حیات حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ کے چند گوشے

مولانا سید آصف ملی ندوی

            اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اورنگ زیبؒ ملت اسلامیہ ہندیہ کے ایک بہت بڑے محسن تھے، لیکن بے حد حیرت کی بات ہے کہ باشندگانِ بھارت کے اس عظیم محسن کی شخصیت کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنایا نہیں گیا، اسلام دشمن عناصر اور احسان ناشناس افراد کا ذکرہی کیا، اپنوں نے بھی کبھی اس عظیم شخصیت کے غیر جانبدار اور روادارانہ طرز حکومت کا بے لاگ اور منصفانہ جائز ہ لینا ضروری نہیں سمجھا۔ انگریزوں نے ہمارے اس وطن عزیز بھارت میں اپنے قدم مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اس ملک میں ہندو مسلم منافرت اور افتراق کی دیواریں جن بنیادوں پر رکھی تھیں ان میں سب سے اہم بنیادیہی تھی کہ بھارت کے انصاف پسند غیر جانبدارمسلم حکمرانوں کی روشن و تابناک تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا جائے، تاکہ اکثریتی فرقہ کے دلوں میں مسلم حکمرانوں کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا لاوا ہمیشہ پکتا رہے، اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو اس ملک میں پنپنے نہ دیا جائے یا کم ازکم انہیں مرکزی دھارے میں شامل نہ ہونے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر انگریز مؤرخوں نے اسلام دشمنی اور ہندو مؤرخوں نے مسلم بیزاری کے مسموم جذبات سے مغلوب ہوکر اکبر کو گریٹ اور انصاف پسند اور اورنگ زیب کو غاصب، ظالم و جابر، مذہبی تنگ نظر، متعصب، جانبدار اور غیر روادار ثابت کرنے کی ہمیشہ سعی نامشکور کی ہے۔

            اورنگ زیب عالمگیرؒ کو انگریز اور ہندو مؤرخوں نے اپنی کتابوں میں کچھ اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی گویا ان کے سر پر ہمہ وقت خون سوار رہتا تھا اور وہ بے انتہا ہوس اقتدار میں مبتلا شخص تھے، ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے عام طور پر جوفرد جرم ان پر عائد کی جاتی ہے اس میں سر فہرست دو الزام ہیں، پہلا یہ کہ اورنگ زیب ایک غاصب اور ظالم و جابر بادشاہ تھا جس نے حکومت پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لئے اپنے والد شاہجہاں کو بڑھاپے میں نظر بند کروادیا اور اپنے بڑے بھائی داراشکوہ اور مراد بخش کو قتل یا قید کروادیا۔ اور دوسراالزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ ایک مذہبی تنگ نظر، متعصب اور جانبدار و غیر روادار حکمران تھا جس نے متعدد مندروں کو منہدم کرواکر ان کی جگہ مساجد تعمیر کروائیں،  یہ صحیح ہے کہ اورنگ زیب نے بعض مندروں کو مسمار کروایا، لیکن یہ سب انہوں نے اپنی مذہبی راسخ العقیدگی کی بنیاد پر یا دیگر مذاہب کی بے حرمتی اور ان کے استیصال کے جذبہ سے نہیں کیا بلکہ ان کی وجوہات سیاسی تھیں جن کو عام طور پرمتعصب مؤرخوں نے سیاق و سباق سے کاٹ کر اور اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کیا جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ محض ایک سخت گیر ہندوکُش اور منادر شکن حکمران تھے۔

