شھید بابری مسجد: سپریم کورٹ کا فیصلہ اور شری شری روی شنکر کی تجویز

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی

ہندوستان کے سب سے زیادہ حساس مسئلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آج آہی گیا اور دل و دماغ کی ایک بار پھر وہی حالت ہوئی جو بابری مسجد کی شہادت پر ہوئی تھی، ایک دھندلی سی آس تھی وہ بھی آج ٹوٹ گئی، بس اطمئنان اس پر ہے کہ دل زندہ مرا نہیں ہے۔

متنازعہ زمین پر حق ملکیت کے لیئے یہ مقدمہ با قاعدہ ۹ نومبر ۱۹۸۹ سے شروع ہوا اور پورے تیس سال بعد اس کا فیصلہ بالآخر سپریم کورٹ  کی فل بنچ کی طرف سے ہمارے سامنے آ چکا ہے، تنازعہ کا یہ سلسلہ اس وقت شروع یوا جب ۱۹۶۹ میں اس میں چوری سے مورتیاں رکھ دی گئیں۔ اس نئے فیصلے کا یہ فرمان ہے کہ بابری مسجد کی پوری (2۔77 ایکڑ) زمین تین ماہ کےاندر حکومت رام مندر کی تعمیر کے لیئے ایک رام مندر ٹرسٹ کو سونپ دے اور اس کے عوض ایودھیا کے کسی اور مقام پر ۵ ایکڑ زمین تعمیر مسجد کے لیئے مسلمانوں کے نمائندہ فریق،سنی وقف بورڈ کے ضرور حوالے کردے۔ عدالت نے یہ بھی مانا ہے کہ مسلمان ۱۹۴۹ تک وہاں بابری مسجد میں نماز پڑھتے تھے اور یہ کہ یہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی اور ۱۹۹۲ میں شرپسندوں کے ذریعہ اسے منہدم کرنا ایک مجرمانہ کاروائی ہے۔

جو فیصلہ آیا ہے اس کا ایک تجزیہ وہ ہے جو آج ہی سے آنا شروع ہو جائے گا یا ہو چکا ہے، یہ تجزیہ صحافیوں، سیاسی مبصرین اور سیاست دانوں کا ہوگا جو ان کی طرف سے بہت حد تک ملکی قوانین، عدلیہ کے پروٹوکول، اور اپنی سیاسی یا مذہبی وابستگیوں کی رعایت کے ساتھ سامنے آئے گا، اس کے بعد ایک تجزیہ وہ ہوگا جو وقت کے مورخ کے بے خوف قلم سے لکھا جائے گا، یہ تجزیہ وہ ہے جو کبھی کسی کی رو رعایت نہیں کرتا اور نہ کسی بڑے سے بڑے شخص یا ادارے کے احترام و تقدس کی دیواریں اس کی رائے کو متاثر کرنے کے لیئے اسکے بیچ آتی ہیں، وہ تو وہی لکہتا ہے جو حق ہوتا ہے، وہ نہ کسی کے جرم پر پردہ ڈالنے کی غلطی کرتا ہے اور نہ آستھا کے نام پر کوئی فیصلہ دیتا ہے۔

یہ فیصلہ کب آئےگا یہ تو میں نہیں کہ سکتا تاہم اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کہ وہ جب بھی آئےگا وہ آج سے مختلف ہوگا، تاریخ کے فیصلے دیر میں آتے ہیں  لیکن آتے ضرور ہیں، مجھے بھی اس کا انتظار ہے اور آج کے حالات میں آپ کے پاس بھی پورے صبر کے ساتھ اس کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔۔۔ البتہ تجزیہ کاروں کے پہلے گروپ کے انداز میں اس مسئلے میں مختصرا مجھے بھی کچھ عرض کرنا پے:

۔۔۔ اس فیصلے کا سرسری نظر سے جائزہ لینے پر بھی یہ بات واضح طور سے ابھر کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس فیصلے میں اور شری شری روی شنکر  کی تجویز میں، جسے لیکر وہ اور ان کے نمائندے  تازہ سماعت سے پہلے تک بہت سرگرم تھے اور لکھنؤ سے دہلی تک چند ماہ قبل وہ پوری سرگرمی سے اس تجویز پر مسلم علماء و قائدین کو قائل کرنے میں لگے تھے،  یہ وہی تجویز تھی جس نے مولانا سلمان ندوی اور بعض دوسرے مسلم نمائندوں  کو بھی اپنے دام فریب میں کھینچ لیا تھا اور اصحاب تجویز ان کے ساتھ مل کر مہینوں تک اس مقصد کو حاصل کرنے لگے رہے ، یہاں تک کہ ان کا چیف ایڈوائزر مجھ جیسے غیر معروف شخص کے گھر پر بھی دو بار اسی غرض سے آ پہنچا لیکن موصوف کو یہاں سے مایوس واپس ہونا پڑا۔ یہ تجویز کیا تھی؟ان کی تجویز یہ تھی کہ مسلمان بابری مسجد کی زمین "امام الہند” کے نام پر چھوڑ دیں اور اس کے بدلے ایودھیا میں ہندو بھائی انھیں ایک شاندار مسجد بنا کر دیں گے، میں نے پوچھا اس کا فائدہ؟ تو موصوف کے نمائندے نے کہا اس سے امن و محبت کا ماحول بنے گا اور فرقہ پرستوں کو منھ  کی کھانی پڑے گی ، میں نے کہا کیا آپ لوگ یہ ضمانت دیں گے کہ آئندہ بابری مسجد پر حملہ کرکے اسے منھدم کرنے جیسآ واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا، جواب ملا اس کی تو کوئی بھی ضمامت نہیں دے سکتا، میں نے بھی جوابا کہا کہ مسلمان تو بابری مسجد کو لے کر اب کوئی واویلا بھی نہیں کر رہے ہیں، پھر آپ لوگ کیوں پریشان ہیں، مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔

 اس بیچ اس سمجھوتہ گروپ کی طرف سے مسلمانوں پر اس کے من پسند سمجھوتے کے لیئے دباؤ بنانے کا سلسلہ جاری رہا اور ان کی جانب سے مختلف شکلوں میں یہ دھمکی بھی آتی رہی کہ اگر سمجھوتہ نہ ہوا اور کورٹ کے فیصلے سے ہندو یہ مقدمہ جیتیں یا ہار یں ، دونوں صورتوں میں خون خرابے کا اندیشہ ہے، ہارنے پر تو قیامت آ جائے گی اور بقول سنت روی شنکر "یہاں شام جیسے حالات” پیدا ہوجائیں گے،  جب کہ  جیتنے کی صورت میں بھی وہ مسلمانوں کو ” وجے دوش” وغیرہ منا کر مزید تنگ کریں گے، میں نے کہا بھائی یہ تو سب ٹھیک ہے، لیکن یہ ایک سمجھوتہ کیسے کہا جائےگا؟، یہ تو ظلم و جبر کی ہی ایک سافٹ شکل ہوگی۔۔ بالعموم کسی سمجھوتے میں ہوتا یہ ہے کہ  ‘کچھ لو اور کچھ دو’ کی بنیاد پر معاملہ طے ہوتا ہے،  اگر ایسا کچھ یو تو شاید سمجھوتہ  ممکن ہو سکے لیکن مسلمان مسجد کی پوری زمین دے کر خود دست بردار ہو جائیں یہ کسی سمجھوتے کے تحت کیسے ممکن ہے؟ میری طرف سے ایسے تمام لوگوں سے یہی کہنا تھا کہ آپ لوگ پریشان کیوں ہیں، جب مسلمان وقت کے انتظار میں خود خاموش ہے اور عدالت کے فیصلے پر راضی ہے تو جو فیصلہ ہو اسے آنے دیجئے۔۔ انھیں دوبارہ بابری مسجد ملے نہ ملے اس سے یہ تو ہوگا کہ وقت کے مورخ کو مجرموں اور ان کے ہم نوائوں کو پہچاننے اور صحیح و غلط میں فرق کرنے میں کوئی دقت تو نہیں ہوگی۔

 اس پورے قصے میں مجھے شروع میں ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ روی شنکر یہ سب حکومت کے اشارے پر کر رہے تھے،  میرا شک اس وقت یقین میں بدل گیا جب سپریم کورٹ نے سمجھوتے کے لیئے اپنی طرف سے ایک کمیٹی نامزد کی اور اس کا سربراہ روی شنکر کو بنایا جن کی غیر منصفانہ تجویز کو مسلم پرسنل لاء بورڈ ، مسلمانوں کے ملی قائدین اور عام مسلمان پہلے ہی رد کرچکے تھے، اس کے باوجود سپریم کورٹ نےانھیں کے ہاتھوں یہ رسم آخر میں پوری کی۔۔ ظاہر ہے سپریم کورٹ نے یہ سب حکومت کے مشورے اور اس کی مدد کے بغیر نہیں کیا ہوگا؟ہمیں تعجب ہے کہ پچھلی مثالیں سامنے ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کو اس حساس مسئلے میں اس وقت سمجھوتے کا خیال کیوں آیا جب یہ کیس اپنے آخری مرحلے میں تھا اور اس مسئلے کو لیکر مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان کسی قسم کی قرقہ وارانہ کشیدگی کا ملک میں کہیں کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا؛ پھر اس سے زیادہ تعجب اس بات پر ہوا جب اس نے سمجھوتہ کاروں کے گروپ کا سربراہ روی شنکر کو بنایا، خدا بدگمانی سے بچائے لیکن کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا ہوگا کہ کہیں تو کچھ اندھیرے میں پہلے سے ہی طے ہو رہا تھا؟

