بابری مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کیسے شروع ہوئی

عدالت کے غلط فیصلے کی وجہ سے پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر
مرتب: عبد العزیز
25 جنوری 1986ء میں رمیش چندر پانڈے نے فیض آباد کے صدر منصب کے یہاں ایک درخواست دی کہ مسجد کا تالا کھول دیا جائے تاکہ ہندو وہاں جاکر پوجا پاٹ کرسکیں، مگر منصف صدر نے یہ کہہ کر درخواست رد کردی کہ اس مقدمہ کی رہنما فائل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس لئے اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس فیصلہ کے خلاف فیض آباد کے ڈسٹرکٹ جج مسٹر کے ایم پانڈے کی عدالت میں اپیل کی گئی، انہوں نے یکم فروری 1986ء کو یہ فیصلہ سنایا کہ ضلع انتظامیہ اس مسجد کا تالا کھول دے، اور ہندوؤں کو وہاں پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دیدی جائے، ان کا فیصلہ کا متن ذیل میں درج ہے۔
رمیش چندر پانڈے مدعی بنام اسٹیٹ آف اترپردیش، اور 30 دوسری مدعیٰ علیہم، یہ اپیل اس حکم کے خلاف ہے، جسے ہری شنکردوبے منصف صدر فیض آباد نے مستقل مقدمہ نمبر 2/50 کے سلسلے میں 28جنوری 1986ء کو صادر کیا تھا۔
مقدمہ کے حقائق مختصر طور پراس طرح ہیں کہ مقدمہ2، الف اے /5 میں مدعی نے ایک درخواست (433/سی) اس مطلب کی گزاری کہ مدعی اور ہندو قوم کے دیگر افراد عام طور سے شری بھگوان رام چندر جی کی مورتی کی پوجا اور درشن کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ ان مورتیوں کی بھی پوجا کرتے ہیں جو اس مقدمہ کی اراضی سے متعلق ہیں، تو مدعیٰ علیہم 6تا9 کو یہ ہدایت کی جانی چاہئے کہ وہ مذکورہ جگہ کے داخلہ کے دروازہ کو بندکرکے یا وہاں تالا بندی کرکے اس پوجا اور درشن میں کسی قسم کی پابندی یا رکاوٹ نہ پیدا کریں۔
مدعیٰ علیہم 6 تا9 میں اترپردیش اسٹیٹ، ڈپٹی کمشنر فیض آباد، سٹی مجسٹریٹ اور ایس پی ہیں، ان لوگوں نے یہ اعتراض نامہ داخل کیاکہ وہ عدالت کے حکم مورخہ 3مارچ 1951ء کے مطابق مذکورہ مورتیوں کی پوجا میں مداخلت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، وہ صرف اس بنیاد پر درخواست کے مزاحم ہیں کہ نظم و ضبط کی برقراری کے سلسلہ میں ضروری اقدامات اٹھانے کیلئے ان کواختیاردیاگیاہے ، اور ان کے اس حق کو کسی بھی طورپر ختم نہیں کیا جاسکتا، فاضل منصف نے درخواست دہندہ کو اس کی درخواست پرکسی قسم کی داد رسی نہیں کی، حتی کہ اس معاملہ میں کوئی حکم ہی نہیں صادر کیا، کیونکہ 1961ء کے رہنما مقدمہ نمبر 12 کا ریکارڈ ہائی کورٹ کے پیش نظر ہے، اسی لئے فاضل منصف نے خود کو اس لائق نہیں پایا کہ وہ اس درخواست پرکوئی فیصلہ دے،اس کی خاص بنیاد یہ ہے کہ کوئی بھی حکم جو اس معاملہ میں صادر کیا جائے گا، وہ رہنما مقدمہ کی فائل میں بھی جاری کیا جائے گا، اور چونکہ رہنما مقدمات کی فائل دستیاب نہیں ہے، اس لئے فاضل منصف نے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔
بابری مسجد کا تالا کھولا گیا تو ہزاروں ہندو پوجا پاٹ کیلئے مسجد میں داخل ہوگئے، اس کا منظر ٹیلی ویژن پر بھی دکھایا گیا، پوری ریاست میں ہندوؤں نے خوشی میں چراغاں کئے ، مسلمانوں نے اپنے گھروں پر غم میں سیاہ جھنڈے لہرائے، ہندوؤں کی طرف سے فتح و کامرانی میں جلسے ہوئے ، جلوس نکالے گئے، تو مسلمانوں کی جانب سے ماتمی جلوس نکلے، ایسا معلوم ہونے لگا کہ ہندو مسلمان ایک قوم نہیں ہیں، بلکہ الگ الگ دو قومیں ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