اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس حقیقت کے آئینہ میں

عبدالعزیز

مرکزی وزیر مملکت برائے اقلیتی امور شری مختار عباس نقوی نے ملک کے چھ اقلیتی فرقوں کے نمائندوں کے کمیشن کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کبھی کبھی اقلیتوں کے افراد کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ دوسرے درجہ کے شہری ہیں۔ بعد میں اخباری نامہ نگاروں کے دریافت کرنے پر شری نقوی نے کہاکہ اقلیتوں کے لوگ کبھی کبھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ دوسرے شہریوں کے برابر نہیں ہیں۔ وہ سکنڈ کلاس شہری ہیں مگر ان کی حکومت نے دو سال میں اس احساس کو ختم کر دیا ہے۔ یہ ووٹ بینک کی سیاست سے پیدا ہوا تھا۔
شری نقوی نے حقیقت پر سے پردہ اٹھانے کی ذرا سی ہمت دکھائی تھی مگر ان کو فوراً احساس ہوا کہ کہیں ان کی پارٹی کے افراد ناراض نہ ہوجائیں اور ان کی کھنچائی نہ شروع کردیں، اس لئے انھوں نے یہ کہہ کر معاملہ کو رفع دفع کردیا کہ ان کی پارٹی کی دوسالہ حکومت نے اقلیتوں کے کمتر ہونے کے احساس کو ختم کر دیا جو ووٹ بینک کی سیاست نے جنم دیا تھا، حالانکہ آزادی کے بعد سے ہی اقلیتوں کے ساتھ خاص طور سے مسلم اقلیت کے ساتھ کھلم کھلا امتیاز ہر سرکاری محکمہ میں برتا جاتا تھا مگر دو ڈھائی سال میں مودی حکومت کے دوران نہ صرف امتیاز برتا جاتا ہے بلکہ مسلم یا عیسائی اقلیت پر جبر و ظلم بھی روا رکھا جاتا ہے۔ دستور کے حوال سے نقوی اور دیگر مقررین نے کہاکہ اقلیتیں ہندستان میں محفوظ ہیں کیونکہ دستور اور آئین میں ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دستور میں سب کو یکساں حقوق کی ضمانت دی گئی ہے مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ اکثریت کے شرپسند عناصر خاص طور سے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے افراد دستور، آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ ہر ریاست میں اور جہاں ان کی حکومت ہے وہاں کچھ زیادہ ہی قانون کو جب چاہتے ہیں اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور محض مسلمان یا عیسائی ہونے کی وجہ سے ان کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔ ان کو قتل تک کر دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ گاؤں کے گاؤں کو بے نام و نشان کر دیتے ہیں۔
مظفر نگر کے مسلمانوں کے 32گاؤں کو فسادیوں نے تباہ و برباد کر دیا جس سے سیکڑوں لوگوں کی اموات کے واقعات پیش آئے اور ہزار افراد آج بھی پناہ کیلئے اِدھر اُدھر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ریاستی حکومت بھی فساد زدگان کے ساتھ سوتیلا پن کا سلوک کر رہی ہے جبکہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا چمپئن قرار دیتی ہے۔ یوپی کے دادری میں محمد اخلاق کے گھر میں گھس کر انھیں گائے کے گوشت کے شبہ میں باہر کھینچ کر لایا گیا اور شہید کر ڈالا گیا اور آج تک ان کے گھر والوں کے پیچھے شری اور فسادی افراد پڑے ہوئے ہیں جبکہ ان کے خاندان والے اپنا گھر بار چھوڑ کر دہلی میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس قدر زیادتی اور ظلم ہورہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ اقلیتیں محفوظ ہیں۔ دستور اور آئین کی ضمانت انھیں حاصل ہے۔ سچر کمیٹی کی تحقیقات سے کانگریسی حکومتوں کی قلعی بھی کھل گئی تھی کہ مسلمانوں کی حالت معاشی اور تعلیمی لحاظ سے شیڈول کاسٹ یا پسماندہ طبقات سے بھی بد تر ہے۔ مغربی بنگال میں 34 سال تک کمیونسٹ راج تھا مگر یہاں اور بھی مسلمانوں کی حالت دیگر ریاستوں سے بدتر تھی۔ ان حقیقتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیکولر حکومت ہو یا فرقہ پرستوں کی حکومت ہو سب کا اسی بات پر اتفاق ہے کہ مسلم اقلیت کو خاص طور سے دبا کر رکھا جائے، ان کے ساتھ ہر طرح کا امتیازی سلوک روا رکھا جائے تاکہ وہ سر اٹھاکر بات نہ کرسکیں۔
سابق وزیر خارجہ سید محمود صاحب نے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے زمانے میں صاف طریقہ سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کو ہندستان میں دوسرے درجہ کا شہرہ بنا دیا گیا ہے۔ اس پر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو بہت برا معلوم ہوا تھا اور انھوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی اس کے باوجود بھی جناب سید محمود نے نہ اپنا بیان واپس لیا اورنہ ہی نقوی کی طرح ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں‘ کا مظاہرہ کیا تھا۔ سید محمود نے اس احساس کو ختم کرنے کیلئے تمام مسلم جماعتوں کا مشترکہ فلیٹ فورم مسلم مجلس مشاورت کے نام سے تشکیل کیا تھا۔ مشاورت کی تمام کوششوں اور جدوجہد کے باوجود نہ فرقہ وارانہ ماحول کی شدت میں کمی آئی اور نہ ہی امتیازی سلوک میں کمی یا اس کا خاتمہ ہوا۔ نقوی اپنا بیان دے کر اس پر قائم رہتے تو شاید دوسرے لوگ بھی کچھ ہمت دکھاتے۔ نقوی کے بیان کو کچھ نہیں سے کچھ موجودہ ماحول میں غنیمت ہی کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مسلم اقلیت کا معاملہ ہے اس کو بھی آگے بڑھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے خواہ ماحول کتنے ہی ناساز گار ہوںیہ سمجھ کر کہ ع ہمتِ مرداں مددِ خدا
مولانا ظفر علی خان نے سچ کہا ہے ؎
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے … پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
اللہ تعالیٰ اسی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مسلمانوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی … نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