 اس سے بھی زیادہ حیرت اس  عجیب اتفاق پر ہے جو شری شری کی تجویز اور سپریم کورٹ کے اس آخری فیصلے کی یکسانیت میں موجود ہے، کتنا حیرت انگیز ہے یہ اتفاق کہ سپریم کورٹ  اپنا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے  دونوں فریقوں کو باہمی  سمجھوتے کے لیئے آمادہ کرنے کی غرض سے بنائے گئے وفد میں روی شنکر کو ہی ایک نمایاں حیثیت میں شامل کرتی ہے، اور اب اس مقدمہ میں اس کا جو فیصلہ آیا تو وہ بھی شری شری روی شنکر کی مفاہمتی تجویز سے کسی بھی طور سے مختلف نہیں ہے بلکہ سو فیصد ویسا ہی ہے۔ یہ اتفاق ہے یا ایک سوچی سمجھی تدبیر کا نتیجہ؟ بات سپریم کورٹ کی ہے اس لیئے ہم اس سوال سے آگے مزید کچھ کہ بھی نہیں سکتے۔ البتہ تاریخ اور شریعت کے ایک طالب علم کے طور سے اتنا کہنے کا حق تو میں رکھتا ہی ہوں کہ حساس اور نازک معاملات میں عدالت کا کام دوٹوک فیصلہ سنانا ہوتا ہے، تا کہ سیاہ و سفید بالکل الگ ہوجائیں، نہ کہ کمزور بنیادوں پر مجبوری کے سمجھوتے کرانا اور درمیانی راستہ نکالنا۔

اس فیصلے کا  ایک خاص پہلو  یہ  ہے کہ خود سپریم کورٹ کے ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں کچھ باتیں متضاد ہونے کی وجہ سے ہمارے لیئے ناقابل فہم ہیں، ایک طرف عدالت عظمی یہ مانتی ہے کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مسلمانوں نے کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنائی تھی اور وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ مسلمان ہ1949  تک اس مسجد میں باقاعدہ نماز پڑھتے تھے اور اس سال اس میں مورتی کا رکھا جانا بھی ایک  بالکل غیر قانونی حرکت تھی، دوسری طرف وہ ان تمام شہادتوں کو درکنار کرکے بابری مسجد کی پوری زمین رام مندر کی تعمیر کے لیئے ہندو ٹرسٹ کو حوالے کرنے کا حکم دیتی ہے۔ ایک طرف وہ بابری مسجد گرانے والوں کو مجرم بھی گردانتی اور دوسری طرف اس کیس کے اصل ہندو فریق نرموہی اکھاڑے کو بے دخل کرکے رام مندر کے لیئے ٹرسٹ بنانے کا کام انھیں کو سونپتی ہے جو مسجد منہدم کرنے کے جرم میں کسی نہ کسی شکل میں  شریک تھے۔ ایک طرف یہ عدالت ثبوتوں کا حوالہ دیتی ہے اور دوسری طرف فیصلہ اس بنیاد پر دیتی ہے کہ ایودھیا کی متنازعہ زمین آج  کے حالات  میں کسے دی جانی چاہیے، اور اس کے مطابق ( یعنی ٹائٹل سوٹ کی رو سے) چونکہ ہندو فریق یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ ایودھیا میں رام کی جائے پیدائش ہے اور یہ کہ مسجد کے باہری حصے میں ( چوری سے مورتی رکھے جانے کے بعد) ہندو بھی برسوں سے پوجا کرتے رہے ہیں اس لیئے یہ زمین انھیں ملنی چاہئے،  اس وجہ سے  عدالت نے اپنا فیصلہ رام مندر کے حق میں کردیا، یہ ہے اس مقدمہ کے فیصلے کی قانونی توجیہ جسے عقل کسی طرح قبول کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے۔ اسی طرح ایک طرف وہ تمام ثبوتوں کے با وجود پوری زمین سے مسجد کا مقدمہ لڑنے والوں کو بے دخل کر دیتی ہے اور دوسری طرف وہ اپنے خاص اختیار سے  اجودھیا میں کسی اور مقام پر مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ سناتی ہے۔۔۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کا شھید بابری مسجد کی زمین پر کوئی قانونی حق نہیں ہے تو پھر انھیں کسی اور جگہ زمین کا ایک ٹکڑا دیئے جانے کے پیچھے کون سی دلیل یا منطق کارفرما  ہے؟  کیا یہ شری شری کی تجویز کی ہی ایک دوسری صورت نہیں ہے؟انصاف پسندی اور عدالتی وقار کا تقاضا تو یہی تھا کہ ایودھیا جیسے مسئلے پر عدالت کا فیصلہ ہر قسم کے تضادات اور تحفظات سے پاک ہوتا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

