جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام و استحکام میں حکیم اجمل خاں کا کردار

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کا شمار ملک کے چند بڑے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد حکومت نے اسے تعلیم کا ایک اہم مرکز قرار دیا، ۱۹۶۲ء میں اسےdeemed to be University  بنایا گیا، پھر ۱۹۸۸ء میں مرکزی یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ ۱۳۔ ۲۰۱۲ء کی جامعہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یہاں ۹؍ فیکلٹیز، ۳۷؍ڈپارٹمنٹس، ۲۵؍ سینٹرس، اور ۶؍ اسکولس ہیں۔ اساتذہ کی تعداد   یونی ورسٹی میں ۷۷۸؍ اور اسکولوں میں ۱۳۸ ہے۔ U.G,P.G&Dip. کے ۱۷۱ ؍ کورسزاور مختلف شعبوں میں ۳۷ Doctoral Prog. چل رہے ہیں۔ طلبہ کی تعداد یونی ورسٹی میں پندرہ ہزار سے زاید اور اسکولوں میں تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اسے اس سال حکومت سے1783 ملین روپے کی گرانٹ ملی ہے اورتقریباً  196ملین روپے ا س نےInternal Sources سے حاصل کیے ہیں۔ گویا جامعہ کی مثال ایک تناور درخت کی سی ہے، جو خوب پھل پھول رہا ہے۔ کوئی تصور کر سکتاہے کہ اس تناور درخت کا جب بیج ڈالا گیا تھا اور جب اس نے کونپل نکالی تھی تو وہ کیسے سرد و گرم حالات سے دوچار تھا؟بادِ صرصر کے کیسے تھپیڑے اس نے برداشت کیے تھے؟ قریب تھا کہ وہ مرجھا جائے اور اپنی موت آپ مر جائے، لیکن دستِ غیب نے اسے سہارا دیا، اس کے جینے کے اسباب فراہم ہوگئے اور پھر وہ بڑھتا اور پروان چڑھتا چلا گیا:

  کَشَجَرۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِیْ السَّمَاء تُؤْتِیْ أُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا (ابراھیم:۲۴۔ ۲۵)

’’جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمیں میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ ‘‘

جامعہ کی تاسیس میں شیخ الہند مولانا محمود حسن، مسیح الملک حکیم حافظ محمد اجمل، گاندھی جی، رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور عبد المجید خواجہ کی خدمات لائقِ صد ستائش ہیں۔ بعد میں ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر سید عابد حسین، پروفیسر محمد مجیب اور شفیق الرحمٰن قدوائی وغیرہ نے اس کے فروغ و استحکام میں جی جان سے حصہ لیا اور اسے بلندیوں تک پہنچایا۔ ۱؎  ان شخصیات میں سے ہر ایک کی خدمات غیر معمولی، لائق تحسین اور قابل صد ستائش ہیں۔ اس وقت میں  جامعہ کے لیے مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کی خدماتِ جلیلہ پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔

(۱)جامعہ کی تاسیس

 جامعہ ملیہ کے قیام کا اصل محرک خلافت اور ترکِ موالات کی تحریکیں تھیں۔ مولانا محمد علی کی قیادت میں مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کوشش کر رہی تھی کہ یونی ورسٹی برطانوی حکومت سے تعلق ختم کر لے اور قوم کی مدد سے اپنے وجود کو قائم رکھے، مگران کی یہ کوشش ناکام رہی تو انھوں نے یو نی ورسٹی چھوڑ کر علی گڑھ میں ہی ایک نئے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔

۲۹؍ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو جمعہ کے دن مسلم یونیورسٹی سے ترکِ تعلق کرنے والے طلبہ اور اساتذہ مسجد میں جمع ہوئے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن بیماری کے باوجود اس جلسے میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ ان کا خطبۂ تاسیس ان کے شاگرد مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھ کر سنایا۔ جلسے میں جامعہ کی رسمِ افتتاح ادا کرنے کے ساتھ فاؤنڈیشن کمیٹی کے نام سے ۷۴؍ اصحاب کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی کا جلسہ ۲۲؍ نومبر ۱۹۲۰ء کو حکیم اجمل خاں کی صدارت میں ہوا۔ حکیم صاحب اتفاق رائے سے امیر جامعہ[چانسلر] بنائے گئے۔ ۲؎

