علامہ اقبال کی سیرت وشخصیت ان کے خطوط کے آئینہ میں

عبدالعزیز

’’اقبال نامہ‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال کے مکاتیب کے دو مجموعے(حصہ اول اور حصہ دوم) شائع ہوئے ہیں ۔

حصہ اول شیخ عطاء اللہ صاحب استاد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے ۱۹۴۲ء میں مرتب کیا اور شیخ محمد اشرف نے ۱۹۴۵ء میں لاہور سے شائع کیا۔ مکاتیب کی جلد دوم بھی شیخ عطاء اللہ ہی نے مرتب کی ہے اور شیخ محمد اشرف صاحب نے لاہور سے شائع کی ہے۔ ان خطوط میں علامہ کے سیاسی، تہذیبی وثقافتی نظریات اور علمی تصورات پوری طرح رونماہوتے ہیں ۔

 مکاتیب اقبال، علامہ اقبال کے ۷۹ خطوط کا ایک اور مجموعہ ہے یہ خطوط انہوں نے خان محمد نیاز الدین خان صاحب کے نام لکھے تھے۔ جن کو دو صاحبان افتخارالدین خان اور نفیس الدین خاں نے محفوظ رکھا۔ بزم اقبال نے ان سے حاصل کرکے ۱۹۵۴ء میں شائع کیا۔

(1)  بولشویک خیالات رکھنا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے

  ’’مکرم بندہ جناب ایڈیٹر صاحب’زمیندار‘ السلام علیکم

 میں نے بھی ایک اور دوست سے سنا ہے کہ کسی صاحب نے آپ کے اخبار میں یا کسی اور اخبار میں ( میں نے اخبار ابھی تک نہیں دیکھا) میری طرف بولشویک خیالات منسوب کئے ہیں ۔ چونکہ بولشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردید میرافرض ہے۔

  میں مسلمان ہوں، میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حداعتدال سے تجاویز کرجائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے لیکن دنیا کو اس کے مضراثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کردیاجائے، جیسا کہ بولشویک تجویز کرتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس کو مناسب حدود کو اندر رکھنے کے لئے قانون میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کانظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔روسی بالشوزم یورپ کی ناعاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردعمل ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری او رروسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کانتیجہ ہے۔ اعتدال کی راہ دہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کامیں نے اوپر اشارۃً ذکرکیا ہے۔ شریعت حصہ اسلامیہ کامقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کرسکے اور اس مدعا کے حصول کیلئے میرے عقیدے کی رد سے دہی راہ آسان اور قابل عمل ہے جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے۔ اسلام سرمائے کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظرڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے اور ہمارے لئے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کی اقتصادی پہلو کامطالعہ نہیں کیا ورنہ ان کو یہ معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ ’’ فاصبحتم بنعمتہ اخوانا‘‘ میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے کیوں کہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مسادات نہ رکھتے ہوں اور اس مسادات کاحصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کامقصد سرمائے کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کرمذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو اور مجھے یقین ہے کہ خودروسی قوم بھی اپنے موجود نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کرکے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوجائے گی جس کے اصول اساسی یاتو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ موجودہ صورت میں روسیوں کااقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محدود کیوں نہ ہو، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہوسکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان، جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراًمتاثر ہوجاتے ہیں ان کیلئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظرغائر ڈالیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کاحل اس کتاب میں پائیں گے۔ لاہور کی لیبر یونین کے مسلمان ممبر بالخصوص اس طرف توجہ کریں ، مجھے ان کے اغراض و مقاصد کے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر مجھے امید ہے کہ وہ کوئی ایسا طریق عمل یانصب العین اختیار نہ کریں گے جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو‘‘۔(محمداقبال، بیرسٹرایٹ لاء لاہور)