            اورنگ زیب مغلوں میں وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے ایک بے انتہا وسیع و عریض سلطنت وحکومت کا  فرمانرواں اور تاجدار ہوتے ہوئے بھی اور حکومت کے خزانوں کے مختار کل ہونے کے باوجود بھی اپنی روزی روٹی خود کمائی، وہ ٹوپیاں بُن کر اور قرآن مجید اور دیگر مذہبی کتابوں کی کتابت کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کیا کرتے تھے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ایک ایسا شخص جو بے پناہ سلطنت ارضی کا مالک ہوکر بھی اپنی نان شبینہ کے لئے خود محنت کا عادی ہو، اور جو راتوں کو اپنی خوابگاہ میں آرام دہ اور پرتکلف نرم و گداز بستروں پر پشت ٹیک کر نہیں بلکہ مصلّے پر پیشانی رگڑ کر راحت حاصل کرنے کا عادی ہو، کیا وہ شخص غاصب، ظالم و جابر اور متعصب ہوسکتا ہے! اور محض حکومت و سلطنت کی خاطر اپنے باپ کو نظر بند اور حقیقی بھائیوں کو تہ تیغ کر سکتا ہے ؟  یہ صحیح ہے کہ اورنگ زیب ؒنے اپنے بوڑھے باپ شاہجہاں کو نظر بند کروایا اور اپنے بڑے بھائیوں داراشکوہ، شجاع اور مراد کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ آخر اس نے یہ سب کیوں کیا؟  اس کا جواب دینے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان معترضین سے یہ پوچھا جائے کہ جب ہم دنیا کی کسی بھی قوم (خواہ وہ ہندو ہو یا مجوسی، یہودی ہو یا عیسائی، یا بدھشٹ ہو یا سکھ ) کی تاریخ پڑھتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ ہر قوم میں تخت حکومت پر قابض ہونے کے لئے بیٹوں کی باپ کو، باپ کی بیٹوں کو اور بھائیوں کی بھائیوں کو قتل اور قید یا جلاوطن کرنے کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ اس اعتبار سے جب اقتدار اور سلطنت و حکومت کے حصول  کے لئے اپنوں کا خون بہانے کی اس دنیا میں ریت رہی ہے تو پھر تنہا اورنگ زیب ہی کو کیوں کر موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے؟  یہ سوال تو محض ان معترضین کے لئے ہے، لیکن بحیثیت مسلمان میرا یہ ماننا ہے کہ اگر کوئی برا کام اکثر لوگ کرنے لگ جائیں تواکثر لوگوں کے کرنے سے وہ برا کام اچھا نہیں ہوجاتا، بلکہ اس برے کام کوہمیں برا ہی کہنا ہوگا۔ تو پھر اورنگ زیب کے اس عمل کو صحیح کیسے ٹھہر ایا جا سکتا ہے؟  تو اس کے لئے عرض یہ ہے کہ اورنگ زیبؒ نے یہ سب اپنے دفاع کے لئے کیا اگر وہ اس طرح نہیں کرتے تو خود مارے جاتے، اس کی تفصیل جاننے کے لئے ہمیں اس وقت کا پس منظر معلوم کرنا ہوگا جو کچھ اس طرح ہے کہ ذی الحجہ ۱۰۶۷ ھ میں شاہجہاں جو بوڑھا اور کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ پیشاب بند ہونے کی خطرناک بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ اس کی اس بیماری سے جاں برہونے کی کوئی امید نہ رہی، داراشکوہ نے جو باپ کا چہیتا بھی تھا، باپ کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو قلعہ بند کرکے اور اس کی موت کی غلط خبر عام کرکے وسیع و عریض ملک کی حکومت کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے، اس وقت  بقیہ تینوں شہزادے شجاع، اورنگ زیب اور مراد علی الترتیب  بنگال، دکن اور گجرات کے صوبوں پر مامور تھے،  داراشکوہ نے