عید ِقرباں :جذبۂ اطاعت کوتازہ کرنے کا دن

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

    اسلام میں دو عید یں ہیں، اور دونوں ہی نرالی شان اور جداگانہ امتیاز رکھنے والی ہیں ۔عید یا تہوارکو دنیا صرف خوشی ومسرت یا وقتی لذت اور خواہش کی تکمیل کا موقع سمجھتی ہے، اسی لئے ان کے یہاں عید منائی بھی اسی انداز میں جاتی ہے، دل کھول کر مزے لئے جاتے ہیں، اچھائی اور برائی کے فرق کو مٹا دیا جاتا ہے اور جو نفس تقا ضا اور دل جس کی تمناکرے بے دریغ اس کو پورا کیا جاتا ہے، اور خود ان کے مذاہب کی تعلیم اور اخلاقی باتوں کو فراموش کیاجاتا ہے ۔لیکن اسلام کا ایک پیا را نظام اور دلکش انداز ہے وہ اپنے پیروؤں کو کسی موقع پر نفس کی غلامی یا خواہشات کی پرستش کرنے نہیں دیتا بلکہ ہر وقت وہ اسی ایک پروردگار کی اطاعت اسی کی فرماں برداری اسی کی مرضی کی تکمیل اسی کے حکم کی تعمیل کا سبق دیتا ہے ۔عید ِقرباں (عید الاضحی )کا دن اسی کا ایک اہم سبق دینے اور جذبہ اطاعت کو تازہ کرنے اور وفا شعاری کاپیغام دینے کے لئے آتا ہے اور سیدنا ابراہیم ؑ اور آپ کے اولوالعزم خاندان کی قربانیوں اور ان کی خلوص و وفا کی یادوں کو تازہ کرواتا ہے، آئیے ایک نظراس بے مثال اطاعت و فرماں برداری پر ڈالتے ہیں ۔

       ۸۶سال کی عمر میں حضرت ابراہیم ؑ کو دعاؤں اور تمناؤں کے بعد ایک خو بصورت وحسین بیٹا حضرت اسماعیل ؑ کی شکل میں عطا ہوا،بڑھا پے کا سہارا اور امیدوں کا مرکز سب حضرت اسماعیل ؑ تھے، مشیت الہی اور حکم خداوندی سے اسی ایک ہونہار اور شیر خوار بیٹے کو حضرت ہاجرہ کے ساتھ ایک چٹیل میدان اورغیر آباد سرزمین پر چھوڑآئے،اللہ تعالی نے خلیل اللہ کی اس اطاعت و فرماں بردای کو قبول فرمااور اس ویرانے کو ایسا آباد کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اہل ایمان کا قبلہ بن گیا اور اس میں ایسی مقناطیسی کشش رکھی کہ ہر مومن وہاں پہنچنے کی آرزو اور تمنا کرتا ہے ۔حضرت ابراہیم ؑ کو چوں کہ انسانیت کا امام بنانا تھا اور خلت سے سرفراز کرنا تھا، اللہ تعالی نے آپ ؑ کی اطاعت و فرماں داری کا ہر مرحلہ پر امتحان لیا، اور ہرموقع پر خوب جانچا ۔ایک امتحان بڑا ہی عظیم الشان لینا باقی تھا اور اس امتحان کے بعد انعامات و نوازشات کا سلسلہ شروع ہونے والاتھا،عظمت و عقیدت کا مرکز بننے والے تھے اور خلق خد اکے لئے اطاعت و وفا، فرماں برداری وامتثال امر میں ایک نمونہ بننے والے تھے اس لئے امتحان بھی بڑا سخت اور کٹھن طے ہوا۔

