علماء آرٹ آف ڈائیلاگ سے نابلد ہیں، ان کی گفتگو ٹی وی ناظرین کو سمجھ میں نہیں آتی

تحریر: احمد علی صدیقی

میڈیاجمہوریت کے چار ستونوں سے ایک ہے۔ اگرعمارت کے اندر سے ایک بھی ستون گرجائے یا مخدوش ہوجائے توعمارت کی بنیادہل جاتی ہے۔اسی طرح میڈیا جمہوریت کا ستون ہے،کسی بھی ملک اورسماج کی تعمیرو ترقی میں میڈیا کاکردار سب سے اہم ہوتاہے،میڈیا تشہیر اور پروپیگنڈہ کاسب سے اہم اور مؤثرذریعہ ہے، جھوٹ کو سچ اورسچ کو جھوٹ منوانے اور رائی کا پہاڑبنانے کا فن میڈیا کوبخوبی آتاہے۔ ابھی حال ہی میں جے این یو کے مسئلہ پرمیڈیا کاکردارکافی متعصبانہ اور جھوٹ پر مبنی رہا ہے جب کنہیاکمار پر میڈیا کی سازش بے نقاب ہو نے لگی تو فوراً شیطانی پینترا بدل کر ،عمر خالدپر فوکس کرنے لگی۔ وجہ صاف ہے! عمر خالد کے بہانے مسلمانوں کے حب الوطنی کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ جب کسی مسلمان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاتاہے تو،مانو میڈیا کو محبوب غذامل جاتی ہے اور اسے میڈیا ٹرائل کرکے دہشت گرد ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ۔جبکہ عدالت سے باعزت بری ہو تے ہی میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔اس کی ایک مثال حال ہی میں باعزت بری ہونے والے کئی ایسے افراد ہیں جنکو دہشت گردی کے الزام میں سلاخوں میں ڈال دیا گیاتھااور اس وقت میڈیا اسے دہشت گرد ثابت کرنے میں زمین وآسمان ایک کردی تھی، لیکن تحقیق کے بعد جب کوئی جرم ثابت نہ ہونے کی بنیادپرعدالت نے باعزت بری کرنے کا اعلان کیاتو میڈیاخاموش تماشہ بنی رہی اور اس کی رہائی کی ایک خبر بھی نشر کرنا گوارا نہ کی۔

ٹی وی کے سامنے بیٹھیں تو ایسا لگتاہے کہ دنیاں میں ہر طرح کی برائیاں اور غلط کام کرنے والاصرف مسلمان ہے۔ افسوس اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہم مسلمانوں نے اس طر ف ابھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی ، نہ ایک ذمہ دار شخص کی حیثیت سے اور نہ ہی ایک ذمہ دار قاری کی حیثیت سے۔ ہمارے سرپرست اور رہنما ء اپنے بچوں کو صحافت کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے بارے میں تصور بھی نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ہمارے قومی وملی ادارے اور تنظیمیں بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ اور تھوڑی بہت کوششیں بھی ہیں جو قوم کی بے اعتنائی کا شکار ہوکر دم توڑ گئیں۔ ہمارے علماء کرام بھی اس قومی المیہ میں برابر کے شریک ہیں۔ علماء کرام کو اسلام کادفع کرنے کے لیے میڈ یاکے سامنے اپنی بات رکھنے کا مؤثر انداز بھی نہیں معلوم ہوتا۔ٹی وی پر بھی روایتی انداز میں تقریر کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور ایسی زبان کا استعمال کرتے ہیں جسے ہماری ملک کی اکثریت سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ این ڈی ٹی وی کی مشہور اینکر برکھادت سے جب حافظ عاصم قاسمی صاحب نے سوال کیاکہ آپ ہمارے علماء کو ٹی وی مباحثہ میں کیوں نہیں بلاتی ہیں ؟تو برکھا دت نے افسوس کے ساتھ جواب دیا کہ” آپ کے علماء کو آرٹ آف ڈائیلاگ نہیں آتا اور نہ ہی ان کی گفتگو ہمارے ناظرین کو سمجھء میں آتی ہے ”۔ ہماری بدقسمتی کا عالم یہ کہ جمہوریت کے چوتھے ستون پر ہم نے سرے سے کوئی توجہ نہ دی جسکی وجہ سے ہم غیروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے لگے ۔

اس دور کا سب سے بڑا چیلینج میڈیاہے اور انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ میڈیا کا مؤثر ترین اور طاقتور ہتھیار ان لوگوں کے پاس ہے جنکے پاس نہ ہی انسانیت کے غم میں تڑپنے والا دل ، اور نہ ہی ان کی بدنصیبی پرآنسو بہانے والی آنکھ ، نہ انسانیت کی فلاح و بہبودی اور تعمیر وترقی کا کوئی منصوبہ۔

میڈیا کی یہ طاقت تعمیر کے بجائے تخریب ، کردارواخلاق سنوارنے کے بجائے بے حیائی وبد اخلاقی اورانسانوں کی رہنمائی کے بجائے انہیں راہ حق سے بھٹکانے کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔ شیطان نے جنت سے نکلتے ہوئے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ دنیا میں ایسے ایسے ہم نوا میسر آئیں گے ، جو اس کے کام( لوگوں کو بہکانے )کو از حد آسان بنادیں گے۔ میری مراد دورِ حاضر کا شیطان، میڈیا ہے۔جو لوگوں کے جذبات اوران کی نفسیات سے اس حد تک کھیلتاہے کہ وہ اپنے رب کی بات سے زیادہ میڈیاکی بات پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پیسہ کے سوا ان کاکوئی دین ومذہب نہیں اور دنیا میں شیطانی طاقتوں کا ایک آلہ کار یہی میڈیا ہے۔

میڈیا پر ان لوگوں کا قبضہ ہے جو مسلمانوں کو ظالم بتاکر ان کاخون پانی سے بھی ارزاں کرنے کا جواز رکھتے ہیں، جبکہ پوری دنیا پر یہ بات واضح ہے کہ مسلمان اس دنیا کا سب سے بڑا مظلوم ہے۔ پوری دنیا کا الکٹرانک اور پرنٹ میڈیااس مغرب کی غلامی کرتاہوا نظر آتاہے جو چودہ سو قبل سے ہی مسلمانوں کو ہلاک کردینے کہ در پہ رہاہے۔ لہذا میڈیا پرمغرب کا تسلط ہونے کی وجہ سے آپ تصویر کے صحیح رخ کی امید کیسے کرسکتے ہیں؟عالم یہ ہے کہ اگر متعصب میڈیا مظلوم کو ظالم اور بے قصور کو دہشت گرد لکھے تو پوری دنیا اسی پر ایمان لے آتی ہے ۔کیا اگر قلم (میڈیا) کسی مسلمان کے ہاتھ میں ہوتا تو بھر بھی ایسا ہی ہوتا؟ذراغور کیجئے !میڈیاپر مسلمانوں کا بھی دست قدرت ہوتاتو ایک جھوٹ کو سوبار بول بول کر سچ بنانے کوشش نہ کی جاتی، اور حالاتاس قدر مذموم نہ ہوتے۔

(احمد علی صدیقی کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