 حکیم اجمل کوملک کی معاشرتی زندگی میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ کوئی تعلیمی اور تہذیبی سرگرمی ہوتی، اس میں ان کا شامل ہونا ضروری تھا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا ساتواں اجلاس دہلی میں ہوا تو وہ اس کی مجلس استقبالیہ کے سکریٹری اور ان کے بڑے بھائی عبد المجید خاں اس کے رکن تھے۔ رام پور کے قیام کے زمانے میں علی گڑھ تحریک کے مقتدر حضرات سے ان کے تعلقات ہو گئے تھے۔ اس طرح   علی گڑھ تحریک سے ان کی دل چسپی بڑھ گئی۔ نواب محسن الملک سے پہلی مرتبہ ان کی ملاقات رام پور ہی میں ہوئی۔ اس کے دو سال بعد    علی گڑھ کا ایک وفد رام پور آیا۔ حکیم اجمل نے اس کی بہت مدد کی۔ ایک طویل عرصہ تک وہ علی گڑھ کے ٹرسٹی رہے۔ مسلمانوں کی دوسری تعلیمی تحریک ندوۃ لعلماء سے بھی ان کا شروع سے تعلق رہا۔ ۱۹۱۰ء میں ندوہ کے اجلاس دہلی میں وہ اس کے صدر تھے۔ اسی طرح انھوں نے ۱۹۲۵ء میں بھی ندوہ کے ایک اجلاس کی صدارت کی تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس میں بھی وہ پیش پیش رہے۔

جامعہ کوحکیم اجمل خاں کیوں عزیز رکھتے تھے؟ اور کیسی تعلیم کا انھوں نے خواب دیکھا تھا؟ اس کی ایک جھلک جامعہ کے پہلے جلسۂ تقسیم اسناد( ۱۹۲۱ء) کے صدارتی خطبہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس میں انھوں نے فرمایا تھا:

’’ ہم نے اصولی حیثیت سے تعلیم کو صحیح شاہ راہ پر ڈال دیا ہے اور جہاں ہم نے سچے مسلمان پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کیں وہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ تعلیم و تربیت میں ماحول کا بہت اثر ہوتا ہے اوراسلامیت کے ساتھ وطن کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا بھی ہمارے پیش نظر ہے۔ ‘‘۳؎

 جامعہ کی بنیاد میں مولانا محمد علی کے جوش و خروش اور حکیم اجمل کی متانت و سنجیدگی دونوں کے عناصر شامل ہیں۔ شمس الرحمٰن محسنی نے خوب لکھا ہے :

’’جامعہ کے قیام کے لیے جد و جہد رہینِ منت تھی مولانا محمد علی کے جوش و خروش کی، مگر اس کے قیام کے بعد ضرورت تھی حکیم اجمل کی سایہ دار شخصیت کی، جو کام کرنے والوں کے لیے سہارا بن سکے اور جوش و خروش مدھم پڑنے پر ان کے لیے ملک و قوم کی خیر خواہی اور مدد کے خزانے لا کر جمع کر دے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ محمد علی تیز بہنے والا پہاڑی چشمہ تھے اور حکیم اجمل خاں پر سکون مگر گہرا دریا۔ یہ دونوں پہلو بہ پہلو بہتے رہے۔ ۴؎

(۲)علی گڑھ میں جامعہ کے احوال

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا آغاز علی گڑھ ہی میں کرایہ کی دو کوٹھیوں میں ہوا تھا۔ ساتھ ہی کچھ خیمے لگائے تھے، جنھیں حکیم اجمل نے کہیں سے فراہم کیا تھا۔ ۵؎   جناب عبد الغفار مدہولی نے اس وقت کی بے بضاعتی اور بے سروسامانی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

’’ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی عمارت پھوس کے چند بنگلوں پر مشتمل تھی، جو ڈگی کوٹھی کے پاس بنائے گئے تھے۔ اکثر پڑھائی درختوں کے نیچے ٹاٹ کے فرش پر ہوتی، یا جب یہ بھی نہ ہوتا تو اپنے اپنے چغے چٹائیوں کی طرح بچھا لیتے۔ یہ چغے کیا تھے، زندگی کا سامان تھے۔ ‘‘۶؎

