جنگ آزادی میں مسلمانوں اور مدارس کی قربانیوں کا صلہ!

ڈاکٹرمیم ضاد فضلی

اس سال مؤرخہ 15اگست 2017 سے ہم وطن عز یز کی آزادی کی سترو یں سالگرہ منا رہے ہیں ۔بحیثیت ایک ہندوستا نی ہم پر فر ض ہے کہ اپنے ملک کی آزادی کا اجتماعی اورانفرادی طور پرجشن بلاامتیاز مذہب و مسلک ،رنگ و زبان اورعلاقا ئی فرق کے منائیں ۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ 15اگست 1947کوآدھی کے وقت عظیم ہندوستان کو انگریز ی استبداد سے نجات ملنے کے بعد جلائی گئی شمع آزادی کی چکاچوندھ روشنی میں خوشیاں منانے والے ہندوستانیوں میں بلاامتیاز وہ تمام شہری پیش پیش تھے جو اپنے آزاد وطن سے اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبت کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری رگوں میں جب تک لہوں کی روانی باقی اپنے وطن سے محبت اور جاں نثاری کا یہی جذبہ زندہ اور سلامت رہے گا۔

مگرغالباً یہ مذہبی منافرت کے عفریت نے اپنی شرمناک منصوبہ بندی کے تحت جشن آزادی کے موقع پرجد وجہد آزادی کیلئے اپنا تن من دھن ،حتی کہ اپنے جگرکے ٹکڑوں تک کو قربان کردینے والے جیالوں اور قائدین کو دھرم کی عینک سے دیکھنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ،جس کابین ثبوت ہمیں گزشتہ 10اگست 2017کو اپنی پارلیمنٹ کے اندر بھگوا بریگیڈ بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کے بھاشن کے اندر ہی ملا۔ مجاہدین آزادی کوجمہوری ایوان کے اندریادگار تقریب میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مودی نے بلااختصاص کہا کہ ملک کی ازادی میں تمام ہندوستانیو ں نے برابر کی حصہ داری نبھائی تھی ۔مگر مودی نے ایک بار بھی بابائے قوم مہاتما گاندھی یا ملک کے اولین وزیر اعظم آنجہانی جواہر لعل نہرو کا نام ایک بار بھی نہیں لیا۔یہ ایک جمہوری ملک کے فرقہ پرست وزیر اعظم کی مجرمانہ چالا کی تھی جس کے تحت اصل قائدین اور مجاہدین آزدی کے نام اور قربانیوں کو ملک کی تاریخ آزادی کے صفحات سے مٹاکر ان کی جگہ وطن کیساتھ غداری کرنے والے اور انگریزی میموں کی جوتیاں چاٹنے سنگھ کے ملک دشمنوں محب وطن کے طور پر پیش کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔مجاہدین کو رنگ و نسل اور ذات پات کے علاوہ مذہب کے چشمے سے دیکھنے کا یہ عمل سابق وزیر اعظم اور ملک کے سیکولرزم کو لہو لہان کرنے والے سب سے بڑے گنہ گار نرسمہا راؤ کے زمانے میں ہی شروع ہوگیا تھا۔پھر بعد کے ادوار میں اقتدار پر تسلط حاصل کرنے والی طاقتیں اپنی اپنی پالیسیوں کے مطابق اس سلسلہ کو مزید آگے بڑھاتی رہیں ۔نتیجہ کار این ڈی اے کے اقتدارمیں آتے ہی جنگ آزا دی کے قائدین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مذہبی نفرت وتعصب کی آگ سرد کی جانے لگی،فرقہ پرست حکومت کے ذریعہ ترتیب دی جانے والی مجاہدین آزادی کی فہرست میں خاص طور پر اقلیتوں اور دلت مجاہدین کی چھنٹنی شروع ہوگئی ۔بالآ خر اس بڑی آبادی کے صرف چند نام ہی حکومت ہند کو یاد رہ سکے،جبکہ بڑی ذاتوں اور سنگھی وڈیروں کی فہرست لمبی ہوتی چلی گئی ۔اسی کے ساتھ یہ مجرمانہ سازش بھی شروع ہوگئی کہ جن لوگو ں ، طبقات ،برادری اور تنظیموں نے کھل کرمجاہدین آزادی کی مخالفت کی تھی،صعوبت خانوں میں انگریز وں کی حیوانیت کا نشانہ بننے والے وطن کی محبت سے شرشار مجاہدین کی حوصلہ شکنی کی تھی ،ان غداران وطن کو ہی پکا محب وطن اور مجاہد آزادی کاتمغہ دیا جا نے لگا۔جن منحوس لوگوں اور تنظیموں نے انگریزی آ قاؤ ں کے قدموں میں سجدے کئے اور وطن کیلئے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرنے والے جیالوں کو نظر انداز کرکے ان کی جگہ غداران وطن کوہی جنگ آزادی کا ہیرو بناکر پیش کرنے کی مذموم کوششیں کی گئیں اور اس غیرانسانی حرکت کوانجام دیتے ہو ئے شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ 10اگست2017کو پارلیمنٹ کے اندر’’بھارت چھوڑو تحریک ‘‘کی 75ویں سالگرہ کی تقریب منعقد کی گئی تھی ۔اس تاریخی جشن میں وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب فرماتے ہوئے اس تحریک میں دیگر رہنماؤ ں کے ساتھ سنگھ کے متعددسنگھی کار سیوکوں کا نام بھی جوڑ دیا،جو ہمیشہ مجاہدین آزادی کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی مدکرنے کی بجائے اپنی زندگی کابیشتر حصہ انگریزی میموں کی جوتیاں چاٹنے اور برطانوی لشکر کیلئے مخبری کی فرائض انجام دیتے رہے ۔جبکہ جنگ آزادی یا ’’بھارت چھوڑو تحریک ‘‘ کے قائدین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ملک کے اولین وزیر اعظم اور جنگ آزادی کے قد آور لیڈر بابائے قوم مہاتما گا ندھی کے مشیر خاص اور دست راست پنڈت جواہر لعل نہرو کاوزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار بھی نام نہیں لیا۔

