عالمی یوم صحافت اور ہمارے ملک کی موجودہ صحافت

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

آج یعنی3  ؍ مئی کوعالمی یوم آزادیٔ صحافت ہے۔ اس مناسبت سے آزادیٔ صحافت اور ملک کی موجودہ صحافت سے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہم اس بات سے قطیٔ انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ عہد حاضر میں اخبارات اور ٹیلی ویژن نے جس طرح ہر گھر میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اس سے اس کی روز بروز بڑھتی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی مقبولیت، اہمیت اور افادیت کے پیش نظر آج  کے دن کو اقوام متحدہ نے صحافت اورآزادیٔ صحافت کے لئے مخصوص کیا ہے۔

صحافت، خواہ جس زبان کی ہو، اس کی اہمیت اور افادیت کو ہر زمانہ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہماری سماجی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اوراقتصادی زندگی پر جس شدّت کے ساتھ اس کے اثرات مثبت اورمنفی دونوں طریقے سے مرتسم ہوتے رہے ہیں۔ اس کا بہر حال اعتراف تو کرنا  ہی ہوگا۔صحافت ترسیل وابلاغ کا اتنا مؤثراور طاقتور ذریعہ ہے اورواقعات حاضرہ کی معلومات بہم پہنچانے کااتنا بہتر وسیلہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت سے منسلک بھی رہے، تاریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دئے، بڑے بڑے انقلابات کوجنم دیا، اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانہ پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عائد کی گئیں۔ صحافت نے جیسے جیسے بتدریج ترقی کی، ویسے ویسے اس کی مقبولیت، اہمیت اورافادیت بڑھتی گئی اورلوگوں کومتوجہ کرانے میں کامیاب بھی ہوتی گئی۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔صحافت کی ان خصوصیات اور انقلابی طاقت سے متاثر ہو کر کبھی اکبر الہ آبادی نے کہا تھا۔

  کھینچو نہ کمانوں کو، نہ تلوار نکالو

جب توپ،مقابل ہو تو اخبار نکالو

  اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحافت اتنی مؤثر اور طاقتورہے کہ اس کے سامنے تیر، کمان، بندوق اورتوپ کی بھی اس قدر اہمیت نہیں ہے۔ مندرجہ بالا شعر کہتے وقت اکبرؔ الٰہ آبادی کے ذہن میں یقینا تاریخ کے جانے مانے جرنیل اور اپنے عہد کے عظیم ڈکٹیٹر نیپولین بونا پاٹ کا یہ مشہورمقولہ رہا  ہوگا، جس میں اس نے صحافت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے کہا تھا کہ :

” I fear three newspapers more than a hundred thousand bayonets”

یعنی’لاکھوں سنگینوں سے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں‘۔

نیپولین بوناپاٹ کا مندرجہ بالا خوف یقینی طورپر صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس نے ضرور اس بات کومحسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی صفوں میں انتشاربرپا کرنے میں توپ اورتفنگ، لائو لشکر، تیر، تلوار کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں، گھوڑوں اورفوجیوں کی بے پناہ طاقت، صحافت کے سامنے کند ہے۔ جو کام صحافت سے لیا جاسکتا ہے،وہ توپ اوربندوقوں سے بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے عظیم مفکر، دانشور، سربراہ، مصلح، سیاستداں اوررہنما اس کی اہمیت کے ہمیشہ معترف اورقائل رہے ہیں۔

لیکن جب صحافت پر سیاست حاوی ہونے لگی اور دنیا کے بڑے بڑے صنعت کار، دولت مند اور بعض ممالک کی حکومتیں، صحافت کی بے پناہ طاقت کا اپنے مفاد میں استعمال کرنے لگیں، تب ایسے حالات سے متاثر ہو کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے  1991 ء کی اپنی 26ویں اجلاس میں منظور قرارداد کو نافذکرتے ہوئے  1993ء سے ہر سال  3 ؍ مئی کو عالمی سطح پر یوم آزادیٔ صحافت کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ جس کے تحت صحافتی تحریروں پر پابندی لگانے، انھیں سنسر کرنے، جرمانہ عائد کرنے نیز صحافیوں کو زدوکوب کئے جانے، ان پر جا ن لیوا حملہ کئے جانے، انھیں اغوأ کئے جانے اور انھیں بے دردی سے قتل کئے جانے پر غور و فکر کرنے اور ان کے سدّباب کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایسے حالات سے نپٹنے، حکمت عملی تیار کئے جانے اورحکومت وقت کو انتباہ کئے جانے پر زور دیا گیا ہے۔