حکیم اجمل اپنی مصروف زندگی کے باوجود ہر ماہ دہلی سے علی گڑھ تشریف لے جاتے اور چند ایام وہاں رہ کر جامعہ کے امور کی دیکھ بھال کرتے۔ جامعہ کی تاسیس کے بعدانھوں نے پوری کوشش کی کہ جلد از جلد تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوں۔ اس کے لیے نصاب کی تیاری کی منصوبہ بندی کی گئی۔ قرار پایا کہ حکیم اجمل خاں، مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا محمد علی کو اختیار دیا جائے کہ موجودہ نصاب میں ضروری ترمیم کرکے خلاصہ تیار کریں اور فوراً  اس کااعلان کر دیں۔ بعد میں بھی حکیم صاحب کوشاں رہے کہ تعلیم کے میدان میں نئے نئے تجربات کیے جائیں۔ جامعہ کی دہلی منتقلی کے بعد اس کی چھٹی سال گرہ منائی گئی تو اس موقع پر شہر دہلی کے اکثر معزز تجار، رؤسا اور دوسرے سربر آوردہ لوگ موجود تھے۔ اس موقع پر حکیم صاحب نے امیر جامعہ کی حیثیت سے پہلی بار عام مجمع میں جامعہ کی خالص تعلیمی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ ۷؎

  جامعہ چلانے کی ذمہ داری اس کی فاؤنڈیشن کمیٹی پر اور اس کی مقرر کردہ مجالسِ انتظامی و تعلیمی پر تھی۔ خلافت کمیٹی جامعہ کے تمام اخراجات کا بار اٹھاتی تھی۔ وہ دس ہزار روپے ماہانہ امداد دیتی تھی۔ جامعہ کے ذمہ داروں کو احساس ہوا کہ جب تک اس کا اپنا فنڈ نہیں ہوگا، اسے صحیح معنوں میں خالص تعلیمی ادارہ نہیں بنایا جا سکتا۔ چنانچہ۱۹۲۲ء کے اواخر میں ڈاکٹر انصاری کی تحریک پر جامعہ کے لیے فنڈ جمع کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ ۸؎

۱۹۲۴ء جامعہ کے لیے آزمائش کا سال تھا۔ تحریکِ خلافت ختم ہو گئی تھی اور جامعہ کو اس سے جو امداد مل رہی تھی وہ بند ہو گئی تھی۔ اس صورت حال میں جامعہ کے لیے اپنے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہو گیاتھا۔ فاؤنڈیشن کمیٹی کے ممبران اسے بند کرنے پر خود کو مجبور پاتے تھے، مگر ڈاکٹر ذاکر حسین، جو اس وقت جرمنی میں زیرِ تعلیم تھے، انھوں نے اور ان کے رفقاء نے کہلا بھیجا کہ اس ادارے کو قائم رکھا جائے۔ بہت جلد وہ وطن واپس آکر اس کے لیے اپنی خدمات پیش کریں گے۔ چنانچہ ۲۸؍ جنوری ۱۹۲۵ء کو دہلی میں حکیم صاحب کی رہائش گاہ      ’ شریف منزل‘ میں فاؤنڈیشن کمیٹی کا جلسہ ہوا۔ اس موقع پر گاندھی جی بھی موجود تھے۔ انھوں نے حکیم صاحب کی ہمت بندھائی  اور کہاکہ’’ جامعہ کو جاری رکھا جائے، خواہ اس کے لیے مجھے بھیک ہی کیوں نہ مانگنی پڑے۔ ‘‘اس جلسے میں حکیم اجمل خاں نے جامعہ کے کام اور مالی حالت بیان کی، جس پر بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ مجلس تاسیسی کا اجلاس دوسرے دن بھی جاری رہا۔ بالآخر طے پایا کہ جامعہ کو جاری رکھا جائے اور اس کو مستقل چلانے کے انتظامات کیے جائیں۔ ۹؎

شمس الرحمٰن محسنی نے لکھا ہے:

’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ خلافت کے خاتمہ کے بعد حکیم اجمل خاں نے جامعہ کا چراغ گل نہ ہونے دیا۔ اپنے دامن میں پناہ دے کر انھوں نے اسے زمانہ کی تیز و تند آندھیوں سے بچائے رکھا اور اس وقت تک اطمینان کا سانس نہ لیاجب تک کہ تحریکِ آزادی اور تحریک ِ خلافت کی یہ امانت ڈاکٹر ذاکر حسین اور ان کے ساتھیوں کے سپرد نہ کر دی کہ وہ اپنی روشن خیالی، مسیحا نفسی اور ان تھک جد و جہد سے اس میں جان ڈال دیں۔ ‘‘ ۱۰؎