شاہی محل کی ناکہ بندی کردی، اس کی اجازت کے بغیر کسی کو بادشاہ شاہجہاں سے ملاقات کی اجازت نہ تھی، اس نے شجاع، اورنگ زیب اور مراد کے سفراء کو جو دربار میں رہا کرتے تھے ان کو بلواکر ان سے قلمدان واپس لے لئے تاکہ یہ سفراء دربار کی خبریں ان شہزادوں تک بھیجنے نہ پائیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے بنگال گجرات اور دکن کے تمام راستے بھی بند کرادئیے تاکہ مسافروں کے ذریعے بھی کوئی خبر ان تینوں شہزادوں تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن کسی طرح یہ خبر ان تک پہنچ ہی گئی، سب سے پہلے شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا،اسی طرح مراد نے بھی احمداباد اور گجرات میں اپنا سکہ قائم کردیا، اورنگ زیب عالمگیر اس وقت شاہجہان کے حکم سے گلبرگہ کے محاصرہ پر تھے جہاں ان کی فتح یقینی تھی۔ عین فتح و کامرانی کے حصول کے وقت داراشکوہ نے اورنگ زیب کی فوج میں شامل افسران کے نام شاہجہاں کے نام سے ایک حکمنامہ بھجوایا کہ فوراً اورنگ زیب کا ساتھ چھوڑ کر دربار واپس لوٹ آئیں۔ اورنگ زیبؒ  کو مجبوراً اس مہم کو ناتمام چھوڑنا پڑا، داراشکوہ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس نے اورنگ زیبؒ کے سفیر عیسی بیگ کو قید کرواکر اس کا گھر ضبط کروادیا اور جودھپور کے والی مہاراجہ جسونت سنگھ کو فوج اور توپ خانہ دے کر گجرات کی طرف روانہ کیا کہ اگر اورنگ زیبؒ آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو اس کا مقابلہ کیا جائے۔ اس دوران شہزادہ مراد اور اورنگ زیبؒ نے کچھ شرائط اور فیصلوں کے بعد یہ طئے کیا کہ ہم دونوں ہی اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ متحدہ طور پرآگے بڑھیں گے،دونوں شہزادوں کے متحدہو کر پیش قدمی کی خبر پا کر مہاراجہ جسونت سنگھ نے انہیں روکنے کے لئے فوج کشی کی، اورنگ زیب عالمگیر ؒنے مہاراجہ جسونت سنگھ تک پیغام پہنچایا کہ ہم صرف اپنے والد کی عیادت کی غرض سے جارہے ہیں، آپ درمیان میں حائل نہ ہوں، لیکن جسونت سنگھ نہ مانا، آخر کار دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا جس میں جسونت سنگھ کو زبردست شکست ہوئی اور اس نے راہ فرار اختیار کی۔ داراشکوہ کو جب جسونت سنگھ کی شکست فاش کی خبر ملی تووہ خود ساٹھ ہزار سوار کے ساتھ عالمگیر و مراد کے مقابلہ کے لئے نکلا، چنانچہ ۱۶ شعبان  ۱۰۶۸ھ کو سموگڑھ میں جہاں عالمگیر اور مراد کی فوجیں ٹھہری ہوئی تھیں داراشکوہ کا اپنے بھائیوں سے بڑا گھمسان کا معرکہ ہوا جس میں داراشکوہ کو کراری شکست ہوئی اور عالمگیر و مراد فتحیاب ہوئے۔ اس تاریخی حقیقت کو جاننے کے بعدایک عام شخص بھی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ اگر اورنگ زیبؒ اپنا دفاع نہیں کرتے تو یقیناً داراشکوہ نہ صرف اورنگ زیبؒ  کوبلکہ اپنے دوسرے بھائیوں شجاع اور مراد کو بھی قتل کرادیتا۔ کس قدر تعجب خیز بات ہے کہ اپنے دفاع کے لئے اقدام کرنے والے شخص کو متعصب ظالموں نے قاتل کے روپ میں پیش کردیا۔ اورنگ زیبؒ کے اس پوری قوت اور شدومد کے ساتھ دفاع کرنے کا اصل مقصد حکومت و سلطنت پر قبضہ کرنا نہیں تھا بلکہ یہ سب  انہوں نے اپنی سلامتی کے ساتھ ساتھ یک عظیم مقصد کے لئے کیا۔