 جہاں تک مسجد کے لیئے الگ سے زمین دیئے جانے کا حکم ہے اس کا اس مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ واضح ر ہے مسلمان یہ لڑائی حق اور قانون کے نام پر لڑ رہے تھے اور آئندہ بھی اپنے دینی حقوق کے تحفظ کے لیئے لڑتے رہیں گے ، اسے مفاد و منفعت کی نہیں بلکہ حق اور اصول کی لڑائی کہا جاتا ہے۔ جہاں تک زمین خریدنے اور اس پر مسجد تعمیر کرنے کی بات ہے تو یہ وہ اپنے دم پر حسب سہولت کہیں بھی اور کبھی بھی کر سکتے ہیں، اس میں حکومت کی مدد اور عدالتی ہدایت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

اس فیصلے کے حوالے سے مجھے سب سے آخری بات یہ کہنی ہے کہ کسی عدالت یا حکومت کو کبھی ایسی چیز کو ثبوت یا نظیر کے طور سے نہیں قبول کرنا چاہیے جس کا سلسلہ کہیں ختم ہی نہ ہو یا جس کی بنیاد غیر مرئی امور پر قائم ہو۔ اس کیس میں آثار قدیمہ کی کھدائی میں ملے ہزاروں سال قبل کے  مندر کے باقیات کا بھی یہی قصہ ہے، جسے نہ تو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پوری طرح رد کیا ہے اور نہ قبول، لیکن لگتا یہی ہے کہ اس خطرناک فرضی سوچ کا سایہ اس فیصلے پر بھی پڑا ہے، چنانچہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں بھائی لوگوں نے آثار قدیمہ کے باقیات کے بارے میں سپریم کورٹ کے سوالات کوسوشل میڈیا پر فیصلہ آنے سے پہلے ہی خوب وائرل کیا تھا۔۔۔ اس تعلق سے مجھے ہہ کہنا ہے کہ ایک طرف یہ فیصلہ بابری مسجد کی تایید کی تمام شہادتوں کو نظر انداز کرکے متنازعہ زمین کو رام مندر کے لیئے دینے کا حکم دیتا ہے اور دوسری طرف اس لنگڑی شہادت کو پوری طرح رد کرنے میں دریغ سے کام لیتا ہے جو غیر مرئی ہے اور ہنوز سائنسی  تصدیق و توثیق کی محتاج ہے۔ اس تعلق سے سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک کمار گنگولی کے یہ الفاظ جو فیصلے کے روز ہی ہندوستان ٹائمز ( آن لائن) میں آچکے تھے، اس رائے کی پوری طرح تایید کرتے ہیں، جج صاحب جو ان ہندوستانیوں میں سے ہے جسے عدالت کے اس فیصلے نے شدید صدمہ پہنچایا ہے عدالت عظمی کے ججوں سے پوچھتے ہیں:

” آپ نے کہا مسجد کے نیچے کچھ ڈھانچے ملے تھے لیکن یہ نہیں کہا کہ پرانے ڈھانچے کے یہ باقیات کسی مندر کے تھے، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مسجد کسی مندر کو گرا کر بنی تھی، پھر آخر پانچ سو سال کے بعد آخر کس آثاریاتی تحقیق و بصیرت ("archeologicl insight”) کی بنیاد پر  عدالت اس قسم کا فیصلہ کرسکتی ہے؟”