(۳)جامعہ کی دہلی منتقلی

 ۱۷؍ مارچ ۱۹۲۵ء کو حکیم صاحب نے فاونڈیشن کمیٹی سے، جس کا جلسہ علی گڑھ میں ہوا تھا، یہ منظور کرا لیا کہ جامعہ ملیہ کو علی گڑھ سے دہلی منتقل کر دیا جائے اور شیخ الجامعہ( عبد المجیدخواجہ) کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ جون میں جامعہ کو دہلی لے جانے کے لیے انتظامات شروع کر دیں۔ دہلی میں قرول باغ میں طبیہ کالج کے پاس چند کوٹھیا ں کرایے پر لی گئیں، جہاں اگست ۱۹۲۵ء سے نیا تعلیمی سال شروع ہوا۔ اس زمانے میں یہ پرانے شہر کا ایک غیر آباد سا علاقہ تھا۔ دہلی آنے کے بعد جامعہ ملیہ کے کام محدود ہوتے گئے۔ اسکولوں اور کالجوں کا اس سے الحاق بند ہو گیا۔ اس کے مالی وسائل کم ہو گئے تھے، اس لیے یہ کام بھی مشکل ہو گیا کہ وہ طلبہ کے لیے ایسی تعلیم کا انتظام کر سکے جو ان پر معاش کے دروازے کھول سکے۔ صنعت و حرفت کی تعلیم، جو جامعہ کے تعلیمی نظام کی جان تھی، باقی نہ رہ سکی۔ تیسری تبدیلی یہ آئی کہ کالج میں بی اے آنرز اور بی ایس سی کی تعلیم کا انتظام نہ رہا۔ اگست ۱۹۲۵ء میں جامعہ میں پچیس تیس اساتذہ اور اسکولوں اور کالجوں کو ملا کر اسّی (۸۰) طالب علم تھے۔ کالج میں صرف چودہ پندرہ طالب علم ہوں گے۔ ۱۱؎

 مارچ ۱۹۲۵ کے اس اہم فیصلے کے بعد کہ جامعہ کو دہلی منتقل کر دیا جائے، حکیم اجمل نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے مشورے سے ان کے ساتھ یورپ کے سفر کا پروگرام بنایا۔ یورپ میں وہ طبی ماہرین سے اپنی گرتی ہوئی صحت سے متعلق مشورہ کرنا چاہتے تھے، لیکن غالباً اس سفر کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ چند روز کے لیے ملک کی اس تاریک فضا سے دور رہ کر قدرے سکونِ قلب حاصل کریں۔ اپریل کے اواخر میں حکیم صاحب پیرس پہنچے، جہاں ان کا قیام ایک ماہ رہا۔ وہیں ان کی ملاقات ذاکر حسین اور ان کے دوستوں : عابد حسین، محمد مجیب اورخواجہ عبد الحمید وغیرہ سے ہوئی، جنھوں نے عہد کیا کہ وہ ہندوستان واپس آکر جامعہ کے کاموں ہاتھ بٹائیں گے۔ اس سے حکیم صاحب کو بہت اطمینان حاصل ہوا۔ ۱۲؎

 اب جامعہ کے مستقبل کی تمام تر ذمہ داری حکیم اجمل کے کاندھوں پر آگئی تھی۔ ٹھیک ہی کہا گیا ہے کہ’’ علی گڑھ میں جامعہ کی حالت ایک دم توڑتے ہوئے مریض کی سی تھی، جسے مسیحا انتہائی مایوس کن حالات میں اپنے گھر لے گیا۔ ‘‘ دہلی میں اب طبیہ کالج کے ساتھ  جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سرپرستی اور نگرانی بھی ان کے سر آگئی۔ مولانا محمد علی نے بالکل صحیح اظہار خیال کیا تھا کہ’’ طبیہ کالج حکیم صاحب کی جوانی کی اولاد تھی اور جامعہ ملیہ ان کے بڑھاپے کی اولاد‘‘ اور کہا جاتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھاپے کی اولاد کے لیے باپ کی محبت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ۱۳؎

(۴)جیبِ خاص سے مالیات کی فراہمی

 فروری ۱۹۲۶ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین یورپ سے واپس تشریف لائے تو اپنے ساتھیوں ڈاکٹر عابد حسین اور محمد مجیب صاحب کو بھی ساتھ لیتے آئے۔ ان لوگوں کی آمد نے جامعہ کے آنگن میں امیدوں کے چراغ روشن کر دیے۔ ۱۵؍ مارچ۱۹۲۶ء سے ڈاکٹر ذاکر حسین شیخ الجامعہ کے عہدے پر فائز ہوئے، ڈاکٹر عابد حسین نے مسجّل( رجسٹرار) کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور پروفیسر محمد مجیب تاریخ و سیاست کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۴؎