ظاہر قائم نہ رہا تو اس کا باطن کس طرح قائم رہ سکتا؟

’مخدومی۔ السلام علیکم

  والانامہ ما، مشکور فرمایا

میرا تو خیال تھا کہ فرصت کا وقت مثنوی کے دوسرے حصے کو دوں گا جو پہلے سے زیادہ ضروری ہے،مگر خواجہ حسن نظامی نے بحث چھیڑ کر توجہ اور طرف منعطف کر دی ہے۔ تصوف کی تاریخ لکھ رہاہوں ۔ دوباب لکھ چکاہوں ، بعنی منصور حلاج تک، چار پانچ باب اور ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی علامہ ابن جوزی کی کتاب کاوہ حصہ بھی شائع کردوں گا جوانہوں نے تصوف پرلکھا ہے۔ گوان کی ہر بات میرے نزدیک قابل تسلیم نہیں ۔ مگر اس سے اتنا توضرور معلوم ہوگا کہ علمائے محدثین اس کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں ۔ ابن جوزی کی کتاب مطبع مجتبائی دہلی سے ملتی ہے مگر اب اس پر روپیہ نہ خرچ کریں ، کیوں کہ اس کاضروری حصہ میری تاریخ تصوف کے ساتھ شائع ہوجائے گا۔ میں نے مترجم سے چھاپنے کی اجازت لے لی ہے۔

تصوف کے ادبیات کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے تعلق رکھتا ہے،نہایت قابل قدر ہے کیوں کہ اس کے پڑھنے سے طبیعت پر سوزوگداز کی حالت طاری ہوتی ہے۔ فلسفے کاحصہ محض بے کار ہے اور بعض صورتوں میں تومیرے خیال میں تعلیم قرآن کے مخالف، اسی فلسفے نے متاثرین صوفیہ کی توجہ صورواشکال غیبی کے مشاہدے(کی) طرف کردی اور ان کا نصب العین محض گینی اشکال کامشاہرہ بن گیا۔ حالانکہ اسلامی نقطہ ٔ خیال سے تزکیہ نفس کامقصد محض ازدیار یقین و استقامت ہے۔ اخلاقی اور عملی اعتبار سے متصوفین اسلامیہ کی حکایات ومقولات کامطالعہ نہایت مفید ہے، لیکن دین کی اصل حقیقت ائمہ اور علماء کی کتابیں پڑھنے سے ہی کھلتی ہے اور آج کل زمانے کا اقتضایہ ہے کہ علم دین حاصل کیاجائے اور اسلام کی علمی پہلو کو نہایت وضاحت سے پیش کیاجائے۔ حضرات صوفیہ خود کہتے ہیں کہ شریعت ظاہر ہے اور تصوف باطن لیکن اس پر آشوب زمانے میں وہ ظاہر جس کاباطن تصوف ہے، معرض خطر میں ہے۔ اگر ظاہر قائم نہ رہا ہو تو اس کاباطن کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔ مسلمانوں کی حالت آج بالکل ویسی ہے جیسے کہ اسلامی فتوحات کے وقت ہندستان کے ہندوئوں کی تھی یاان فتوحات کے اثر سے ہوگئی۔

ہندو قوم کو اس انقلاب کے زمانے میں منو کی شریعت کی کورانہ تقلید نے موت سے بچالیا۔ اپنی شریعت کی حفاظت کی وجہ سے ہی یہودی قوم اس وقت تک زندہ ہے ورنہ اگر فیلو(پہلا یہودی مقصوف) قوم کے دل و دماغ پر حاوی ہوجاتا تو آج یہ قوم دیگر اقوام میں جذب ہوکر اپنی ہستی سے ہاتھ دھوچکی ہوتی۔والسلام۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔

