مودی کے ہندوتو میں سیندھ لگانے کی تیاری

تبسم فاطمہ

سب کچھ ایک سکنڈ میں ہوا، جس کی امید نو کانفیڈنس موشن کے دن، ہال میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کو نہیں تھی۔ راہل گاندھی اپنی جگہ سے بڑھے اور مودی کے گلے لگ گئے۔ مودی کا چہرہ اس وقت دیکھنے کے لائق تھا۔ دو چار سکنڈ تک وہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ مگر پھر انہیں احساس ہوا کہ پارلیمنٹ ہائوس میں لگے ہوئے کیمرے میں ان کے تاثرات درج ہورہے ہیں۔ انہوں نے فوراً  رخ بدلا۔چہرے پر مسکراہٹ لائے۔ راہل کو بلایا۔ مگر تب تک یہ منظر ہندوستان کی نئی تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اپازیشن کی ہر بات کو ہنسی میں اڑانے والے مودی اس نئے ڈرامے کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میڈیا، سوشل میڈیا اور اخباروں میں راہل بنام مودی کی بحث چل پڑی۔اس ایک حرکت سے راہل نے مودی کو بیک فٹ پر لانے کا جو کام کیا، اس سے بی جے پی والے بھی سہم گئے۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیاتھا کہ راہل کا تیر نشانے پر بیٹھا ہے اور کانگریس اس لمحے کو بھنانے کی کوشش کریگی۔ اور یہی ہوا۔ مہاراشٹر اور کئی ددسری ریاستوں میں بھی اس تصویر کو 2019کے مشن کے لئے استعمال کیاجانے لگا۔ پوسٹر میں سرخی لگائی گئی کہ ہم نفرت کو محبت سے جیتیں گے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا راہل گاندھی اپنے دم پر یہ کرپائیں گے۔؟اس دن کئی باتیں اور بھی ہوئیں۔ بیلاگ اور نان اسٹاپ بولنے والے مودی اپنی تقریر لکھ کر لائے تھے۔ اور راہل گاندھی بغیر کسی پرچے کے مودی کو سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کررہے تھے۔ اس لئے بی جے پی کے وہ لوگ جو راہل گاندھی پر یہ طنز بھی کرتے تھے کہ راہل گاندھی ہمیشہ دوسروں کا لکھا ہو ا پڑھتے ہیں، یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی۔ اس دن راہل کے اندر غضب کا اعتماد نظر آرہا تھا۔ جب کہ مودی کے چہرے پر مسلسل کشمکش کے آثار تھے۔ مودی نے اپنی تقریر کے لئے 9بجے رات کا وقت رکھا تاکہ پرائم ٹائم کے بعد ان کی تقریر کو لے کر کوئی حملہ نہ ہو-

اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں کوئی پریشان نہیں کہ 2019کے الیکشن کو لے کر مودی اور امت شاہ بھی مطمئن نہیں ہیں کہ 2014جیسا کوئی معجزہ ہوسکتا ہے۔ تازہ صورتحال یہ بھی ہے کہ این ڈی اے میں بھی دراڑ صاف نظر آرہی ہے۔ شیو سینا ان سے ناراض ہے۔ نتیش کمار نے بھی اپنا کارڈ ابھی کھیلا نہیں ہے اور مودی اس بات سے بھی واقف ہیں کہ نتیش کمار پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ ادھر راہل گاندھی کے سیاسی قد میں اضافہ ہواہے۔ کرناٹک کے سیاسی گیم میں ایک اہم کردار راہل گاندھی کا بھی رہاہے۔ اور ادھر انہوں نے رافیل ڈیل اور موب لنچنگ کو لے کر جس طرح مودی کے خلاف محاز کھولا ہے، اس نے بھی این ڈی اے کی نیندیں اڑادیں ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مودی کے این ڈی اے میں 100ایسے کانگریسی شامل ہیں جو کانگریس سے ٹوٹ کر 2014سے پہلے این ڈی اے کا حصہ بنے تھے۔ مہاگٹھ بندھن کی مقبولیت کو دیکھ کر یہ کانگریسی گھر واپسی کا ارادہ کرسکتے ہیں۔

اس درمیان ہندوستان سیاست میں تیزی سے تبدیلیاں رونماں ہوئیں۔ پہلے خبر آئی کہ 2019میں وزیر اعظم کا چہرہ راہل گاندھی ہوں گے۔اس تجویزکی سابق وزیر اعظم دیوگوڑا اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادونے پرزور حمایت کی۔ پھر کانگریسی خیمے سے یہ بیان آگیا کہ مہاگٹھ بندھن سے کسی بھی چہرے کو زیر اعظم بنایا جاسکتاہے۔ اس خبر کے آتے ہی کانگریس میں بھی اختلاف رائے صاف نظر آتی ہے۔ اگر راہل گاندھی نے یہ بیان مہاگٹھ بندھن کی مضبوطی کو قائم رکھتے ہوئے دیاہے تو پھر یہ بڑا قدم ہے۔ کیونکہ کانگریس تمام ناکامیوں کے باوجود ابھی بھی قومی سطح کی بڑی پارٹی کا درجہ رکھتی ہے اور عظیم اتحاد کو جیت ملتی ہے تو پہلا حق راہل گاندھی کا نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے تو اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سونیا کو وزیر اعظم نہ بننے دینے کے پیچھے بھی راہل گاندھی کا ہاتھ تھا۔ اندراگاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی کا وزیر اعظم بننا سونیا کو قطعی پسند نہیں تھا۔ مشہور صحافی رشید قدوائی نے سونیا کی سوانح عمری میں یہ باتیں تفصیل سے لکھی ہیں۔ پی سی الکزنڈر کے حوالے سے رشید قدوائی نے لکھا ہے کہ سونیانے راہل سے کہا، وہ تمہیں مارڈالیں گے۔ راجیو کا جواب تھا، میرے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اسی طرح راہل گاندھی بھی پہلے سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یہ بات کئی موقعوں پر دیکھی گئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری کی جگہ وہ پردے کے پیچھے سے کمان اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہوں۔