            اور نگ زیبؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت کچھ ایسی ہوئی تھی کہ ان کے اندر اسلام کی محبت رچ بس گئی تھی، وہ حکمران خاندان کا ایک فرد ہونے کے ناطے اسلام کی ترقی اور اس کی اشاعت اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے، اور اس کام کو وہ اپنا نصب العین اوربنیادی مشن تصور کرتے تھے، انہیں جب یہ احساس ہوا کہ ان کا باپ اپنے بعد زمام حکومت اس شخص کے دست عاقبت نااندیش میں سونپنے کی تاک میں ہے جو نہ اپنے فرض منصبی سے واقف ہے اور نہ ہی اسے اس مشن کا صحیح ادراک ہے، تو مجبوراً اورنگ زیبؒ کویہ قدم اٹھانا پڑا،  مؤرخین نے لکھا ہے کہ شاہجہاں کا رویہ اورنگ زیبؒ کے ساتھ نہ صرف متعصبانہ بلکہ ظالمانہ تھا، وہ داراشکوہ کی حمایت کرکے اس کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا، اور داراشکوہ سے متعلق تقریباً مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ انتہائی بدقماش، بد دین اور بداخلاق و آزاد خیال شخص تھا، جو ہمیشہ مذہبی معاملات اور عقائد میں تطبیق دینے والا ’’ صلح کل ‘‘  اور اکبری پالیسیوں کا پیروکار تھا۔ اورنگ زیبؒ کے پیش نظر اسلام کا مفاد اور ملت اسلامیہ ہندیہ کا تحفظ تھا، اورنگ زیب اپنے بھائیوں اور بالخصوص داراشکوہ کے طرز زندگی، عیش و عشرت اور تعیش پسندی سے واقف تھے، ان کے نزدیک اپنے بھائیوں کے نظریات اور سوچ و فکر کا زاویہ کچھ ایسا تھا کہ اگر وہ لوگ تخت حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں تو اکبر بادشاہ کی طرح محض اپنی شخصیت کو ہردلعزیز بنانے یا اپنی سلطنت کو استحکام بخشنے کے لئے دین و اسلام کو دیس نکالا دینے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرینگے، جس کی وجہ سے شاید ملت اسلامیہ ہندیہ کا وجود اس ملک بھارت میں خطرہ میں پڑجاتا، یہی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے اورنگ زیبؒ کو اپنے باپ کو پورے عزت و احترام اور مکمل آسائش و آرام کے ساتھ نظر بند کرنا پڑا، اور جہاں تک داراشکوہ اور مراد کے قتل کرنے کا معاملہ ہے تو یہ ایک غلط الزام ہے جو اورنگ زیب عالمگیرکے سر تھوپا جاتا ہے کہ اس نے محض حکومت کے لئے ان دونوں کو قتل کروایا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی کو ذاتی رنجش یا چپقلش کی بنا پر نہیں بلکہ محکمہ قضاء اور عدلیہ کی جانب سے ان پر عائد کئے گئے فرد جرم کی بنیاد پر سزائے موت دی گئی۔ داراشکوہ کو (جو اورنگ زیب کے آگرہ پر قابض ہونے کے بعد سندھ کی جانب راہ فرار اختیار کرچکا تھا)گرفتار کرکے دہلی لایا گیا، جہاں علماء نے اس کے ملحدانہ نظریات و افکار کی بناء پر اس پر کفر کا فتویٰ لگایا، اور وہ بے دینی اور ارتداد کے جرم میں قتل کیا گیا۔ اور شہزادہ مراد کو (جو اورنگ زیب سے بغاوت کرکے گوالیار کے قلعہ میں نظر بند تھا)ایک بے گناہ کے قتل کے قصاص میں سزائے موت دی گئی۔