۱۳؍فروری ۱۹۱۶ء………خاکسار محمداقبال، لاہور

انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کومربی تصور کرنے لگتا ہے

لاہور،۱۰ جولائی ۱۹۱۶ء

          مکرم بندہ،السلام علیکم

          آپ کا خط مجھے مل گیا ہے جس کیلئے میں آپ کاممنوں ہوں ،آپ کے مضامین نہایت اچھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حقائق اسلامیہ کی سمجھ عطا کی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ افسوس ہے مسلمان مردہ ہیں ۔ انحطاط ملی نے ان کے تمام قویٰ کوشل کردیا ہے، اور انحطاط کا سب سے بڑا جادویہ ہے کہ یہ اپنے صید پر ایسا اثر ڈالتا ہے جس سے انحطاط کامسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصور کرنے لگ جاتا ہے۔ یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے۔ مگر ہمیں اپنے ادائے فرض سے کام ہے۔ ملامت کاخوف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ میں مثنوی’’اسرار خودی‘‘ کا دوسرا حصہ لکھ رہا ہوں امید ہے کہ اس حصے میں بعض باتوں پر مزید روشنی پڑے گی۔ حافظ پر ایک طویل مضمون شائع ہونے کامجھے بھی احساس ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس کو باحسن وجود اتمام کرسکتے ہیں ۔آپ کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ جو سامان عقلی و اخلاقی ایسا مضمون لکھنے کے لئے ضروری ہے وہ سب آپ میں موجود ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یاقوم کے دستور العمل دشعار میں باطنی معانی تلاش کرنا یاباطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کردینا ہے یہ ایک نہایت SUBTLEطریق تنسیخ کا ہے اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یاایجاد کرسکتی ہیں جن کی فطرت گو سفندی ہو،شعرائے عجم میں بیشتر وہ شعراء میں اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفے کی طرف مائل تھے۔ اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں یہ میلان طبیعت موجود تھا۔ اور اگرچہ اسلام نے کچھ عرصے تک اس کا نشود نما ہونے دیا، تاہم وقت پاکر ایمان کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا یا بالفاظ دیگر مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدت ابوجود تھی۔ ان شعرا نے نہایت عجیب و غیرب او ربظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردیدو تنسیخ اور اسلام کے ہر محمود شئے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے۔ اگر اسلام افلاس کو براکہتا ہے توحکیم سنائی افلاس کو اعلیٰ درجے کی سعادت قرار دیتا ہے۔ اسلام جہادنی سبیل اللہ کو حیات کے لئے ضروری تصور کرتا ہے،تو شعرائے عجم اس اشعار اسلام میں کوئی اور معنی تلاش کرتے ہیں مثلاً:

غازی زپئے شہادت اندرتگ وپوست

غافل کو شہید عشق فاجل تر ازوست

درروز قیامت ابن باد کے مانند

ایں کشتہ دشمن است وآں کشتہ دوست

  یہ رباعی شاعرانہ اعتبار سے نہایت عمدہ ہے اور قابل تعریف، مگر انصاف سے دیکھے تو جہاد اسلامیہ کی تردید میں اس سے زیادہ دلفریب اور خوبصورت طریقہ اختیار نہیں کیاجاسکتا۔شاعر نے کمال یہ کیا ہے کہ جس کو اس نے زہردیا ہے اس کو احساس بھی اس امر کا نہیں ہوسکتا کہ مجھے کسی نے زہر دیا ہے، بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے آبِ حیات پلایا گیا ہے۔ آہ! مسلمان کئی صدیوں سے یہی سمجھ رہے ہیں ۔

 اس نکتہ خیال سے نہ صرف حافظ بلکہ تمام شعرائے ایران پرنگاہ ڈالنی چاہئے۔ اگر آپ حافظ پر لکھیں تو اس نکتہ خیال کو ملحوظ رکھیں جب آپ اس نگاہ سے شعرائے معروف پر غور کریں گے توآپ کو عجیب و غریب باتیں معلوم ہوں گی۔ یہ طویل خط میں نے صرف اس واسطے لکھا ہے کہ فارسی شعر کے مطالعے میں آپ کادماغ ایک دستے پر پڑجائے۔ انشاء اللہ اسرار خودی، کے دوسرے حصے میں بتائوں گا کہ شعر کا نصب العین کیا ہوناچاہئے۔ایک اور مضمون لکھ رہا ہوں جو ’وکیل‘ میں شائع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ایک ایسی جماعت پیدا کردے جو بقول آپ کے اسلام کے نادان دوستوں کی پیدا کی ہوئی آویز شوں کے خلاف جہاد کرے۔