 اس طرح اس فیصلے نے آثار قدیمہ کی کھدائی میں ملے کچھ نامعلوم آثار کو اہمیت دے کر سینکڑوں سال قدیم مسجد کی پوری زمین غیرمشروط طور سے محض ٹائٹل سوٹ کے نام پر رام مندر بنانے کے لیئے دے دی، لیکن ملکی دستور کی روح جو مذہبی آزادی کو ہر حال میں یقینی بناتی ہے یہ فیصلہ اس سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتا اور یہ روح اسی وقت مجروح ہوگئی تھی جب پانچ سو سال بعد   ۱۹۹۲ میں فسطائی قوتوں کے ہاتھوں   اسے مسمار کیا گیا تھا، مسجد کے مجرموں کو قانون کے مطابق خاطرخواہ سزا تو اب تک نہیں ملی البتہ اب مسجد کی زمین انھیں بالآخر بطور انعام مل گئی۔ دستور، جمہوریت، انسانیت اور مذہبی آزادی کو لگنے والا یہ زخم بہت گہرا ہے اور

 اس زخم کو بھرنے کی سب سے زیادہ ذمہداری عدالت کی تھی جو اب تک پوری نہیں ہوئی۔

مجھے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پورا فیصلہ صرف دوکمزور  بنیادوں (یا شہادتوں) پر مبنی ہے، ایک یہ کہ بابری مسجد کے نیچے کھدائی کے بعد کچھ ایسے باقیات ملے ہیں جو کسی مندر کے لگتے ہیں، اور دوسرے یہ کہ ایودھیا رام کی جائے پیدائش ہے، حالانکہ کسی شھر میں کسی کی پیدائش ہونا الگ بات ہے اور وہاں کی کسی مخصوص زمین پر کسی فرقےکی ملکیت کا دعوی ایک بالکل دوسری بات ہے، ظاہر ہے بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے پہلی چیز کو دوسری چیز کا ثبوت کبھی نہیں مانا جاسکتا اور نہ کسی فیصلے میں بلا وجہ اس کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ رہی بات قدیم باقیات کی تو ان کھدائیوں میں ملے کچھ آثار کی بنیاد پر، (قطع نظر اس کے کہ اس کے برعکس بھی آرکیالوجیکل ثبوت موجود ہیں) اگر اسی طرح فیصلے لیئے جانے لگے نیز تاریخی عمارتوں اور عبادت گاہوں کے نیچے دفن پڑے ہزاروں سال کے آثار و باقیات کو شہادت مان کر عدالتی فرمان صادر ہونے لگے تو ان کی وجہ سے پوری دنیا تہ و بالا ہوجائے گی اور حقوق و  انصاف کے سارے مروجہ پیمانے الٹ پلٹ جائیں گے۔ اس لیئے میرے خیال میں اس طریقہ انصاف پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔

بہر حال چونکہ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اس لیئے اسے ماننا اور  امن و امان کو باقی رکھنے میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ضروری ہے۔ ہم ایک  ذمہ دار شہری کے طور سے  سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن اس حوالے سے دوسرے راستوں ( آپشنز) کو پوری طرح بند کردینا بھی میری رائے میں جلد بازی ہوگی۔۔۔۔ بے شک اس بابت مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا اب تک مظاہرہ کیا ہے اس کی نظیر بھی ہندوستان کی تاریخ میں کم ہی ملے گی، اہل ملک کے لیئے اس میں بھی ایک منفرد مثال ہے، مگر اس کا یہ مطلب لینا بھی ہر گز صحیح نہیں ہوگا کہ وہ اپنے  تمام شہری، دستوری اور دینی حقوق سے دستبردار ہونے پر راضی ہیں۔

آخری بات مسلمانوں سے، حالات کا تقاضا یہی ہے کہ آپ صبر بھی کیجئے اور وقت کا انتظار بھی، آپ ایک ایسے دین حق کےحامل ہیں جس کا مقصد ہی زمین پر امن و مودت کا قیام ہے، لیکن اپنے حق سے دستبرداری کا اعلان کرکے خود کو بحیثیت قوم  ہمیشہ کے لیئے کمزوروں اور شکست خوردہ لوگوں میں شامل کرلینا بھی اس دین کے تقاضے کے خلاف ہوگا۔۔ حق کے لیئے جدوجہد جاری رکھنا آپ کا دستوری حق بھی ہے اور جزو دین بھی

” نہ کمزور پڑو اور نہ غمزدہ رہو، اگر تم صاحب ایمان ہو تو تم ہی سر بلند پوگے”۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