     حضرت اسماعیل جب چلنے پھرنے اور والد حضرت ابراہیم ؑ کا ساتھ دینے کے لائق ہوگئے، تقریبا ۱۳ سال کی عمر کو پہنچ گئے(روح المعانی:۲۳/۱۲۸بیروت)اور ماں باپ کے لئے ایک سہارا بن کر ابھرنے لگے اسی دوان پہلے دن حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے فرزند کو ذبح کررہے ہیں، صبح اٹھے توبڑی تشویش ہوئی اور تذبذب کا شکار رہے، دوسرے دن بھی اسی طرح دکھائی دیا،اب آپ سمجھ گئے کہ انبیا ء کے خواب جھوٹے نہیں ہوتے، یہی اللہ کا حکم ہے،صبح بیدار ہوئے تو حقیقت سمجھ میں آگئی تھی، اس خواب کا تذکرہ کرنے آپ اسماعیل ؑکے پاس آئے اور اپنے خواب کو بیان کیا۔جیسا اطاعت گزارباپ تھا ویسا فرماں بردار بیٹا بھی، حضرت اسماعیل ؑنے فرمایا کہ:اباجان! آپ کو جوبھی حکم دیا جارہا ہے آپ اس کو پورا کیجئے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(الصافات:)خواب کے پہلے دن کو یوم الترویہ ( تذبذب کا دن )دوسرے دن کو یوم العرفہ( پہچان لینے کادن) اور تیسرے دن جس میں قربانی کے لئے دونوں نکلے یوم النحر(قربانی کادن )کہا جاتاہے۔(الجامع لاحکام القران للقرطبی:۱۸/۶۶بیروت)اتنا حیرت انگیز خواب باپ نے اپنے بیٹے کو اس واسطے بیان نہیں کیا کہ اگر وہ انکار کردے تو عذر مل جائے گا، بلکہ حضرت ابراہیم ؑنے اس کا ذکر اس واسطے فرمایا تاکہ بیٹے کابھی ایمانی معیار جانچا جائے، حکم خدا کی عظمت اور اس کوپورا کرنے کے شوق و جذبے کو پرکھا جائے،اور اطاعت و فرماں برداری میں وہ بھی شریک رہے۔( مواقف الایمان من قصۃ ابراہیم:۳۳)اب تاریخی انسانی کے عظیم و نادر واقعہ کو اپورا کرنے اور اطاعت و فرماں داری بے مثال کارنامہ رقم کرنے کے لئے باپ اور بیٹا دونوں تیار ہوگئے۔تاریخ انسانی میں قربانیاں تو یقینا بے شمار ہیں اور ہر کسی کی قربانی ایمان افروز بھی، پیغمبروں نے حق کے لئے حیرت انگیز قربانیاں دیں، راہ حق میں کٹھن منزلوں سے گزرے ۔لیکن محبت الہی میں حضرت ابراہیم کی قربانیاں کچھ انفرادی حیثیت اور جدا گانہ شان رکھتی ہیں ۔حضرت ابراہیم ؑنے بیٹے اسماعیل  ؑکو تیار کروالیااوردونوں مل کر گھر سے چل پڑے،شیطان جو اب تک خاموشی سے اب تک کی کاروائی کو دیکھتا رہا، اور اس خوش گمانی میں تھا کہ باپ اپنے بیٹے کو کیسے ذبح کرنے لے جاسکتا ہے ۔کیوں باپ تو آخر باپ ہے؟لیکن جب اس نے حکم خدا کو پورے کرنے والے ابراہیم ؑکو یہاں تک کامیاب پایا اور آگے بھی اللہ تعالی کی مرضی کو پورا کرنے کا یقین ہوچکا تو سب سے پہلے وہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس انسانی شکل میں آیا اور کہنے لگا کہ : اے شیخ آپ کہاں کہ ارادے سے جارہے ہیں ؟آپ نے جواب دیا کہ اس گھاٹی میں مجھے کام ہے اس لئے جارہا ہوں، کہنے لگا کہیں اس حاجت کو تو پورا کرنے نہیں جو آپ نے خواب میں د یکھا کہ اپنے اس بیٹے کو- جو نبی ہونے والاہے -ذبح کررہے ہیں ؟حضرت ابراہیم ؑسمجھ گئے کہ یہ شیطان ہے،آپ نے کہا:اے دشمن خدا! مجھ سے دور ہوجا، ضرور میں اپنے رب کے حکم کو پورا کروں گا۔جب شیطا ن حضرت ابراہیم ؑسے ناامید ہوگیا تو حضرت اسماعیل ؑکے پاس آکر کہنے لگاکہ تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے والد تمہیں کہا ں لے جارہے ہیں ؟حضرت اسماعیل نے فرمایا کہ لکڑیاں لانے کے لئے ۔اس نے کہا کہ نہیں تمہیں ذبح کرنے لے جارہے ہیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ یہی اللہ کا حکم ہے ۔جب اس نے خود حکم الہی ہونے کا ذکر کیا تو حضرت اسماعیل ؑنے کہا کہ پھر میں حکم الہی کو پورا کرنے کے لئے اطاعت کے لئے تیار ہوں ۔جب وہ یہاں بھی مایوس ہوگیا تو حضرت ہاجرہ کے پاس آیا اور اسی سوال کو دہرایا کہ تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے خاوند بیٹے کو لے کر کہاں گئے ؟حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ جنگل میں کام سے لے گئے ہیں، اس نے کہاکہ نہیں بلکہ بیٹے کو ذبح کرنے، حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ وہ تو اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتے ہیں ایسا کیسے کرسکتے ہیں ؟شیطا ن نے کہا کہ ابراہیم ؑکا گمان ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے، جوں ہی حکم الہی کی بات آئی حضرت ہاجرہ نے بھی فرمایا کہ اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو میں بھی اس کو تسلیم کرتی ہوں،  شیطان اس اطاعت گزار و وفاشعار خاندان کو بہکانے سے نامراد لوٹ گیا۔( تاریخ الطبری:۱/۲۷۴مصر)شیطان نے ہر موقع پر حضرت ابراہیم کو روکنا چاہے اور باربار منع کرنے آنے لگا، جب حضرت ابراہیم ذبح کے لئے آگے بڑھے تو شیطا ن وہاں آگیا اور آپ سے آگے بڑھنا چاہا لیکن حضرت ابراہیم آگے نکل گئے، جبرئیل ؑ حضرت ابراہیم ؑکو لے کر جمرہ عقبی کے پاس آئے وہاں شیطا ن پھر آگیا، آپ نے سات کنکریاں مار یں، اسی طرح جمرہ وسطی کے پاس آیا وہاں بھی سات کنکریاں ماریں اور جب وہ جمرہ آخری کے پاس نمودار ہو ا وہاں بھی سات کنکریاں ماریں اور بھگادیا۔(الدرالمنثور:۱۲/۴۳۰)اطاعت الہی میں سر شار باپ بیٹے چلتے رہے یہاں تک کہ اس مقام پر آپہنچے جہاں اس عظیم امتحان کو پورا کرنا تھا اور حکم خداکی تعمیل کا مظاہرہ کرنا تھا۔حضرت اسماعیل ؑنے اپنے والد محترم حضرت ابراہیم ؑسے فرمایا کہ:اباجان! میرے پاس ایک ہی سفید کپڑا ہے آپ اس کو نکال لیجئے تاکہ اسی میں مجھے کفناسکو،میرے ہاتھوں کو مضبوط باندھ دیجئے تاکہ میں زیادہ حرکت نہ کروں، کیوں کہ اگر میں زیادہ حرکت کروں گا تو خون زیادہ پھیلے گا، اورجب خون آلود کپڑوں کو میری ماں دیکھے گی تو انہیں بہت تکلیف ہوگی،آپ مجھے پیشانی کے بل لیٹادیجیے تاکہ ذبح کرتے وقت میرا چہرہ آپ کے سامنے نہ، ورنہ کہیں شفقت پدری حکم الہی کو انجام دینے میں غالب نہ آجائے، چھری تیز کرلیجے تاکہ جلد ی اور آسانی کے ساتھ کام پورا ہوجائے،اور جب آپ گھر پہنچے تو ماں کو میرا سلام سنادینا۔۔۔اطاعت و فرماں بردای سے لبریز بیٹے کی باتیں سن حضرت ابراہیم ؑبھی آبدیدہ ہوگئے اور بیٹے کی پیشانی کو بوسہ دیا۔حضرت اسماعیل ؑکی اس اطاعت،فرماں برداری اور سراپا انقیاد کا ذکر علامہ اقبال ؒ نے کیا کہ:

      یہ فیضان ِ نظر تھایا مکتب کی کرامت تھی

  سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب ِفرزندی

 کیا عجیب وقت ہوگا جب آسمان کی آنکھیں اس منظر کو دیکھ رہیں ہوں گی کہ باپ خود اپنے ہاتھوں اپنے لاڈلے اور اکلوتے بیٹے کو صرف محبت الہی میں اور حکم الہی کی تعمیل میں ذبح کرنے تیار ہے اور گردن پے چھری بھی چلارہاہے لیکن چھری چلنے کا نام نہیں لیتی، حضرت ابراہیم ؑ اپنا پورا زور لگارہے ہیں کہ چھری چلے اور باگارہ خدامیں محبت کا نذرانہ پیش ہوجائے، مگر چوں کہ اللہ تعالی کو اصل مقصو د ابراہیم خلیل اللہ کا امتحان لینا تھا، بیٹے کو ذبح کرانا نہیں تھا اس لئے چھری اپنا اثر کھوچکی تھی ۔جب سیدنا ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے حکم خداکو پورا کرنے کا کام انجام دیدیا، بالآخر اللہ تعالی نے اپنے خلیل کواس موقع پر بھی کامیاب دیکھااور محبت الہی میں سرشار پایا تو آواز دی:ونادیناہ ان یا ابراھیم  قد صدقت الرؤیا اناکذلک نجزی المحسنین ان ھذا لھو البلا ء المبین وفدینٰہ بذبح عظیم وترکنا علیہ فی الاخرین سلام علی ابراھیم( الصافات:۱۰۴۔۱۰۹)اور ہم نے آواز دی کہ : اے ابراہیم !تم نے خواب کو سچ کردکھایا۔یقیناہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں ۔یقینا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا۔اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچالیا۔اور جو ان کے بعد آئے، ان میں یہ روایت قائم کی ( کہ وہ یہ کہا کریں کہ:)سلام ہوا براہیم پر۔