حکیم اجمل خاں کو جامعہ کے مالی مسائل اور مادی استحکام کی فکرہر وقت لاحق رہتی تھی۔ اس کے اخراجات کا ایک حصہ وہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ ان کے سوانح قاضی عبد الغفار کا بیان ہے:

’’ایک دفعہ جامعہ کے اساتذہ اور کارکنوں کو دو مہینے تک تن خواہیں نہ ملی تھیں۔ اس سے حکیم صاحب بہت پریشان تھے۔ ان کے پاس دو انگشتریاں تھیں : ایک الماس کی اور دوسری زمرّد کی۔ ان میں سے ایک چھ ہزار روپے کی تھی اور دوسری ڈیڑھ ہزار کی۔ اپنے ایک کارندے کو بلا کر بازار بھیجا اور کہا کہ دونوں کو مناسب دام پر فروخت کر آئے۔ بازار میں ان دونوں انگشتریوں کے بہت کم دام لگ رہے تھے۔ اتفاق سے مہاراجہ بوندی نے حکیم صاحب کو علاج کے لیے بلایا او روہاں سے جامعہ کی قسمت سے ایک معقول رقم مل گئی۔ حکیم صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ جامعہ کے قرض سے سبک دوش ہوئے۔ ‘‘۱۵؎

حکیم صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کے بجٹ کا ایک حصہ جامعہ کی نذر کردیا اور دولہا کے گھر والوں سے بھی ایسا ہی کرنے پر اصرار کیا۔ ۱۶؎

  شمس الرحمٰن محسنی نے لکھا ہے:

’’اس بات کو وہ اپنی ذاتی ذمہ داری مانتے تھے کہ جامعہ کے اخراجات کے لیے حسبِ ضرورت مالی وسائل مہیا کرتے رہیں۔ اگر ایسا کرنے میں کبھی کسی دشواری کی وجہ سے دیر ہو جاتی تو وہ اسے ایسا ہی قرض سمجھتے جس کی ادائیگی لازمی تھی اور جس کے لیے وہ اپنی قیمتی سے قیمتی اور عزیز سے عزیز چیز کو الگ کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ‘‘ ۱۷؎

(۵)احباب اور متعلقین سے تعاون دلانا

 جامعہ کے لیے مالیات کی فراہمی کے سلسلے میں حکیم اجمل اپنے وسیع تعلقات کو بھی بروئے کار لاتے تھے۔ جامعہ کے طالب علم ڈاکٹر یوسف خاں کے الفاظ میں :

’’ حکیم صاحب کے ذاتی تعلقات اس حد تک وسیع تھے کہ وہ جامعہ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کہیں نہ کہیں سے روپیہ فراہم کرنے میں کام یاب ہو جاتے تھے۔ خود جامعہ کے لوگ بھی اس حقیقت سے ناواقف رہتے تھے کہ وہ کہاں سے رقومات فراہم کرتے تھے۔۔ ۔ ۔ یہ حکیم صاحب کا ان دیکھا ہاتھ ہی تھا جس نے ہمیشہ جامعہ کے لوگوں کی تقدیر کو سنوارا۔ ‘‘ ۱۸؎

جامعہ کے ابتدائی ایام کی کہانی سناتے ہوئے عبد الغفار مدہولی نے لکھا ہے:

’’ جامعہ کی مالی حالت ۱۹۲۴ء ہی سے خراب ہوگئی تھی۔ بعض دفعہ ایسی تنگی آجاتی تھی کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب کیا ہوگا۔ لیکن حکیم صاحب کا خیال آتے ہی ڈھارس بندھتی تھی۔ اور ہوا بھی یہی۔ ایسے موقعوں پر مرحوم نے اپنے خاص خاص دوستوں سے بڑی بڑی رقمیں دلوائیں۔ ان کے پیچھے صرف ایک جامعہ ہوتی تو اس کے اخراجات کا پورا کرنا کچھ مشکل نہ تھا، مگر ایک طرف طبیہ کالج کا چلانا، دوسری طرف امیر ہو یا غریب، جو کوئی بھی علاج کے لیے ان کے گھر پر جاتا، اس سے کوئی فیس نہ لیتے۔ دہلی کے رئیس کہلاتے تھے، مگر در اصل دل کے رئیس تھے ور غریبوں کے خادم۔ ‘‘۱۹؎