والسلام

آپ کا مخلص،محمد اقبال

مسجد قرطبہ میں علامہ اقبالؔ کی نماز شکرانہ

 پیرس،۲۶جنوری۱۹۳۳ء

  ڈیئرمنشی طاہر دین۔ السلام علیکم

میں آج شام ہسپانیہ سے مع الخیر واپس آگیا۔ خدا کے فضل وکرم سے وہاں ہر طرح خیرت رہی اور اپنی خواہش کے مطابق مسجد قرطبہ میں نماز پڑھی۔ اب یہاں چند روز قیام کرکے دینس جائوں گا۔وہاں سے جہاز افروری کو چلتا ہے۔ انشاء اللہ العزیز۲۲فروری کو صبح کو بمبئی پہونچ جائوں گا۔ احباب سے دعا کی درخواست کریں ۔ ۲۴ فروری کی شام کو میں نے میڈرڈ (دارالسلطنت ہسپانیہ) میں ’اسلام اور ہسپانیہ‘‘ پر وہاں کے وزیر تعلیم کی درخواست پرلیکچر دیاجس سے لوگ بہت متاثر ہوئے۔ چودھری صاحب کی خدمت میں سلام عرض کریں ۔ افسوس کہ وہ اس سفر میں ساتھ نہ تھے۔

مولوی غلام رسول مہر، سالک اور سید شبیر حیدر صاحب سے سلام کہیں علی بخش اور رحمان کو بھی سلام، جاید منیرہ بیگم اور آپ کے بچوں کو دعا۔ والسلام

محمداقبال

’’نہ خواجہ حسن نظامی رہے گا نہ اقبال

یہ بیج جو مردہ زمیں میں اقبال نے بویا ہے، اگے گا‘‘

لاہور،۱۴ ؍اپریل۱۹۱۹ء

سرکار والا تبار! تسلیم مع التعظیم

والانامہ مورخہ ۷؍اپریل ابھی چند منٹ موصول ہوا۔اس سے پہلے ایک عریضہ لکھ کر ارسال کرچکا ہوں جس میں خواجہ حافظ اور خواجہ حسن نظامی کے متعلق عرض کیاتھا۔امید کہ وہ عریضہ سرکار تک پہونچ گیا ہوگا۔ بات بہت طویل ہے۔ چند روزہ صحبت میسر آئے توعرض کروں ۔ آپ سے ملنے کو دل بھی چاہتا ہے مگر کیا کروں ، پابہ زنجیر ہوں ۔ چند روز کے لئے بھی لاہور چھوڑنا محال ہے۔ کسی وقت اس قسم کے موانع کی وجہ سے اتنا گھبراتا ہوں کہ بے اختیار موجودہ پیشے کی قیود کو توڑتاڑ کر نکل جاناچاہتا ہوں مگر وہی مثل ہے: چہ خورد بامداد فرزندم

مگر جس حال میں ہوں شکر گزار ہوں ۔ شکایت میرے مذہب میں کفر بلکہ شرک ہے۔ یہ مثنوی جس کا نام’’اسرایہ خودی‘‘ ہے، ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔میری فطرت کاطبعی اور قدرتی میلان، سکرومستی و بے خودی کی طرف ہے۔ مگر قسم ہے اس خدائے واحد کی جس کے قبضے میں میری جان و مال اور آبروہے، میں نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لئے کیوں انتخاب کیاگیا۔جب تک اس کا دوسرا حصہ ختم نہ ہولے گا،میری روح کو چین نہ آئے گا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی کااصل مقصد بھی یہی ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہوگی کیوں کہ ہم سب انحطاط کے زمانے کی پیداوار ہیں اور انحاط کا سب سے بڑاجادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزاء اسباب کو اپنے شکار (خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب ومطلوب بنادیتا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بدنصیب شکار اپنے برباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتا ہے مگر:

