نوٹ بندی کے بعد عوام کی پریشانی اور حکمراں جماعت کی منافقانہ روِش

 عبدالعزیز
پورے ملک میں نوٹ بندی کے نتیجے میں جو لوگ پریشان ہیں وہ عام لوگ ہیں۔ خواص کی زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ خواص جیسے پہلے پانی کی طرح اپنی دولت کو بہایا کرتے تھے وہ اس وقت بھی بہا رہے ہیں۔ انگریزی روزنامہ ’’دی ٹیلیگراف‘‘ نے اپنے اخبار کی 22نومبر کی اشاعت میں دو متضاد تصویریں شائع کی ہیں جس میں کیمرہ مین نے نہایت ماہرانہ طور پر نوٹ بندی کے بعد عوام اور خواص کے حالات پر اثرات کو کیمرہ میں بند کیا ہے۔ پہلی تصویر جناردھن ریڈی کی ہے جو نہایت قیمتی اور خوبصورت کار میں سوار ہوکر بنگلور کے پیلس گراؤنڈ میں پہنچ رہے ہیں جہاں ان کی بیٹی کی شادی کی تقریب منعقد ہونے والی ہے۔ اس شادی کی تقریب میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 500 کروڑ روپئے خرچ ہوں گے۔ دوسری تصویر ایک بے چین و بے قرار عورت کی ہے جو امرتسر کے ایک بینک کے پاس قطار میں کھڑی ہے، اس کے ہاتھ میں اس کے بیٹے کی شادی کا کارڈ ہے اور وہ اپنے نمبر کا انتظار کر رہی ہے۔ ان دو تصویروں سے پرانے نوٹوں کی بندی کا مقصد آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں آسکتا ہے۔ جو لوگ امیر ہیں وہ پہلے کی طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارنے میں منہمک ہیں وہ غریبوں کی گاڑھے پسینے کی کمائی کو جسے کالا دھن بھی کہا جاسکتا ہے۔ بے دریغ خرچ کرکے اپنے امیر دوستوں سے داد تحسین حاصل کر رہے ہیں اور جو غریب مزدور، کسان ہیں یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ دس دس گھنٹے قطار میں کھڑے ہوکر اپنے نمبر کا انتظار کر رہے ہیں اور جب ان کا نمبر آتا ہے تو کیشئر کسی نہ کسی بہانہ سے رقم دینے سے انکار کردیتا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ کیش (Cash) نہیں ہے، ختم ہوگیا ہے۔ کبھی تکنیکی طور پر کاغذات سند کو رد کر دیتا ہے اور کبھی یہ کہہ کر دینے سے انکار کر دیتا ہے کہ آپ پہلے لے چکے ہیں۔ امیروں کا ٹھاٹ یہ ہے کہ گھر بیٹھے وہ اپنے مزدوروں کے ذریعہ روپئے جمع کر رہے ہیں اور نکال رہے ہیں یا بینک والے خود روپئے ان کے گھر بیگوں میں سجا کر پہنچا دے رہے ہیں۔
بنگلور کے جناردھن ریڈی کو اپنی بیٹی کی شادی میں 500 کروڑ روپئے خرچ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیروں کی ٹولی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے تمام بڑے لیڈران بڑی تعداد میں شریک تھے۔ مسٹر بی ایس یدی یورپا جو کرناٹک میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں جن پر بدعنوانی کا الزام عائد ہو چکا ہے اور جیل تک کی ہوا کھا چکے ہیں۔ اگر آئندہ الیکشن میں بی جے پی کو کامیابی ہاتھ آئے گی تو یدی یورپا ہی وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالیں گے۔ یہ ہے بی جے پی کی کھلی منافقت۔ ایک طرف کالا دھن پر پابندی کا شور و غوغا، دوسری طرف کالا دھن والوں سے دوستی اور ان کالے دھن سے مزہ اڑانے کا مظاہرہ اور غریبوں سے مذاق کرنے میں لطف اندوز ہونا۔ یہ خبر بھی اخباروں میں آچکی ہے کہ یکم نومبر سے لے کر 8 نومبر تک بی جے پی کی بنگال یونٹ نے اپنے اکاؤنٹ میں 3 کروڑ روپئے جمع کیا۔ یہ ہندستان کی کمزور ترین پارٹی یونٹوں میں سے ہے۔ جب کمزور یونٹ کا حال یہ ہے تو مضبوط یونٹ کا کیا حال ہوسکتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