جامعہ کے بڑے مخیّرین میں سے ایک مدراس کے سیٹھ جمال محمد تھے۔ انھوں نے جامعہ کے ابتدائی زمانے ہی سے اس کا مالی تعاون جاری رکھا تھا۔ فاؤنڈیشن کمیٹی کے جلسے، جو ۲۸؍ جنوری ۱۹۲۵ء کو حکیم اجمل خاں کے دولت خانہ شریف منزل میں منعقد ہوا تھا، اس کی روداد میں لکھا گیا ہے:

 قرار پایا کہ فاؤنڈیشن کمیٹی کا یہ جلسہ عالی جناب سیٹھ جمال محمد صاحب( مدراس) کا عطیہ نقد یک مشت ایک ہزار روپے اور پچیس روپے ماہ وار کے مستقل امداد کے وعدہ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے۔ ‘‘۲۰؎

   ایک موقع پر ذاکر صاحب نے موصوف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’ سیٹھ صاحب سے میری دوستی کا آغاز حکیم اجمل کے توسط سے ہوا تھا۔ حکیم صاحب کے حکم سے میں دسمبر ۱۹۲۷ء میں مدراس آیا تھا۔ سیٹھ جمال محمد کے نام حکیم صاحب نے مجھے ایک خط دیا تھا۔ جیسے ہی میں مدراس پہنچا، میں نے سیٹھ صاحب سے ملاقات کی۔ انھوں نے جس تفصیل اور فکر مندی کے ساتھ جامعہ کا حال پوچھا اس سے میں ان کا گرویدہ ہو گیا۔۔ ۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں دہلی جا کر حکیم صاحب کو ان کا یہ پیغام دوں کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق جس وقت مناسب سمجھیں مدراس تشریف لائیں، ان کے مشن کو کام یاب بنانے میں وہ پوری کوشش کریں گے۔ ( اسی موقع پر حکیم صاحب کے انتقال کی خبر پہنچی) شام کو سیٹھ صاحب خود مجھے تلاش کرتے ہوئے میری جائے قیام پر پہنچے اور فرمایا کہ’’ مشیت ایزدی یہی تھی، لیکن اطمینان رکھیے۔ میں آپ کے لیے وہ سب کچھ کروں گا جو حکیم صاحب کے لیے کرتا اگر وہ مدراس آتے۔ آپ جائیے، ڈاکٹر انصاری اور مولانا ابو الکلام آزاد سے مشورہ کیجیے اور مجھے لکھیے کہ آپ جامعہ کے لیے چندہ کرنے مدراس کب آسکتے ہیں ؟ ‘‘ میں ڈاکٹر انصاری اور مولانا آزاد کے ہم راہ مدراس آیا، جو اپنی مصروفیتوں کے سبب دو چار روز سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ وہ دونوں حضرات چلے گئے، لیکن میں ٹھہرا رہا۔ سیٹھ صاحب مجھے اپنے دوستوں کے پاس لے گئے اور اتنا سرمایہ جمع ہو گیا کہ اس سے نہ صرف جامعہ کے سارے قرضے ادا ہو گئے بلکہ کچھ دن جامعہ کا کام بھی چلا۔ (جس وقت حکیم اجمل کا انتقال ہوا ہے، جامعہ مقروض تھی اور قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت نظرنہ آتی تھی)جن لوگوں کے پاس وہ گئے انھوں نے ایک مخصوص رقم دینے کا وعدہ کیا تھا۔ سیٹھ صاحب نے ان وعدوں کی میزان نکالی اور مجھے ان وعدوں کی تکمیل کے انتظار کی زحمت سے بچانے کے لیے خود اتنی رقم کا چیک یہ کہہ کر میرے حوالے کیا کہ آپ جائیے، آپ کو بہت کام ہیں، میں موعودہ رقمیں لوگوں سے حاصل کر لوں گا۔ ‘‘۲۱ ؎

بعد میں ایک موقع پر ذاکر صاحب نے جناب ضیاء الحسن فاروقی کے سامنے سیٹھ جمال محمد صاحب کو یاد کرتے ہوئے فرمایا:

’’  ضیاء صاحب! ان کا جامعہ پر اورخود مجھ پر بڑا احسان ہے۔ انھوں نے ایسے موقع پر ہماری مدد کی تھی جب حکیم صاحب کا سایہ ہمارے سر سے اٹھ گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ تقریباً ساری رقم خود انھوں نے ہی دی تھی۔ وعدے تو دو ہی ایک آدمیوں نے پورے کیے ہوں گے۔ ‘‘ ۲۲؎