ظاہر سی بات ہے کہ سنگھ اور اس کے بیشتر کارسیوک جو انگریزوں کی غلامی میں رہنے کو ہی تسلیم کرچکے تھے اور مجاہدین آزادی کی ہر موقع پر مخالفت کررہے تھے،عوام میں مجاہدین آزادی کیخلاف بد ظنی پھیلانے کی برطانوی پالیسی پر عمل پیرا تھے، اگر ایسی قوتوں کو خراج عقیدت پیش کیا جانے لگے تو اس سے ساری دنیا میں ہندوستان کی پشیمانی ہوگی اور انصاف پسند وغیرجانب دار عالمی مؤرخین حکومت ہند کی باتوں پر بھروسہ نہیں کریں گے۔اس سے ملک کی ساکھ اور وقار مجروح ہوگا یا نہیں آنے والا وقت موجودہ حکومت سے اس کا جواب خود مانگ لے گا۔

10 اگست کی تقریب میں کانگریس چیئرپرسن اور حزب اختلاف کی مضبوط لیڈر محترمہ سونیا گاندھی نے وزیر اعظم کی بے بنیاد لن ترانی کاجواب دیتے ہوئے عین موقع پر ان کا جھوٹ پکڑ کر ایوان کوہی نہیں ،بلکہ ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔انہوں نے انگریزوں کی سب سے بڑی حامی فرقہ پرست تنظیم آر ایس ایس کا نام لئے بغیرطنز کرتے ہوئے کہا کہ ’آزادی کی تحریک کی کچھ لیڈروں اور تنظیموں نے شدید مخالفت کی تھی۔اس طنز میں راست طور پر محترمہ سو نیا گا ندھی کادرپردہ اشارہ سنگھ اور اس کے چند قدآور لیڈروں کی جانب تھا ،جن کی کالی کرتوت آج بھی انصاف پسند غیر ملکی مؤرخین کی کتابوں میں محفوظ ہیں ۔

بعد ازاں مورخہ11اگست2017کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ مسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے مدارس پر شبہات کی بندوق کی نالیں تان دیں ۔انہوں نے اپنے حکمنامے میں ضلع اقلیتی بہبود افسران کو ہدایت دی کہ تمام مدارس کو یہ پیغام پہنچا یا جائے کہ ضلع کے تمام مدارس میں یقینی طورپر آزادی کا جشن منعقد کیا جائے اور اس میں قومی ترانہ،بشمول قومی پرچم ’’ترنگا‘‘ لہرا کراس کی ویڈیو ریکارڈنگ ضلع افسران کے سپرد کیا جائے۔اسی طرح مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ نے ریاست کے تمام رجسٹرڈ مدارس کو حکم جاری کرکے مدارس کے منتظمین اورمدرسوں میں پڑھنے والے طلباء کو یوم آزادی کے میں جشن مختلف شہروں  میں ’’ترنگا ریلی‘‘منعقد کرنے یا پہلے سے منعقد ہونے والی ریلی میں ضرور شر کت کا حکم دیاہے۔ اس کے علاوہ، مدرسہ بورڈ نے تمام مدارس کے منتظمین کو یہ بھی حکم دیا کہ یوم آزادی کے موقع پر وہ اپنے اپنے مدارس میں قومی پرچم لہرائیں اورثقافتی پروگرام منعقد کریں اور ان تمام پروگراموں کی تصویر مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈکے دفترکوبھیجیں ۔ یہ حکم مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ نے پردیش کے تمام مدارس کو 10 اگست 2017 کو جاری کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، تمام مدارس کوہدایات دی گئی ہیں کہ یوم آزادی کے موقع پراپنے اپنے مدارس میں قومی پرچم لہرائیں اور ثقافتی پروگرام کویقینی بنائیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بی جے پی کے زیرقیادت مدھیہ پردیش کی حکومت کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی ہدایت پر ہی وہاں یہ حکمنامہ جاری کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ مدارس اسلامیہ 15اگست یوم آزادی یا 26جنوری ’’یوم جمہوریہ‘‘ کی تقریب منعقد کرنے کیلئے مسٹر یوگی یا شیو راج سنگھ چوہان کے مذہبی منافرت کے زہر میں بجھی کسی ہدایت کے محتاج نہیں ہیں۔ بلکہ انہیں مدارس کے بوریہ نشینوں نے ایسے وقت میں انگریزوں کے پیروں تلے زمین ہلادی تھی اور کسی بھی موقع انگریزوں کی ملازمت کو قبول کرنے یا انگریزی فوج میں شامل ہونے کو حرام قراردیتے ہوئے بہت سارے گمراہ ہندوستانی جوانوں کو انگریزوں کا آلۂ کار بننے سے بچا لیا تھا، لہذ مسٹر یوگی یا چوہان جن کے پرکھوں کی انگریز نوازی کے تذکرے تاریخ کے سینے میں آج بھی محفوظ ان نفرت کے پجاریوں مدارس اسلامیہ کو حب الوطنی کا درس دینے کا کوئی اخلاقی حق بھی حاصل نہیں ہے۔ بلکہ یوگی اور چوہان کو تو اپنے گھرکی سدھ لینی چاہئے جہاں ملک کے غداری کے کارخانے چلائے جاتے ہیں چناں چہ مدھیہ پردیش سے آ ئی ایس آئی کے کال سینٹر چلانے والے بھاجپائی لوگوں کس کا آشیرواد حاصل ہے یہ بات مسٹر چوہان بخوبی جانتے ہوں گے۔