یونیسکو نے ایسے مقامی اور عالمی سطح کے اداروں، شعبوں، این جی اوز وغیرہ کوصحافتی حفاظت، آزادیٔ صحافت اور ترقی ٔ صحافت کے لئے مثبت اقدام اور اس ضمن میں غیرمعمومی خدمات کے لئے  1997 ء سے چودہ آزاد صحافیوں کی جیوری سمیت یونیسکو کے اسٹیٹ ممبران کی سفارش پر کولمبیا  کے ایک اخبار El Espectador   کے مقتول صحافی   Guillermo cano isaza جو کہ 17 ؍دسمبر1986  ء کو کولمبیا کے ایک بہت بڑے اور دولت مندصنعت کار کے خلاف لکھنے کی پاداش میں ہلاک کر دیا گیا تھا، ان کے نام پر ایک باوقار ایوارڈ کا فیصلہ کیا گیا ، تاکہ نہ صرف جمہوریت کا استحکام اور اس کا افادی پہلو کا دائرہ وسیع ہوبلکہ مفاد عامّہ کے لئے صحافت اور صحافتی خدمات پر معمور صحافیوں کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جائے کہ کس طرح نامساعد حالات میں عوامی مفاد کے لئے رائے عامّہ تیار کرتے ہیں۔

اس کے لئے  1سے3  مئی 2011 ء میں امریکہ کے واشنگٹن شہر میں عالمی یوم آزادیٔ صحافت کا جلسہ  بڑے پیمانہ پر انعقادکیا گیا  اور اس موقع پر اکیسویں صدی کے میڈیا  اور اس کی بنیادی آزادی پر کئی ممالک کے مندوبین نے بحث و مباحثہ میں حصّہ لیا تھا۔

لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود دنیا کے بیشتر ممالک بشمول بھارت میں آزادیٔ صحافت پر پہرے بٹھائے جانے، صحافیوں پر  پُر  تشدّد حملے اور قتل کے واقعات تیزی سے بڑھ ہیں۔ امریکی فریڈم ہاؤس کی جانب سے جاری ایک جائزہ کے مطابق گزشتہ سال 70  ممالک میں صحافتی آزادی، 61 ممالک میں جزوی طور پر اور 64 ممالک میں آزادیٔ صحافت پر مکمل پابندی رہی۔ سوویت یونین، مشرق  وسطیٰ اورشمالی افریقہ میں صحافت کی آزادی سلب رہی، جبکہ اسرائیل، اٹلی اور ہانگ کانگ میں ایران، لیبیا، شمالی کوریا، میانمار، روانڈا اور ترکماستان وغیرہ میں صحافت، اپنی آزادی کے لئے کراہتی رہی۔ آزادیٔ صحافت یعنی Press freedomکے ضمن میں ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق 2017   میں 180 ممالک میں ہمارا ملک بھارت تین پائدان نیچے گر اب136 ویں پائدان پر آ گیا ہے۔

آزادیٔ صحافت کو جس طرح مختلف مما لک میں سلب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور آئے دن جس طرح صحافیوں کو یرغمال بنا کر اور پھر انھیں جس بے دردی سے ہلاک کیا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ابھی پرسوں ہی کی خبر ہے کہ افغانستان  کے شہر کابل میں خودکش حملے میں دس صحافیوں کی موت ہو گئی ہے۔ چندسال قبل بھی اسلامی مملکت کے جنگجوؤں کے ذریعہ لیبیائی ٹیلی ویژن کے لئے کام کرنے والے پانچ صحافیوں کو بہت بے دردی کے ساتھ قتل کر دئے جانے کی خبر منظر عام پر آئی تھی۔ ایسی اندوہناک خبریں اب اکثر کئی ممالک کے مختلف حصوں سے آتی رہتی ہیں۔ جن کی جس قدر مذمّت کی جائے کم ہے۔