(۶)چندہ کی مہم میں شرکت

 حکیم اجمل خاں نے اپنے خاص احباب اور متعلقین کو جامعہ کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ متعدد مواقع پر جامعہ کے لیے چندہ کی عمومی مہمات میں بھی شرکت کی۔ اواخر جنوری۱۹۲۷ء میں انھوں نے جامعہ کے چندہ کے لیے ذاکر صاحب کو بہار بھیجا اور وعدہ کیا کہ وہ بہار کے خاص خاص مقامات پر خود آکر جامعہ کے لیے فراہمی سرمایہ کی اپیل کریں گے، چنانچہ انھوں نے یہ وعدہ پورا کیا۔ اس سے ذاکر صاحب کو اپنے مشن میں خاصی کام یابی ہوئی۔

   ۱۹۲۷ء کے وسط دسمبرمیں افغانستان کے شاہ امان اللہ خاں بمبئی کے سفر پر آنے والے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنی علالت کے باوجود شاہ صاحب سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ انھیں بمبئی کے سفر سے باز رکھنے کی بڑی کوشش کی گئی، لیکن انھوں نے اپنے پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ بیماری کے عالم میں بہ مشکل بمبئی پہنچ کر ۱۴؍ دسمبر کو انھوں نے شاہ افغانستان کے ساتھ بند کمرے میں بڑی طویل گفتگو کی۔ ۱۶؍ دسمبر کو انھوں نے شاہ کی خدمت میں فارسی زبان میں سپاس نامہ پیش کیا۔۔ ۔ ۔ ان کے سپاس نامے نے شاہ امان اللہ پر بڑے مثبت اثرات مرتب کیے۔ سپاس نامہ کے جواب میں والی افغانستان نے کہا کہ حکیم اجمل خاں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سرگرمیوں کی تفصیلات سے مطلع کرکے انھیں بہت متاثر کیاہے۔۔ ۔ کچھ روز بمبئی میں قیام کرنے کے بعد جامعہ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے انھوں نے پالن پور کا سفر کیا اور پھر وہاں سے ۲۶؍ دسمبر کو دہلی پہنچے۔ چند گھنٹے دہلی میں قیام کرنے کے بعد اسی رات وہ رام پور کے لیے روانہ ہو گئے، جہاں ۲۸؍ کی شب میں ان کا نتقال ہو گیا۔ ۲۳؎

(۷)فکر مندی

حکیم اجمل خاں کی زندگی کے آخری ایام بڑی حسرت و یاس میں گزرے۔ اگرچہ وہ طبیہ کالج کے مستقبل سے مطمئن تھے، لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے انھیں اطمینان نہیں تھا۔ وہ ہر وقت اسی کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے، کیوں کہ اس کے لیے وافر مقدار میں رقم موجود نہیں تھی اور وہ بحرانی دور سے گزر رہی تھی۔ وہ یہی تمنا کرتے تھے کہ اگر چند برس اور زندہ رہ جائیں تو اسے بھی طبیہ کالج ہی کی طرح مستحکم کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ ۲۴؎

  قاضی عبد الغفار بیان کرتے ہیں کہ

’’۲۶ء کے آخری دنوں میں، جب وہ بیمار تھے، اکثر کہتے کہ اگر خدا مجھ کو چند سال اور دنیا میں رہنے کی اجازت دے تو میں طبیہ کالج کی طرح جامعہ ملیہ لی مالی بنیادیں مضبوط کر دوں۔ ‘‘۲۵؎

جناب ضیاء الحسن فاروقی نے لکھا ہے:

’’یہ وہ شخص تھا جو حصولِ مقصد کی سعی میں آخری سانس قربان کرنا جانتا تھا۔ وہ مردِ حق آگاہ تھا، جو سسکتی جامعہ کو علی گڑھ سے دہلی اٹھا لایا اور اس کی مسیحائی کی۔ کتنا صبر و تحمل، کتنی خود داری، کیسی لطیف وضع داری، کیسی شرافت، تعمیر و تخلیق کا کتنا ولولہ، کیسی بلند خیالی اور وسعتِ قلب، ضبط نفس اور استغنا، پریشانیوں میں مسکراتے رہنے کی کتنی ہمت اور کتنا حوصلہ تھا۔ ‘‘ ۲۶؎

