بابری مسجد ہندوستان کا نظام انصاف اور مسلمان

نہال صغیر
ہندوستان کی تاریخ میں 6 ؍دسمبر وہ بدترین دن ہے جس دن یہ ثابت ہوگیا کہ ہر چند کہ یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے لیکن یہاں کا نظام انصاف معطل ہو چکا ۔عدلیہ میں اب انصاف نہیں ہوتا بلکہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔بابری مسجد کی صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے لئے سپریم کورٹ کا آرڈر تھا لیکن اس کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے فرضی دیش بھکت اور کانگریس کے برہمن نواز طبقے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تم کچھ بھی کرلو اس ملک میں ہوگا وہی جو ہم چاہیں گے ۔ ہم ایسا کہنے میں حق بجانب اس لئے ہیں کہ اس قدر بدترین جرم کرنے والے افراد قانون کے شکنجے سے آج تک باہر ہیں ۔ اس میں سے کچھ تو اللہ کے نظام عدل کا شکار ہو گئے اور کچھ کو اللہ نے ہدایت دیدی اور اب وہ مسجد کی تعمیر میں سرگرم ہیں ۔بے شک بابری مسجد کی شہادت سے ہندوستان میں مسلمانوں کا مورل ڈاؤن ہوا تھا ۔ انہوں نے پہلی بار شاید یہ محسوس کیا کہ یہ ملک اب ان کا ملک نہیں رہا ۔اس کے بعد فسادات کا سلسلہ چلا اور اس میں ہزاروں مسلمان شہید کئے گئے ۔لیکن آج بھی عدالت ان مجرموں کا گریبان پکڑنے میں ناکام ہے ۔ہاں یہ مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان تھا ۔لیکن یہ اس سے زیادہ ہندوستان کا مجموعی نقصان تھا۔یہ تھا عدم اعتماد ،اعتماد شکنی کا اور فرعونیت کوعروج بخشنے کا ۔اس کے بعد دنیا میں ہندوستان کی وہ وقعت نہیں رہی جو کسی وقت تھی ۔ملک کے ارباب اقتدار عالمی برادری کو یہ باور کرانے میں اس سے قبل کامیاب تھے کہ ہندوستان میں اقلیتیں پوری طرح محفوظ ہیں اور حکومتیں ان کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں ۔لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد دنیا پر یہ بات منکشف ہوئی کہ یہاں نا انصافی اور ظلم کا دور دورہ ہے ۔یہاں کی عدلیہ مجبور محض ہے ۔وہ آزادانہ طور پر کوئی ایسا فیصلہ دینے کی حالت میں نہیں ہے جس سے اقلیتوں یا کمزور طبقات کو کم از کم یہ احساس ہو کہ عدلیہ تو ان کی خبر گری کرے گی ۔میری باتوں میں کچھ غلط ہے تو بتایا جائے کہ آج تک بابری مسجد کے قضیے کا منصفانہ حل کیوں نہیں نکالا جاسکا یا عدالت نے اپنے منصف ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کیوں نہیں دیا ؟عدالت نے فیصلہ دیا بھی تو وہ انصاف کے لئے نہیں یاد کیا جائے گا ۔بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ جوالہٰ آباد ہائی کورٹ نے دیا تھا وہ کسی عدالت کا فیصلہ نہیں لگتا بلکہ وہ کسی بدعنوان اور جانبدار پنچایت کا فیصلہ لگتا ہے ۔عدالتوں کا کام ہے انصاف کرنا خواہ اس کی زد کسی پرپڑے اسے ہر حال میں انصاف کرنا چاہئے ۔لیکن یہاں عدلیہ نے فیصلہ نہ کرکے بابری مسجد ملکیت کے حصے بخرے کردیئے ۔
اس کے بعد بھی عدالت نے انصاف کرنے کے بجائے عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کا کام کیا ۔ملک کے حالات دگرگوں ہوتے رہے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے ۔گائے کے نام پر انسانوں کا خون بہاتے رہے لیکن عدالت کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سو موٹو لے کر حکومت کو اس کی ذمہ داری سے آگاہ کرنے کا کام کرتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں عدلیہ پوری طرح مفلوج ہے اور نظام انصاف کا کہیں دور دور تک وجود ہی نہیں ہے ۔ملک کے حالات اتنے خراب نہیں ہوئے ہیں جتنے کے اس کے خاص خاص کل پرزوں کوبگاڑ دیا گیا ہے ۔بابری مسجد ملکیت میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ بندر بانٹ کے بعد جبکہ سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی جاچکی تھی ممبئی کے مراٹھی پتر کار سنگھ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایودھیا کے ایک مہنت یوگل کشور شاستری نے کہا تھا کہ اگر سپریم کوٹ بابری مسجد کے حق میں فیصلہ دیدے تو مقامی ہندو خود ہی بابری مسجد کی تعمیر کردیں گے ۔