            جہاں تک دوسرے الزام کا تعلق ہے کہ اورنگ زیبؒ مذہبی تنگ نظر یا متعصب تھا تو اس الزام کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، بالکل بدیہی بات ہے کہ اگر وہ مذہبی اعتبار سے تنگ نظر ہوتے یا جانبدار اور غیر روادار ہوتے تو وہ اتنے بڑے اور وسیع و عریض ملک پرمسلسل  پچاس سال تک کس طرح حکومت کرسکتے تھے، ان کی مذہبی رواداری اور دیگر مذاہب و اہل مذاہب کے احترام و عظمت کی سینکڑوں مثالیں ان کے نصف صدی پر محیط دور حکومت میں بکثرت موجود ہیں جن کو نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم مؤرخوں نے بھی تحریر کیا ہے کہ اورنگ زیب ؒنے اس ملک کو جنت نشان بنانے کے لئے یہاں کے مقامی باشندوں سے ہرطرح کے تعلقات بہتر سے بہتر بنائے رکھنے اور ان سے میل جول بڑھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، ان کے مذہبی رسومات اور عائلی مسائل میں (جن میں بعض بڑے ظالمانہ بھی تھے  جیسے ستی کی رسم جس میں بیوہ کو اپنے شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ جلادیا جاتا تھا) کسی طرح کی مداخلت نہیں کی،انہیں اپنی حکومت اور فوج میں بڑے بڑے عہدوں سے نوازا، اپنی وسیع و عریض سلطنت کے نظم و نسق میں انہیں اپنا شریک بنایا، یہاں ایک ہندو مؤرخ ڈاکٹر تاراچند کا ایک اقتباس پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس کو مفتی محمد صاحب پالنپوری نے اپنی کتاب (تاریخ ہندـ- مسلم عہد حکومت سے قیام جمہوریت تک) میں نقل کیا ہے۔ ’’ وہ (ڈاکٹر تاراچند) فرماتے ہیں :  بعض لوگوں کے نزدیک اورنگ زیب کی مذہبی پالیسی اس کی ناکامی کا سبب ہوئی، بالعموم یہ خیال غلط ہے۔ ہندؤوں کی بغاوتیں ناکام رہیں، اور ان کا کوئی مذہبی یا سیاسی مقصد نہ تھا، اورنگ زیب نے ان کو ہندؤوں ہی کی مدد سے فرو کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ مرہٹوں کے خلاف جنگ مغلیہ سلطنت کے لئے ایک بارِ عظیم ثابت ہوئی، لیکن ان کی بغاوت نہ ملکی تھی نہ مذہبی، فقط ایک قبیلہ کی بغاوت تھی اور دوسرے قبائل کی بغاوت سے بہت مختلف نہ تھی، راجپوت، بندیلے اور شیواجی کے اپنے رشتہ دار اورنگ زیب کی خاطر شیواجی اور اس کے جانشینوں کے خلاف لڑے، اور پھر مرہٹوں نے ہندؤں کے خلاف بھی حملے کئے، اور ان کے لشکروں میں مسلمان بھی موجود تھے‘‘ (تاریخ ہند مسلم عہد حکومت سے قیام جمہوریت تک۔ صفحہ نمبر ۱۷۶ )۔ اورنگ زیبؒ کی مذہبی رواداری کو ثابت کرنے کے لئے یہی ایک بات کافی ہے کہ انہوں نے ہندؤوں کے ساتھ نہ صرف رواداری کا مظاہرہ کیا بلکہ شادی بیاہ کے ذریعے ان سے رشتے بھی قائم کئے۔ مشہور مؤرخ محمد ایوب خان نجیب آبادی نے اپنی کتاب (عالمگیر ہندؤوں کی نظر میں ) میں اے۔ ڈی۔ بی۔ اے۔ کی تصنیف (سوانح عمری اورنگ زیب)کے حوالے سے یہ بات تحریر کی ہے کہ  : ’’عالمگیر کے لڑکے شہزادہ معظم کی ماں ہندو دھرم اور راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ (عالمگیر ہندؤوں کی نظر میں صفحہ ۸۰)۔ اسی طرح اورنگ زیب کی مذہبی رواداری اور ان کے ہندؤوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے محمد ایوب خان نجیب آبادی صاحب نے اپنی اسی تصنیف میں ایک اورواقعہ نقل کیا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں :  ’’کوڑہ جہان آباد میں متھرا مل بنیہ نے عالمگیر اورنگ زیب کی ضیافت کی اور عالمگیرنے لالہ جی کی ضیافت بخوشی قبول فرمائی، اور متھرامل  کے گھر مہمان کی حیثیت سے جانے میں مطلق تأمل نہیں کیا۔ متھرا مل نے اپنی اس عزت افزائی کی یادگار میں ایک باغ تعمیر و نصب کرایا۔ وہ باغ آج تک اورنگ زیب کی بے تعصبی اور ہندو مسلم تعلقات کی صحیح ترجمانی کے لئے موجود ہے۔ جس کا جی چاہے کوڑہ جہان آباد میں جاکر اس باغ کی سیر کر آئے‘‘۔ (عالمگیر ہندؤوں کی نظر میں صفحہ ۸۰)۔

