کیا آپ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ تحریک میں شامل ہیں؟ 

نور محمد خان 

 مادر رحم میں بچیوں کا قتل، جہیز،طلاق اور تعلیم نسواں عصر حاضر کے نازک اور سنگین مسائل میں سے ایک ہے جس سے صرف وطن عزیز ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں اور بالخصوص مسلم معاشرہ دوچار ہے جس کی وجہ سے انسانی نفسیات کا توازن اس ضمن میں مزید خراب ہو گیا ہے ایک طرف لڑکوں کے مقابل لڑکیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہیں اور دوسری طرف لڑکیاں ہیں بھی تو ان کے ساتھ ناانصافیوں کو نئے ڈھنگ اور نئے طرز سے رائج کیا گیا ہے مادر رحم میں بچیوں کے قتل پر حکومت جہاں افسوس کا اظہار کرتی ہے وہیں جہیز کی خاطر لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی وجوہات عیاں ہیں یہ اور بات ہے کہ حکومت نے اس پر قدغن لگانے کے لئے سخت قانون کا نفاذ کیا تھا لیکن اس برائی کا اختتام نظر نہیں آتا ۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل دور جہالت  میں نبی کریم ﷺ نے بچیوں کے قتل کا رواج ختم کر دیا تھا اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم لوگوں کا وجود اس دنیا میں نہیں رہتا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں ہمارے والدین نے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا اور ہم ایک عظیم گناہ سے محفوظ ہیں ۔ لیکن معاشرے میں ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو کہ اسلامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر مادر رحم میں بچیوں کا قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے چنانچہ عصر حاضر کے جدید تعلیم یافتہ دور میں بچیوں کا قتل، اسقاط حمل،فیملی پلاننگ، جہیز اور طلاق جیسے رواج کو عقیدہ بنا لیا ہے اس لعنت پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے ۔

قرآن و احادیث کے احکامات
اللہ تبارک و تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ "اور وہ اللہ ہی ہے، جس نے تمہارے لئے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے”(النحل :72) ایک جگہ اور اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرمایا کہ” جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے "(النساء :1)اللہ تبارک و تعالٰی نے نسل انسانی کے تسلسل کا مخصوص نظام بنایا ہے جسے چاہے لڑکا عطا کرے جسے چاہے لڑکی دے اور اللہ جسے چاہتا ہے اسے لڑکا اور لڑکی دونوں عطا فرماتا ہے بلکہ جسے چاہ لے اولاد سے محروم رکھتا ہے لیکن تخلیق انسانی کے معاملات میں اللہ تعالٰی کے جاری کردہ نظام میں انسانی دخل اندازی سے رونما ہونے والے سنگین نتائج اور عدم توازن کا مشاہدہ ہماری آنکھوں کے سامنے پیش ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ تین دہائی قبل ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قدغن لگانے کے لئے حکومت ہند نے نسبندی کا سلسلہ جاری کیا جب اس کے خلاف احتجاج ہوا تب نسبندی روک کر فیملی پلاننگ(family planning) کا منصوبہ بنایا گیا اور ضبط ولادت (bearth control )کے قوانین وضع کئے 1985 میں کمپیوٹر کی آمد نے جدید تعلیم یافتہ دور میں انقلاب برپا کر دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر تکنیک میں اضافہ ہوا مادر رحم میں کمپیوٹر کے ذریعے یہ معلومات فراہم ہونے لگی کہ  پرورش پانے والے بچے کی جنس کیا ہے سونوگرافی سینٹر (sonografy centre )میں اسی بہانے کروڑوں روپیوں کا کاروبار شروع ہوا والدین سے جنس کی جانکاری بتانے کے لئے ہزاروں لاکھوں روپے وصول کیا جانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کاروبار عروج پر پہنچ گیا حکومت نے اس فعل پر سخت قوانین بنائے لیکن اس قوانین کی خلاف ورزی آج بھی جاری ہے حالانکہ اس قوانین کے پہلے یعنی ساڑھے چودہ سو سال قبل ہی نبی کریم کی آمد کے بعد جہالت کا قانون ختم ہو گیا تھا دور جہالت میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا یہ توخاتم النبین پیغمبرآخرالزمان ﷺ کا احسان ہے کہ بچیوں کے قتل کی روایت کو ختم کرکے عورتوں کو اونچا مقام عطا فرمایا حدیث شریف میں ہے کہ "جس شخص کے پاس تین لڑکیاں ہوں وہ صبر کرے اور انہیں اپنی حیثیت کے مطابق کفالت کرے وہ روز قیامت جہنم سے اس کے لئے اوٹ بن جائینگی”(سنن ابن ماجہ، مسند احمد )لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلم معاشرے میں لڑکیوں کے تئیں بد ترین حالات ہے ۔ 