مطلب صاف ہے کہ مقامی ہندو آبادی رام کے نام پر کی جانے والی سیاست کو بہت اچھی طرح جانتی ہے ۔اس کو اس طرح بھی سمجھ لیجئے کہ اجودھیا سے بی جے پی کا ایم ایل اے نہیں جیتتا بلکہ وہاں پہلے کمیونسٹ اور اب کئی برسوں سے سماج وادی پارٹی کا قبضہ ہے۔ایودھیا کے ہی ایک اور سادھو نے ایک ڈاکیومنٹری میں کہا تھا کہ ایودھیا میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے اور بابری مسجد کا قضیہ کھڑا کرنے کی ذمہ دار وی ایچ پی ہے ۔ان کے اس بیان کے چند دنوں بعد ہی ان کا قتل ہو گیا ۔ایودھیا میں ویسے بھی جب سے بابری مسجد کے ساتھ رام جنم بھومی کا جھگڑا کھڑا کیا گیا ہے تب سے دس سے زیادہ سادھو ؤں کا قتل ہو چکا ہے ۔یہ سب کچھ دو وجوہات کی وجہ سے ہیں اول تو رام کے نام پر آنے والے چڑھاوے کی کمائی پر قبضہ کے لئے یا پھر بابری مسجد کے لئے سچ بولنے کی وجہ سے بھی انہیں اپنی جانوں کو کھونا پڑا ۔ان سب واقعات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کا مسئلہ کوئی لاینحل نہیں ہے بلکہ اسے سیاست داں اور ہندوؤں میں مَٹھوں کی کمائی پر عیش کرنے والا طبقہ حل نہیں ہونے دینا چاہتا ۔یعنی حکومت اور عدلیہ چاہے تو بابری مسجد کا قضیہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایک دن میں حل ہو سکتا ہے ۔
بابری مسجد کے بعد جہاں مسلمانوں کو سیاسی اور معاشرتی طور پر یک و تنہا ہونے کا احساس کرایا نیز انہیں احساس بیچارگی سے بھی دوچار کیا ۔لیکن اسی کے ساتھ ہر شر میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے ۔یہاں بھی یہ پہلو موجود ہے ۔بابری مسجد کی شہادت جس میں حکومت کی سرپرستی شامل تھی اور عدلیہ خاموش تماشائی اس سے مسلمانوں کی یہ خوش فہمی دور ہوگئی کہ وہ آرام اور سکون کے ساتھ ہندوستان میں رہ سکیں گے جس کی گارنٹی دستور نے دی ہے اور کانگریس نے اس حوالے سے ان کو یقین دلایا کہ وہ اکیلی پارٹی ہے جو مسلمانوں کی محافظ ہے ۔یہاں مسلمانوں کے لئے قابل غور پہلو یہ ہے کہ دستوری گارنٹی کمزور قوموں کے لئے ایک کاغذ کے پلندہ کے سوا کچھ نہیں ہواکرتا۔قانون انہی کو تحفظ فراہم کرتا ہے جوہر طرح سے طاقتور ہو۔اس لئے مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ آزادی کی جنگ میں اور اس کے بعد ان سے کیا کیا سیاسی غلطیاں سرزد ہوئیں جس کی وجہ سے ان کی سیاسی قوت بکھر گئی ۔عام طور پر پاکستان کی تخلیق پر ہی ہمارا ذہن جا کر رک جاتا ہے اور پھر شروع ہوتا ہے مجرم ضمیری کا سفر کہ غلطی ہم نے کی ہے تو سزا تو ملنی ہی ہے ۔اس ذہنیت سے نکل کر ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے ۔اس کے لئے پہلا اور آخری کام ہے قیادت کے انتخاب کا ۔ایسی قیادت جو بیباک و بے لاگ ہو۔جس کے پاس علم ہو اور جو قوت بھی رکھتا ہو ۔ایسا شخص قائد نہیں ہو سکتا جس کے پاس نہ تو علم ہے اور نہ ہی قوت کہ معمولی سا ٹی وی اسٹوڈیو میں نیوز اینکر کے سامنے جا کر ڈھیر ہو جاتا ہے اور خود کے ساتھ ہی پوری قوم کو دفاعی پوزیشن میں لے آتا ہے ۔اس پر غور کیجئے اس جانب قدم بڑھایئے ۔آئندہ کا لائحہ عمل طے کیجئے ۔ہر سال چھ دسمبر کو بابری مسجد کا ماتم کرنے اور ہندوستانی جمہوریت و آئین کا حوالہ دینے سے مسائل حل نہیں ہونے والے ۔ماتم کرنے والی قوم کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی دنیا میں کوئی عزت وقار پانے کے لائق ہو تی ہے۔دنیا صرف ایک زبان جانتی ہے طاقت کی اور یہ کیسے آئے گی اس پر ہی غور فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔اسی کے ساتھ حکمت مومن کی ضرورت ہے ۔منافقانہ مصلحت پسندی قوموں کے ضمیر کو مردہ کر دیتی ہے ۔کہتے ہیں جب جاگے تب ہی سویرا ۔مانا کہ ستر سال محرومی میں کٹ گئے لیکن شروعات تو اب بھی کی جاسکتی ہے ۔دیکھئے ہزاروں سال سے غلامی کی زندگی گزارنے والی دلت اور دیگر پسماندہ قوموں نے کس طرح غلامی کی زنجیر توڑ دی ۔مسلمان بھی اٹھیں اور کوئی ایسی تحریک پیدا کردیں کہ ستر سالہ محرومی کا سد باب ہو سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