من صدائے شاعر فرداستم

اور:

ناامید ستم زیاران قدیم

طور من سوزد کہ می آید کلیم

نہ خواجہ حسن نظامی رہے گا، نہ اقبال۔ یہ بیج جو مردہ زمین میں اقبال نے بویا ہے،اُگے گا، ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالفت بارآور ہوگا۔ مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیاگیا ہے۔ الحمد اللہ (خط کایہ تمام صفحہ پرائیوٹ ہے۔ بہتر ہو کہ اسے تلف کردیا جائے)۔ زیادہ کیاعرض کروں

نہ پوچھ اقبال کاٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اسکی

کہیں سررہگذار بیٹھاستم کش انتظار ہوگا

امید کہ سرکارکا مزاج بخیر ہوگا۔بچوں کومیری طرف سے دعا کئے۔ مثنوی کے حصہ دوم کے تین ابتدائی اشعار عرض کرکے اس خط کو ختم کرتا ہوں ۔

چوں مراصبح ازل حق آفرید

نالہ در ابریشم عودم تپید

عشق را داغے مثال لالہ بس

درگریبانش گل یک نالہ بس

من ہمیں یک گل بدستارت زنم

محشرے برخواب سرشارت زنم

خادم دیرینہ محمداقبال

اقبال کا مومنانہ کردار

علامہ اقبال نے جو کچھ کہا اور لکھا وہ پورے یقین کے ساتھ ایک مرد مومن کی حیثیت سے مگر جو لوگ مسلمانوں میں بے عملی اور گمراہی پیدا کرناچاہتے تھے وہ ہر زمانے کی طرح ان کے زمانے میں بھی ان کی راہ کا روڑابنے ہوئے تھے اقبال نے ہرطرح سے ان کا مقابلہ کیا۔ ایک خط میں عرض کیا کہ’’ آپ میری نسبت بدگمانی کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، اور اگر کسی وجہ سے بدگمانی ہوبھی گئی ہو توآپ مجھ سے براہ راست دریافت کرسکتے تھے۔لوگ تو اس قسم کی باتیں اڑایا ہی کرتے ہیں ۔

دوچار روز کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے بیان کیاکہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے یہ مشہور کررکھا ہے کہ اقبال نے اپنی ٹوپی ہمارے قدموں پر رکھ کر ہم سے معافی مانگی ہے اورآئندہ کے لئے توبہ کی ہے میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ جن لوگوں کے عقائد و عمل کاماخذ کتاب و سنت ہے اقبال ان کے قدموں پرٹوپی کیا سرکھنے کو تیار ہے اور ان کی صحبت کے ایک لمحے کو دنیا کی تمام عزت و آبرو پر ترجیح دیتا ہے، لیکن جوبات خواجہ حسن نظامی کی طرف منسوب کرتے ہو تو اس کے لغو ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ زیادہ کیاعرض کروں ۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیرہوگا۔اگر آپ چاہیں تو یہ خط شائع کرسکتے ہیں ‘‘۔ علامہ کتاب و سنت پر کتنا پختہ اور پکایقین رکھتے ہیں اور ہر سچائی اور صداقت کیلئے اس کے سوا کسی اور چیزکی نہ کسوٹی سمجھتے ہیں اور نہ معیار۔ یہی مومن کی پہچان ہے۔(مرتب)

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مغرب کی اسلامی تحقیق اور اقبال

    علامہ اقبال نے اگرچہ مغرب کے علوم و فنون کا گہرا مطالعہ کیا، انہیں وہاں کے کتب خانوں اور علمی خزانوں سے استفادہ کرنے کا بھرپور موقع ملا، علاوہ ازیں مغربی علماء اور ماہرین فکر و فن سے بھی کسب فیض کیا. تاہم اقبال اسلامی تحقیق کے ضمن میں مغربی حکماء کی سعی و کاوش کو کسی طرح بھی قابل اعتماد نہیں سمجھتے. ان کی نظر میں مغرب میں کی جانے والی اسلامی تحقیق کا معیار انتہائی پست اور مخصوص مقاصد کا آئینہ دار ہے. عبداللہ چغتائی کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :
    "انگریزی کتابوں میں ہم ہندی مسلمانوں کو یہ سکھایا ہے کہ منطق استقرائی کا موجد بیکن تھا لیکن فلسفہ اسلامی کی تاریخ بتاتی ہے کہ یورپ میں اس سے بڑا جھوٹ آج تک نہیں بولا گیا ”

