مسلم مجلس مشاورت کا قضیہ اورحل کی تدبیر

سید منصورآغا

دہلی کے ایک اردروزنامہ میں15ستمبرکومحترم مولانا سیدجلال الدین عمری کا ایک خاص انٹرویوشائع ہواہے۔ جس میں بشمول مسلم مجلس مشاورت کئی اہم امور پرمحترم مولانا کی رائے سامنے آئی ہے۔ موصوفِ محترم، صاحبِ بصیرت عالم دین،معروف مصنف وخطیب، جماعت اسلامی ہند کے امیر، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر اور مسلم مجلس مشاورت کی رہنما کونسل کے سینئررکن ہیں۔ ان کی باتیں دور تک سنی جاتی ہیں۔ اس انٹرویو میں جو باتیں مولانا سے منسوب شائع ہوئی ہیں، ان کے بارے میں چند معروضات پیش خدمت ہیں۔

مسلم مجلس مشاورت:

اخبارکے مطابق محترم مولانا نے فرمایا ’’مشاورت میں جو صورتحال پیدا ہوگئی ہے، ہمیں اس سے سخت تشویش ہے۔ فریقین سے گفتگوکی جاتی رہی ہے، مگرافسوس کوئی حل نہیں نکل سکا۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے، وہ فریق نہیں بننا چاہتی۔ دونوں گروپ اپنے مطالبات پر اٹل ہیں۔دستوری طور سے جو صدرہیں، وہ اپنی صدارت پر اصرارکررہے ہیں۔ دوسرا گروپ استعفے کے مطالبہ پر بضد ہے۔ کوئی اپنے موقف سے ہٹنے کیلئے ایک انچ بھی تیار نہیں۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ عدالت سے مقدمہ واپس لیا جائے۔ بظاہرمفاہمت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مشاورت میں تقسیم کے اندیشے پران کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوناچاہئے۔ ماضی میں تقسیم ہوئی تھی، اگر پھر ایسا ہوا تومشاورت کا وقار ختم ہوجائے گا۔ مشاوت کوتحلیل کرکے نیا وفاق بنانے کے بارے میں مولانا عمری نے کہا کہ اس حد تک جانے کی ضرورت نہیں، کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی۔‘‘

مولانا عمری کا یہ بیان ان کی دوحیثیتوں کی وجہ سے نہایت اہم ہے۔ اول وہ مشاورت میں شامل سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ اعلیٰ ہیں۔ دوسری یہ کہ مشاورت کی سپریم گائڈنس کونسل کے بانی چیرمین حضرت مولانا سالم قاسمی ؒ کی وفات کے بعدکونسل کی سینئر ترین رکن ہونے کے ناطے وہ اس کے چیرمین ہیں۔ مولانامحترم نے کا یہ فرماناکہ’بظاہرمفاہمت کی کوئی صورت نظرنہیں آتی‘ سخت تشویش کا باعث ہے۔ لیکن اختتام کلام یہ فرمانا کہ’ کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئیگی‘ بیشک حوصلہ افزا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کالم نویس کو مشاورت کے کئی محترم رہنماؤں سے ملاقات کا موقع ملا۔ خداکرے یہ اندازہ غلط ہو، کہ نوماہ سے جاری اس تعطل کو ختم کرانے کی جیسی تدابیرہونی چاہئے تھیں، وہ نہیں ہوسکی ہیں۔مشاورت آئی سی یو میں ہے۔ اسے فوری خصوصی توجہ درکار ہے۔ کئی دن سے خیال آرہا تھا کہ معزز ارکان کومتوجہ کرنے کیلئے خط لکھا جائے۔ لیکن اب جب کہ ایک اعلیٰ منصب سے یہ بات اخبار میں آگئی تو اسی ذریعہ سے یہ چند باتیں عرض ہیں۔(قضیہ کی تفصیل سے مطلع کرنے کیلئے ارکان الگ سے خط لکھا جائے گا۔)