قوانین کی پاسداری اور بے بسی

مسلمانوں کے لئے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے قانون الہی(شریعت ) پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور وہ قرآن مجید و احادیث یعنی سنت رسول سے ماخوذ ہے جو انسانی قلب کی تاریکیوں میں روشنی کی مانند ہیں دوسری طرف ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کا قانون بھی ہمارے لئے قابل احترام ہے لیکن کچھ ایسے منصوبے ہیں جس کی اجازت اسلام نہیں دیتا بلکہ انسانی فطرت کے بنائے ہوئے قوانین انسانوں پر تھوپ دیے جاتے ہیں جو کسی اعتبار اور کسی مذہب سے درست نہیں ہے اسلام کے قوانین میں انسانی قتل اور مادر رحم میں بچیوں کا قتل حرام ہے  ملک کے قانون نے بھی جرم قرار دیا ہے اس قانون کی پاسداری کے لئے وطن عزیز میں 1994 میں ایک آئین بنایا گیا جس کا نام natal diagnostic technic regulation and prevention of misuse Act ہے اس قانون کے مطابق قبل از پیدائش ٹکنالوجی کے ذریعے بچے کی جنس جاننا غیر قانونی ہے لیکن قانون کی بے بسی اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابل کم ہے اس لئے قانون بنایا گیا تھا تا کہ اس پر قدغن لگایا جا سکے مگر اس قانون پر دھند کے بادل چھانے لگے جس کے پس منظر میں حکومت نے برتھ کنٹرول کا منصوبہ بنا کر مانع حمل مصنوعات اور ادویات ایجاد کیں جو اولادوں کے قتل اور پیدائش کی روک تھام کا ذریعہ بنا مثال کے طور پر حمل روکنے کا ذریعہ ایجاد ہوا اور وقت سے پہلے ہی حمل ساقط کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے لیکن ان مصنوعات کی ایجاد سے قبل یہ نہیں سوچا گیا کہ حمل میں ٹھہرنے والا بچہ لڑکی ہی ہوسکتی ہے جبکہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعداد کم ہے اگر حکومت سے لیکر معاشرہ اس ضمن میں سنجیدہ ہے تو ایسے مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کیوں نہیں کی جاتی؟
قابل غور بات یہ ہے کہ حکومت نے ذرائع ابلاغ میں اشتہارات و نشریات کے ذریعے بچوں کی پیدائش پر ایک طرح سے پروفیشنل پابندی عائد کی اور "ہم دو ہمارے دو "کا نعرہ بلند کیا گیا اور نعرے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے  غیر مسلموں میں برتھ کنٹرول کا اہتمام زیادہ ہونے لگا دیکھتے ہی دیکھتے اس غیر شرعی نظام میں مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی شامل ہو گیا اور شمولیت اختیار کرنے میں عصری تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے قرآن و حدیث کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے آج اکثر جوڑے اولادوں سےمحرومیت کا شکار ہیں
موجودہ دور کی لڑکیوں کے بدترین حالات
حکومت ہند نے آبادی پر کنٹرول کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کیئے اور عوام میں سرکاری مشنریاں اور متعدد تنظیمیں یہ سمجھانے کے لئے عمل پیرا ہوئیں کہ دو بچے ہی پیدا کرو تاکہ ان کی پرورش بہتر ہو سکے لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ موجودہ دور میں جو نوجوان لڑکیاں ہیں ان میں ایک طبقہ کس حال میں ہے اور کس مسائل سے دوچار ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ تمام مذاہب میں خواتین کو اعلی مقام حاصل ہے لیکن اسلام نے جو بلند مرتبہ خواتین کو عطا کیا اس کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ہے باوجود اس کے مذہبی ٹھیکیدار اور قانون کے پاسدار غفلت کی نیند سے بیدار نہیں ہوتے! یوں