    علامہ اقبال اپنے خطبہ "دی سپرٹ آف مسلم کلچر ” میں رقمطراز ہیں :
    "It is a mistake to suppose that the experimental method is an European discovery. Duhring tells us that Roger Bacon’s conceptions of science are more just and clear than those of his celebrated namesake. And where did Roger Bacon receive his scientific training ? In the Muslim universities of Spain. Indeed part V of his ‘Opus Majus ‘ which is denoted to perspective is practically a copy of Ibn e Haitham’s Optics. Nor is the book as a whole, lacking in evidences of Ibn e Haitham ‘s influence on its author. Europe has been rather slow to recognise the Islamic origin of her scientific method. ”

    علامہ اقبال محمد جمیل کے نام ایک خط میں رقمطراز ہیں :
    "اسلام کے ثقافتی اور فلسفیانہ پہلو پر ابھی کام کرنے کی شدید ضرورت ہے. جرمن زبان میں چند کتابیں ہیں جن کا حال ہی میں کلکتہ کے صلاح الدین خدا بخش صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے لیکن وہ کتب بھی کچھ یونہی سی ہیں ".

    اقبال کی نظر میں مغرب میں لکھے جانے والا اسلامی لٹریچر ایسی فکری پستی اور سطحی انداز نظر کا مظہر ہے جس میں کوئی علمی گہرائی اور اسلامی روح کارفرما نہیں. مغرب میں کی جانے والی اسلامی تحقیق مخصوص مغربی ذہن کی آئینہ دار ہے جس کی نہاد تشکیک اور شکوک و شبہات ہیں.
    اقبال ایک خط میں جرمن مصنف گولڈزی کی تصانیف کے متعلق لکھتے ہیں :
    "جہاں تک مجھے علم ہے گولڈزی کی کوئی انگلش کتاب نہیں ہے. وہ ایک جرمن یہودی ہے اور انگریزی میں نہیں لکھتا. اس کی مشہور ترین کتب جرمن زبان میں ہیں اور ان میں کوئی خاص چیز مجھے تو نظر نہیں آتی. میں یورپین مستشرقین کا قائل نہیں کیونکہ ان کی تصانیف سیاسی پراپیگنڈا یا تبلیغی مقاصد کی تخلیق ہوتی ہیں.”

    اقبال نے کبھی کسی طالب علم کو مغربی یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے نہیں کہا بلکہ اس سے منع کیا. ایک مرتبہ حافظ محمد فضل الرحمان انصاری نے اقبال سے مشورہ لینا چاہا کہ وہ اسلامی تحقیق کے لیے یورپ جانا چاہتے ہیں تو اقبال نے انہیں خط لکھا کہ
    "جہاں تک اسلامی تحقیق کا تعلق ہے فرانس جرمنی انگلستان اور اٹلی کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے خاص مقاصد ہیں جن کو عالمانہ تحقیق اور احقاق حق کے ظاہری طلسم میں چھپایا جاتا ہے. سادہ لوح طالب علم اس طلسم میں گرفتار ہو کر گمراہ ہو جاتے ہیں. ان حالات میں آپ کے بلند مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے میں بلاتامل کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے لیے یورپ جانا بے سود ہے

    میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
    اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

    مصر جائیے عربی زبان میں مہارت پیدا کیجئے، اسلامی علوم، اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ، تصوف، فقہ اور تفسیر کا بغور مطالعہ کر کے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کیجیے

تبصرے بند ہیں۔