            اورنگ زیبؒ پر مندروں کو مسمار کرکے ان کی جگہوں پر مساجد کو تعمیر کرنے کا جو الزم لگایا جاتا ہے، اس کو کچھ اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ صبح شام بس یہی ایک کام کیا کرتے تھے، اور اس طرح مندروں کو گراتے پھرتے تھے جیسے بچے پتھروں کے ذریعے  بیری کے درخت سے بیر گراتے ہیں۔ جب ہم مستند تاریخی کتابوں میں اس الزام کی تحقیق کرتے ہیں تویہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی وسیع و عریض سلطنت میں نظم و نسق اور عدل و انصاف کو برقرار رکھنے کے لئے نہ صرف مندروں کو بلکہ ہر اس جگہ کو  زمیں بوس یا مسمار کرنے کا حکم دیا جس کے متعلق انہیں معلوم ہوتا کہ یہاں سے سازشوں کے چشمے ابلتے ہیں اوریہ جگہ حکومت اور نظم و نسق کے خلاف سازش کدہ بنی ہوئی ہے، پھر وہ جگہ خواہ مندر ہو یا مسجد اس نے اس کو مسمار کروادیا۔چنانچہ ان کی مسمار کردہ عبادت گاہوں میں گولکنڈہ کی جامع مسجد بھی شامل ہے جس کے حکمران تانا شاہ نے حکومت کو خراج دینا بند کردیا تھا، تانا شاہ نے اپنا خزانہ زمین میں دبا کر اس پر جامع مسجد تعمیر کرادی، اورنگ زیبؒ کو جب یہ معلوم ہوا توانہوں نے مسجد کو گراکرخزانہ نکلوایااور شاہی خزانے میں جمع کرادیاجو عوام کے فلاحی کاموں میں خرچ ہوا۔ اس واقعہ سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ ان چند مندروں یا مسجدوں کو گرانے کی وجوہات مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھیں۔ ایسے دوچار مندروں کو چھوڑ کر( جنہیں اورنگ زیبؒ نے سازش کدہ بنے ہونے کی وجہ سے مسمار کرادیا تھا)بقیہ اکثر مندروں اور عبادت گاہوں کے ساتھ ان کا سلوک اور رویہ اتنا ہی غیر جانبدار اور روادارانہ تھا جتنا اکبر اور جہانگیر وغیرہ کا تھا، انہوں نے ایسے تمام مندروں کی جو سازشوں سے پاک و صاف تھے اورجہاں صرف پوجا پاٹ، دھیان گیان یا پرستش کا کام ہوتا تھا نہ صرف حفاظت کی بلکہ انہیں کثیر آمدنی کی جاگیریں بھی عطا کیں۔ چنانچہ رقعات عالمگیر، وقائع عالمگیر اور اس دورکی دیگر تاریخی کتابوں کے منتشر اوراق میں ایسی متعدد جاگیروں کا پتہ چلتا ہے جنہیں اورنگ زیب نے مندروں یا گردواروں کو عطا کیا تھا اور جن کو محترم خورشید مصطفی صاحب نے اپنی کتاب (تاریخ کی سچائیاں ـ اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان )میں ذکر کیا ہے، موصوف کی اس کتاب سے تاریخی حقائق پر مشتمل چند اقتباسات نقل کرتا ہوں جن کو ملاحظہ فرمانے کے بعد آپ خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس الزام کی حقیقت کیا ہے۔

