جھوٹ و سچائی، جنگجوئیت و انسانیت میں معرکہ

سید منصورآغا

کل جس وقت یہ اخبارآ پ کے ہاتھ میں ہوگا، 17ویں لوک سبھا کے لیے پہلے مرحلے کی پولنگ جاری ہوگی۔ عوام سرکارکے پچھلے پانچ سالوں کی کاموں کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔ اورمودی جی ان کا جواب دینے کے بجائے کچھ جذباتی موضوعات چھیڑ کر ووٹ پاناچاہ رہے ہیں۔ مثال کے طورپر 9اپریل کو لاتوراور میسور میں اپنی انتخابی ریلیوں میں انہوں نے نئی نسل کے ووٹرس سے کہا، ’’ میں زرا کچھ کہنا چاہتا ہوں میرے فرسٹ ٹائم ووٹروں کو، کیا آپ کا پہلا ووٹ پاکستان کے بالا کوٹ میں ائر اسٹرائک کرنے والے ویرجوانوں کے نام سمرپت ہوسکتا ہے کیا؟ میں میرے پہلے ٹائم کے ووٹرس سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کا پہلا ووٹ پلوامہ میں جو ویرشہید ہوئے ہیں ان ویروں کوسمرپت ہوسکتا ہے کیا؟‘‘

فوج کی آڑ میں ووٹ 

فوجی کاروائی کی آڑ میں ووٹ کے لیے اس جذباتی سوال کے بجائے ان کو بتانا چاہئے تھا کہ 2014میں پہلی مرتبہ کے ووٹروں سے ہرسال دوکروڑ نئے روزگارپیدا کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟ اسمارٹ سٹی بنانے، کرپشن کو مٹانے اورامن وانصاف اوراچھے دنوں لانے کے وعدوں کا کیا ہوا۔ سرکار میں آتے ہی سب بھول گئے۔ نئے روزگارتودور نوٹ بندی کی بدولت ہزاروں چھوٹی یونٹیں بند ہوگئیں اورلاکھوں بیروزگار ہوگئے۔ ہاں گؤ رکشا کے نام پر ایک نیا روزگارفراہم کیا گیا جس میں مویشی تاجروں کو روک کرلوٹا جاتا ہے۔

پلوامہ اوربالاکوٹ

یہ بات سرکارکی تسلیم شدہ ہے کہ پلوامہ حملہ انٹلی جنس کی ناکامی سے ہوا۔ ہمارے یہ جوان سرحد پر کسی معرکہ میں نہیں بلکہ اندرون ملک راہ چلتے مارے گیے۔ حق یہ ہے کہ مودی جی کو اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فوراً استعفٰی دینا چاہئے تھا۔ سرکارچلانے کے لیے پارٹی میں بہت لیڈرہیں۔ لیکن اس سنگین ناکامی پر قوم سے معافی مانگنے کے بجائے وہ شہیدوں کے خون سے آلودہ اپنا دامن دکھا کر ووٹ مانگ رہے ہیں؟ رہا بالاکوٹ کا حملہ، تواگریہ کوئی کارنامہ ہے تو اس کا سہرا ایرفورس کے سر ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسزقوم سے وابستہ ہیں، کسی پارٹی سے نہیں۔ لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہ مشن مقررہ ہدف پرنشانہ لگانے میں چوک گیا۔ لیکن دعوا کیا گیا کہ 300، 350، 400 آتنکی مارے گئے۔ یہ چوک بھی انٹیلی جنس کی ہے جو راست مرکزی حکومت کے تحت ہے۔ ساراآپریشن جلد بازی میں ہوا تا کہ الیکشن کے لیے ماحول بنے۔ اس میں ہماری ایرفورس کا ایک مگ طیارہ تباہ ہوا اورہمارا ایک پائلٹ پکڑا گیا۔ غنیمت یہ ہے اس کو دو ہی دن میں رہا کردیا گیا۔

ہمارے سیکیورٹی جوانوں کی اگرمودی جی کوواقعی قدرہوتی تو وہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی بخیریت رہائی کے لیے اٹھی آواز کو یہ کہہ کرمسترد نہیں کردیتے کہ ’’پاکستان کا ایف۔ 16جہازمارگرانے پر اپنی ایرفورس کی تعریف کرنے کے بجائے اپوزیشن یہی کہے جارہی ہے کہ ’’ابھی نندن کب واپس لوٹے گا، ابھی نندن کب واپس لوٹے گا۔ ‘‘