ہم اس امر سے ہم انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے الفاظ معاصر منظر نامے میں بے معنی اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، لیکن قلم اور کیمرے کو جس طرح جبر و تشدّد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اورآزادیٔ صحافت اور اس کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ میڈیا پر ہی یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ میڈیا، حکومت پر مثبت تنقید کے بجائے الزام تراشیاں کر رہا ہے، جس کے باعث  جمہوریت کمزور پڑ رہی ہے اور حکومت غلط راہوں پر جانے پر مجبور ہو رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اور اس کے استحکام، سیکولرزم کے فروغ اور سماج کا رخ موڑنے میں صحافت نے جو رول ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں، انھیں  فرا موش  نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن الزام تراشی کے گرم بازار کا ذکر کرنے والے خود صحافت پر کس قدر اوچھے اور نازیبا الزمات لگا رہے ہیں، وہ اسے بھول جاتے ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں کہ بھارت کے مرکزی حکومت کے ایک وزیر اور سابق فوجی افسر کرنل وی کے سنگھ نے جن ناشائستہ اور بے ہودہ الفاظ میں ملک کی صحافت پر الزام لگایا  ہے، وہ بہر حال قابل مذمّت ہے۔ دوسری جانب ہمارے ملک کے میڈیا  کا یہ حال ہے کہ ان کے لئے تجوریوں کا مُنھ کھول دیا گیا ہے اور صحافت، تجارت بن گئی ہے۔ جسے گودی میڈیا کا نام دی گیا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک انگریزی اخبار میں یہ خبر پہلے صفحہ پر شائع ہوئی کہ گجرات میں سہراب مرڈر کیس کے ایک اہم گواہ اور سہراب کے والد کی ٹرک حادثہ میں زخمی ہونے کے بعد اسپتال میں موت ہو گئی، واضح رہے کہ چند دنوں بعد ہی سہراب قتل معاملہ کی سنوائی ہونے والی تھی۔ اور دوسری جانب اسی خبر کو ہندی اخبار نے اندر کے صفحہ پر اس طرح شائع کیا کہ سہراب کے والد اسپتال میں بیماری کے بعد رخصت ہو گئے۔ دونوں خبروں میں کتنا فرق ہے، اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اس وقت ملک میں اخبار اور صحافیوں کو پہلے دولت کی لالچ دی جاتی ہے، وہ تیار ہو گئے۔ تو ٹھیک، ورنہ انھیں قتل کرا دیا جاتا ہے یا پھر مختلف مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ گوری لنکیش کو خریدا نہیں جا سکا، تو انھیں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور ابھی ابھی بلاس پور کے ایک معروف صحافی کمل شکلا کو ایک کارٹون شیٔر کرنے کی پاداش میں وطن سے غدّاری کا الزام کا کیس درج کیا گیا ہے۔ انجہانی جسٹس لویا کے قتل کے معاملے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف مواخذہ تک کی نوٹس کی نوبت آ گئی، پھر اس موضوع پر لکھنے کے جرم میں مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟ یہ سوال ہے کمل شکلا کا، انھوں نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ملک کے آدھے سے زیادہ میڈیا گھرانوں کو خرید کر جمہوریت کی ریڑھ توڑ دی گئی ہے۔ یہی سچ ہے، اور میں حکومت کی غندہ گردی سے ڈرنے والا نہیں ہوں، میری آواز بند نہیں ہوگی، نہ ہی میری رکے گی، جب تک سانس باقی ہے۔ افسوس کہ ایسی آواز اب ملک کی چہار جانب سے اٹھنے لگی ہے۔ لیکن حکومت میڈیا کی آزادی سلب کرنے اور ان پر پہرے بٹھانے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہے۔ ایک انتہا بلکہ المیہ تو ابھی ابھی یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک ہندی کے کثیرا لاشاعت اخبار نے بڑی بے شرمی سے یہ خبر شائع کی کہ کٹھوعہ سانحہ ہوا ہی نہیں، اس خبر کے شائع ہوتے ہی جس طرح لوگوں نے اپنے غم  وغصہ کا مظاہرہ کیا اور اس شمارے کی کاپیاں جگہ جگہ نذر آتش کرتے ہوئے اس اخبار کے بائکاٹ کا اعلان کیا ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب عوام میڈیا کے جھوٹ اور فریب کو بخوبی سمجھ گئی ہے اور وہ ان کے بہکاوے میں نہیں آنے والی ہے۔ ایسی حرکتوں سے صحافت ان دنوں جس طرح ذلیل و رسوا ہو رہی ہے، وہ یقینی طور پر بہت ہی افسوسناک ہے۔

لیکن ان سب کے باوجود  مجھے خوشی ہے کہ آج بھی جبکہ دنیا  کے بیشتر مملک کی صحافت، صارفیت کے چنگل میں کراہ  رہی ہے۔ پھر بھی کچھ واقعات کو چھوڑ کرصحافی اپنی پوری ذمّہ داری، غیر جانب داری، بے باکی، بلند حوصلہ اور جرأت مندی کے ساتھ جمہوریت اور اس کے استحکام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدارو افکار کے لئے اپنے فرائض کو پوری ذمّہ داریوں کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ ایسے جرأت مند اور بے باک صحافیوں کی موجودگی میں، مجھے یقین ہے کہ صحافت کی جو اعلیٰ قدریں ہیں، وہ پامال نہیں ہونگیں اور ایسے کچھ صحافی جو وقتی منعفت کے لئے بھٹک یا  بِک جاتے ہیں، وہ بھی صحافت کو تجارت تصور کرنے کی بجائے مشن کے طور پر قبول کرتے ہوئے صحافت کو عبادت کا درجہ دینگے۔آج کے یوم آزادیٔ صحافت کے موقع پر ایسا محاسبہ ضرور ہونا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. اردو گلشن ممبئی کہتے ہیں

    انتہائی بہترین تجزیہ
    جناب سیّد احمد قادری صاحب

تبصرے بند ہیں۔