لیکن راہل گاندھی کی مصیبت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ بی جے پی نے اترپردیش میں مایاوتی پر ڈورے ڈالنے شرو ع کردئے ہیں۔ یہاں تک کہ تیس سیٹ کے ساتھ انہیں نائب وزیر اعظم بنانے کا خواب بھی دکھایا جارہا ہے۔ مایاوتی اب تک راہل کے ساتھ ہیں لیکن مستقبل میں کیاہوگا؟ یا کون سی پارٹی کون ساکردار اداکریگی، ابھی کہنا مشکل ہے۔ اکھلیش کی ان معنوں میں تعریف کرنی ہوگی کہ اکھلیش مسلسل مہاگٹھ بندھن کی مضبوطی کے لئے کام کررہے ہیں اور یہ بیان بھی دیا کہ اگر اترپردیش سے سماج وادی کو کم سیٹ ملتی ہے تب بھی وہ اس گٹھ بندھن پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اگراس اتحاد میں کوئی کمی نہیں آتی ہے تو امت شاہ کی این ڈی اے کو اتر پردیش میں پندرہ سیٹ آنی بھی مشکل ہوجائے گی۔ بہار کا معاملہ یہ ہے کہ امت شاہ اور نتیش کمار کی ملاقات کے باوجود یہ طئے نہیں ہے کہ جے ڈی یو کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ آپسی رنجش اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جے ڈی یو کے مقرر اب لگاتار فرقہ وارانہ طاقتوں کے خلاف بیان دے رہے ہیں۔ ادھر تیجسوی یادو نے آر جے ڈی میں نتیش کے دروازے پہلے سے ہی بند کررکھے ہیں۔ اگر یہ دروازہ نہیں کھلتا تو نتیش کو بہار کی این ڈی اے میں کم سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا ہوگا کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

کانگریسی یہ بھی بھول گئے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی ریجنل پارٹیوں کی حمایت نہ ملے تو کانگریس کی طاقت خود بہ خود ختم ہوجاتی ہے۔ ابھی کانگریس اس لئے مضبوط نظر آرہی ہے کہ اس کے ساتھ اتحادی پارٹیاں کھڑی ہیں۔ سابق وزیر اعظم دیو گوڑا اور اکھلیش کی حمایت مل جانے کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ مہاگٹھ بندھن کو 2019کے پرائم منسٹر کے چہرے کے لئے، کس کا چہرہ منظور ہوگا۔ یہ اچھی بات ہے کہ راہل گاندھی لگاتار اقلیتوں کے مسائل اور ملک کے مسائل کو اٹھارہے ہیں لیکن ابھی دلی بہت دور ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ چندرابابو نائیڈو، ممتا بنرجی، جیسے سیاستداں ابھی وزیر اعظم کیلئے راہل کے چہرے کی امیدواری پر مہر لگائیں گے۔

ہندوستان خوفناک حالات سے گزررہا ہے۔موب لنچنگ کے واقعات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ششی تھرور کو اپنے ایک مضمون میں یہاں تک لکھنا پڑا، کہ اس ملک میں مسلمان ہونے سے بہتر گائے ہونا ہے۔ 2014کے بعد موب لنچنگ میں 390سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ مرکزی حکومت کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ گئو رکشکوں کو ان لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ راہل گاندھی نے مودی کے انڈیا کو کرور نیو انڈیا کانام دیا ہے جہاں انسانیت کی جگہ نفرت نے لے لی ہے۔ حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود گئو رکشکوں کے تیور میں کوئی فرق آیا ہے نہ مرکزی حکومت اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ موب لنچنگ کو روکنے کے حق میں ہیں۔ کانگریس اور اتحادی پارٹیوں کے گٹھ بندھن سے بوکھلائی بی جے پی کے پاس اب اکیلا راستہ یہی بچتا ہے کہ مسلمانوں کی مخالفت میں اکثریت کو ایک کیاجائے۔ میڈیا اپنے پرانے رخ پر کاربند ہے۔ ایک ٹی وی چینل میں مفتی کو بلاکر رسوا کیے جانے کے حادثے کے باوجود میڈیا کے مسلم مخالف رنگ میں کہیں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

راہل گاندھی کے تازہ بیانات نے مودی کے ہندوتو میں سیندھ لگانے کی تیاری تو شروع کی ہے مگر امت شاہ اور مودی کے سیاسی ہتھکنڈوں کا توڑ کر پانا راہل کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ ابھی حال میں عام آدمی پارٹی نے ای وی ایم کے خلاف سخت بیان دیاہے اور مانگ کی ہے کہ2019کا انتخاب بیلٹ پیپر سے کرایاجائے۔ کانگریس اور حمایتی پارٹیوں کو بھی ای وی ایم کے خلاف میدان میں اترناہوگا۔راہل کے جادو کی جھپّی نے مودی اور امت شاہ کے کھیل کو بگاڑدیا ہے، ابھی سے یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ مودی کے ترکش میں بہت سے تیر ہیں اور صرف جادو کی جھپّی مودی کے قلعے میں سیندھ لگاپائے گی، ایسا لگتا نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