ابھی ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہی لشکر طیبہ کا ایک ہندورکن کشمیر سے گرفتار کیا گیا تھا جو ملک میں دہشت پھیلانے کیلئے لشکر طیبہ کی مدد کررہا تھا۔ میں یوگی آدتیہ ناتھ ،شیو سنگھ چوہان، وزیر اعظم نریندر مودی اور پوری مرکزی حکومت کو واضح طور پر بتادینا چاہتا ہوں کہ کہ تم لوگوں نے جن بے گناہ طلباء کرام کو نشانے پر لیا ہے وہ اپنی ساری عمر علمی درسگاہوں حب الوطنی اور انسانیت نوازی کے اسباق کی رٹا کرتے ہیں ،لہذ ایا د رکھوکہ یہ بے گناہ اور معصوم بچے ہیں۔ مدارس کے طلبا کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کرکے اس سازش کو سچ ثابت کرنے میں قیامت کی صبح تک تمہیں کوئی کامیابی نہیں ملے گی ،اس لئے کہ مدارس میں دہشت گردی کی کوئی سر گرمی پائی ہی نہیں جاتی ہے، اور نہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی حمایت کی جاتی ہے۔

مسٹر یوگی، مسٹر چوہان اور وزیر اعظم نریندرمودی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ متعدد مرتبہ دہشت گردی کی چھان بین کرنے والے کھوجی صحا فی حضرات آر ایس ایس،ہندو یووا واہنی اور رام سینا جیسی تشدد پسند تنظیموں کو پورے ثبوت کے ساتھ ’’دہشت گردی کی نرسری ‘‘قراردے چکے ہیں۔ جبکہ بجرنگ دل کی دہشت گردی کی ساری روداد تو سلامتی کونسل  تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے برخلاف این ڈی اے کے دور حکومت 2002تا2006میں مدارس کا طویل سروے کرانے کے بعد مسلم دشمنی کیلئے معروف اور اقلیتوں کے مشہور مخالف سابق وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی نے میڈیا کے سامنے جانچ کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد برملا کہا تھا کہ ملک کی کسی اسلامی تعلیم گاہ ،یعنی مسلمانوں کے دینی مدارس میں دہشت گردی کی نہیں بلکہ، خالص حب الوطنی اور انسانیت کی خدمت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ میرے خیال سے یوگی آدتیہ ناتھ ، شیوراج سنگھ چوہان اور مودی جی کو اڈوانی جی کا یہ ’’پروچن‘‘ بار بار سننا چاہئے ،تاکہ ان کے دلوں سے دھرم کے نام پر نفرت پھیلا نے والی گندگی پوری طرح صاف ہوجائے۔

یہ بات یادرکھئے کہ تاریخ ہمیشہ فاتح اور طاقتور قوموں کی ہواکرتی ہے۔جبکہ کمزوروں کی تمام قربانیوں جدو جہد اور وطن پرستی کے کارناموں کوہمیشہ جان بوجھ کر مٹادیا جاتا ہے ۔اس کیلئے کمزور قوموں کے ارباب دانش اور سرمایہ داروں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی قربانیوں اور اثاثوں کو محفوظ کرنے کیلئے ہر قسم کا ایثار پیش کرکے اپنی قوم کی قربانیوں کوفراموش کرانے والی سازشوں کو ناکام بنائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