بشمبر ناتھ پانڈے کی تحقیق :  جناب بشمبر ناتھ پانڈے (سابق گورنر اڑیسہ)نے اس سلسلے میں نمایاں کام کیا ہے۔ اپنی کتاب اسلام اینڈ انڈین کلچر(Islam and Indian Culture)  میں وہ لکھتے ہیں :  ’’ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ عرب فاتح جو رویہ ماتحت قوموں کے ساتھ برتتے تھے، وہ ہندوستان میں آکر بالکل پلٹ گیا۔ ہندؤوں کے مندروں کو جوں کا توں محفوظ چھوڑ دیا گیااور بت پرستی پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔۔۔۔ سندھ میں اللہ کی عبادت کے ساتھ بتوں کی پوجا کی بھی اجازت دی گئی۔ اور اس طرح باوجود اسلامی حکومت کے بھارت ایک بت پرست ملک بنا رہ گیا۔ ‘‘  پانڈے صاحب نے الفسٹن کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ : ’’ مسلم حکمرانوں کے عہد میں ہندؤوں کے مندروں اور دھرم شالاؤں کی حفاظت کی جاتی تھی۔ برندرابن اور گوردھن اور متھرا کے مندروں کو شاہی خزانوں سے مدد دی جاتی تھی۔ متھرا ضلع کے گوردھن میں ہری دیوی کے مندر میں شاہی دستاویزات موجود ہیں۔ ‘‘  رائے بہادر لالہ بیج ناتھ نے اپنی کتاب (ہندوستان گذشتہ و حال ) میں لکھا ہے کہ :  ’’ہندؤوں کے مذہب میں کوئی مداخلت عہد اسلامی میں نہیں کی جاتی تھی، نہ ان سے کوئی دشمنی کا برتاؤ ہوتا تھا۔۔۔۔ مبارک شاہ خلجی کے وقت میں تمام گورنمنٹ کا طریقہ ہندوانہ تھا۔‘‘

