حلب میں ہلاکو خان اور تاتاریوں کی واپسی

منصور عالم قاسمی 
ملک شام کا سب سے قدیم اور دوسرا سب سے بڑا شہر حلب :انتہائی دلکش ،جاذب نظر اور خوبصورت ۔یہاں بڑے بڑے قلعے ،تاریخی عمارتیں ،لمبے لمبے کھجور کے درخت ،چودھویں صدی کا تاریخی بازار مدینہ السوق جس میں پتھر سے بنی گلیاں ،اسلامی عظمت کی شان جامع اموی ہیں ۔حلب نور الدین زنگی کی جائے پیدائش اور ان کا پہلا دارالحکومت ہے ،عظیم مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھی شہر ہے ،انبیأ ، اولیاأ ،اصفیأ اور علمأ کا بھی شہر ہے ۔ایک ہزار سال قبل مسیح بھی اس کی اہمیت تھی ،ماضی قریب میں تھی اور آج …..آہ !ماضی میں اس کی عظمت و رفعت کی گونج چہار دانگ عالم میں سنائی دیتی تھی اور آج یہاں ذلت و شکست، خوف و دہشت کا راج ہے ۔فضا میں بلند ہوتی چیخ و پکار اور آہیں ،آسمان پر گڑگڑاتے اور بم برساتے لڑاکو طیارے، زمین پر دندناتی ہوئیں اور بے گناہوں و نہتوں کا بے دریغ قتل کرتی ہوئیں اسدی اور روسی فوجیں ،یعنی ہمہ جہت رقص حیوانیت جاری ہے ۔
2011 میں جب بشار الاسد حکومت کے خلاف عوام کھڑے ہوئے تو اس میں شامی فوج کے منحرفین ،اسد حکومت کا ساتھ چھوڑنے والوں کے علاوہ سبھی طبقہ اور سبھی فرقہ کے لوگ تھے لیکن جب داعش ،ایرانی ملیشیا ،حزب اللہ اور کرد لڑاکو بھی اس میدان میں کود پڑے تویہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر گیا ۔بشار چا ہے اس جنگ کا نام دہشت گردی کے خلاف لاکھ رکھ دے لیکن سچائی یہی ہے کہ یہ لڑائی اب شیعہ اورسنی میں تبدیل ہو گئی ہے جس کی تصدیق ایرانی اپوزیشن نے خودکی ہے ۔العربیہ نیوز کے مطابق پاسداران انقلاب کے جنرل سیکریٹری سدی جواد غفاری کی نگرانی میں ایرانی فوجیں اور جنگجو حلب کی کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں ،پاسداران انقلاب نے حلب کے جنوب مشرق میں ایک سرکاری عمارت ’’البحوث‘‘ کو فوجی اڈہ میں تبدیل کر رکھا ہے ،یہیں سے (سنی) شہریوں کے قتل عام کے احکامات جاری ہو رہے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایران ہمیشہ فتنہ پرور اور فتنہ ساز رہا ہے ،حضورﷺ کا ارسال کردہ دعوت حق کا خط پھاڑنے والا شاہ خسرو ایرانی ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قاتل ابو لؤلؤ فیروز ایرانی عناصر کا پروردہ،صلاح الدین ایوبی کو قتل کا منصوبہ بنانے والا کنزالدولہ ایرانی النسل،صلیبی لشکر کا معاون احمد بن عطا ایرانی کٹھ پتلی ،بیس ہزار حاجیوں کو قتل کر کے لوٹنے والا اورحجر اسودکو چرانے والا ابو طاہر قرامطی بھی ایرانی حمایت یافتہ ،ہلاکو خان کو بغداد پر حملہ کے لئے خط لکھنے والا غدار ابو العلقمی بھی ایرانی ،۱۹۷۹ میں خنجر سے لیس حج سیزن میں اللہ کے مہمانوں پر حملے کرنے والے اور بڑی تعداد میں حجاج کو شہید کرنے والے ایرانی اورگزشتہ سال منیٰ میں بھگدڑ کرانے والے بھی ایرانی تھے جس میں ہزاروں جانیں گئیں ۔کہاں تک ان کی مکاریاں ،غداریاں شمار کرائی جائیں !
