طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اورحرام کاری سے بچنے وکرنے کے کام!

محمد آصف ا قبال

 گزشتہ دنوں یہ فیصلہ آپ کی نظروں سے گزرا ہوگا کہ اگر ایک عورت اپنے شوہر کو بوڑھے ماں باپ سے الگ رہنے پر مجبور کرتی ہے تو سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ہندو لاء کی روشنی میں اسے طلاق دی جا سکتی ہے۔ جسٹس انل آردوے اور جسٹس ایل ناگیشور رائو کی بینچ نے کہا تھا کہ ایک عورت شادی کے بعد شوہر کے خاندان کی رکن بن جاتی ہے، لہذا وہ اس بنیاد پر خاندان سے اپنے شوہر کو الگ نہیں کر سکتی ہے کہ وہ شوہر کی آمدنی کا پورا حصہ نہیں پا رہی ہے۔ کورٹ نے تبصرہ میں کہا تھا کہ ماں باپ سے الگ رہنے کی مغربی سوچ ہماری تہذیب و ثقافت اور اقدار کے خلاف ہے۔ کرناٹک کی ایک خاتون کی طلا ق عرضی کی منظوری دیتے ہوئے کورٹ نے یہ تبصرہ کیا تھا۔ دراصل کرناٹک کے اس جوڑے کی شادی 1992میں ہوئی تھی۔ شادی کے کچھ دنوں بعد سے ہی عورت اپنے شوہر پر اکیلے رہنے کا دبائو بنا رہی تھی۔ بیوی کے اس ظالمانہ حرکت کی وجہ سے شوہر نے نچلی عدالت میں طلاق کی عرضی دی تھی۔ وہیں خاتون نے الزام لگایا تھا کہ اُس کے شوہر کے نوکرانی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں، اس لیے وہ مجھے طلاق دے رہے ہیں، لیکن کورٹ نے اسے جھوٹا پایا اور نچلی عدالت نے طلاق کو منظور کر لیا۔ بعد میں خاتون معاملہ کو ہائی کورٹ لے گئی اور آخر کار سپریم کورٹ نے طلاق کی منظوری دے دی۔

یہ واقعہ چند ماہ پہلے ہی اخبارات کی سرخیوں میں سامنے آیا تھا۔ وہیں دوسری جانب پرسنل لاء سے متعلق ہندوستان کے آئین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مرکز نے مسلمانوں کے درمیان تین طلاق، نکاح حلالہ اور تعداد ازدواج کی سپریم کورٹ میں مخالفت کی۔ نیز جنسی امتیاز اور سیکولرازم کی بنیاد پر نظر ثانی کی حمایت کی۔ قانون و انصاف کی وزرات نے اپنے حلف نامے میں جنسی امتیاز، سیکولرزم، بین الاقوامی،مذہبی رسموں اور مختلف اسلامی ممالک میں ازدواجی قانون کا ذکر کیا تاکہ یہ بات سامنے لائی جاسکے کہ ایک ساتھ تین طلاق کی روایت اور تعداد ازدواج پر عدالت کی جانب نئے سرے سے فیصلہ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں وزرات میں ایڈیشنل سکریٹری ایم وجے ورگیہ کی طرف سے داخل حلف نامہ میں یہ دلیل دی گئی کہ تین طلاق ،نکاح حلالہ اور تعداد ازدواج کی پریکٹس کی منظوری پر جنسی امتیاز کے اصلولوں اور غیر امتیازی سلوک،وقار اور مساوات کے اصولوں کی روشنی میں غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں ایسی روایت کی منظوری کو چیلنج کرنے کے لیے سائرہ بانو کی طرف سے دائر پٹیشن سمیت دیگر درخواستوں کا جواب دیتے ہوئے مرکز نے آئین کے تحت جنسی امتیاز کے حق کی حمایت کی تھی۔ اس نے کہا کہ، اس عدالت کی طرف سے یقین خواہش کے لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ایک سیکولر جمہوریت میں یکساں درجہ اور بھارت کے آئین کے تحت خواتین کو وقار فراہم کرنے سے انکار کرنے کے لیے مذہب ایک وجہ بن سکتا ہے؟مرکز نے یہ بھی کہا تھا کہ اقوام متحدہ کا بانی رکن ہونے کے ناطے بھارت بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو لے کر مصروف عمل ہے جو مرد اور عورتوں کے لیے یکساں حقوق کی بات کرتا ہے۔ لہذا خواتین کے لیے جنسی مساوات کے انتہائی اہم مقصد کی روشنی میں پرسنل قانون کی ضرور پڑتال ہونی چاہیے۔

ان دو فیصلوں پر سرسری نظر ڈالی جائے تو کھلا تضاد محسوس ہوتا ہے۔ پہلے فیصلے میں اِس پر بات زور دیا گیا ہے کہ ملک اپنی تہذیب و ثقافت کو دائو پر نہیں رکھ سکتا، ہندو مذہب اور اس کاپرسنل لااس کی اجازت نہیں دیتا،نیز شوہر پر ماں باپ سے الگ ہونے کا دبائو ،مغربی تہذیب کا حصہ ہے اورانہی بنیادیوں پرمرد کو حق ہے کہ وہ ایسی عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔ دوسری جانب مسلم پرسنل لا کے تحت فراہم کردہ تین طلاق، نکاح حلالہ اور تعداد ازدواج کی پریکٹس ،جنسی امتیاز، سیکولرزم اور بین الاقوامی قوانین کی آڑ میں خلاف واقعہ بن گئی ہے۔ ساتھ ہی بھارت چونکہ بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر مصروف عمل ہے ،لہذا مسلم پرسنل لاکے تحت جاری پریکٹس کو،مذہب کی آڑ میں روکنے کی باتیں کی جانے لگیں۔