تو قدیم روایت ہے کہ راجہ مہاراجاؤں کے زمانے سے عورتوں کو عیش و عشرت اور جنسی خواہشات کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا وہی نظریہ آج بھی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ خاندانی طوائف ہوا کرتی تھیں اور آج طوائفوں کو خاندانی بنایا جاتا ہے کل کے مہاراجاؤں کے یہاں طوائفیں جایا کرتی تھی اور آج معاشرے کا امیر شہر ان کے یہاں جاتے ہیں کیونکہ آج کی طوائف کے پیچھے مجبوری و بے بسی ہے اور ہمارا سماج و معاشرہ اس بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجبور نوجوان لڑکیاں ،مطلقہ و بیوہ خواتین کی عصمت کے ساتھ کھیلتا ہے دوسری طرف شیطانی چہرے پر پردہ پوشی کرنے کے لئے معاشرے کے ٹھیکیدار لڑکیوں کی کم تعداد پر اظہار افسوس کرتے ہیں بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے مسلم معاشرے میں جہیز ناسور کی شکل میں پھیلتا چلا جارہا ہے جہیز کی لعنت نے نوجوان لڑکیوں کی زندگیاں برباد کر دی ہیں جہیز کی خاطر لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پاتی ہے یہاں تک کہ عمر گزر جاتی ہے اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو جہیز کو بالائے طاق رکھ کر ہنسی خوشی شادی کرکے زندگیاں گزار رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہیں اور جو یہ سوچتے ہیں کہ بغیر جہیز کے خانہ آبادی نہیں بلکہ بربادی ہے ان کے یہاں جہیز ہی ایمان و عقیدہ ہے جس طرح سے ایک بھکاری مساجدوں، درگاہوں اور مختلف مقامات پر بھیک مانگتا ہے ٹھیک اسی طرح جہیز کا مطالبہ کرنے والے بھی بھیک مانگتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ گداگری کی اور جہیز والے پروفیشنل بھکاریوں کی زمرے میں شامل ہیں لہذا اکیسویں صدی میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت سمجھنا ضروری ہے جتنا کہ ہم پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اناج ضروری سمجھتے ہیں اسی طرح ہر مسلمان عورت مرد پر حصول تعلیم فرض ہے بالخصوص اپنے بچیوں کی تعلیم و تربیت عبادت میں شمار ہوتا ہے اس کے برعکس مسلم معاشرے میں حصول تعلیم کے لئے والدین میں مختلف نظریات کی وجہ سے بہت سی خامیاں پیدا ہو گئیں ہیں معاشرے میں ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو عصری علوم اورمغربی تہذیب کو اپنا آئیڈیل بنا کر  رہنا پسند کرتے ہیں اور ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کراتا ہے تاکہ دنیا و آخرت دونوں سنور جائے دینی تعلیم ہمارے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے اگر دینی تعلیم سے مستفیض ہوتے ہیں تو مادر رحم میں بچیوں کا قتل سے لیکر جہیز اور طلاق جیسے سنگین مسائل کو ختم کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گی اور اس کے اغراض و مقاصد واضع ہوجائیں گے جبکہ مغربی تہذیب اور کلچر نے مسلمانوں کے اسلامی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے ذمہ دار معاشرہ کے ٹھیکیدار ہیں جن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے ۔ چنانچہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم معاشرے میں مادر رحم میں بچیوں کا قتل، جہیز اور طلاق عصر حاضر کا بدترین مسئلہ ہے اور یہ مسائل دین سے دور ماڈرن مسلم گھرانے میں زیادہ پائے جاتے ہیں یا پھر غیر تعلیم یافتہ گھرانوں میں نظر آتا ہے جس کا خمیازہ امت مسلمہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