     حضرت ابراہیم ؑ اس عظیم اور حیر انگیز امتحان میں کامیاب ہوگئے، وفا شعار بیٹے نے حکم خدا کو پوراکرنے میں باپ کا مکمل ساتھ دیا۔باپ اور بیٹے کی یہ ادائیں اور اطاعت اللہ تعالی کو اس قدر پسند آئیں کہ تاقیامت قربانی کے عمل کو مسلمانوں میں جاری کردیا او رجانور کی قربانی کو انجام دینے کا تاکیدی حکم بیان کردیا ۔نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے پوچھنے پر فرمایا کہ :ھی سنۃ ابیکم ابرھیم۔( ابن ماجہ :حدیث نمبر۳۱۲۶ ) یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم کی یادگار ہے ۔ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ :عید کے دن قربانی کے عمل سے زیادہ کوئی اور عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں ۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۴۰۹)اس کی اہمیت کو آپ ﷺ نے بیان کرتے ہوئے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ :جو آدمی وسعت اور گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ نہ آئے۔( ابن ماجہ:حدیث نمبر۳۱۲۲)یہ اور اس جیسی دیگر روایتیں قربانی کی عظمت کو بیان کرتی ہیں اور اس کو انجام دینے کی تاکید کرتی ہیں ۔اللہ تعالی نے اس قربانی کے نظام کو امت میں باقی رکھ کر یہی چاہا کہ مسلمان ہمیشہ اس واقعہ سے سبق حاصل کریں، اطاعت الہی میں کس درجہ اللہ کے ان نیک بندوں نے اپنے آپ کو مٹایا تھا؟اور حکم خدا کو پورا کرنے میں کیسی کٹھن منزلوں سے گزر کر محبوبیت کے مقام کو حاصل کیا تھا ؟۔قربانی سے مقصود مسلمانوں کے جذبۂ اندروں کو دیکھنا ہے، ان کی اطاعت و فرماں برداری کوپرکھنا ہے، اتباع و انقیاد کا جائزہ لینا ہے ۔اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالی نے صاف فرما دیا کہ :لن ینال اللہ لحومہا ودمائوھاولکن ینا لہ اللہ التقوی منکم ۔(الحج:۳۷)اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے ۔قربانی کرتے وقت ایک مسلمان دعا پڑھتا ہے :ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ بذلک امرت وانا اول المسلمین۔( الانعام:۱۶۲)بیشک میری نماز،میری عبادت اور میراجینامرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تما جہانوں کا پروتردگار ہے، اس کاکوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والاہوں ۔ان چیزوں سے در اصل بندہ کے جذبۂ اطاعت کو تازہ کروایاجارہاہے اور عہد و وفا کی تجدید کروائی جارہی ہے، اس کے ذہن ودل میں یہ بات پیوست کی جارہی ہے کہ دنیا میں لئے  میرے سب سے عظیم اور اہم چیز وہ حکم خدا کی پاسداری اور اس کی اطاعت و وفاداری ہے ۔اس کے حکم کو پورا کرنے کے لئے ہر چیز قربان کرنا پڑے تو میں بے دریغ کرنے تیار ہوں جس طرح آج ہی کے دن سیدنا خلیل اللہ ؑنے اپنے بیٹے کو قربان کرنے تیار ہوگئے تھے ۔

     قربانی مسلمان سالہاسال سے دیتے آرہے ہیں، اس میں کچھ جذبہ دل کے ساتھ دیتے ہیں، کچھ روایات کو برقرار رکھنے کے لئے اور کچھ اپنی شان اور عظمت کو باقی رکھنے کے لئے، ان تمام میں اصل قربانی صرف ان ہی لوگوں کی قابل قبول ہو گی جو پورے خلوص کے ساتھ دیں گے، اور نہ صرف جانور کی قربانی دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھیں گے بلکہ وقت پڑا تو خواہشات کی قربانی بھی دیں گے، ناجائز تقاضوں کی قربانی بھی دیں گے،اپنی مرضی کی قربانی بھی دیں گے، اور شریعت مطہرہ کو زندہ کرنے غیروں کے عادات و اطوار اور ان کے کلچر کی بھی قربانی دیں، تہذیب جدید کو قربان کریں گے اور سنت رسول کو آبادکریں، ہر کام میں اللہ ہی کو راضی کریں گے اور کہیں گے کہ اسی مرضی اسی کا حکم پورا کرنا ہمارا ایمان ہے، نفس و خواہشات کے دام سے نکل کر اطاعت الہی کے سائے میں آئیں گے، ان جذبات کے ساتھ قربانی دینا ہوگا، اسی کی مشق و تربیت کرانے اور قلب و ذہن کواسی فکر سے آراستہ کرنے کے لئے سال میں ایک مرتبہ جانور کی قربانی دلائی جاتی ہے تاکہ تما م وعدوں کو پورا کرنے تیار ہوجائے، اور جذبہ اطاعت سے سرشا رہوجائے۔

تبصرے بند ہیں۔