عرض یہ ہے کہ اب تک جو ’کوششیں‘ہوئی ہیں ان کا دائرہ ان چند افرادسے ملاقاتوں سے آگے نہیں بڑھا جن کومولانا نے ’فریق‘کہا ہے۔ ہماری نظر میں وہ صرف فریق مقدمہ ہیں۔ اصل فریق خود مشاورت، اس کی رکن جماعتیں اورمحترم ارکان ہیں۔ ابھی تک رکن جماعتوں کے ذمہ داروں سے اورمحترم ارکان کے ساتھ مشاورت نہیں ہوئی ہے جو ملک بھرمیں پھیلے ہوئے ہیں۔ان میں سے اکثرکو پورے معاملے کا علم بھی نہیں ہے۔ حالانکہ انہوں نے مشاورت کو اپنے خون جگرسے سینچا ہے۔ ہماری ملی تنظیموں کا سب سے بڑاوفاق ایسا بے بس نہ ہوجاناچاہئے کہ ایک چھوٹے سے قضیہ کو حل نہ کر سکے۔ اس تعطل سے مشاورت کے وقارکوسخت نقصان پہنچ رہا ہے۔غورکیجئے اس سے کیا پیغام جارہا ہے! مشاورت کا مطلب ہے کہ جملہ امور میں مشورے سے راہ نکالی جائے نہ کہ عدالت کارخ کیا جائے۔ یہ صورت تواس وقت بھی پیدا نہیں ہوئی تھی جب مشاورت تقسیم ہوئی تھی۔

اختتام کلام مولانا محترم نے فرمایا ہے کہ کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئیگی، لیکن ہماری ادنیٰ گزارش ہے کہ اس کیلئے مزید تاخیر کے بغیر مرحلہ وار تدابیر کی جائیں۔پہلے مرحلے کے طورپر سپریم گائڈنس کونسل کی میٹنگ طلب کرکے اس میں غورکیا جائے۔ مناسب ہوگا کہ اس سے ن ارکان کو الگ رکھا جائے جو خود اس قضیہ میں فریق کا کرداراداکررہے ہیں۔ اگراس میں خاطرخواہ پیش رفت نہ ہو تو بلاتاخیر رکن جماعتوں کے اعلیٰ عہدیدار اورمشاورت کے سینئر ارکان کی میٹنگ کی جائے اور مل بیٹھ کر کوئی راہ نکالی جائے۔ امید ہے کہ جو رائے بنے گی وہ موثر ہوگی۔اگراندیشہ ہو کہ اس سے بات نہیں بنے گی توچنددیگرتدابیر پر غورکیا جاسکتا ہے۔مثلا کسی سابق جج کی خدمات حاصل کی جائیں جو مشاورت کے آئین اور سابقہ روایات کو پیش نظر رکھ حل تجویز فرمائیں۔ صرف آئین کافی نہیں جس کے انگریزی اوراردونسخوں میں مطابقت نہیں۔جس میں عرصہ سے ترامیم زیرغورہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے آئین کا ناقص ہونا تسلیم شدہ ہے۔سابقہ روایات قانون کا درجہ رکھتی ہیں اورزیادہ اہم ہیں۔ایک صورت ثالثی کی ہوسکتی ہے، مگراس کیلئے کوئی پیشگی شرط نہیں ہونی چاہئے۔ثالثی میں بھی سابقہ روایات کو پیش نظررکھا جائے۔آخری قدم یہ ہونا چاہئے کہ سپریم گائڈنس کونسل تمام ارکان کی تحریری رائے طلب کرے اور اکثریت کی رائے کو پیش نظررکھ کرمعاملہ حل ہو۔ امید کہ ان کوششوں کا اخلاقی اثرہوگا اورجو فریق ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں، اجتماعی رائے کا احترام کریگا۔ اس کے باوجود اگرہٹ دھرمی جاری رہتی ہے توسمجھ لینا چاہئے:

چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری ہے
کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں

یہ واضح رہنا چاہئے کہ مقدمہ مسئلہ کا حل نہیں۔ جس شخص سے اختلاف مقدمہ کابہانا ہوا، وہ بقول مولانا عمری صاحب ’دستوری صدر‘ کی حیثیت سے منصب پر فائز ہے۔ البتہ ووٹنگ کے باوجود گنتی رک جانے سے عاملہ کی تشکیل رک گئی ہے۔ مقدمہ میں رولنگ جس فریق کے خلاف آئیگی اس کیلئے اپیل کا دروازہ کھلا ہے اورعدالت کو فیصلہ کرنے کی کوئی عجلت نہیں ہوگی۔

ایک گزارش:

آخر میں ایک گزارش نہایت ادب سے یہ کہ ہمارے ذمہ داراصحاب کو اپنی رائے کا اظہارخوب غوروفکرکے بعد کرنا چاہئے۔جب کسی کوتائید کااشارہ دیدیا جائے، تواس پرقائم رہیں۔ البتہ اگر حالات کے تغیر سے رائے میں تبدیلی ضروری ہو تولازماًمتعلقہ شخص کواعتماد میں لے کر اقدام ہو، تاکہ صداقت اور امانت پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