مودی جی دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ابھی نندن کا پاکستان کے ہاتھوں پڑجانا ایک یقینی واقعہ تھا، جب کہ ایف 16-کا گرایا جانا اب بھی متنازعہ ہے۔ اگرگرابھی تو یہ ابھی نندن کا ہی کارنامہ ہے جس کی رہائی کی مانگ کرنا آ پ کو اچھا نہیں لگا۔ ہمارے لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ جوانوں کی لاشوں کا حوالہ دے کرووٹ مانگنے والے مودی جی ابھی نندن کی واپسی کے لیے عوام کی فکرمندی سے کیوں چڑ گیے؟ ایک نوجوان کی جدائی کادردوہی سمجھ سکتا ہے جو خود اپنی سنتان کوپالنے پوسنے کے مرحلوں سے گزرا ہو۔ پھر ابھی نندن توہمارا بیش قیمت قومی اثاثہ ہے۔ ایرفورس کا پائلٹ بن جانا آسان کام نہیں۔ اس کی تعلیم وتربیت اورٹریننگ کے مراحل مشکل ہوتے ہیں اور اس میں قومی وسائل لگتے ہیں۔ اس لیے ہرماں، ہربہن اورباپ اس سپوت کے لیے فکرمند تھا۔

مودی جی جب بالاکوٹ ایراسٹرائک کے حوالے سے ووٹروں کو رجھاتے ہیں تو لال بہادرشاستری کوبھول جاتے ہیں کہ 1965میں ہماری فوج لاہورتک پہنچ گئی تھیں۔ بھول جاتے ہیں 1971کی اندراگاندھی کوجب حریف کے 90 ہزارسے زیادہ فوجی جنگی قیدی بن کرآئے تھے۔ بھول جاتے ہیں اٹل بہاری واجپئی کواور کارگل محاذ کو جس میں پاکستانی فوج پہاڑ کی بلندی پر تھی اورہماری نشیب میں۔ اس معرکہ کو بوفورس توپوں کی بدولت سرکیا گیا، جس کی خرید پر راجیوگاندھی کے خلاف بھاجپا نے طوفان کھڑا کردیا تھا اورآج بھی سونیا اورراہل پرالزام تراشی جاری ہے۔ مجھے وسیم بریلوی کا ایک شعریاد آتا ہے:

ان سے کہہ دو مجھے خاموش ہی رہنے دیں وسیمؔ 
لب پہ آئے گی تو ہر بات گراں گزرے گی

بوفورس اوررافیل 

بھاجپا والوں کو بوفورس تو ابھی تک یاد ہے مگررافیل کا نا م آتے ہی بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ مودی جی کے پانچ سالہ دوراقتدار میںً سڑکوں کی تعمیر کا کام ضرور تیزہوا۔ اس کا کریڈت وزیرروڈ ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کو جائے گا۔ تاہم کوالٹی کی شکایتیں آتی رہتی ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر کی رفتار اور کوالٹی میں واجپئی حکومت میں وزیر پی سی کھنڈوری نے جو معیارقائم کردیا تھا یہ سرکاراس تک نہیں پہنچ سکی۔

سنکلپ پتر:

بی جے پی نے انتخابی منشورکے بجائے جو ’سنکلپ پتر‘ یعنی ’عزائم نامہ‘ جاری کیا ہے اس میں ’قوم پرستی‘ اور’قومی تحفظ‘ سرفہرست ہے۔ نجانے آزادی کے سترسال بعد اس پارٹی کو، جس نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ نہیں لیا تھا حب الوطنی کا بحران کہاں سے نظرآگیا؟ یہ ان لاکھوں مجاہدین آزادی کی توہین ہے جنہوں نے بغیر کسی لالچ جدوجہد آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اورطویل مدت فرنگیوں کی جیلوں میں کاٹی۔ (جواہر لال نہرو نے 9سال سے زیادہ جیل میں کاٹے جب کہ مودی جی ایمرجنسی لگتے ہی گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہوگیے تھے۔ )

یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ جو شخص جہاں پیداہوتا اورپلتا بڑھتا ہے اس سے اس کو فطری انسیت ہوتی ہے۔ اس انسیت کا اظہارآزادی کے بعد بھی کئی مرتبہ ہوا۔ 1962، 1965 اور1971کی تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کے دوران ہماری ماؤں اور بہنوں نے وطن کے لیے اپنے سپوتوں کو بھی دیااوراپنے زیور اورنقدی سے بھی خزانے کو بھردیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ قوم پرستی کا شورمچاکرچندافراد کے گروہ کی ہردھاندلی، ناانصافی اورجبرکو قبول کرلیا جائے اوراپنی آئینی وقومی آزادی کو سرنڈرکردیا جائے۔ یہ قوم پرستی کا وہی نظریہ ہے جس کو ایک مغربی مفکرسیموئل جانسن نے بدقماش، خبیث کی آخری پناہ گاہ کہا ہے۔ "Patriotism is the last refuge of scoundrel”

گاندھی جی نے’ ہتھیاربند قوم پرستی‘ کو، جس کا مظاہرہ سنگھی رات دن کرتے رہتے ہیں’ لعنت ‘قراردیاہے۔ گرودیورابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا، ’وطن پرستی ہماری فائنل روحانی پناہ گاہ نہیں ہوسکتی۔ میری پناہ گاہ ’انسانیت ‘ ہے۔ میں ہیروں کے عوض کانچ نہیں خریدوں گا اورجب تک زندہ ہوں ’قوم پرستی‘ کو فاتح ہونے نہیں دونگا۔ ‘‘

ٹیگورکے اس اقتباس سے یہ حقیقت بھی آشکارہورہی ہے کہ جنگجو قوم پرستی دراصل انسانیت (مانوتا) کی موت ہے۔ اس سرکار میں ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ انسانیت مررہی ہے اورمسلح غنڈے جہا ں چاہتے ہیں،جس کی چاہتے ہیں جان لے لیتے ہیں اورقوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہوئے صاف بچ نکلتے ہیں۔

اس سنکلپ پتر میں نہ صرف یہ کہ کانگریس کے منشورکا کوئی جواب نہیں ہے بلکہ خود اپنے 2014کے وعدوں میں سرفہرست انصاف، روزگار،تعلیم، امن وتحفظ، مہنگائی، کسانوں کے لیے راحت کا ذکرنہیں۔ نہ اچھے دن یادرہے نہ کالادھن اورنہ کرپشن۔ ہمارے31فیصدرائے دہندگان نے سنہ 2014میں کچھ وعدوں پر بھروسہ کرکے ووٹ دیا تھا۔ اب باری ہے کارگزاری دیکھ کرووٹ دینے کا۔ گیس کا سلنڈر کا ریٹ ذہن میں رکھنے کا۔

جھوٹ کی سوداگری:

اس دوران سب سے گھٹیا اورنقصاندہ جو کام ہوا ہے وہ ہے عوام کو دھوکہ میں رکھنے کے لیے غلط جانکاریاں پھیلانا اورجھوٹ کو سچ بتاکر پیش کرنا۔ ہم جس دیش کے باشندہ ہیں اس میں سچائی کی قدر قدیم زمانہ سے ہے۔ سوامی وویکانند نے کتاب لکھی تواس کا نام رکھا’ستیارتھ پرکاش‘ (سچ کا مطلب روشنی)، گاندھی جی نے کتاب لکھی ’My expriment with truth‘ ’سچائی کے ساتھ میرے تجربے‘ اورجیوتربا پھولے نے لکھی ’ستیہ شودھک سماج‘ (سچائی کا طلب گارمعاشرہ)۔ مائکروسوفٹ نے گزشتہ ہفتہ ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے مطابق، ’انڈیا میں جھوٹی خبریں دنیا میں سب سے زیادہ پھیلائی جاتی ہیں۔ ‘ افسوس کہ غلط جانکاریوں کے اس بازار میں ہمارے مہا مہم وزیراعظم نریندربھائی مودی اوران کے بھگت نمایاں ہیں۔ اب یہ فیصلہ رائے دہندگان کو کرنا ہوگا کہ گاندھی، ٹیگور اورجیوتی باپھولے کے قدردانوں کے اس دیش میں جیت انسانیت کی ہوگی یا قوم پرستی کے لبادے میں لپٹی ہوئی جنگجوئیت کی؟ فاتح سچائی ہوگی یا سکہ جھوٹ، فریب مکاری اور جملہ بازی کا چلے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