہت تیز ہو۔ اگر آپ کسی چیز کو چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سطحِ زمین سے اوپر کی جانب پھینکیں تو وہ زمین پر واپس نہیں آئے گی۔ مگر چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ بہت بڑی رفتار ہے۔ آواز کی رفتار صرف بارہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ آواز سے تیز سپر سونک طیارے بھی اب بن گئے ہیں، جن کی رفتار پندرہ سو کلو میٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ مگر عام انسانی سواریوں کی رفتار زیادہ نہیں ہوتی۔ ان کے مقابلے میں چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ بڑی رفتار ہے۔ اس رفتار سے کوئی چیز دور پھینک دی جائے تب وہ زمین پر واپس نہیں آئے گی۔ لیکن بلیک ہول کا معاملہ مختلف ہے۔ آپ کسی بھی رفتار سے کوئی شئے اس کی سطح سے دور پھینک دیں، بہر حال وہ واپس آجائے گی۔ بلیک ہول سے وہ بھاگ نہیں سکتی، اس کے دائرۂ کشش سے روشنی بھی نہیں نکل سکتی۔ یہ اس کی دوسری خصوصیت ہے۔ اس لیے بلیک ہول محققین کی دل چسپی کا باعث رہا ہے۔

ہاکنگ کی جدّت

بلیک ہول کی مذکورہ بالا خصوصیات روایتی سائنس پر مبنی ہیں۔ اس تناظر میں ہاکنگ نے نئی بات پیش کی جس کو اس نے عام فہم انداز میں اپنی کتاب Brief History of Time(تصور وقت کی مختصر تاریخ) میں بیان کیا ہے۔ ہاکنگ نے کوانٹم نظریہ کا حوالہ دیا ہے، جس کے مطابق پیشین گوئی یقینی نہیں ہوتی۔ چنانچہ یقینی پیشین گوئی کی کوشش، کوانٹم نظریہ کے تخلیق کردہ سائنسی مزاج کے خلاف ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ بلیک ہول سے کوئی چیز نہیں نکل سکتی، تو یہ ایک مطلق پیشین گوئی ہے۔ ہاکنگ کہتا ہے کہ یقینا اس استدلال میں کوئی جھول اورکوئی کم زوری ہے، اس لیے کہ مطلق پیشین گوئی، نئے سائنسی رجحان سے ہم آہنگ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ہاکنگ نے روس کا سفر کیا۔ روس کے ایک سائنس داں نے اس تضاد کی جانب ہاکنگ کو توجہ دلائی کہ یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ بلیک ہول سے کوئی چیز نہیں نکل سکتی، کیایہ مطلق دعویٰ کوانٹم نظریہ کے مطابق ہے ؟ ہاکنگ کو اس سوال نے متاثر کیا اور اس نے بالآخر اپنی تحقیق کر کے نتیجہ نکالا کہ بلیک ہول سے متعلق یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ اس سے کوئی چیز  باہرنہیں نکل سکے گی، بلکہ ہوگا یہ کہ بلیک ہول سے روشنی نکلے گی، البتہ اس اخراج کے امکانات کم ہوں گے۔ بتدریج ہی سہی، روشنی نکلتے نکلتے ایک ایسا وقت آئے گا کہ بلیک ہول کی توانائی ختم ہو جائے گی، یعنی وہ منتشر ہوجائے گا اورایک جرم فلکی کے طور پر باقی نہیں رہے گا۔ بلیک ہول سے روشنی کے اخراج کو ہاکنگ ریڈی ایشن Hawking Radiationکہا جاتا ہے۔ روشنی توانائی کی ایک شکل ہے۔چنانچہ ہاکنگ کا نظریہ اور تحقیق یہ ہے کہ قعرِ اسود سے توانائی خارج ہوگی۔

ہاکنگ کا یہ استدلال قوی ہے۔ اس لیے کہ کوانٹم نظریے سے مطابقت رکھتا ہے۔ چنانچہ اب عموماً لوگوں نے اس استدلال کوتسلیم کر لیا ہے۔ پیش کردہ بنیادی دلیل کوانٹم نظریہ سے مستنبط ہے۔ البتہ ایک ثانوی دلیل بھی ہاکنگ نے پیش کی ہے، جوپرانی سائنس سے مستعارہے۔روایتی فزکس کا ایک باب ’حرارت کے قوانین‘ سے عبارت ہے۔ اس شعبے کو  Thermodynamics کہتے ہیں۔ حرات کے قوانین کی نوعیت نیوٹن کے عام خیالات سے قدرے مختلف ہے، اگر چہ یہ قوانین روایتی فزکس کا حصہ ہیں۔ حرکیات کے ان قوانین میں امکان کا ذکر ہوتا ہے۔زیر مشاہدہ ذرات کی حرکت سے متعلق یقینی پیشین گوئی نہیں ہوتی۔ حرارت کے قوانین پرانی سائنس کا جُز ہیں۔ یہ بیسویں صدی سے پہلے ترتیب پا چکے تھے، تاہم ان میں اور کوانٹم نظریہ میں یہ امر مشترک ہے کہ دونوں کے مطابق ذرّات کی حرکت کی تفصیلی کیفیت کے سلسلے میں مستقبل کے تناظر میں یقینی بات نہیں کہی جا سکتی۔ ہاکنگ نے دلیل کے طور پر دونوں کو استعمال کیا ہے۔ یعنی کوانٹم نظریہ اور حرکیات حرارت کے قوانین کو۔ ہاکنگ کی اصل دلیل کوانٹم تصورات ہیں اور اس کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ بلیک ہول سے توانائی نکلے گی، حتی کہ اس میں موجود توانائی بالآخر ختم ہو جائے گی اور اس کا بلیک ہول کے طور پرجداگانہ وجود باقی نہیں رہے گا۔ اس استدلال نے سائنس اورفزکس کی دنیا میں ہاکنگ کی تحقیقات کو نمایاں مقام عطا کیا۔ اس کے تصورات کو لوگوں نے بڑی اہمیت دی اور اس کے استدلال کی قوت کو تسلیم کیا۔

(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