 ابتدائی گفتگو اور پس منظر کے بعد سپریم کورٹ کے حالیہ اُس فیصلہ کی بات کرتے ہیں جس میں پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے تین ججوں کی اکثریت سے بیک وقت تین طلاق کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیتے ہوئے چھ ماہ کے لیے روک لگا دی ہے۔ عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ تین طلاق پر قانون بنائے اور اگر چھ ماہ میں قانون نہیں بنایاجاتا ہے تو ایک بار میں تین طلاق پر عدالت عظمیٰ کا حکم جاری رہے گا۔ وہیں چیف جسٹس جے ایس کھیر اور جسٹس نذیر نے اقلیت میں دیے فیصلے میں کہا کہ تین طلاق مذہبی پریکٹس ہے،اس لیے کورٹ اس میں دخل نہیں دے گا۔ حالانکہ دونوں ججوں نے مانا کہ یہ گناہ ہے، اس لیے حکومت کو اس میں دخل دینا چاہیے اور طلاق کے لیے قانون بنانا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ‘طلاق بدعت ‘خواتین کی مساوات کے حقوق کی خلاف ورزی ہے،تین طلاق اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور اس روایت کو آئین کے آرٹیکل 25(بنیادی حقوق سے متعلق قانون)کا تحفظ حاصل نہیں ہے،لہذااسے ختم کرنا چاہیے۔ فیصلہ پر آل انڈیا مسلم پرسنلا لا بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے کہ اس نے نہ صرف مسلم پرسنل لا کو تحفظ فراہم کیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اسے بنیادی حقوق کے خلاف ورزی کی بنیاد پر عدالتوں میں پرکھا نہیں جا سکتاہے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ شرعی احکام مسلم پرنسل لا کا حصہ ہیں ، اور ان میں ترمیم یا اضافہ کا حق کورٹ کو حاصل نہیں ہے۔ وہیں جمعتہ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے شریعت کے خلاف قراردیا ہے اور مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ہرگز مایوس نہ ہوں اور صبر وضبط اور امن کے ساتھ خیر کا راستہ نکالتے ہوئے اسلام کو اپنی زندگی کے ہر پہلومیں اتارنے کی سعی اور کوشش کریں۔ وہیں بورڈ کے سینئر نائب صدر مولانا محمد سالم قاسمی نے کہا کہ فیصلے پر مسلم پرسنل لا بورڈ کی آئندہ 10؍ستمبر کی مٹنگ میں تبادلہ خیال کیا جائے گااور اس معاملہ میں کیا قدم اٹھایا جائے گااس کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ نیز جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ شریعت میں مداخلت ہے اور اس فیصلے سے عورتوں کوکوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جا سکے گااور جماعت اس معاملہ میں بورڈ کے موقف کے ساتھ ہے۔ آخر میں مسلمانوں کو اُس باریک نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں بیک وقت تین طلاق کا تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اَطَّلاَق ُمَرَّتٰنِ۔۔ ۔ طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے(البقرہ:229)۔

اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جن مسلم ممالک کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ وہاں تین طلاق غیر قانونی ہے،اور سوال کیا جاتا ہے کہ وطن عزیز میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟تو یہاں یہ بات واضح رہنا چاہیے کہ جن ممالک میں بیک وقت تین طلاق غیر قانونی مانی جاتی ہے ،وہاں بھی بیک وقت اگر کوئی تین طلاق دیتا ہے تو اسے ایک ضرور مانا جاتا ہے،جس کی رو سے شوہر اور بیوی کا رشتہ ایک خاص مدت کے لیے منقطع ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جب تک کہ قانون نہیں بن جاتا یا اس کا کوئی معقول حل نہیں نکل آتا،تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینے کے معنی یہ لیے جائیں کہ اسے ایک بھی نہ سمجھا جائے گا۔ اور مسلمان اس پرعمل شروع کردیں تو شریعت کی رو سے وہ حرامکاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کیونکہ موجودہ فیصلہ کی روشنی میں تین ناقابل عمل ہے اور اسے رد کیا جاتا ہے۔

لہذا اس موقع پر باغیرت ،صاحب ایمان اور عزت مآب مسلم و مومن خواتین سے یہی امید کی جانی چاہیے کہ وہ خلاف شریعت عمل کے لیے ہر گز راضی نہیں ہوں گی اور اپنے عمل سے اسے رد کر دیں گی۔ لیکن معاملہ صرف باغیر ت مسلم خواتین کا نہیں ہے ان حضرات کا بھی ہے جو مسلم معاشرے میں قوام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس نکتہ کو تفصیل سے مرد و خواتین ہر دو سطح پر اچھی طرح سمجھایا جائے۔  مسلمانوں کو تقویٰ کی بنیاد پر طلاق بدعت سے محفوظ رہنے کی ترغیب دلائی جائے۔ ہر مقام پر کونسلنگ سینٹرس قائم کیے جائیں جہاں شادی سے قبل و بعد کے عائلی معاملات کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہو۔ نیز اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ وطن عزیز میں اسلام زندہ رہے تو اپنے شرعی معاملات دارالقضاء میں حل کریں اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو اس کے قیام کی اجتماعی سطح پر مخلصانہ سعی و جہد کا آغاز کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