(۸)پس از مرگ فیض

حکیم اجمل خاں کا فیض ان کی زندگی ہی تک محدود نہیں رہا، بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔ ہندوستان میں ان کے ساتھیوں، دوستوں اور ماننے والوں کی کمی نہ تھی۔ ان سب کی خواہش تھی کہ جامعہ ملیہ کو ان کی یادگار کے طور پر ایک پائدار شکل دی جائے۔ چنانچہ فروری ۱۹۲۸ء میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوا، جس میں جامعہ کی مجلس تاسیسی کے نام ور اراکین کے علاوہ بہت سے مشاہیر شریک ہوئے، مثلاًپنڈت موتی لال نہرو، پنڈت جواہر لال نہرو، پنڈت مدن موہن مالویہ، مسز سروجنی نائیڈو، مہاراجہ محمود آباد وغیرہ۔ اس میں  حکیم صاحب کی یاد میں ’ اجمل جامعہ فنڈ‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا، تاکہ جامعہ، جو اس وقت تک کرایہ کی کوٹھیوں میں تھی، اس کی اپنی عمارتیں ہو جائیں۔ ۲۷؎

کیا ہم نے یاد رکھا؟

 یہ ہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام و استحکام کے سلسلے میں انجام دی جانے والی حکیم اجمل کی کوششوں کا ہلکا سا عکس۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قیامِ جامعہ کے اولین لمحے سے اپنی زندگی کی آخری سانس تک انھوں نے ایک ایک لمحہ جامعہ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اسی کے لیے وہ سوچتے بچارتے، اسی کے لیے جد و جہد کرتے، اسی کے اپنے دوستوں سے رابطہ کرتے، اسی کے لیے سفر کرتے۔ غرض جامعہ ہی کو انھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے حکیم صاحب کو اور ان کی خدمات کو یاد رکھا؟ اگر اس معاملے میں اب تک کوتاہی ہوئی ہے تو وقت آگیا ہے کہ اب اس کی تلافی کی جائے۔ کوئی ہے جو اس آواز پر کان دھرے اور اس پکار پر آگے بڑھے!!!

حواشی و مراجع:

۱۔    بانیانِ جامعہ کے تذکرہ  کے لیے ملاحظہ کیجیے :پروفیسر ظفر احمد نظامی، معمارانِ جامعہ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی لمیٹڈ، ۱۹۹۹ء

۲۔     شمس الرحمٰن محسنی، ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، جامعہ ملیہ اسلامیہ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی، ۱۹۸۶ء ص۱۷۔ ۱۹،  جامعہ کی کہانی، ص۲۹۔ ۳۱

۳۔      عبد الغفار مدہولی، جامعہ کی کہانی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، ۲۰۰۴ ء ص۳۷، ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، ص۴۰

۴۔      ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، ص۳۵

۵۔      ضیاء الحسن فاروقی، شہیدِ جستجو۔ ڈاکٹر ذاکر حسین، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی، ۲۰۱۱ء، ص۹۸

۶۔      جامعہ کی کہانی، ص۲۶

۷۔      حوالہ سابق، ص، ۲۶، ۸۴

۸۔      ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، ص۲۰

۹۔      جامعہ کی کہانی، ص۷۰۔ ۷۱

۱۰۔    ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، ص۲۰۔ ۲۱

۱۱۔    حوالہ، ص۵۰۔ ۵۱، شہید جستجو، ص۱۶۵

۱۲۔     شہید جستجوص۱۵۷

۱۳۔    معماران جامعہ، ص  ۶۶

۱۴۔    ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، ص۵۱

۱۵۔    قاضی عبد الغفار، حیات اجمل

۱۶۔    معماران جامعہ، ص۶۷

۱۷۔    ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، ص۲۵

۱۸۔    معماران جامعہ، ص  ۶۶

۱۹۔    جامعہ کی کہانی ص۱۰۴

۲۰۔    حوالہ سابق، ص۷۰

۲۱۔    شہید جستجوص۱۷۳۔ ۱۷۴

۲۲۔    حوالہ سابق، جستجوص۱۷۵

۲۳۔     معماران جامعہ، ص۷۲۔ ۷۴

۲۴۔     حوالہ سابق، ص۷۱

۲۵۔    ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، ص۳۵

۲۶۔    شہید جستجو ص۱۶۷

۲۷۔    حوالہ سابق، ص۱۷۵۔ ۱۷۶ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، ص۵۳

تبصرے بند ہیں۔