داعش جو در اصل امریکہ ،اسرائیل اور ان کے حواریین کا پیدا کردہ ، پروردہ اور خود ساختہ اسلامی مجاہدین ہیں یہ بھی اسلام اور دین کی حفاظت کے نام پر حلب کے بے گناہوں پر گولیاں برسا رہا ہے ،آخر اس کو کس اسلام نے خون ناحق بہانے کاسبق سکھلایا ہے ؟دنیا جانتی ہے کہ حزب اللہ حزب الشیطان ہے ۔ایرانی ملیشیا نے ہمیشہ اہل بیت کا متبرک نا م استعمال کر کے کفاروں کے ساتھ مل کر اہلسنت و الجماعت کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے ،چنانچہ آج حلب کو ان دہشت گرد تنظیموں نے تماشہ گاہ بنا دیا ہے اور ان سب کا تختۂ مشق حلب کے معصوم بچے ،عورتیں ،بوڑھے اور نہتے نوجوان ہیں ادھر حقوق انسانی کی تنظیمیں ،اقوام متحدہ ، عرب لیگ اورعالمی امن کے ٹھیکیدارآنکھیں پھاڑ پھاڑکر تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ امریکی کٹھ پتلی اقوام متحدہ نے بس اتنا کہاہے کہ: حلب میں پھر انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے ،شامی صدر بشار الاسد عالمی سطح پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیار عام شہریوں پر استعمال کر رہے ہیں ‘‘۔ وہیں حقوق انسانی کے کارکنان کا کہنا ہے کہ : شامی فوج اور اس کے معاونین مل کر شہریوں کا اجتماعی قتل کر رہے ہیں ‘‘۔ڈرامہ بازی کا ایک منظر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ حلب کے دکھ میں اور اس سے اظہار یکجہتی کے لئے ایفل ٹاور کی روشنیاں مدھم کر دی گئیں ، میڈیا کی برکت سے ایک سین یہ بھی منظر عام ہوا کہ پوپ فرانسس نے شامی نوجوان کے پاؤں چوم کر مثال قائم کر دی ۔ یہی ہے ہمدردی ،اور اظہار یکجہتی کا کیا وہ نرالا انداز جسے امن و انسانیت کے ڈھونگیوں نے اپنا رکھا ہے ۔
جس سوپر پاور امریکہ نے بزعم طاقت کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار کے شک میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ،ڈکٹیٹرشپ کا الزام لگا کر معمر قذافی کو کتے کی موت مروا دیا تھا آج اسے اسد رجیم اور ایرانی ملیشیا کے ظلم و ستم نظر نہیں آ رہا ہے ؟مائیں بہنیں بشار کی درندہ صفت فوجیوں سے عزت بچانے کے لئے خود کشی کر رہی ہیں بلکہ اب تک 20 عورتیں جان دے چکیں ہیں ،باپ اور بھائی اپنی بیوی اور بیٹیوں کو ذبح کرنے کے فتوے مانگ رہے ہیں اسے یہ بے بسی نہیں دکھ رہی ہے ؟ابھی برطانوی پارلیامنٹ کے بعض اراکین نے اپنے دل کی سنی اور کہا ہے کہ 2013 میں حملے کے خلاف ووٹ دے کر بشار کو چھوٹ دی تھی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج شام اور روس کو درندگی کا موقع ملا ‘لیکن اب کیا ؟ کہنے کو تو شام ،روس امریکہ سب دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ بشار سنیوں سے لڑ رہا ہے اور اس کے حلیف روس اور امریکہ مسلمانوں سے ۔غور کیجئے !بشار حلب میں سنیوں کو سفاکانہ قتل کر رہا ہے تو روس نے پلمائرہ شہر میں یکے بعد دیگرے 64 حملے کرکے 300 سے زائد افراد کو شہید کر دیا اور پورے شہر کو تباہ کر دیا ۔ادھر امریکہ نے تدمر پر بم برسائے ،اس کا کہنا ہے کہ تدمر پر قبضے کے بعد داعش نے روس اور شامی فوج کے چھوڑے ہوئے فضائی اور دفاعی نظام پر قبضہ کر لیا تھا ،ہمیں خطرہ تھا کہ داعش امریکہ کے خلاف اسے استعمال کرتا اس لئے جنگی ہتھیار استعما ل کر کے ہم نے اسے تدمر سے نکال دیا یعنی موت ، ذلت اور شکست جس کا مقدر ہے وہ مسلمان ہے ۔
مجھے لگتا ہے کہ لعین بشار الاسدنے اپنے باپ کے چھوڑے ہوئے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کی قسم کھائی ہے جس نے 1982 میں 40000 ہزار سے زیادہ افراد کا محاصرہ کر کے قتل کروا دیا تھا ۔آج حلب کے اسپتالوں میں اگر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی ڈاکٹر حکومت مخالف گروپ کے زخم خوردہ کا علاج کر رہا ہے تواسدی فوج اسے گھسیٹ کر باہر لاتی ہے پھربرسرعام سینے میں گولیاں پیوست کر دیتی ہے،بے ہوش کرنے والی دوا نہ ہونے کی وجہ سے تڑپتے ہوئے بچوں کاآپریشن بھی یوں ہی کیا جا رہا ہے ،یہاں بمباری سے سینکڑوں مکانات زمیں دوز ہو گئے ،جس میں سینکڑوں لاشیں د بی ہوئی ہیں جن کا نکالنا مشکل ہو رہا ہے ،ہرطرف فائرنگ کی آواز یں ۔حلب میں ہرِ شخص حواس باختہ ہے ،کوئی خون سے لت پت اپنے جگر گوشہ کو لے کر اسپتال بھاگ رہا ہے تو کوئی اپنے نونہال کو کفن میں لپیٹ کر قبرستان کی طرف جا رہا ہے ،کوئی معصوم اپنے مردہ والد کو جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کر رہا ہے تو کوئی بیوی مرحوم شریک حیات کے سینے پراپنا سر رکھ کر پھپھک پھپھک کر رو رہی ہے ،یہ وہ مناظر ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ حلب میں ہلاکو خان اور تاتاریوں کی پھر واپسی ہو چکی ہے ۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