پروفیسر آرنلڈ اپنی کتاب (پریچنگ آف اسلام )میں لکھتے ہیں :  ’’ اورنگ زیب کے عہد کی تاریخ میں، جہاں تک مجھے علم ہے، بہ جبر مسلمان کرنے کا کہیں ذکر نہیں۔ اسی طرح حیدرعلی اور ٹیپو سلطان کے بارے میں جو یہ شہرت ہے کہ انہوں نے بہت سے خاندانوں کو مسلمان کرلیا حالانکہ ان کا مسلمان ہونا ان بادشاہوں سے بہت پہلے کا واقعہ ہے۔‘‘

مندروں کے لئے اورنگ زیب کے فرامین :   انگریز مؤرخوں کی زہریلی تاریخوں نے جو اثرات چھوڑے اس کے شکار جناب بشمبر ناتھ پانڈے بھی ہوئے، ان ہی کی زبانی سنئیے کہ :  ’’بچپن ہی میں میں نے بھی اسکولوں اور کالجوں میں اسی طرح کی تاریخیں پڑھی تھیں اور میرے دل میں بھی اسی طرح کی بدگمانیاں تھیں لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ جس نے میری رائے قطعی بدل دی۔ ــ‘‘  یہاں انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ کہ جب وہ الہ آباد میونسپلٹی کے چیئرمین تھے اور تربینی سنگم کے قریب سومیشور ناتھ مہادیو کے مندر کی جائیداد پر جھگڑا چلا تو اس میں اورنگ زیب کے فرمان بطور ثبوت پیش کئے گئے جن میں اس نے مندر کو جاگیر دی تھی۔ پانڈے صاحب کو شبہ ہوا کہ یہ فرمان جعلی ہے۔ ۔۔ بھلا اورنگ زیب مندروں کو جاگیر عطا کرے۔ ۔۔۔۔ نا ممکن !۔ ۔۔۔ وہ سرتیج بہادر سپرو کے پاس پہنچے اور وہ فرمان انہیں  دکھائے۔ سپرو صاحب نے کہا کہ یہ فرمان جعلی نہیں اصلی ہے۔ پانڈے صاحب کو حیرت میں غرق دیکھ کر تیج بہادر سپرو نے اپنے منشی کو آواز دے کر کہا کہ :  ’’ ذرا بنارس کی نگم باڑی شیو مندر کی اپیل کی مسل تو لاؤ۔‘‘  منشی جی مسل لے کر آئے تو ڈاکٹر سپرو نے دکھایا کہ اس میں اورنگ زیب کے چار فرمان ہیں جن میں مندروں کو معافی کی زمیں عطا کی گئی تھی۔ اس کے بعد ڈاکٹر سپرو کی صلاح پر پانڈے صاحب نے ملک بھر کے چند قدیم مندروں کے نام خطوط لکھے کہ اگر آپ کے مندروں کو اورنگ زیب یا مغل بادشاہوں نے کوئی جاگیر عطا کی ہو تو ہمیں فوٹو کاپی بھیجئے۔  چنانچہ کچھ دن بعد ہمیں یہاں مندر اجین، بالاجی مندر( چترکوٹ)، کاکاکیا اومانند مندر(گوہاٹی)، جین مندر (گرنار)، دلواڑ مندر( آبو)، گردوارہ رام رائے (دہرہ دون) وغیرہ سے اطلاع ملی کہ ان کو جاگیریں اورنگ زیب نے عطا کی تھیں۔ ‘‘۔ پانڈے صاحب لکھتے ہیں کہ: مؤرخوں کی تاریخ کے برعکس ایک نیا اورنگ زیب ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔ اورنگ زیب نے ان مندروں کو جاگیر عطا کرتے ہوئے یہ ہدایت دی تھی کہ ٹھاکر جی اس بات کی دعا مانگیں کہ اس کے خاندان میں حکومت تاقیامت بنی رہے۔‘‘  (تاریخ کی سچائیاں ـ اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان)۔

            ہندوستان کے معروف صحافی قلمکار اور ادیب آنجہانی خشونت سنگھ نے ہندوستان ٹائمز کے اپنے معروف کالم میں ۲۲ نومبر ۱۹۸۶ کو تحریر فرمایا تھا :  ’’اورنگ زیبؒ نے درجنوں مندروں اور سکھوں کے گردواروں کو بڑی بڑی رقمیں اور جاگیریں عطا کیں، اس کے مہر شدہ اور دستخط شدہ فرمان آج بھی آرکائیوز میں موجود ہیں۔ اس نے اگر چند مندر مسمار کئے توچند مسجدیں بھی گرائی ہیں۔ اس نے مندر اور مسجد میں کوئی امتیاز نہیں رکھاجب یہ ثابت ہوگیا کہ ان کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ اس نے اپنے فرمانوں میں برہمنوں اور مٹھوں کے لئے جو عزت افزائی کے الفاظ لکھے ہیں انہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ‘‘ (ہندوستان ٹائمز مؤرخہ ۲۲ نومبر ۱۹۸۶)۔

حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیبؒ کے دور حکومت میں مندروں، مٹھوں اور گردواروں کو جتنی جاگیریں عطاکی گئیں شاید کسی ہندو راجا مہاراجا کے دور میں بھی نہیں دی گئی ہوں گی، اس سلسلہ کی اگر مکمل تفصیلات جاننی ہو تو محترم مولانا عطاء الرحمن قاسمی (جنرل سکریٹری مولانا آزاد اکیڈمی، دہلی) کی مختصر لیکن اہم کتاب (ہندو مندر اور اورنگ زیب عالمگیر کے فرامین)ضرور دیکھنی چاہئے، مولانا نے اس میں مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کو دی گئیں جاگیروں سے متعلق عالمگیر کے فرامین کے متون اور ان کا عکس بھی درج کیا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اسلام دشمنی اور مسلم بیزاری کی وجہ سے مؤرخوں نے حقیقت کو بالکل بدل کر رکھدیا۔ مؤرخین کی اس روش کو شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی  ؒ نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے :

تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا

کہ عالم گیر ہندو کُش تھا،  ظالم تھا، ستمگر تھا

تبصرے بند ہیں۔